بنیاد پرست طعنہ یا تمغہ

بنیاد پر ست طعنہ یا تمغہ
مغر بی ذرائع ابلاغان گروہ یا افر اد کو جو اسلام کو ایک مکمل جامع اورتا قیامت قائم رہنے والے نظام حیات کے طور پر مانتے ہیں اور دل سے تسلیم کرتے ہیں ان کو بنیاد پر ست کہتے ہیں۔ مغرب راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بنیاد پر ست کہہ کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ یہ لوگ ذہنی طور پر دورقدیم کے رہنے والے تاریک خیال' سائنسی دشمن 'علم دوانش سے خالی ' تر قی کے مخالف 'قد امت پسند روایت پر ست ' جنگجو' دہشت گرد اور شدت پسند ہیں جنہیں دور حاضرکے نت نئے مسائل اور بد لتے ہوئے حالا ت کاعلم اور تہہ بہ تہہ معاملا ت کا شعور نہیں جب شاہ ایر ان کے خلاف تحر یک زوروں پر تھی ' لیبیا سر ابھار رہاتھا اور فلسطین کی تحر یک مزاحمت نئ کروٹ لے رہی تھی تو امر یکی ومغر بی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کےلیے Militantجنگجوکی اصطلاح استعمال کرتے تھے جس کامطلب تھا کہ اگر کوئی قوم غلامی یادوسروں کے مظالم کے خلاف یااپنے حق آزادی کے لیے اٹھ کھڑ ی ہو' کوئی کمز ور ملک اگر سپر طاقت کے مقابلے میں سراٹھاتا دکھائی دے اور لوگ اپنی سرزمین پر ناجائز قبضہ کے خلاف بغاوت کریں تو فوراً جنگجو بن جاتے ہیں۔ گویا غیر ملکی بالادستی قبول کیےرکھنا اور فرنگی تہذ یب ومعاشر ت کاغلام بنے رہنا' روشن حیالی ' ماڈرن ازم اور تر قی پسند ی ہے اس کے بر عکس اللہ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری اور اطاعت کا اظہار کرنا 'شعائر اسلامی اختیار کرنا اور اسلام کو رہنمائی کاسر چشمہ قر اردینا اپنے عزیز واقارب اور احباب کو بھی احکامات اسلامی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی طرف متوجہ کرانا بنیادپر ستی ہے ۔
احساس کتری: مسلمانوں کاایک طبقہ اور ان کے بعض رہنماتہذ یبی اور ذہنی طور پر مغر ب سے اس قدرمرعوب ہیں کہ ہماری زندگی کا بیشتر حصہ صرف اس تک ودو میں صرف ہوجاتاہے کہ ہم عملی واخلاقی طور پراس طرح نطر آئیں جیسا کہ بے دین مغرب چاہتا ہے اور ایسا نظر آنے کےلیے اپنی شکل وصورت ' لباس ' اٹھنے بیٹھنے اور کردارواخلاق سے لے کر اسلام کے بنیادی اصولوں تک کاحلیہ بگاڑنے پر آمادہ ومستعد رہتے ہیں جسے وہ اسلا م کہیں ہم ویسا ہی اسلام پیش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ جسے وہ آداب زندگی بتائیں ہم فوراًاختیار کرلیتے ہیں جس طرح کی وہ تہذ یب پسند کریں ہم اس طرح بننے میں اپنی تو انا ئیاں صرف کردیتے ہیں ' جو مسلمانی ان کو درکارہے ہم ویسے ہی مسلمان بن جاتے ہیں حالانکہ اسلا م ومسلمانی میں مغر ب کی رضا مطلوب نہیں بلکہ اللہ تعالٰی اوراس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامطلوب ہے کیونکہ اسوہً رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے نام کی نسبت سے ہماراملی تشخص قائم ہے وگر نہ رنگ ' نسل علاقہ اور زبان کسی کو مسلمان یا کافر نہیں بناتے ۔
ہرگزخوش نہیں: یہی وہ احساس کمتر ی ہے جو ہم کو اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دور لے گیاہے ۔ ہم اپنے ہاتھوں میں کتوں کے پلے سجائے اور ملکی پارلیمنٹ کی لابی میں بیٹھے ہوئے غیر ملکی سفیرون کے سامنے کتنا ہی لبر ل ' تر قی پسند 'ماڈرن ظاہر کرتے ہوئے امت کے اجتماعی ضمیر اور مجموعی احساس سے غداری کرکے کتنا ہی شر مناک رویہ نہ اپنا ئیں پھر بھی یہ بد نیت ' نقصان پہنچا نے والے دشمن خداکسی نہ کسی بہا نے ضرور مسلمانوں کو بد نا م اور تنگ کرتے ہی رہیں گے گز شتہ اسی (۸۰)سال سے شعائر اسلام کو تر ک کرنے کے باجود وہ لوگ تر کی کو یو ر پین یو نین میں شامل کرنے کو تیار نہیں ۔ ان کو حجاب تو دورکی بات ہے صرف سر پرا سکارف بھی گوارانہیں حالانکہ ان کی ننیں (وہ خواتین جو کلیسامیں عیسائیت کے لیے وقف کردیں) ساتر لباس زیب تن کرتی ہیں ۔ قرآن نے تو واضح طور پر فرمادیا ہے ''یہودی وعیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہو ں گے جب تک تم ان کے طر یقہ پر نہ چلنے لگو''(البقرہ ۱۲۰) یعنی ان کو خطر ہ ہماری شکل وصورت ' افرادی و مالی وسائل سے نہیں انہیں ڈرہمارے حیات آفرین ' طاقتور 'زندہ ' متحرک اور ہر چیلنج کا سامنا کرنے والے نظر یہ حیات سے ہے اگر مسلمان اپنے نظر یہ حیات سے دستبر دار ہونا چاہتے ہیں تو دوسری بات ہے ورنہ اسلام کے فیصلہ کن کردارکی موجودگی میں مغرب اور دشمنان اسلام ہم سے کبھی خوش ومطمئن اور بے فکر نہیں ہو سکتے ۔تھوڑ ے سے ڈالر وں کی حصول کی خاطر کفار کے مفادات کاتحفظ کرنے والوں کے لیے یہ عبر ت کامقام ہےکہ کشمیر وسرحد میں زلز لہ آیا تو مسلمانوں کو تباہ کرنے کےلیے کھر بو ں ڈالر خرچ کرنے والے یہودونصاریٰ بڑ ے پیمانے پر امداد کرنے کے بجائے ہمارے پہاڑوں کی چوٹیوں کی او نچائی اور نالوں کی گہرائی نا پنے کے چکر میں لگے رہے اور ہمیں قر ضوں اور وعدوں پر ٹرخادیا۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اظہرالحق

