بھارت کی جنگی تیاریاں اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں :

لاہور (سلمان غنی سے) سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے پاکستانی سرحدوں کے نزدیک بھارت کی جنگی تیاریوں اور بھارتی لیڈر شپ کے جارحانہ طرزعمل کا نوٹس لیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایک جانب بھارت کی جنگی تیاریاں اور دوسری جانب پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات ایک ہی سلسلہ کی دو کڑیاں ہیں لیکن بھارت یاد رکھے کہ اس کے مکروہ عزائم کے خلاف پاکستان کی فوج اور قوم متحد ہے اور اسکی کوئی غلطی اسے ہمیشہ کیلئے پچھتانے پر مجبور کر سکتی ہے۔ 2002ء میں جنگی تیاریوں کے بعد 10ماہ خاک اڑانے کے بعد وہ واپسی پر مجبور ہوا تھا لیکن اب وہ خود زیادہ دیر ٹھہرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید کہاکہ ملک کے اندر کنفیوژن اور مایوسی کے ذمہ دار صدر زرداری‘ رحمن ملک اور حسین حقانی ہیں۔ قومی سلامتی کے معاملات اور ملکی مفادات ان پر چھوڑے نہیں جا سکتے‘ فیصلوں کا اختیار پارلیمنٹ کو ملنا چاہئے اور کیری لوگر بل پر پارلیمنٹ کا فیصلہ خود پارلیمنٹ کے مستقبل کے حوالہ سے اہم ہو گا آج عوام اس جانب دیکھ رہے ہیں‘ مایوسی ہوئی تو پھر اس کی بقا کا جواز ختم ہو جائے گا ۔ وہ گذشتہ روز نوائے وقت سے بات چیت کر رہے تھے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے مزید کہاکہ ہم دہشت گردی کے واقعات میں ہندوستان کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ بھارت کی پشت پر ہے اور اس نے بمبئی حملوں کے بعد جو مریدکے اور بہاولپور پر سرجیکل سٹرائیکس کی بات کی تھی لیکن قوم اور فوج کے حوصلے کو دیکھ کر اسے اتنی جرأت نہ ہوئی اسے یقین ہے کہ آج کا پاکستان پہلے والا نہیں اور اسکے پاس ایسی صلاحیت ہے کہ بھارت پاکستان پر میلی نظر ڈالے گا تو پاکستان اسکی آنکھ پھوڑنے کی ہمت بھی رکھتا ہے اور صلاحیت بھی۔ جنرل مرزا اسلم بیگ نے جی ایچ کیو پر حملہ کے مقاصد اور اثرات کے حوالہ سے کہاکہ ایسا کرنے والوں کے مقاصد پورے نہیں ہو سکے‘ فوج نے اس بہترین حکمت عملی سے نہ صرف حملہ آوروں کو ٹھکانے لگایا بلکہ اپنی حکمت عملی کی کامیابی کا ثبوت دیا۔انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے واقعات ہم سب کیلئے چیلنج ہیں مقصد پاکستان کی جگ ہنسائی ہے‘ ہمارے نیوکلیئر اثاثوں پر اثرانداز ہونا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ قوم کا اتحاد اور فوج کی صلاحیت ملکر ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹ سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ ملک سے باہر دیکھنے کی بجائے ملک کے اندر دیکھیں حکومت اندر کرنا چاہتے ہیں اور ڈکٹیشن باہر سے لینا چاہتے ہیں ایسے کام نہیں چلے گا قوم اجازت نہیں دیگی۔
یہ خبر نواے وقت کے پرنٹ پیپر میں شائع کی گئی ہے ا
 

ساجد

محفلین
دنیا بھر کے عسکری و دفاعی ماہرین یہ بات مانتے ہیں کہ مشترکہ سرحد کے حامل ممالک میں لڑائی دونوں فریقوں پہ مالی و اقتصادی بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ بھلے ایک فریق کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اس کو تکنیکی اور حربی برتری کے ساتھ ساتھ بیرونی طاقتوں کی ہلا شیری بھی کیوں نہ ملے لیکن جنگ میں اپنے وسائل جھونک کر اس کو بھی کفِ افسوس ہی ملنا پڑتا ہے۔
بھارت کی جنگی تیاریوں کے حوالے سے ایک دلچسپ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ 1965 میں جب بھارت نے پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑی تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان اس وقت بڑی سرعت سے ترقی کر رہا تھا اور دیگر ممالک کے لئیے ایک مثال تھی۔ جبکہ بھارت میں حالات اچھے نہ تھے تبھی بھارتی دفاعی ماہرین نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کو جنگ میں الجھا کر اس کی تیزی سے آگے بڑھتی لیکن حجم میں چھوٹی معیشت کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔
آج تاریخ کا پہیہ گھوم کر اس مقام پہ تو آیا ہے لیکن دونوں ممالک کے مقام بھی بدل چکے ہیں پر ایک حقیقت ہے جو آشکار ہے کہ اگر بھارت پاکستان میں اب دخل اندازی کی کوشش کرتا ہے تو نتیجہ بھارت کی اقتصادی ترقی کی تباہی کی صورت میں برآمد ہو گا ۔ پاکستان تو پہلے ہی اقتصادی بد حالی سے دوچار ہے لیکن معیشت کا حجم چونکہ چھوٹا ہے اس لئیے بہتری ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا لیکن بھارت کے لئیے پاؤں سنبھالنا اور اتنی بڑی معیشت کو پھر سے مہمیز لگانا مشکل ترین امر ہو گا۔
اس لئیے بھارت کی جنگی تیاریوں کو بہ نظر عمیق دیکھ کر اس کا توڑ کرنا چاہئیے لیکن اس کی گیدڑ بھبھکیوں سے سہم کر افراتفری میں غلط فیصلے کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ اس کی اپنی 9 ریاستیں بھی بغاوت کا سامنا کر رہی ہیں۔
میں حیران ہوں کہ پاکستان کی آبی ناکہ بندی پہ ہماری حکومت بھارت کے خلاف عالمی عدالت میں اب تک کیوں نہیں گئی۔ دراصل پانی کا ہتھیار ایسا ہے جو بھارت کے سرحدی فوجی اجتماع سے بھی زیادہ ہمارے لئیے خطرناک ہے۔ اس کی پیش بندی فوری ہونی چاہئیے۔
 
Top