آج کل بھارت کے ساتھ دوستی کے لئے کچھ لوگ حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کر رہے ہیں اور اس کے لئے حد سے آگے بڑھتے ہوئے قائداعظم کے بارے میں بھی غیر حقیقی باتیں کر رہے ہیں ان لوگوں کو اور عوام کو معروف مؤرخ ڈاکٹر صفدر محمود کا مندرجہ ذیل کالم پڑھنا چاہئے تاکہ اصل حقائق سے واقف ہوسکیں۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=148759
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ قائداعظمؒ سے محبت یا عقیدت کا تقاضا ہے کہ ان کی تقاریر پڑھی جائیں اور ان کے حوالے سے کوئی بات بھی لکھنے سے قبل اس کی تصدیق کرلی جائے۔ تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ تحقیق کے تقاضے پورے کئے جائیں اور جو بات بھی کہنی یا لکھنی ہے اسے اپنے صحیح تناظر میں بیان کیا جائے کیونکہ محض چند لفظوں کا حوالہ کبھی کبھار منفی نتائج کی راہ ہموار کرتاہے اور قارئین یا ناظرین کو کنفیوز کرتا ہے جس کے سائے قائداعظمؒ کی شخصیت او ر عظمت پر پڑتے ہیں۔
میں اس مختصر کالم میں دو تین اہم باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں اور یہ وضاحت اس پس منظر کے بغیر نامکمل رہے گی۔ میں نے وطن عزیز کے کئی دانشوروں، لکھاریوں، اینکرپرسنوں اور ایڈیٹروں کو یہ بات کہتے سنا اور پڑھا ہے کہ قائداعظمؒ ہندوستان سے امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات چاہتے تھے۔ اب یہی بات میرے دیرینہ دوست جناب حسین حقانی نے اپنے 20نومبر کےکالم میں لکھی ہے۔ حقانی صاحب سے میرے تعلقات دہائیوں پرانے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ تعلقات نظریاتی وسیاسی اختلافات اور گلے شکوئوں کے باجود نبھتے رہے ہیں۔ قائداعظمؒ نے اس خواہش کااظہار کب کیا؟ان کے الفاظ کیا تھے؟ اور پھر یہ خواہش کیونکر پایہ ٔ تکمیل تک نہ پہنچی؟ اسے سمجھنا ضروری ہے لیکن وضاحت کرنے سے قبل خلوص نیت سے یہ لکھنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے نہ وسیع مطالعے کاشرف حاصل ہے اور نہ ہی میں اپنے الفاظ کو آخری الفاظ سمجھتا ہو۔ میری رائے ایک طالب علم کی جستجو ہے جس سے اختلاف آپ کا حق ہے۔
مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ جو معزز خواتین و حضرات قائداعظمؒ کے حوالے سے یہ بات کہتے ہیں مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ انہوں نے قائداعظمؒ کا یہ انٹرویو پڑھا ہی نہیں، محض سنی سنائی پر حاشیہ آرائیاں ’’فرما‘‘ رہے ہیں۔ برادرم حقانی نےلکھا ہے کہ ایک دستاویز کےمطابق انہوں نے امریکی سفیر سے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات امریکہ کینیڈاجیسے ہونے چاہئیں۔ میں نے ابھی تک حقانی صاحب کی کتاب نہیں پڑھی اس لئے مجھے اندازہ نہیں کہ وہ کس دستاویز کاحوالہ دے رہے ہیں البتہ قائداعظمؒ کی تقاریر، بیانات اور قائداعظمؒ پیپرز میں اس خواہش کاحوالہ صرف ایک انٹرویو میں ملتاہے جو انہوں نے قیام پاکستان سےتقریباً آٹھ ماہ قبل 13دسمبر 1946کو امریکن براڈکاسٹنگ کارپوریشن کو دیا تھا۔ امریکی عوام کے نام پیغام میںانہوں نے کہا تھا کہ ہم ہندوستان کی تقسیم چاہتے ہیں کیونکہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی آزادی کے مسئلے کا یہی عملی حل ہے اور پھرکہا مجھے یقین ہے کہ ہندوستان پاکستان دوست ہمسایہ ہوں گے جس طرح کینیڈااور امریکہ اور کئی دوسرے ممالک نارتھ اور سائوتھ امریکہ میں ہیں۔
الفاظ ملاحظہ فرمایئے:
".....Governments of Hindustan and Pakistan, which I am confident will settle down as friends and neighbours like Canada and The United States and other sovereign states both in North and South America."