محفلین
مختصر جواب ہے ۔ ۔ بنیاد پرستی ایک طعنہ ہے روشن خیالوں کی طرف سے ۔ ۔ ۔ اور ایک تمغہ ہے ۔ ۔۔ دین حق کی طرف سے ۔ ۔ ۔
 
بنیاد پر ستی عارنہیں: مغر ب کے نز دیک بنیاد پر ست وہ ہیں جن کی فکر اور طرززندگی کاقبلہ احکامِ الہٰی اور سوچ وعمل کا کعبہ سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو شعائر اسلامی کے پابند اور اسلام کی منع کردہ باتوں سے دوررہنے والے ہیں 'جو سر مایہ داری اور اشترا کیت دونوں پر تین حرف بیچھتے ہیں اور اسلام کو مکمل ضابطہ حیات سمجھتے ہیں ' جو حقیقت میں باعث افتخار ہے مغر ب ان (نام نہاد) مسلمانوں کو قطعاً بنیادپر ست نہیں کہتاجو آئے دن اسلام میں کسی نہ کسی نظام کی پیوندکاری کرتے رہتے ہیں ۔ جن کی بودوباش میں اسلام کی جھلک تک دکھائی نہیں دیتی 'جن کے ذہن اور فکر پر سوائے اسلام کے ہر چیز کاغلبہ ہوتاہے۔
اس اصطلا ح کو ڈنکے کی چوٹ اختیار کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا کاکوئی بھی دین اور نظام بنیاد کے بغیر صرف فروع پر قائم نہیں ہوسکتا۔ اساسیات (بنیادیں)ہی دین اور نظام کی اصل ہوتی ہیں ' فروعات تو اس کے برگ وثمر ہوتے ہیں ۔ تو حید' رسالت ' وحی اور آخرت وغیر ہ اسلام کی بنیادیں ہیں جن پر ہمیں فخر ہے ہم ان معنوں میں بنیادپر ست ہیں کہ راسخ اعتقاداور قول سے لے کر عمل تک اسلام کے پابند ہیں ۔ اس لیے بنیاد پر ست کہلانے میں حرج ہی کیاہے ؟
روشن خیالی کی حقیقت: اس کی حقیقت قرآن نے اس طرح بیان کی ہے ''تم کتاب کے ایک حصے پرایمان لاتے ہواور دوسرے حصے کو نہیں مانتے ''(البقرہ ۸۵)اپنے روشن خیال کہلوانے والے لوگ وسعت نظر کی آڑ میں اپنا یہ راستہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں کہ تر ک نماز' شر اب نوشی ' زراندوزی ' تضحیک شعائر ' آمر یت ' عیش کوشی ' کھلے عام اسلامی نظام حیات کو چیلنج کریں اسلامی سزاؤں کو نعوذبا للہ وحشیانہ قرار دیں' دوسروں کے حقوق کو سلب وغصب کریں پھر بھی مسلمان کہلائیں۔ ان روشن خیالوں نے خودکولسی کی طرح پتلا کرتے کرتے اپنا ذائفہ اور رنگ تک کھو دیا ہے اور کوئی ایک علامت بھی ایسی نہیں رہنے دی جس سے اسلام کی خوشبو آئے یہ لوگ قوم پر ست اورنسل پر ست بھی ہوتے ہیں اور پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں اس طرح کھر ے اور کھوٹے ' سچے اور جھوٹے 'دوست اور دشمن 'محافظ اور لٹیر ے ' خیر خواہ اور دشمن کے درمیان تمیز باقی نہیں رکھی ۔ ہر شخص روشن خیالی کے زور پر وہ سب کچھ بننے 'کہلوانے اور حاصل کرنے کاحق محفوظ کیے بیٹھا ہے جو اصل میں کچھ بھی نہیں ' صرف بندہ حرص وہوس ہے ۔ تن پر وراور نفس پر ست ' اصو ل دشمن اور انسا نیت کیش ہے 'وہ چاہتا ہے کہ اسلام کے حصار میں اس طرح رہے کہ اس میں ہر طرف چوردروازے ہوں جب اور جہاں چاہے جھانک لے اور چھلانگ لگالے اور پھر واپس ویسا مسلمان بن جائے ۔
ابن الوقت: یہ روشن خیال مغر ب کے ڈرسے دین کانام لینے سے ڈرمحسوس کرتے ہیں حالانکہ اسلام کہتاہے کہ جب میر اانکارواقرار زبردستی اور خوف سے نہیں بلکہ اپنی خوشی اور مرضی سے ہے تو پھر کوئی اصول قبول کرلینے کے بعد اس سے ہچر مچر اور انحراف اور گر یز کاکیا مطلب؟اگر مانناہے تو کھلے دل سے مانواور اللہ کے مقر رکردہ حدودکااحتر ام کرو۔ اگر نہیں ماننا ہے تو راستہ کھلاہے ۔ دنیا کوئی نہیں پو چھے گاکہ میں کہتا پھر وں کہ میر ی بیوی بڑی دین دار ہے وہ میلادکراتی ہے لیکن پردہ نہیں کرتی اوربے حجاب ائمہ کفارکے ساتھ کھڑ ی تصویر کھنچواتی ہے البتہ آخرت میں جواب دہی کاخودہی اہتمام کولو اور اپنا جواز ڈھونڈلو۔ لیکن ان حضرات کی نفسیا ت ایسی بن گئ ہیں کہ ہم مستقل طور پر آدھے اندراور آدھے باہر 'آدھے تیر اور آدھے بٹیر رہیں ۔اگر اسلام کانام لینے سے دوپیسہ کافائدہ پہنچتاہو تو ہم مسلمان ہیں اور اگر ہمارے مفاذ مزاج اور اقتداراور قدروں پر کوئی زدپڑتی ہوتو بہانہ سازی اورفرار کی ہزارراہیں کھلی رکھنا چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں اگر تہذیب مغرب کواپنا اوڑھنا بچھونابنالیا تو اسلام پرکیا حرج آئے گا؟ اگر سیاسی نظام مغرب سے ' معاشی نظام لعنت زدہ یہودیت سے ' قانونی نظام فرانس سے لے لیا توکیا فرق پڑتاہے ؟ جدید ترکی نے یہ سب کچھ کرکے دیکھ لیا لیکن آزاد خیالی کی دعوے دار متعصب یورپی عیسائی ریاستیں نصف صدی کی جدوجہد کے بعد بھی اس کو اپنے ساتھ شامل کرنے کوتیار نہیں گو یادھوبی کاکتانہ گھر کانہ گھاٹ کا۔ قصہ مختصر یہ کہ یہ ابن الوقت اسلام کے اصولوں سے لے کر اس کی ہرشق سے پہلوتہی بھی کرناچاہتے ہیں اور اس کے ساتھ مسلمان کالاحقہ بھی لگاناچاہتے ہیں یہ رویہ سراسر منافقت پر مبنی ہےجسے ایمان دوانش کی بارگاہ میں قبول نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ سطحیت پسند ی 'احساس کم تری 'کم علمی ہلکاپن' اتھلاپن اور اعتماد کافقدان ہے ۔ وہ بے حمیتی کوجراًت کانام دیتے ہیں ۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
 
