بچے اورکارٹون چینل ۔۔۔۔۔

عندلیب

محفلین
بشکریہ : جمشیدصاحب
بچے ،کارٹون چینلز اورنقصانات
بچے قوم وملک کا سرمایہ بیش قیمت اثاثہ اور مستقبل ہوتے ہیں ۔ آج کے چھوٹے چھوٹے بچے ہی کل بڑے ہوکر ملک کااقتدار سنبھالیں گے اورقوم کا نام روشن کریں گے۔
فرعون کو جب اس کے نجومیوں نے بتایاکہ اس کو بنی اسرائیل کے ایک پیداہونے والے بچہ سے خطرہ ہے اور وہ اس کی بادشاہت کے زوال کی وجہ ہوسکتاہے تو اس نے بے دریغ بنی اسرائیل کے بچوں کاقتل عام شروع کردیااگرچہ اس کو اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی اور ہوا وہی جو خدا نے چاہا وکان امراللہ قدرامقدورا
فرنگی حیلہ گرجب ہندوستان پر قابض ہوئے توچونکہ انہوں نے سلطنت مسلمانوں سے چھینی تھی اس لئے ان کو زیادہ خطرہ بھی مسلمانوں سے تھا اورمسلمانوں کی نئی نسل سے تھا۔اس خطرہ سے نجات پانے کیلئے اسکول اورکالج میں ایسی نصاب تعلیم نافذ کیاگیا جس کے ذریعہ ذہن میں مذہب کی گرفت مضبوط نہ ہونے پائے یااگر ہوبھی تو صرف نظری طورپر مسلمان رہے عملی مسلمان نہ بن پائے۔جس پر اکبر آلہ آبادی نے طنز کرتے ہوئے کہاتھا کہ
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا۔افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اب بھی حیلہ گران فرنگی اورعیارفطرت یہودی اسی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو ان کے مذہب سے ہٹادیاجائے اوربچپنے میں ہی ان کو ایسی تعلیم وتربیت ملے کہ وہ مذہب کو ایک تخفیف شدہ یا ہلکی چیز سمجھنے لگے وہ اسے سنجیدگی کے ساتھ نہ لے۔اس کیلئے انہوں نے ٹی وی کو اپناآلہ کار بنارکھاہے ۔
ٹیلی ویژن پر فلمیں سریلس اس مقصد کیلئے کام کررہی ہیں اورہمارے نوجوان اورخواتین کشاں کشاں ان کے دام فریب میں پھنس بھی رہی ہیں لیکن بچوں کی نفسیات اورجذبات کا خیال کرتے ہوئے انہوں نے حالیہ کچھ سالوں سے کارٹوں چینلوں کی ابتداء کی ہے جو بظاہر بالکل بے ضررتفریح لگتی ہے لیکن اگر اس کے پروگراموں پر غورکیاجائے تو لادینیت کا پہلا انجکشن ہے جو مسلم بچوں یا ہر ایک لو لگایاجارہاہے۔
(1) کارٹون چینلوں کاایک بڑا مقصد انگریزی تہذیب وثقافت کا فروغ دیناہے ۔انگریزی تہذیب وثقافت مسیحیت کی علمبردار نہیں ہے بلکہ وہ لادینیت اورالحاد کی علمبردار ہے۔(مذہب کو توانہوں نے انقلاب فرانس کے ساتھ ہی اپنی زندگی سے نکال پھینکاہے اورویٹیکن سٹی کی حد تک محدود کردیاہے۔)مقصد یہ ہے کہ ساری دنیا مادی رنگ میں رنگ جائے اورمذہب کوانسانی زندگی سے مکمل طورپرنکال دیاجائے ۔مذہب کا اورخاص طورپر اسلام کا زندگی میں کہیں بھی کوئی اثر نہ رہ پائے۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں اسلام توتابع مذہب بن کر ہے ہی سعودی عرب جہاں مذہبی حکومت بھی ہے وہاں جس طرح دھیرے دھیرے اصلاحات کے نام سے اسلامی قوانین کو نرم کیاجارہاہے اس سے حدیث رسول کی پیشنگوئی کی جانب ذہن جاتاہے رسول اللہ نے قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی بیان کیاکہ قبیلہ دوس کی عورتیں کسی بت کے اردگرد ناچیں گی۔