(بحوالہ خورشید یوسفی ’’قائداعظمؒ کی تقاریر ، بیانات‘‘ (انگریزی) جلد IV ص 2475)
اول تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ بیان تقسیم ہند سے قبل کا ہے، بعد کا نہیں۔ یقیناً قائداعظمؒ ہندوستان سے دوستانہ ہمسایہ تعلقات کاخواب دیکھ رہے تھے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ تلخ حقائق نے ان کے خواب کو چکناچور کردیا اور ان کی سوچ کو بدل دیا۔ تفصیل کتاب کا موضوع ہے۔ کالم میںصرف حوالےاوراشارے دیئے جاسکتے ہیں۔ اس ضمن میں پہلا جھٹکا کانگریس کی جون 1947 کی قرارداد تھی جس کی روح آج بھی زندہ ہے۔ اس قرادادمیں کانگریس نے تقسیم کو اس یقین کے ساتھ تسلیم کیا تھا کہ ایک دن پاکستان پھرہندوستان میں مل جائے گا۔ چنانچہ ہندوستانی قیادت آزادی کے فوراً بعد پاکستان کو ناکام بنانےاور ختم کرنے کے درپے رہی۔ اس سلسلے کی اہم کڑی پاکستان کے حصے کی رقم دینے سے انکار تھا تاکہ پاکستان کامالی طور پر گلا گھوٹنا جاسکے۔ اسی طرح فوجی اور دوسرے ساز و سامان کی تقسیم میں بھی بے انصافی کی گئی جس کی تفصیلی چوہدری محمد علی کی کتاب ’’ظہورِ پاکستان‘‘ میں موجود ہے۔دونوں نوزائیدہ ریاستوں کے تعلقات میں جنگی قسم کی تلخی جوناگڑھ، حیدرآباداور کشمیر کے حوالے سے پیدا ہوئی۔ جوناگڑھ اور حیدرآباد کے حکمران پاکستان سے الحاق چاہتے تھے، ہندوستان نے فوجی طاقت کے ذریعے ان پر قبضہ کرلیا۔ کشمیر مسلمان اکثریتی ریاست ہے جس کے عوام پاکستان سے الحاق چاہتے تھے۔ ہندوستان نے کشمیر کے حکمران سے معاہدے کا سہارالے کر وہاں اپنی فوجیں اتار دیں۔ الاسٹر لیمب کی انگریزی کتاب "Kashmir: The disputed legacy" میں تحقیق سے ثابت کیا گیا ہے کہ ہندوستانی فوجیں مہاراجہ کشمیر کے (Instrument of accession) پر دستخط کرنے سےپہلے سری نگرمیں پہنچ چکی تھیں۔ اس حوالے سے مائونٹ بیٹن کا کرداراور بائونڈری کمیشن کی بے انصافیاں دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کا بیج بوگئیں۔ وسیع پیمانے پر ہجرت بھی پاکستان کی نئی حکومت اور مملکت کو مسائل کے بوجھ تلے دبانے کی سازش تھی۔ کم لوگوںکو علم ہے کہ علامہ اقبالؒ کے تصور ِ پاکستان اور قائداعظمؒ کے نظریہ ٔ پاکستان میں ہجرت شامل نہیں تھی۔ قائداعظمؒ نےاپنی ایک تقریر میں واضح کیاہے کہ وہ تبادلہ آبادی کے خلاف تھے جبکہ گاندھی اس پر بضد تھے۔ قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل قائداعظمؒ محمد علی جناح نے کئی مواقع پر کہاکہ ہندوستان پاکستان کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کاخواب ٹوٹ چکا تھا اور تلخ حقائق نےانہیں سوچ بدلنے پرمجبور کر دیاتھا۔اس کی واضح جھلک قائداعظمؒ کے خط بنام کلیمنٹ ایٹلی، وزیراعظم برطانیہ میں بھی ملتی ہے۔ وزیراعظم برطانیہ ایٹلی نے قائداعظمؒ کوشکریے کا خط لکھا تواس کے جواب میں قائداعظمؒ نے یکم اکتوبر 1947 کو اپنے خط میں لکھا ’’مجھے یہ لکھتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے دشمن ہماری ریاست کو اپاہج (cripple) کرنے کے لئے ہمارے راستے میں مشکلات کھڑی کر رہے ہیں......حیران کن بات یہ ہے کہ ہندوستان کے چوٹی کے لیڈران بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ پاکستان کو بہرحال ہندوستان یونین میں واپس آنا ہوگا۔ پاکستان کبھی ایسا نہیں کرے گا۔‘‘ (جناح بنام ایٹلی مورخہ یکم اکتوبر 1947۔ قائداعظمؒ پیپرز)
