بھینس اور بین

ضیاء حیدری

محفلین
بھینس اور بین

بین بجانا کا شوق ہمہیں بچپن سے رہا ہے، دراصل ہم نے کسی سپیرے کو بین بجاتے دیکھ لیا تھا، جو خطرناک کوبرا کو بین پر نچارہا تھا۔ نچانے کا شوق کسے نہیں ہوتا ہے، ہمیں کچھ زیادہ ہی ہے۔ اس سے یوں نہ سمجھ لیجئے کہ ہم نسلاً سیاست دان ہیں، اللہ کسی کو سیاست دان نہ کرے، یہ زندہ ہو تو عوام عذاب سہتی ہے اور مر جائے تو خود۔۔۔۔۔
زندگی میں کوئی الزام اس پر ثابت نہیں ہوتا ہے، بعد مرنے کے پانامہ پیپر نکل بھی آئیں تو کیا۔ یہ لوگ کمال کے بین باز ہوتے ہیں، ساری زندگی عوام کو روٹی کپڑا مکان کے وعدوں کی بین پر نچاتے ہیں۔
بڑے بوڑھوں سے سنتے آئے ہیں کہ بھینس کے آگے بین بجاﺅ تو وہ بیکار ہوتا ہے۔ ہائے افسوس کہ بجانے کے شوق نے یہ بیکار کام بھی کروا ڈالا۔ ہمارے بہت ہی شریف سے ہمسائے جن کی بیٹی کسی بھینس سے کم نہ تھی، بلکہ ان کا پورا خاندان بھینسوں کے دودھ پرپلا ہوا تھا ، ایک دن کسی کام سے ہمارے ہاں تشریف لے آئی، ہمیں موقعہ مل گیا اور چل پڑے شوق کی تکمیل کے لئے۔ ہم بین بجاتے، سب سے چھپتے چھپاتے جو نہی اس کے سامنے آئے، وہ بچاﺅ بچاﺅ چلانے لگی جیسے ہم کوئی چور اچکے ہوں۔ ہم نے فوراَ اور زور سے بین بجانا شرو ع ہو گئے۔ بڑے بوڑھوں نے کہا تھا کہ بھینس کے آگے بین بجانے سے کچھ نہیں ہوتا ہے،مگر وہاں تو شانتی کا نام و نشان بھی نہ تھا البتہ بھینس صاحبہ کی چیخ و پکار نے پورا محلہ جگا دیا تھا اور وہ ہماری طرف جاہ و جلال کے ساتھ آرہا تھا، ہم نے بھاگنے کی بھی کوشش کی مگر بے سود۔ آگے کی کہانی کچھ یوں سمجھ لیجیے کہ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔خیر یہ تو تھی بچپن کی بات، جو بیت گیا۔ ایک غلطی ہوگئی، وہ اصلی بھینس نہ تھی۔
جب تھوڑا سا ہوش سنبھالا تو اپنی قوم بھی کسی بھینس کی طرح لگی، جس کے سامنے بین بجاتے چلے جاؤ اس پر اثر نہیں ہوتا ہے۔ بڑے غور و فکر کے بعد سیاست کے پیشے پہ ہماری نظرِ کر م آ کے ٹھہری۔ مگر یہاں تو عوام اصلی بھینس کا کردار نبھا رہی تھی اور سیاست دان بین بجانے میں مصروف تھے
بین بجانے کا شوق پھر انگڑائی لے اٹھ کھڑا ہوا ہے، سب مزے میں ہیں، مل جل کر کھائی جاؤ، اور بھینس کے آگے ہمدردانہ بین بجائی جاؤ، یہ اصلی بھینس ہے کچھ نہین کہتی ہے، بات چاہے آئل فار فوڈ کی ہو، این آر او یا پانامہ پیپر، یہ بھینس چپ ہی رہتی ہے، جتنا اس کے سامنے بین بجا لو۔
 
Top