(2) بچوں کے اندر کارٹون چینلوں کا اس قدر شوق وذوق ہے کہ پوچھئے مت۔چھوٹے چھوٹے بچے اسکول سے آتے ہی بستہ پھینکااورریموٹ سے کارٹون چینل آن کردیا ۔اب دوسراہر کام ٹی وی کے سامنے انجام پائے گا۔کھانا وہیں کھائیں گے۔ہوم ورک وہیں کریں گے۔ کپڑے وہیں تبدیل ہوں گے۔اور اس ذوق وشوق میں نماز کا کس کو دھیان رکھتاہےاس کی وجہ سے تعلیم معیار میں گراوٹ اورتندرستی میں جو خرابی ہوتی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تعلیم مکمل توجہ چاہتاہے مقولہ مشہور ہے کہ اگر علم کے حصول کیلئے کوئی سوفیصد خود کولگادے تو اسے دس فیصد علم حاصل ہوتاہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ روٹین یاروزمرہ کے تحت ہوم ورک کرنا تودل کارٹون نیٹ ورک میں ہے اورہاتھ ہوم ورک کررہے ہیں ایسے میں ہوم ورک توہوجاتاہے لیکن ہوم ورک سے جس بات کو دل اوردماغ مین بٹھانے کی ضرورت تھی وہ پوری نہیں ہوپاتی۔یہی وجہ ہے کہ آج کل ایم اے اورپی ایچ ڈی کی ڈگریاں رکھنے والے پچھلے ادوار کے میٹرک پاس لوگوں کا معیارمین مقابلہ نہیں کرسکتے۔اس دور کے میٹرک اورپی یو سی کالجوں تک کی تعلیم حاصل کرنے والے آج کل کے بڑی بڑی ڈگریوں کے مالکوں سے زیادہ باصلاحیت ہواکرتے تھے۔فرق یہی ہے کہ انہوں نے مکمل ذہنی یکسوئی کے ساتھ تعلیم حاصل کی تھی۔ٹی وی کے سامنے ہوم ورک کرنے کی بنیاد خرابی یہ پیداہوتی ہے کہ بنیادی تعلیم کمزور رہتی ہے اورجب بنیاد کی پتھر ہی ٹیڑھی رکھی جائے گی توپھر چاہے بعد میں کتنی ہی اعلیٰ ڈگریاں لے لی جائیں لیکن بنیادی نقص برقرار رہے گا۔
(3) کارٹوں چینلس کے جتنے بھی پروگرام ہیں ان سب میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ ان سب میں کوئی مقصدیت نہیں ہے،کوئی لائحہ عمل نہیں ۔خواہ مخواہ کے خیالی دیومالائی اورفوق الفطرت قوتوں کے حامل لڑکے لڑکیوں کی زندگی اوران کے کارنامے پیش کئے جاتے ہیں۔حالانکہ اگراس کی جگہ پر یہ ہوتا کہ کوئی بچوں کی اچھی بامقصد کہانی پر کارٹونی کہانی بنتی توبچے کچھ سیکھتے ۔اوراس سے معاشرہ اورسماج کی بھی خدمت ہوتی لیکن افسوس کہ ٹی وی جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے ان کے سامنے زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔ وہ زندگی برائے زندگی کے قائل ہیں جس طرح خوش خوراک اورکھانے پینے کے شوقین لوگ کھانا برائے کھانا کے قائل ہوتے ہیں انہیں اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کھانے سے پیٹ بھرتا ہے یا نہیں اس میں غذائیت یا جسم کی تندرستی کا سامان ہے یا نہیں بس مزہ آنا چاہئے۔
(4) ننانوے فیصد پروگرام تشدد اورماردھاڑ کے ہوتے ہیں۔جس میں ہیرو تشدد کے ذریعے فتح حاصل کرتاہے ۔بچوں کے معصوم ذہن اس سے کتنے متاثر ہوتے ہیں اس کا اندازہ لگاناہوتو کبھی عصر کے بعد جب بیشتر بچے کھیل رہے ہوں توان کے کھیل کا جائزہ لیجئے اکثر بچے مارپیٹ والے کھیل ہی پسند کرتے ہیں۔تشدد زدہ پروگراموں سے بچے کتنے متاثر ہوتے ہین اس کا اندازہ اس سے لگالیجئے کہ ڈسکوری چینل پر ایک مرتبہ دکھایاجارہاتھاکہ ایک تیرہ سالہ بچہ نے رقابت کے جنون میں ایک لڑکی جو اس کی کلاس میٹ تھی اس کے ساتھی پر زیادہ مہربان تھی اس کو گھر بلاکر ریوالور سے اس کا کام تمام کردیا۔ پہلے تواس نے اسے اس قتل کوچھپانا چاہا لیکن پولس کی تفتیش کے نیتجے میں جب بات کھلی تواس نے پھر بھی پولس کو دھوکہ دینا چاہا اورکہاکہ چورسپاہی کھیلتے ہوئے غلطی سے ریوالور کا ٹریگر دب گیا اوراسے گولی لگ گئی لیکن چونکہ پولس بھی امریکہ کی تھی اس لئے اس نے اس بات کی بھی تفتیش کی کہ کتنے وزن سے ریوالور کا ٹریگر دبتاہے اورکیا اتنا وزن غلطی اوربھولے چوکے سے دب سکتاہے۔پتہ چلا کہ ریوالور کے ٹریگر کو دبانے کیلئے پانچ کلو کا وزن چاہئے اوریہ تیرہ سال کے بچہ سے بغیرہ ارادہ ممکن نہیں ہے۔ بچہ کو بچوں کے جیل بھیج دیاگیا۔یہ ایک نمونہ ہے بچوں کے درمیان بڑھتی تشددپسندی اورمجرمانہ ذہنیت کا۔یہ واقعہ امریکہ کا تھالیکن تھوڑے دنوں کے بعد ہمارے معاشرہ میں بھی ایسے واقعات ہونے لگیں گے ۔بس تھوڑا انتظار کیجئے۔