اس ضمن میں یہ ذکر بھی مناسب ہوگا کہ گاندھی نے پاکستان یاترا کی اجازت چاہی تھی۔ منصوبہ یہ تھا کہ وہ پاکستان سے ہجرت کرنے والے ہندوئوں کو لے کر پاکستان آئیں گے اور انہیں اپنی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کےلئے کہیں گے۔ بقول رابرٹ پائن یہ گاندھی کی زندگی کی آخری اورعظیم ترین مہم تھی۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمایئے:
The life and death of Mahatma Gandhi, By Robert Payne. London, p,567
جب گاندھی کاخط پاکستان کابینہ میں اجازت اور منظوری کے لئے پیش ہوا تو قائداعظمؒ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اس کی تفصیل In Quest of Jinnah edited by Sharif ul Mujahid کے صفحہ نمبر 207 پر درج ہے۔ ملاحظہ فرمایئے۔
Gandhi had sent a letter to the Pakistan government asking if he could visit the country. Many members thought..... he should be received. Jinnah replied that as Governor General, he would veto the decision (P.207)
قائداعظمؒ بحیثیت گورنر جنرل کابینہ کے فیصلے کوویٹو کرنے کے مجاز تھے چنانچہ انہو ں نے گاندھی کی پاکستان یاترا کی مخالفت کی۔ قائداعظمؒ بہرحال ٹھنڈے مزاج کےمدبر سیاستدان تھے لیکن اس موقع پر وہ اس حد تک جذباتی ہوگئے کہ کابینہ کی میٹنگ پر صدارت کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ اس سے قبل کہ میں گاندھی کو پاکستان آتے ہوئے دیکھوں، مجھے اٹھاکر سمندر میں پھینک دو۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جب قائداعظمؒ نے سرکاری دورےپر مارچ 1948میں مشرقی پاکستان جانے کا ارادہ کیا تو ہندوستا ن میں ’’لینڈ‘‘ کرنے سے انکار کر دیا۔ مسرت زبیری کی کتاب Voyage through history کے صفحہ 154 پر اس کی تفصیل موجود ہے۔ مسرت زبیری سول سرونٹ تھے جب قائداعظمؒ کے دورے کی فائل ان کے پاس آئی تو تجویز کیاگیا کہ BOAC سے چودہ ہزار پونڈ پر طیارہ چارٹر کرلیا جائے کیونکہ گورنر جنرل کا ڈیکوٹا ایک اڑان میں ڈھاکہ نہیں پہنچ سکتا اور سفر بھی خطرناک ہے۔ قائداعظمؒ نے لکھا کہ میرے ملک کا خزانہ اس خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ڈیکوٹا کے فیول ٹینک کے ساتھ د وسرا ٹینک لگایا گیا کیونکہ قائداعظمؒ نے فیول لینے کے لئے ہندوستان کی سرزمین پر لینڈ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ قائداعظمؒ نے مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران تقاریر میں کھل کر ہندوستان پر تنقیدکی، اسے ملک کے اندر انتشارپھیلانے، اپنے زرخریدایجنٹوں کے ذریعے ملک کو کمزور کرنے اور توڑنے کے الزامات دیئے اور کہا کہ ہندوستان مشرقی بنگال کو ہندوستان یونین میں واپس لانے کی سازش کر رہا ہے۔ انہوں نے صوبائیت کےپھیلتے زہر پرغم اور اندیشوں کااظہار کیا اور عوام کو ملک دشمن عناصر کے خلاف متنبہ کیا۔ میری گزارش ہے کہ قائداعظمؒ کی ڈھاکہ والی 21مارچ 1948کی تقریر کو غور سے پڑھیں تو آپ کو 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور آج کے افغانستان اور بلوچستان میں ہندوستانی کارروائیوں کی سمجھ آئے گی۔ حکومت پاکستان اعلان کر چکی کہ بلوچستان کی بغاوت میں ہندوستان ملوث ہے اور اس کے شواہد بھی دستیاب ہیں۔
مختصر یہ کہ قیام پاکستان سے قبل قائداعظمؒ بلاشبہ ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں تھے۔ یہی ان کا ویژن تھا لیکن ہندوستانی قیادت نے پاکستان مخالف سازشوں اور کارروائیوں سے قائداعظمؒ کے خواب کو چکناچور کردیا۔ محترم حقانی صاحب کے دوسرے نقاط پر انشا اللہ اگلے کالم میں لکھوں گا۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=148759
