بول میری مچھلی کتنا ہے پانی

ناعمہ عزیز

لائبریرین
فضا میں بہت نمی تھی ، گرمی ، حبس اور نمی سے بھرپور فضا کی وجہ سےسانس لینا مشکل ہو رہا تھا، مگر کراچی کا سمندر دیکھنے کی بے تابی الگ تھی۔ ابھی رات کو ہی تو میں ساحل سمندر پر واقع ایک ریستوران کو لاچی پر ڈنر کر کے گئی تھی، رات کے وقت سمندر کے پانی کا شور لوگوں کی آوازوں میں دب گیا تھا۔ مگر جہاں تک روشنی کا ساتھ تھا پانی ہی پانی تھا۔ ہم لوگ تھوڑی دیر کے لیے لکڑی کے بنے ٹیرس پر کھڑے ہو ئے ، نیچے دیکھا تو ہر طرف چھوٹی چھوٹی مچھلیاں تھیں جو پانی میں موجود مرغابیوں کی خوراک بن رہی تھیں ۔ رات کے اندھیرے میں دور دور تک سفید مرغابیوں کا راج تھا۔ اور اکا دکا کشتیاں بھی تین چار کلو میٹر دور سے گزری۔ اس رات سمندر کا پانی دیکھ کر ڈر نہیں لگا۔دن کی روشنی میں سمندر دیکھنا تھا مجھے :( میں نے مایوس ہو کر کہا۔ میرے شوہر نامدار اگلے دن اپنے کام سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں مجھے فون کیا تیار رہنا سمندر دکھا کر لاؤں گا۔ میں فٹ سے تیا ر ہو گئی۔ سمندر دیکھنے گئے۔
یاخدا۔۔۔ اتنا بڑا پانی۔۔۔
میں زیادہ مقدار میں پانی دیکھ کر ہمیشہ ہی ڈر جاتی ہوں ، اس لیے گاڑی سے اترتے ہی گھبراہٹ میں الٹا بول دیا۔
ہم ساحل پر جانے سے پہلے سمندر کے گرد بنی دیوار پر جا کر بیٹھے ۔ تصاویر بنانے کے لیے میاں صاحب نے حکم دیا کہ سمندر کی طرف پاؤں لٹکا کر بیٹھو۔ ڈر کے مارے برا حال ہو رہا تھا ۔ سمندر کا پانی زور زور آکر ددیوار سے ٹکراتا۔۔ بار بار اپنے گاؤں میں نانا جان کی زمینوں پر لگا ٹیوب ویل یاد آ رہاتھا، جب وہ چلتا تھا تو میں صرف کنارے پر بیٹھ کر دیکھتی تھی، میں اس میں آتے پانی کو ہاتھ لگا کر ، چھو کر نہیں دیکھ سکتی تھی، مجھے لگتا تھا اتنے پریشر سے آتا پانی اگر میں ہاتھ لگاؤں گی تو مجھے بھی ساتھ میں بہا کر لے جائے گا۔ نانا جان کی زمینوں سے واپس آتے بھی راستے میں کئی ٹیوب ویل پڑتے ، بہن بھائی یا کزنز بڑے شوق سے رکتے، شراتیں کرتے پانی سے کھیلتے ،اور مجھے یہی فکر رہتی کہ اگر میں اس کے پاس گئی تو میں خود پانی میں بہہ جاؤں گی یا میرے جوتے۔ پھر مجھے ننگے پاؤں گھر جانا پڑے گا۔۔ پتا نہیں مجھے یہ خوف کیوں ستاتا۔
شادی کے بعد ایک بار ہم (Lake view park) چلے گئے جو راول جھیل کے کنارے واقع ہے ۔ چلتے چلتے ہم جھیل پر پہنچے تو امی ساتھ تھیں ۔ میاں صاحب کہنے لگے کہ کشتی میں بیٹھ کر جھیل کی سیر کر کے آتے ہیں ، امی نے تو فورا انکار کر دیا ، میرے بھی دل کی بات تھی میں نے بھی منع کیا مگر جھیل میں موجودپہیوں والی پیڈل بوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میاں صاحب نے تسلی د ی کہ پانی صرف اتنا ہی گہرا ہے جتنے اس پیڈل بوٹ کے پہیے ۔ اب پیڈل بوٹ تو تیر رہی تھی۔میں نے بھی سوچا کہ سوئمنگ نہیں آتی تو کیا ہوا اتنے کم پانی میں اگر گر بھی گئی تو مر تھوڑی نا جاؤں گی۔ اللہ کا نام لے کر بیٹھ گئے مگر وہ ایک چکر ہی چکرا دینے کو کافی تھا ، جھیل کے درمیان جا کر پانی کا اندازہ ہوا تو خوف سے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے ۔امی نے تو تسبیح شروع کردی ، میاں صاحب انجوائے کرتے تصاویرلیتے رہے ۔
خیر جب نکلے تو جان میں جان آئی۔
آج شام جانے کیوں مجھے اپنے گاؤں کا ٹیوب ویل ، کراچی کا ساحل اور راول جھیل میں گزرا وقت بہت یاد آیا اور یاد آتے ہی جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور میں نے بہادری سے سوچا نہیں گہرا یا زیادہ پانی خطرناک نہیں ہوتا میں ہی بس تھوڑی بہت بزدل ہوں ۔:p
 
آخری تدوین:
Top