(5) کارٹون چینلوں میں انتہائی مخفی اورپوشیدہ طریقہ سے فحاشی اورعریانیت کی اشاعت بلکہ تبلیغ ہوتی ہے ۔ کارٹون کے کرداروں میں بچیوں کو جیسے لباس پہنائے جائے ہیں۔وہ درحقیقت اسلام کے شرم وحیا کے تقاضوں کے منافی ہے۔
(6) مذہب اورمذہبی لوگوں کا مذاق اڑایاجاتاہے اوریہ بات بچوں کے دل میں بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مذہبی لوگ فرسودہ اورازکاررفتہ ہیں ۔دین ومذہب کے چند رسوم وعبادات کیلئے انہیں کچھ بھی نہیں آتا۔یہ لوگ چلتے پھرتے میوزیم اورپرانے زمانے کے بقیات میں سے ہیں۔ یہ نہ زمانہ پر اثرڈال سکتے ہیں اورنہ زمانہ کے ساتھ چل سکتے ہیں۔مثال کے طورپر پہلے کارٹون نیٹ ورک پر ایک پروگرام ""دی ماسک ""کے نام سے آتاتھا اس میں ایک مخصوص ماسک پہننے کے عجیب وغریب طاقتیں اورمختلف شکلوں میں ڈھالنے کی طاقت مل جاتی ہے۔ ایک موقعہ پر جب کہ کچھ بدمعاش شہر کوختم کرنے کیلئے ایٹم بم شہر میں لے آتے ہیں اس وقت وہ ایک سادھو کی شکل میں لوگوں کے سامنے نمودار ہوتاہے اورکہتاہے۔بھائیواوربہنو! میں اس لئے نہین آیا کہ آپ کو بم سے بچائوں بلکہ میں تو صرف یہ بتانے آیاہوں کہ تھوڑی ہی دیر میں ہم سب کے چیتھڑے اڑ جائیں گے اورہم سب سورگ میں ہوں گے۔ پھر وہ فوراً ہی ایک عسکریت پسند اورجنگجو کی شکل میں آتا ہے اورکہتاہے مجال ہے کسی کی جو ہمارے شہر کی جانب نظراٹھاکر بھی دیکھ سکے۔کیا اس منظر کو دیکھنے کے بعد ایک بچہ اس سے متاثر نہیں ہوگا۔
(7) بچوں کی دیوانگی کارٹون چینلوں کے تعلق سے کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے ۔بچے اسکول سے آنے کے بعد جووقت کھیل کود میں صرف کرنا چاہئے تھا اورباہر میدان جاکر دوستوں اورساتھیوں کے ساتھ ایک آدھ گھنٹہ کھیل میں لگانا چاہئے تھے وہ اس کو ٹی وی دیکھنے میں لگاتے ہیں۔بچوں کی دوڑبھاگ ،ادھرادھر جانا گلیوں میں کھیلنا کودنا یہی ان کی ورزشیں ہیں مگر جب وہ دوڑنے بھاگنے کے بجائے کارٹون چینل دیکھنے یا کمپیوٹر گیم کھیلنے کیلئے گھر میں بیٹھے رہیں گے تو ان کی صحت پر اثر توپڑے گاہی۔آج بچوں میں جوبیماریاں زیادہ بڑھ رہی ہیں ان کی ایک بڑی وجہ ورزش اورکھیل کود کے بجائے گھر میں بیٹھ کر کارٹون یا گیم وغیرہ میں مصروف رہنا ہے۔
(8) کارٹون چینل کا شاید ہی کوئی پروگرام ایسا ہوجس میں اس کے ہیرو مختلف جادوئی اورفوق الفطری قوتوں کے مالک نہ ہوں۔وہ اپنی فوق الفطری اوردیومالائی قوتوں کوکام میں لاکر ہر مشکل آسان کرلیتے ہیں۔وہ جوچاہتے ہیں کرگزرتے ہیں۔ ان کے سامنے کوئی رکاوٹ زیادہ دیر تک نہیں ٹک پاتی۔یہ کارٹون وغیرہ دیکھ دیکھ کر بچے خیالوں کی دنیا میں گم ہوجاتے ہیں اور وہ بھی ایسے ہی کسی جادوئی طاقت کی تلاش میں رہتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ان کی ہر مشکل حل ہوجائے۔مگر حقیقت کی دنیا بڑی بے رحم اورظالم ہے۔وہ کسی سے کچھ بھی رعایت نہیں کرتی۔خیالوں کی دنیا کے گم گشتہ بچوں کے خواب جب حقیقت کے بے رحم اورسخت ہاتھوں سے چکناچور ہوتے ہیں تو وہ اس صدمہ کو برداشت نہیں کرتے اورخودکشی کرلیتے ہیں۔بچوں کے خیالی تصورات کی شدت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ دور درشن پر ""شکتی مان""پروگرام شروع ہواجس میں ایک ہیرو جس کانام شکتی مان ہے۔ ہرمظلوم کی فریادرسی کو پہونچتاہے۔ خاص طورپر بچے جب بھی کسی مشکل میں گرفتار ہوں تو شکتی مان پہنچ جاتاہے۔پٹنہ میں ایک بچہ اس پروگرام سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے چھت پر چڑھ کر آواز لگائی شکتی مان میری مدد کرو اورنیچے کود پڑا۔شکتی مان کونہ آنا تھا وہ نہ آیا لیکن بچے نہ اپنی جان ضرور گنوادی۔ اس کے والدین اس حادثہ سے اتنے متاثر ہوئے کہ وفور غم میں اس پروگرام کے ہیرو اورپروڈیوسر کے خلاف پٹنہ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائرکردیا۔
(9) میرے سامنے۱۳۔۳۔۲۰۰۰۴ کاروزنامہ منصف ہے (یہ مضمون اسی وقت لکھاگیاتھا جب میں حیدرآباد مین زیر تعلیم تھا لیکن کاپی سے کمپوزنگ تک کا فاصلہ طے کرنے میں مجھے پانچ سال لگ گئے۔)جس سے بطور مثال ایک واقعہ نقل کرتاہوں۔""امتحان میں ناکامی کے خوف سے ایس ایس سی کی ایک طالبہ نے نیند کی گولیاں کھاکر خودکشی کرلی۔پولس نے بتایاکہ لنگر حوض پرشانت نگر کی رہنے والی۱۵سالہ سائی دیپیکا نے۱۷مارچ سے منعقد ہونے والے امتحانات میں ناکامی کے خوف سے کل رات بھاری مقدار میں نیند کی گولیاں کھالیں۔ اسے نازک حالت میں نجی ہاسپٹل لے جایاگیا جہاں وہ فوت ہوگئی۔
یہ خبر آپ کے سامنے ہے۔آپ ذراسوچیں کہ صرف ایک اندیشہ کی بنیاد پر اس معصوم نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا۔ زندگی جیسی قیمتی نعمت کو اپنے ہاتھوں کیوں ضائع کردیا۔ اس کی ایک ہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ فلموں کے ذریعہ ،سریلس کے ذریعہ اورکارٹوں چینلس کے ذریعہ جو جذباتیت ہمارے اندر داخل کی جارہی ہے چھوٹے حادثوں پر بڑاردعمل ظاہر کرنے کی ،اس میں ایسا ہونا لازمی ہے۔ہندوستان میں پچھلے کچھ سالوں سے لگاتار مشاہدہ کیاجارہاہے کہ امتحانات کے بعد بہت سے طلباء اورطالبات خودکشی کرلیتی ہیں۔ صرف اس لئے کہ والدین نے امتحان میں ناکام ہونے پر ڈانٹاتھا۔کیاوالدین کو بچوں کی ناکامی پر ڈانٹنے کا بھی حق نہیں۔ اوراس کا صلہ وہ یہ دیتے ہین کہ اپنی زندگی کوختم کرکے والدین کو زندگی بھر کا غم دے دیتے ہیں۔یہ جذباتی ابال جو ہمارے اندر آگیا وہ سریلس فلموں اورکارٹوں چینلوں کا نتیجہ ہے۔
خاتمہ:اپنے علم اورمعلومات کی حد تک میں نے تو یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ کارٹوں چینلوں سے بچوں کو کیانقصانات پہنچ رہے ہیں اورمعاشرہ میں کس طرح کے اثرات رونماہورہے ہیں۔ اب ذرا یہ بھی بیان کروں کہ اس سے کچھ فائدے بھی ہیں۔ بچوں کو سائنسی آلات سے آگاہی ملتی ہے۔نئے خیالات سے آشنا ہوتے ہیں اوربھی دوسرے فائدے ہیں مگر ان کو اوربھی بہتر بنایاجاسکتاہے۔سبق آموز کہانیوں پر کارٹوں کہانیاں بنیں۔کہانیوں کے اندر پیغام ہو مقصدیت ہو۔
صرف یہ کہنے سے کہ ٹی وی حرام ہے اس پر آنے والا ہر پروگرام حرام ہے۔ کام چلنے والا نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا متبادل دریافت کیاجائے اوراس کو سامنے لایاجائے اورعملی زندگی میں پیش کیاجائے۔جب سونے چاندی کے سکوں کی وجہ سے انگریزی حکومت نے کرنسی یعنی کاغذی نوٹ جاری کیا توبہت سارے علماء نے اس کی حرمت میں فتویٰ دیا۔اس وقت کے ایک عالم مولانا عبدالحق سے بھی نوٹ کی حرمت میں فتویٰ دینے کو کہاگیا تو انہوں نے جواب دیاکہ میرا فتوی تو نہیں چلے گا مگر نوٹ چل جائے گا اوریہی ہوا بھی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹی وی کوحرام کہنے کے بجائے ٹی وی پر آنے والے پروگراموں سے عریانیت اورفحاشی کو ختم کیاجائے۔
 