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ قائداعظمؒ سے محبت یا عقیدت کا تقاضا ہے کہ ان کی تقاریر پڑھی جائیں اور ان کے حوالے سے کوئی بات بھی لکھنے سے قبل اس کی تصدیق کرلی جائے۔ تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ تحقیق کے تقاضے پورے کئے جائیں اور جو بات بھی کہنی یا لکھنی ہے اسے اپنے صحیح تناظر میں بیان کیا جائے کیونکہ محض چند لفظوں کا حوالہ کبھی کبھار منفی نتائج کی راہ ہموار کرتاہے اور قارئین یا ناظرین کو کنفیوز کرتا ہے جس کے سائے قائداعظمؒ کی شخصیت او ر عظمت پر پڑتے ہیں۔
میں اس مختصر کالم میں دو تین اہم باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں اور یہ وضاحت اس پس منظر کے بغیر نامکمل رہے گی۔ میں نے وطن عزیز کے کئی دانشوروں، لکھاریوں، اینکرپرسنوں اور ایڈیٹروں کو یہ بات کہتے سنا اور پڑھا ہے کہ قائداعظمؒ ہندوستان سے امریکہ اور کینیڈا جیسے تعلقات چاہتے تھے۔ اب یہی بات میرے دیرینہ دوست جناب حسین حقانی نے اپنے 20نومبر کےکالم میں لکھی ہے۔ حقانی صاحب سے میرے تعلقات دہائیوں پرانے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ تعلقات نظریاتی وسیاسی اختلافات اور گلے شکوئوں کے باجود نبھتے رہے ہیں۔ قائداعظمؒ نے اس خواہش کااظہار کب کیا؟ان کے الفاظ کیا تھے؟ اور پھر یہ خواہش کیونکر پایہ ٔ تکمیل تک نہ پہنچی؟ اسے سمجھنا ضروری ہے لیکن وضاحت کرنے سے قبل خلوص نیت سے یہ لکھنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے نہ وسیع مطالعے کاشرف حاصل ہے اور نہ ہی میں اپنے الفاظ کو آخری الفاظ سمجھتا ہو۔ میری رائے ایک طالب علم کی جستجو ہے جس سے اختلاف آپ کا حق ہے۔
مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ جو معزز خواتین و حضرات قائداعظمؒ کے حوالے سے یہ بات کہتے ہیں مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ انہوں نے قائداعظمؒ کا یہ انٹرویو پڑھا ہی نہیں، محض سنی سنائی پر حاشیہ آرائیاں ’’فرما‘‘ رہے ہیں۔ برادرم حقانی نےلکھا ہے کہ ایک دستاویز کےمطابق انہوں نے امریکی سفیر سے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات امریکہ کینیڈاجیسے ہونے چاہئیں۔ میں نے ابھی تک حقانی صاحب کی کتاب نہیں پڑھی اس لئے مجھے اندازہ نہیں کہ وہ کس دستاویز کاحوالہ دے رہے ہیں البتہ قائداعظمؒ کی تقاریر، بیانات اور قائداعظمؒ پیپرز میں اس خواہش کاحوالہ صرف ایک انٹرویو میں ملتاہے جو انہوں نے قیام پاکستان سےتقریباً آٹھ ماہ قبل 13دسمبر 1946کو امریکن براڈکاسٹنگ کارپوریشن کو دیا تھا۔ امریکی عوام کے نام پیغام میںانہوں نے کہا تھا کہ ہم ہندوستان کی تقسیم چاہتے ہیں کیونکہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی آزادی کے مسئلے کا یہی عملی حل ہے اور پھرکہا مجھے یقین ہے کہ ہندوستان پاکستان دوست ہمسایہ ہوں گے جس طرح کینیڈااور امریکہ اور کئی دوسرے ممالک نارتھ اور سائوتھ امریکہ میں ہیں۔
الفاظ ملاحظہ فرمایئے:
".....Governments of Hindustan and Pakistan, which I am confident will settle down as friends and neighbours like Canada and The United States and other sovereign states both in North and South America."