اعتمادکی کمی: قرآن میں ہے ''کلمہ طیبہ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کادرخت ہے جس کی جڑیں زمین میں گہر ی جمی ہوئی ہیں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے پھل دے رہاہے یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ سبق حاصل کریں اور کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بدذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتاہے اس کےلیے کوئی استحکام نہیں (ابراہیم ۲۶) یعنی قول حق اور عقید ہ صالحہ موافق فطرت ہونے کی وجہ سے قلوب کی گہرائیوں میں جگہ پاتے ہیں اور آسمان میں ان کو پذیرائی حاصل ہوتی ہے '' اللہ کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے ' اس کےہاں وہ صرف پاکیز ہ قول اور عمل صالح کو اوپر چڑھایاجاتاہے ''(فاطرہ ۱۰)اس کے عکس جھوٹی باتیں 'غلط نظر یات 'دعوائے باطل مختلف انداز سے پیش ہوتے رہے ہیں لیکن آج تاریخ کے صفحات کے سواکہیں ان کانام ونشان تک نہیں پایا جاتا نیز ان باطل نظر یات نے جہاں جس انفرادی یا اجتماعی زندگی میں جڑ پکڑ ی ان کی سڑ اند سے ساراماحول متعفن ہوگیا اوراس کے کانٹوں کی چبھن سے نہ اس کا ماننے والا امن میں رہانہ کوئی ایسا شخص جس کواس سے سابقہ پیش آیاہو۔ اس لیے اپنے نظریات پر اعتمادہی وہ جوہر ہے جو فرداور قوم کو غیرت اورعزت نفس عطا کردیتا ہے اور جب آداب غیرت آجائیں تو غلاموں میں بھی آزادی کے حصول کی تڑپ اور آزاد ہوجانے کاجذ بہ پید اہوجاتاہے ۔
خوداعتمادی: ایک مرتبہ گورنرمدائن (عراق)حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ ایک دوسرے ملک کے وفد سے ملاقات کررہے تھے اسی دوران کھانے کاوقت آگیا تو زمین پر دستر خوان بچھایاگیا ۔ دوران طعام حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ کےہاتھ سے روٹی کاٹکڑا چھوٹ کرزمین پر گر پڑ اآپ نے اسے زمین سے اتھاکر جھاڑا اور دوبارہ منہ میں ڈال لیا ۔ آپ کے معاون خصوصی نے بیوروکر یٹک انداز سے کندھے جھکا کر سر گوشی کے انداز میں کہا''حضرت یہ لوگ مہذب ملک کے شہری ہیں اور پرتکلف تہذ یب کے آدمی ہیں آپ کی اس ادا کودیکھ کرکیا رائے قائم کریں گے کہ ان کو اقتد ار تو مل گیاہے لیکن اتنی نفاست نہیں آئی کہ وہ زمین پر گر اہوا لقمہ تک دوبار کھالیتے ہیں''حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑ ے اعتماد سے بلند آواز سے فرمایا''میں اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ان احمقوں کی وجہ سے تر ککردوں ''دوراول کے مسلمان قیصر دکسریٰ کے درباروں میں گھڑے ہوئے آداب ورسوم کے بجائے مسجد نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچے فرش پر تر تیب پانے والی سنتوں اورطریقوں کو ہی قابل تر جیح سمجھتے تھے دوسروں کے پکے گھر دیکھ کر اپنا کچاگھرونداگراد ینا تو بد مستی ہوگی یا پھر بے عقلی اس لیے پر ائی چیزوں پر لالچ بھر ی نظر وں سے دیکھنے کے بجائے اپنے ہی زور بازو سے حاصل کی ہوئی دال روٹی پر انحصار قوت حیدری ہے اور یہی مردانِ کار کا شیوہ ہے۔