arifkarim

معطل
عندلیب: میں نے حال ہی میں جیو پر ایک رپورٹ دیکھی تھی کہ پاکستان میں ایک 12 سالہ لڑےکے ہاتھوں اسکا کلاس میٹ قتل ہوگیا :eek:
اور یہ صرف اسلئے ہوا کہ صبح کلاس میں اپنی مرضی کی سیٹ پر جھگڑا ہوا اور اسکول ٹائم کے بعد زبردست جھڑپ میں ایک لڑکا کا ہاتھ دوسرے کے دل پر لگ گیا اور اسکی حرکت قلب بند ہوگئی! یہ سب تشدد اور بات بات پر مقابلہ بازی انہی کارٹونز کا اثر ہے۔۔۔۔۔
نیز ان تشدد آمیز کارٹونز اور گیمز کا اثر صرف مسلمان ممالک تک ہی محدود نہیں ہے۔ ایک ہفتہ قبل ناروے کے ایک پرائمری سکول کا چوتھی جماعت کا طالب علم علی الصبح اپنے ہمراہ ایک ائیر گن لے آیا!:eek:
اسنے پہلے اسکول اسٹیڈیم میں ہوائی فائر کیا جس پر ٹیچروں نے دوڑ کر اس سے گن چھین لی۔ اسی اثناء میں دوسرا ہوائی فائر ہوا۔ ۔۔ بعد میں پولیس تفتیش پر پتا چلا کہ اسکو بڑی جماعتوں کے بچے تنگ کرتےتھے، اور انکو ڈرانے دھمکانے کی غرض سے وہ یہ ہتھیار گھر سے اٹھا لایا۔ اسکے والدین سے پوچھنے پر پتا چلا کہ انہوں نے اسکی گولیاں بالکل الگ مقام پر چھپا کر رکھی تھیں۔ لیکن بچوں کیلئے کوئی چیز ڈھونڈنا کونسا مشکل ہے؟:grin:
امریکہ کی مثال تو آپنے دے دی۔ البتہ جرمنی و فن لینڈ میں ہونے والی اسکول فائرنگز جو پچھلے چند سالوں سے ہو رہی ہیں، انکو بھی اسی زمرے میں لانا چاہیے۔۔۔۔
بچوں کو ٹی وی اور گیمز کی لعنت سے روکنے کیلئے ضروری ہے کہ بچپن سے ہی انکو ان چیزوں سے دور رکھا جائے اور انکی متبادل ورزشی ایکٹیوٹی انکو فراہم کی جائے۔ والدین اپنی جابز کی بجائے زیادہ سے زیادہ وقت اسکول جانے والے بچوں کو دیں، نہیں تو ہم اپنا معاشرہ مزید خراب کر رہے ہیں۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
السلام علیکم عندلیب صاحبہ۔ میرے بچے بہت شوق سے کارٹون نیٹ ورک، نیکولڈین جونیئر، اور ڈسنی چینل دیکھتے ہیں۔ ان کےساتھ دیکھتے دیکھتے مجھے بھی کارٹون اور بچوں کے پروگرام دیکھنے کا شوق ہوگیا ہے۔ ٹام اینڈ جیری، سٹوپڈ ڈوگ، وغیرہ میرے بچوں کے ساتھ میرے بھی پسندیدہ پروگرام ہیں۔

نیکولڈین اور ڈسنی چینل کےکچھ پروگراموں کے علاوہ آج تک میں نے جو پروگرام بھی دیکھیں ہیں مجھے ان میں کبھی بھی کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی جو میری بیٹیوں کے اخلاق، تعلیم و تربیت، قرآن پڑھنے اور نماز پڑھنے پر منفی طور پراثرانداز ہوتے ہوں۔

