بلیک واٹر؛ حکمرانوں کی ذمہ داریاں

گوہر

محفلین
روزنامہ جنگ 20 ستمبر2009 بروز اتوار کے انٹر نیٹ ایڈیشن کے مطابق امریکی سفارتخانے کے ساتھ کام کرنے والی ایک سیکیورٹی ایجنسی انٹر رسک کا لائسنس منسوخ کر دیا گیا ہے جسکی تصدیق وزارت داخلہ کے ذرائع سے بھی ہوچکی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق پولیس نے سکیورٹی ایجنسی کے سربراہ کے گھر پر چھاپہ مارکر بغیر لائسنس اسلحہ برآمد کر لیا ہے۔
علاوہ ازیں؛ دی نیشن رپورٹ کے مطابق نوائے وقت اپنی 21 ستمبر 2009 کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ ؛ پاکستان میں بلیک واٹر کی موجودگی کا اعتراف کر لیا گیا ہے اور اس کے لئے آنے والے غیر قانونی اسلحہ کا بڑا ذخیرہ بھی پکڑا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر آصف علی زرداری بیرونی دورہ کے فوراً بعد اسلام آباد میں امریکی سفارتی مشن کا اہم اجلاس بلائینگے اس اجلاس میں سفارتی پروٹوکول کی بڑھتی خلاف ورزیوں اور ملک میں امریکی سفارتکاروں اور شہریوں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق صدر زرداری ان اطلاعات سے بہت پریشان ہوئے ہیں۔ یہ اقدام اس امر کے بعد کیا جا رہا ہے کہ امریکہ میں پاکستانی مشن نے صدر زرداری کو بریفنگ دی کہ امریکی سفارتکار اور شہری ملک میں سفارتی پروٹوکول کی خلاف ورزیوں میں مصروف ہیں اور اس طرح وہ ملکی سلامتی کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ دی نیشن کو امریکہ میں پاکستانی سفارتخانہ کے حوالے سے پاکستان میں بلیک واٹر سمیت متعدد امریکی فرموں کی غیر قانونی سرگرمیوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ صدر کو امریکی ایف پاک پالیسی کے تحت بڑے پیمانے پر غیر قانونی اسلحہ کی آمد کے حوالے سے بھی بریف کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اس بریفنگ میں امریکی سفارتخانہ کی توسیع کا معاملہ بھی زیر بحث آیا اور اس معاملے کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ ان ذرائع کے مطابق صدر زرداری اس وقت بہت زیادہ پریشان ہوئے جب انہیں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں قائم انٹر رسک نجی سکیورٹی ایجنسی امریکی مشن اور بلیک واٹر سمیت امریکی ایسوسی ایٹس کے لئے بڑے پیمانے پر اسلحہ کی ٹرانسپورٹیشن میں ملوث پائی گئی ہے۔ صدر زرداری نے اس ساری صورتحال کا بڑی سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق صورتحال نے اس وقت نازک موڑ اختیار کیا جب اسلام آباد پولیس نے گزشتہ ماہ 4 امریکیوں اور ایک افغان کو انتہائی جدید اسلحہ کی سمگلنگ میں ملوث پایا ان لوگوں کو تفتیش کے لئے مارگلہ پولیس سٹیشن لے جایا گیا مگر اس کے فوری بعد امریکی سفارتخانہ کے فون کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بلوچستان کے ضلع ژوب میں بلیک واٹر کی موجوگی بھی پائی گئی ہے جس کا اعتراف کیا گیا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت سامنے آئی جب ایک سینئر سکیورٹی اہلکار کے مطابق سکیورٹی فورسز نے بلیک واٹر کے لئے بھاری تعداد میں اسلحہ کا ذخیرہ پکڑا۔
 

arifkarim

معطل
حکمرانوں کو ڈالر اکٹھے کرنے سے جب فرصت ملے گی، تب وہ ملک و قوم کیلئے کچھ سوچیں گے، اسلئے وہ دن بھول جائیں‌جب حکمران قوم کے خادم ہوتے تھے! :)
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں آپ کی توجہ وزير داخلہ رحمان ملک کے اس بيان کی جانب دلوانا چاہوں گا جو آج کے جنگ اخبار ميں موجود ہے۔

http://img101.imageshack.us/img101/5703/clipimage002m.jpg

انھوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ

"بليک واٹر نامی کوئ تنظيم پاکستان ميں کام نہيں کر رہی"۔

اب تک پاکستان کے وزيراعظم، اسلام ميں امريکی سفارت خانے، امريکی سفير، پاکستان کی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے سرکاری طور پر يہ حقيقت واضح کر دی ہے کہ بليک واٹر پاکستان ميں موجود نہيں ہے۔

