بلی کیوں نہیں ؟

طالب سحر

محفلین
(یہ تحریر کچھ عرصہ قبل گردش میں آئی تھی۔ مجھے تو واٹس ایپ پر موصول ہوئی، لیکن احباب نے بتایا ہے کہ یہ فیس بک پر بھی پوسٹ کی گئی تھی- اس تحریر کے مصنف کا نام مجھے کوشش کے باوجود معلوم نہ ہو سکا؛ معلوم ہونے پر تدوین کروں گا-)


بلی کیوں نہیں ؟
::::::::::::::::::::::

حکیم مرسلین خان دہلوی بلا شبہ پاکستان کے سب سے ممتاز حکیم ہیں۔ سو برس کے لگ بھگ عمر ہے۔دہلی کے شہرہ آفاق طبیب مسیح الملک محمد اجمل خان دہلوی کے شاگرد ہیں اور نباض ایسے کہ ان کی انگلیوں کا لمس پاتے ہی ڈھیٹ سے ڈھیٹ نبض بھی ٹھیک ٹھیک منزل سنانی شروع کر دیتی ہے۔ امام صاحب یعنی برادرم ہدایت اللہ سدوخانی کا یہ مسلک ہے کہ اللہ کی عبادت کے بعد انسان کی دوسری اہم ترین ذمہ داری اچھی خوراک کی تلاش ہے۔ ایک دن انہیں انوکھی سوجھی۔ وہ حکیم صاحب کے نواسے کے ہمراہ سیدھے ان کی خواب گاہ میں جا پہنچے۔ حکیم صاحب فوراََ اٹھ بیٹھے کہ ہو نہ ہو اسلام کو ہی کوئی خطرہ لاحق ہوگا ورنہ سالم مولوی کا ان کی خواب گاہ میں کیا کام ؟ حکیم صاحب نے اسلام کے چاروں پلروں کی خیریت دریافت کی تو امام صاحب بولے

"انہیں کوئی خطرہ نہیں، وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔ آپ بس یہ رہنمائی فرما دیں کہ انسان کے لئے آئیڈیل خوراک کیا ہے ؟ اسے کیا کھانا چاہئے اور کیا نہیں ؟"

حکیم صاحب نے فرمایا۔

"امام صاحب ! ایک بکری خرید لیجئے ! جب آپ کوئی چیز کھانے کا قصد فرمائیں تو وہ چیز پہلے کچی اس بکری کے آگے رکھ دیجئے ! اگر بکری کھالے تو آپ بھی پکا کر تناول فرما لیں اور اگر بکری کھانے سے انکار کر دے تو آپ بھی اس چیز سے پرہیز اختیار فرما لیں"

امام صاحب نے کرہ ارض کو پلک جھپکتے ایک ایسے صحرا میں تبدیل ہوتے دیکھا جہاں مرغ و ماہی عنقاء کے رشتیداروں میں شمار ہوتے تھے۔ دور دور تک گھاس پھوس اور قریب فقط ایک ایسی بکری جس کا لمبا کان ان کے ہاتھ میں۔ وہ گھر آئے اور کئی دن پریشان رہے۔ سوتے تو جاگنا بھول جاتے اور جاگتے تو سونا یاد نہ رہتا۔ اسلم کی نہاری اور فالودے کے سوا کسی چیز میں جی نہ لگتا مگر ان دونوں چیزوں کو عالمگیر ٹرسٹ کے صدقے کا وہ بکرا دیکھنا تک گوارا نہ کرتا جو وہ تجرباتی طور پر کرائے پر لائے تھے۔ دروغ بر گردنِ راوی لیکن سنا یہی ہے کہ ایک دن کراچی کے مومن آباد کا پہاڑ انہیں طور جیسا دکھا اور وہ مراقبے کے لئے وہاں تشریف لے گئے۔ ان کے مراقبے کا مرکزی سوال یہی تھا کہ اگر دسترخوان بکری کی منشاء کے مطابق سجانا ہے تو خالق نے عبد الخالق کو دم پخت، سجی، نمکین کڑاہی، چکن تکے، نمکین تکے، گولہ کباب، میرٹھی کباب پراٹھے اور پھجے کے سری پائے جیسے ہنر کیوں سکھائے ؟

کہتے ہیں اسی مراقبے کے دوران ان پر ایک کشف ہوا۔ وہ آنا فانا گھر لوٹ آئے۔ چہرے کی رونق ایسی جیسے دوسری شادی کر کے لوٹے ہوں اور آنکھوں کی چمک ایسی جیسے پہلی منگنی کی بات پکی ہونے پر ہوتی ہے۔ کچھ ہی دنوں میں وزن بڑھنے لگا تو بس بڑھتا ہی چلا گیا۔ اب وہ روز دس کلو میٹر کی واک بھی کرنے لگے، نتیجے میں صحت ایسی مثالی کہ مسجد میں کھانستے بوڑھے ان پر نظر پڑتے ہی کھانسنا بھول جاتے۔ لوگ حیران کہ امام صاحب کی صحت کا راز کیا اور امام صاحب کہ بتائیں ہی نہیں۔ ایسے میں ایک دن حکیم مرسلین صاحب کا نواسہ ان کے دروازے پر آ پہنچا اور انہیں اسی طرح نانا جان کے حضور حاضری کا کہا جیسے بھارتی سفیر کو پاکستانی دفتر خارجہ آنے کا کہا جاتا ہے۔ حکیم صاحب نے پوچھا۔

"امام صاحب ! میرا بتایا ہوا نسخہ چائنا کٹنگ کا تھا اور آپ ہیں کہ بحریہ ٹاؤن کی طرح پھیلتے جا رہے ہیں ! یہ ہو کیا رہا ہے ؟"

"حکیم صاحب ! آپ کے بتائے ہوئے نسخے پر عمل ہی کی برکت ہے"

"کیا من و عن میرے بتائے نسخے پر عمل ہو رہا ہے ؟"

"جی بالکل ! من و عن لیکن صرف ایک چھوٹی سی ترمیم کے ساتھ"

"ترمیم ! کیسی ترمیم ؟

"حضور ! کشف و الہام سے یہ ترمیم القا ہوئی کہ اگر کسی جانور کی منشاء کے مطابق ہی دسترخوان سجانا ہے تو بکری ہی کیوں، بلی کیوں نہیں ؟"
 

طالب سحر

محفلین
(یہ تحریر کچھ عرصہ قبل گردش میں آئی تھی۔ مجھے تو واٹس ایپ پر موصول ہوئی، لیکن احباب نے بتایا ہے کہ یہ فیس بک پر بھی پوسٹ کی گئی تھی- اس تحریر کے مصنف کا نام مجھے کوشش کے باوجود معلوم نہ ہو سکا؛ معلوم ہونے پر تدوین کروں گا-)
مجھے بتایا گیا ہے کہ اس تحریر کے مصنف کا نام رعایت الله فاروقی ہے جو کہ صحافت کے پیشے سے منسلک ہیں، اور ہدایت اللہ سدوخانی کے چھوٹے بھائی ہیں-
 
Top