محترمہ میں سمجھتا ہوں آج کےفرعون ہمارے جاگیردار، بیوروکریٹ ہیں جو یہ بات جانتے ہیں کہ جس دن پاکستانی قوم کا بچہ بچہ صحیح شعور و تعلیم حاصل کرگیا اس دن سے یہ قوم ہماری غلامی سے آزاد ہوجائے گی۔ مجھے اس بات سے ہی اختلاف ہے کہ کراؤن سلطنت سے پہلے ہندوستان میں مسلمان سلطنت تھی۔ اگر بالفرض یہ بات مان بھی لی جائے تو کیوں نام نہاد مسلمان سلطنت ایک ہزار سال میں بھی اپنےتعلیمی نظام سے ایسے "عملی مسلمان" نہ بنا سکی جو اپنی قوم کو بقول مصنف کے "فرنگی" غلامی کے زنجیروں سے نہ بچا سکی؟؟

انگریزی کارٹون ہوں یا کوئی انگریزی فلم یہ بنیادی طور پر بنائے ہی انگریزی معاشرے کے لیے ہوتے ہیں تو ظاہر وہ اپنے تہذیب وثقافت کو فروغ دیں گے ۔ جیسے بھارتی فلمیں اور ڈرامے بھارتی تہذیب وثقافت کو فروغ دیتے ہیں اور پاکستانی اپنے پاکستانی کو۔ لیکن اس کے باوجود مجھے آج تک کارٹونوں میں کبھی ایسا کوئی پروگرام نظرنہیں آیا جس میں مجھے لگا ہو کہ اس پروگرام کے ذریعے میرے بچے اپنے مذہب کے خلاف یا لادینیت کی طرف مائل ہوں گے۔ اور جہاں تک میری معلومات ہیں کارٹون بنانا ایک آرٹ ہے نہ کہ کوئی سائنسی فارمولاکہ جو بنانےوالے کے علاوہ اور کوئی نہ بنا سکے۔ ہمیں کس نے روکا ہےاپنے تہذیب و تمدن کو فروغ دینے کیلئے کارٹون بنانے سے؟ اب یہ نہیں ہوسکتا کہ غیر یہ کام ہمارے لیے کریں۔

جہاں تک کارٹون سے بچوں کے ڈسپلن خراب ہونے کی بات ہے، یہ تو وہی بات ہوئی "چوٹ آنکھ میں، آپریشن گھُٹنے کا" آپ بچوں کے ڈسپلن کی خرابی کو کارٹون کے کھاتے میں کیوں ڈال رہے ہیں۔ ایسے بے شمار لاکھوں کروڑوں بچے ہیں جو نماز بھی پڑھتے ہیں، کھیلتے بھی ہیں، کارٹون بھی دیکھتے ہیں اور کلاس میں اول بھی آتے ہیں ۔ اور ایسےبے شمار بچے بھی ہیں جن کے گھر نہ تو ٹی وی ہے اور نہ کمپیوٹر، اور نہ وہ کرکٹ کھیلتے ہیں، ان کی زندگی سکول ، مسجد اور گھر کے درمیان گومتی ہے لیکن پھر بھی وہ اوسط درجے کے طالب علم ہیں۔ہاں اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ ٹی وی اور کمپیوٹر نے بچوں کی تعلیم کے معیار پر اثر ڈالا ہے کیونکہ ان آلات کی وجہ سے بچوں کے لیےمعلومات حاصل کرنا آسان ہوگیا ہے، بچے پوری کتاب پڑھے بغیر ہی معلومات حاصل کرلیتے ہیں جس کی وجہ مطالعہ کے فوائد سے بچے محروم رہ جاتے ہیں، اور معلومات بھی ان کے ذہنوں میں پوری طرح راسخ نہیں‌ ہوتیں۔

جہاں تک مقصدیت کا مسلہ ہے تو پھروہی بات کہ آپ بامقصد کہانیوں اور کسی بھی موضوع پر کارٹون بنا سکتے ہیں ۔ لیکن یہ بات کہ آج کل جو لوگ کارٹون بنارہے ہیں ان میں کوئی مقصدیت نہیں ہوتی تو یہ خیال بھی غلط اور اس بات کا ثبوت ہے یہ آرٹیکل بغیر تحقیق اور مشاہدے کےلکھا گیا ہے۔ زیادہ تر بچوں کے کارٹونوں میں تفریح کے ساتھ عام معلومات اور بنیادی انسانی اخلاقی تعلیم بھی ہوتی ہیں، جو بچے خوشی خوشی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں کارٹون کے پروگراموں کے بارے میں مار دھاڑ کے الفاط غلط استعمال ہوئے ہیں۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ کچھ پروگرام ایڈونچر کہانیوں پربنےہوتے جو 10 سال سے اوپر کے بچوں میں مقبول ہوتے ہیں، لیکن یہ سراسر غلط ہے کہ ان پروگراموں سے بچےتشددپسنداور ذہن مجرمانہ ہوجاتے ہیں، ان ایڈونچرکہانیوں میں بھی ہمیشہ اچھائی برائی پر فتح حاصل کرتی ہے۔