ہم بنیاد پر ست کیوں؟ اللہ نے ہما رانام مسلم رکھا اسی نام ہی میں سلامتی کاجو ہر موجود ہے کسی دوسری امت 'ملت یاقوم اس باوقار اور امن کےعلم بردارنام سے موسوم نہیں لیکن یہ المیہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں خصو صاًاپنے بنیادی حقوق کے حصول کےلیے جابروں کامسلح مقابلہ کرنے والوں کو مغرب کی جانت سے بنیاد پرست' تشدوپسند اور جنگجوکہا جاتاہے حالانکہ غیر مسلم دنیا کے منہ کو خون کی چاٹ لگی ہوئی ہے ۔ کشمیر 'افغانستان یاعراق کی جنگ ہو' لیبیا کی سنوسی تحریک ہویاالجزائر وفلسطین کی خون آشام جدوجہد 'بوسنیاکے مسلمانوں کی نسل کشی ہویا چیچنیامیں خون مسلم کی ارزانی یا لال مسجد اسلام اباد ہو سب میں کون سی قوت کارفرماہے ؟ اس کے باجو د ' مظلوم مسلمان ہی خون خوار ٹھہرائے جائیں ؟ الٹاچور کو توال کو ڈانٹے ۔ جس ملت کااللہ رب العالمین یعنی ساری جہانوں کو پالنے والا'جس امت کانبی رحمت العالمین تمام عالموں کےلیے رحمت کاپیکر ' جس قوم کاضابطہ حیات ھدی للعالمین ساری انسانیت کو سیدھاراستہ دکھانے والا'جس جماعت کانام المسلمین ہو غضب خدا کا اس قوم کو استعماری طاقتیں جنگجو' تاریک خیال اور علم دشمن کہیں گویا
سورج کو لگے دھبے فطر ت کے کر شمے ہیں
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مر ضی ہے
مسلمانوں کو ہرا ساں کرنے اور اس کی قوت مزاحمت کامتحان لینے کے لیے اہل کفرنت نئے نام گھڑ تے اور یہ القاب ہم سے منسوب کر کے میڈیاکے زور پرایٹم بم کی طرح خوفناک اور گا لی کی طرح شر مناک بنادیتے ہیں یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آتا تو کیوں ں نہ آئے دن کی چیخ اور پکار کا مقابلہ کرنے کےلیے ہم علی الاعلان کہہ دیں ہاں ہم بنیاد پر ست ہیں ۔ ایک کچی کو ٹھڑ ی بنیاد کے بغیر کھڑ ی نہیں ہو سکتی تو ایک دین ' ایک تہذ یب' ایک قوم اور ایک ملت بغیر بنیاد کیوں کر اقوام عالم کی صف میں اپنا و جو د بر قر ار کھ سکتی ہے ؟



اللہ اکبر کبیرا میرا رب عظیم ہے


واجد
 

پاکستانی

محفلین
ناسمجھ بنیاد پرستی کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے یہ بھول جانتے ہیں کہ مسلمان تو ہوتا ہی بنیاد پرست ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہوتے ہیں، وہ منافق کہلاتے ہیں.
 
Top