(بحوالہ خورشید یوسفی ’’قائداعظمؒ کی تقاریر ، بیانات‘‘ (انگریزی) جلد IV ص 2475)
اول تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہ بیان تقسیم ہند سے قبل کا ہے، بعد کا نہیں۔ یقیناً قائداعظمؒ ہندوستان سے دوستانہ ہمسایہ تعلقات کاخواب دیکھ رہے تھے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ تلخ حقائق نے ان کے خواب کو چکناچور کردیا اور ان کی سوچ کو بدل دیا۔ تفصیل کتاب کا موضوع ہے۔ کالم میںصرف حوالےاوراشارے دیئے جاسکتے ہیں۔ اس ضمن میں پہلا جھٹکا کانگریس کی جون 1947 کی قرارداد تھی جس کی روح آج بھی زندہ ہے۔ اس قرادادمیں کانگریس نے تقسیم کو اس یقین کے ساتھ تسلیم کیا تھا کہ ایک دن پاکستان پھرہندوستان میں مل جائے گا۔ چنانچہ ہندوستانی قیادت آزادی کے فوراً بعد پاکستان کو ناکام بنانےاور ختم کرنے کے درپے رہی۔ اس سلسلے کی اہم کڑی پاکستان کے حصے کی رقم دینے سے انکار تھا تاکہ پاکستان کامالی طور پر گلا گھوٹنا جاسکے۔ اسی طرح فوجی اور دوسرے ساز و سامان کی تقسیم میں بھی بے انصافی کی گئی جس کی تفصیلی چوہدری محمد علی کی کتاب ’’ظہورِ پاکستان‘‘ میں موجود ہے۔دونوں نوزائیدہ ریاستوں کے تعلقات میں جنگی قسم کی تلخی جوناگڑھ، حیدرآباداور کشمیر کے حوالے سے پیدا ہوئی۔ جوناگڑھ اور حیدرآباد کے حکمران پاکستان سے الحاق چاہتے تھے، ہندوستان نے فوجی طاقت کے ذریعے ان پر قبضہ کرلیا۔ کشمیر مسلمان اکثریتی ریاست ہے جس کے عوام پاکستان سے الحاق چاہتے تھے۔ ہندوستان نے کشمیر کے حکمران سے معاہدے کا سہارالے کر وہاں اپنی فوجیں اتار دیں۔ الاسٹر لیمب کی انگریزی کتاب "Kashmir: The disputed legacy" میں تحقیق سے ثابت کیا گیا ہے کہ ہندوستانی فوجیں مہاراجہ کشمیر کے (Instrument of accession) پر دستخط کرنے سےپہلے سری نگرمیں پہنچ چکی تھیں۔ اس حوالے سے مائونٹ بیٹن کا کرداراور بائونڈری کمیشن کی بے انصافیاں دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کا بیج بوگئیں۔ وسیع پیمانے پر ہجرت بھی پاکستان کی نئی حکومت اور مملکت کو مسائل کے بوجھ تلے دبانے کی سازش تھی۔ کم لوگوںکو علم ہے کہ علامہ اقبالؒ کے تصور ِ پاکستان اور قائداعظمؒ کے نظریہ ٔ پاکستان میں ہجرت شامل نہیں تھی۔ قائداعظمؒ نےاپنی ایک تقریر میں واضح کیاہے کہ وہ تبادلہ آبادی کے خلاف تھے جبکہ گاندھی اس پر بضد تھے۔ قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل قائداعظمؒ محمد علی جناح نے کئی مواقع پر کہاکہ ہندوستان پاکستان کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کاخواب ٹوٹ چکا تھا اور تلخ حقائق نےانہیں سوچ بدلنے پرمجبور کر دیاتھا۔اس کی واضح جھلک قائداعظمؒ کے خط بنام کلیمنٹ ایٹلی، وزیراعظم برطانیہ میں بھی ملتی ہے۔ وزیراعظم برطانیہ ایٹلی نے قائداعظمؒ کوشکریے کا خط لکھا تواس کے جواب میں قائداعظمؒ نے یکم اکتوبر 1947 کو اپنے خط میں لکھا ’’مجھے یہ لکھتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے دشمن ہماری ریاست کو اپاہج (cripple) کرنے کے لئے ہمارے راستے میں مشکلات کھڑی کر رہے ہیں......حیران کن بات یہ ہے کہ ہندوستان کے چوٹی کے لیڈران بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ پاکستان کو بہرحال ہندوستان یونین میں واپس آنا ہوگا۔ پاکستان کبھی ایسا نہیں کرے گا۔‘‘ (جناح بنام ایٹلی مورخہ یکم اکتوبر 1947۔ قائداعظمؒ پیپرز)