امریکی بچے کے واقعے کے بارے میں یہی کہوں گا کہ آپ نے یہ تمبیہ دوائوں کے پیکٹس پر پڑھی ہوگی 'تمام دوائیں بچوں کی پونہچ سے دور رکھیں" یہ تمبیہ صرف دوائوں کے لیے نہیں ہے ہر اس چیز کے لیے ہے جس سے بچے ناسمجھی میں نقصان اٹھا سکتے ہیں۔جہاں تک فحاشی و عریانیت کا معاملہ تو بات پھر وہیں آتی ہے کہ ان پروگراموں کو مغربی ناظرین کے لیے بنایا جاتا ہے، تو اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کارٹون کا کردار تو ایک انگریز لڑکی ہو اور وہ شلوارقمیز یا برقعے میں نظر آئے؟

مصنف نے کارٹون کی مخالفت میں تو پورا صفحہ لکھ ڈالا لیکن اس کے فوائد کے بارے میں چار سطریں۔ لیکن پھر بھی خاتمہ ایسے کیا کہ اپنے طویل مضمون کی خود ہی نفی کردی۔

صرف یہ کہنے سے کہ ٹی وی حرام ہے اس پر آنے والا ہر پروگرام حرام ہے، یا ہمارے تہذیب وثقافت کے خلاف ہے۔ کام چلنے والا نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا متبادل دریافت کیاجائے اوراس کو سامنے لایاجائے اورعملی زندگی میں پیش کیاجائے۔جب سونے چاندی کے سکوں کی وجہ سے انگریزی حکومت نے کرنسی یعنی کاغذی نوٹ جاری کیا توبہت سارے علماء نے اس کی حرمت میں فتویٰ دیا۔اس وقت کے ایک عالم مولانا عبدالحق سے بھی نوٹ کی حرمت میں فتویٰ دینے کو کہاگیا تو انہوں نے جواب دیاکہ میرا فتوی تو نہیں چلے گا مگر نوٹ چل جائے گا اوریہی ہوا بھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹی وی کوحرام کہنے کے بجائے ٹی وی پر آنے والے پروگراموں سے عریانیت اورفحاشی کو ختم کیاجائے۔
 

خرم

محفلین
میں تو اتنا جانتا ہوں کہ مکی ماؤس کلب ہاؤس سے نور نے گنتی سیکھ لی اور دوسری اچھی باتیں اسی طرح سپیشل ایجنٹ اوسو بھی بچوں کو روز مرہ کے معاملات سرانجام دینا سکھاتا ہے۔ کارٹون تو صرف ایک اوزار ہے، اسے آپ استعمال کس طرح کرتے ہیں وہ اہم ہے۔
 

arifkarim

معطل
خورشیدآزاد: آپ شاید مضمون کا خلاصہ ہی نہیں سمجھے ۔ عندلیب یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ کارٹونز اور گیمز کی "خیالی زندگی" بچوں کو حقیقی دنیا سے بہت دور کر دیتے ہی۔ آپنے سچ کہا کہ کارٹونز میں بھی برائی اور اچھائی کی جنگ اور اچھائی کی ہمیشہ فتح پر موضوعات ہوتے ہیں۔ لیکن وہ بہرحال وہ ہیروز اور ویلنز کی دنیا ہے، جبکہ اصل دنیا میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
میں‌خود اس چیز کا تجربہ رکھتا ہوں کیونکہ میرا بچپن تو گزرا ہی ان سالوں میں تھا جب یہ کارٹون نیٹورک پہلی بار لانچ ہوا تھا۔ سنہ 2000 کے بعد دوسرے کارٹون چینلز "نیکلوڈین" اور "ڈسنی چینل" بھی اپنی جگہ بچوں کے دلوں میں بنانے میں‌کامیاب ہوئے۔ بات مختصر کہ ان کارٹونز کی وجہ سے کلاس میٹس کی پڑھائی اور دوسری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوتی تھیں۔ نیز ان کی سائٹس پر چلنی گیمز اور چینلز پر جدید کھلونے کے اشتہارات وغیرہ سے والدین کو بھی اپنا بجٹ بڑھانا پڑا!
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح انڈینز نے اپنی فلم و ڈرامہ انڈسٹری سے اپنا کلچر ہماری خواتین میں شامل کیا ہے۔ بالکل اسی طرح مغرب بھی اپنا کلچر ہمارے بچوں میں داخل کر چکا ہے۔ قصور تو صرف ہمارا اپنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو متبادل ایکٹیوٹی یا متبادل کارٹونز فراہم نہیں‌کر سکے جو ہماری تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرتے ہوں۔ اس لئے غیر تہذیبیت کا الزام دوسروں کو دینا اپنی کمزوری سے منہ چھپانے کے مترادف ہے!
 

ابن جمال

محفلین
جہاں تک مقصدیت کا مسلہ ہے تو پھروہی بات کہ آپ بامقصد کہانیوں اور کسی بھی موضوع پر کارٹون بنا سکتے ہیں ۔ لیکن یہ بات کہ آج کل جو لوگ کارٹون بنارہے ہیں ان میں کوئی مقصدیت نہیں ہوتی تو یہ خیال بھی غلط اور اس بات کا ثبوت ہے یہ آرٹیکل بغیر تحقیق اور مشاہدے کےلکھا گیا ہے۔ زیادہ تر بچوں کے کارٹونوں میں تفریح کے ساتھ عام معلومات اور بنیادی انسانی اخلاقی تعلیم بھی ہوتی ہیں، جو بچے خوشی خوشی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں کارٹون کے پروگراموں کے بارے میں مار دھاڑ کے الفاط غلط استعمال ہوئے ہیں۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ کچھ پروگرام ایڈونچر کہانیوں پربنےہوتے جو 10 سال سے اوپر کے بچوں میں مقبول ہوتے ہیں، لیکن یہ سراسر غلط ہے کہ ان پروگراموں سے بچےتشددپسنداور ذہن مجرمانہ ہوجاتے ہیں، ان ایڈونچرکہانیوں میں بھی ہمیشہ اچھائی برائی پر فتح حاصل کرتی ہے۔

میں کل ہی اس سلسلے میں ایک عربی کتاب پڑھ رہاتھا جس میں ٹی کے نقصانات سے آگاہ کیاہے اورمصنف نے خود بھی اقرارکیاہے کہ جب تک ٹی وی اس کے گھر میں تھی اس کے بچوں کے تعلیمی معمولات بگڑ گئے اورنتائج بھی خراب آئے لیکن جب اس نے ٹی وی کو گھر سے نکال باہر کیاتوپھر بچوں کے معمولات بھی بہتر ہوئے اوران کے اسکولی نتائج بھی اچھے آئے۔آپ کہیں یاآپ کو عربی آتی تواس کو کتاب کا لنک دے دوں
ویسے آپ کا یہ کہنا کہ ماردھاڑ اورتشدد والی بات غلط ہے کارٹوں پروگراموں میں ایسا کچھ نہیں ہوتا یہ بجائے خود ایک غلط مشاہدہ ہے۔میرے پاس امریکی اداروں کے کئی سروے رپورٹ پڑی ہیں جن کو عنقریب اس فورم پر ڈالوں گاکہ بچوں میں تشدد ٹی وی اورفلمیں دیکھ کر اورتشدد والے گیموں سے آرہی ہیں۔
ویسے بھی آپ کایہ کہنا کہ بچے نہیں بگڑتے ہیں غلط خیال ہے۔ بچوں کا بگڑنا اتنی تیزی سے نہیں ہوتا کہ بآسانی مشاہدہ ہوسکے۔ کسی بھی قوم یافرد کا بگاڑ سالوں اورصدیوں پر محیط ہوتاہے۔بآسانی پتہ نہیں لگتا۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے صرف ان چیزوں سے منع نہیں کیا جوبذات خود گناہ ہیں بلکہ ان چیزوں سے بھی روکا جن کے بارے میں گناہ کی جانب مائل کرنے کا احتمال ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ ولاتقربواالزنی۔قرآن نے زناسے منع نہیں کیا بلکہ ایسے تمام اعمال سے روکا ہے جو زناکے قریب لے جانے والی ہوں۔
والسلام ;)
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
بچوں کے ذہن تو صاف سلیٹ کی مانند ہوتے ہیں ۔
کارٹونز بنانے والے کارٹونز کو بچے کے ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر
کھیل کی صورت اچھائی برائی کو تصویر کی صورت دیتے ہیں ۔
بچہ ان میں محو ہو کر دنیا سے آگاہی حاصل کرتا ہے ۔
بچہ ان کارٹونز میں دکھائے گئے کرداروں کو اپنے گردوپیش میں تلاش کرتا ہے ۔
گھر اور گردوپیش کے ماحول میں بسنے والے افراد بھی اس کے لیے کردار ہی ہوتے ہیں
ان کرداروں میں بچہ کارٹونز کے کردار تلاش کرتا ہے اور جو کردار اسے کارٹونز میں دکھائے گئے کرداروں سے مشابہ ہوتے ہیں وہ انہیں سچ کا درجہ دے کر ان کی ہی نقل کرنا چاہتا ہے ۔ اب یہ بچہ کی اپنی قسمت کہ کارٹونز سے نکل کر اسے کیسی حقیقی دنیا کے کردار ملتے ہیں ۔
نایاب
 
Top