اس ضمن میں یہ ذکر بھی مناسب ہوگا کہ گاندھی نے پاکستان یاترا کی اجازت چاہی تھی۔ منصوبہ یہ تھا کہ وہ پاکستان سے ہجرت کرنے والے ہندوئوں کو لے کر پاکستان آئیں گے اور انہیں اپنی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کےلئے کہیں گے۔ بقول رابرٹ پائن یہ گاندھی کی زندگی کی آخری اورعظیم ترین مہم تھی۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمایئے:
The life and death of Mahatma Gandhi, By Robert Payne. London, p,567
جب گاندھی کاخط پاکستان کابینہ میں اجازت اور منظوری کے لئے پیش ہوا تو قائداعظمؒ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اس کی تفصیل In Quest of Jinnah edited by Sharif ul Mujahid کے صفحہ نمبر 207 پر درج ہے۔ ملاحظہ فرمایئے۔
Gandhi had sent a letter to the Pakistan government asking if he could visit the country. Many members thought..... he should be received. Jinnah replied that as Governor General, he would veto the decision (P.207)
قائداعظمؒ بحیثیت گورنر جنرل کابینہ کے فیصلے کوویٹو کرنے کے مجاز تھے چنانچہ انہو ں نے گاندھی کی پاکستان یاترا کی مخالفت کی۔ قائداعظمؒ بہرحال ٹھنڈے مزاج کےمدبر سیاستدان تھے لیکن اس موقع پر وہ اس حد تک جذباتی ہوگئے کہ کابینہ کی میٹنگ پر صدارت کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ اس سے قبل کہ میں گاندھی کو پاکستان آتے ہوئے دیکھوں، مجھے اٹھاکر سمندر میں پھینک دو۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جب قائداعظمؒ نے سرکاری دورےپر مارچ 1948میں مشرقی پاکستان جانے کا ارادہ کیا تو ہندوستا ن میں ’’لینڈ‘‘ کرنے سے انکار کر دیا۔ مسرت زبیری کی کتاب Voyage through history کے صفحہ 154 پر اس کی تفصیل موجود ہے۔ مسرت زبیری سول سرونٹ تھے جب قائداعظمؒ کے دورے کی فائل ان کے پاس آئی تو تجویز کیاگیا کہ BOAC سے چودہ ہزار پونڈ پر طیارہ چارٹر کرلیا جائے کیونکہ گورنر جنرل کا ڈیکوٹا ایک اڑان میں ڈھاکہ نہیں پہنچ سکتا اور سفر بھی خطرناک ہے۔ قائداعظمؒ نے لکھا کہ میرے ملک کا خزانہ اس خرچ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ڈیکوٹا کے فیول ٹینک کے ساتھ د وسرا ٹینک لگایا گیا کیونکہ قائداعظمؒ نے فیول لینے کے لئے ہندوستان کی سرزمین پر لینڈ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ قائداعظمؒ نے مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران تقاریر میں کھل کر ہندوستان پر تنقیدکی، اسے ملک کے اندر انتشارپھیلانے، اپنے زرخریدایجنٹوں کے ذریعے ملک کو کمزور کرنے اور توڑنے کے الزامات دیئے اور کہا کہ ہندوستان مشرقی بنگال کو ہندوستان یونین میں واپس لانے کی سازش کر رہا ہے۔ انہوں نے صوبائیت کےپھیلتے زہر پرغم اور اندیشوں کااظہار کیا اور عوام کو ملک دشمن عناصر کے خلاف متنبہ کیا۔ میری گزارش ہے کہ قائداعظمؒ کی ڈھاکہ والی 21مارچ 1948کی تقریر کو غور سے پڑھیں تو آپ کو 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور آج کے افغانستان اور بلوچستان میں ہندوستانی کارروائیوں کی سمجھ آئے گی۔ حکومت پاکستان اعلان کر چکی کہ بلوچستان کی بغاوت میں ہندوستان ملوث ہے اور اس کے شواہد بھی دستیاب ہیں۔
مختصر یہ کہ قیام پاکستان سے قبل قائداعظمؒ بلاشبہ ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں تھے۔ یہی ان کا ویژن تھا لیکن ہندوستانی قیادت نے پاکستان مخالف سازشوں اور کارروائیوں سے قائداعظمؒ کے خواب کو چکناچور کردیا۔ محترم حقانی صاحب کے دوسرے نقاط پر انشا اللہ اگلے کالم میں لکھوں گا۔