اس کے باوجود اگر ميڈيا کے کچھ عناصر اس ضمن ميں بے بنياد کہانيوں کی تشہير پر بضد ہيں تو پھر اپنے دعوؤں کی حقيقت کو ثابت کرنے کی ذمہ داری بھی انھی پر عائد ہوتی ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی ايسا کوئ ثبوت فراہم نہيں کيا ہے جس سے ان دعوؤں کی تصديق ہو سکے۔

غير تحقيق شدہ کہانيوں پر اپنے جذبات کے اظہار کی بجائے دانشمندی کا تقاضا يہ ہے کہ حقائق اور مختلف اداروں اور اعلی حکام کے ريکارڈ پر موجود سرکاری بيانات کا تجزيہ کيا جائے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

گرائیں

محفلین
پیارے فواد، ہم آپ سے زیادہ ان لوگوں کو جانتے ہیں جو ہمارے حکمران بنے بیٹھے ہیں، ہمیں ان پر اعتبار کرنے کا سبق مت پڑھائیں۔ اگر دلیل ہے تو ٹھیک، ورنہ خاموش رہیں، شکریہ۔
 
میرا خیال ہے کہ فواد درست کہہ رہا ہے۔
(خیال رہے کہ میرا کوئی ویزا کا کیس امریکی دفتر میں‌ نہیں‌ہے)

اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو کیانی بلیک واٹروں‌کا دماغ درست کرسکتا ہے۔
اگر کیانی پیسہ نہ کھا کر بیٹھ گیا ہو تو۔ پتہ نہیں‌ فوج کا کام کمیشن لینا ہے یا ملک کی حفاظت کرنا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ميں نے پاکستانی حکام کے ساتھ امريکی افسران کے بيانات کے ريفرنس بھی ديے ہيں۔ اس کے جواب ميں يہ دليل کہ "پاکستانی حکمران امريکہ کے ہاتھوں بکے ہوئے ہيں" ايک واضح تضاد ہے۔ اگر پاکستان کے وزيراعظم، وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور ايک دوست کی رائے ميں فوج کے سربراہ بھی امريکی خواہشات کے پابند ہيں تو پھر سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ امريکہ کو چند درجن نجی سيکورٹی گارڈز بيجھنے کی کيا ضرورت ہے؟

يہ دليل منطق اور دانش سے عاری ہے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ عراق کے معاملے ميں کانگريس نے نجی سيکورٹی ايجينسيوں کے ضمن ميں باقاعدہ فنڈز کی منظوری دی تھی اور عراقی حکومت ملک ميں ان کی موجودگی سے پوری طرح آگاہ تھی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

باسم

محفلین
کیا انٹر رسک اور ڈی سی آئی کو ہتھیار منگوانے کی این او سی دینے کیلیے امریکی سفیر این پیٹرسن نے خط لکھا تھا
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کیا انٹر رسک اور ڈی آئی سی کو ہتھیار منگوانے کی این آئی سی دینے کیلیے امریکی سفیر این پیٹرسن نے خط لکھا تھا


سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ اسلام آباد ميں امريکی سفير اين پيٹرسن کی سربراہی ميں سفارت خانے کی يہ ذمہ داری ہے کہ وہ سيکورٹی سميت باہمی مفاد کے تمام معاملات پر حکومت پاکستان اور اہم عہديدران سے مسلسل رابطے میں رہے۔

اس تناظر ميں امريکی سفير اين پيٹرسن کی جانب سے خط وکتابت يا کسی اور ذريعے سے روابط قائم کرنا کوئ انہونی بات نہيں ہے۔ يہ پاکستان ميں ان کی ذمہ داريوں کا اہم جزو ہے۔

جہاں تک پاکستان ميں سفارتی عملے کی سيکورٹی کا سوال ہے تو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا اس ضمن ميں ڈين کورپ نامی کمپنی سے معاہدہ ہے۔ اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی صوابديد پر ڈين کارپ نے انٹر رسک نامی پاکستانی سيکورٹی کمپنی سے ايک ذيلی معاہدہ کيا تا کہ اس معاہدے کی تکميل کے لیے سيکورٹی کے ضمن ميں مقامی اہلکار بھرتی کيے جا سکيں۔ اس معاہدے کی رو سے امريکی سفارت خانے کی حفاظت کے استعمال ہونے والے ہتھيار باقاعدہ امريکی حکومت کی جانب سے مہيا کردہ ہيں۔ اس معاہدے کی پاسداری کے لیے انٹر رسک کی جانب سے ہتھياروں کی سپلائ کی کوئ ضرورت نہيں ہے۔

اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی معلومات کے مطابق ہمارے ساتھ کیے گئے معاہدے کی حد تک ڈين کارپ اور ان کے سب کنٹريکٹر کی جانب سے مقامی لائنسس اور پرمٹ کے قواعد کے ضمن ميں کوئ خلاف ورزی نہيں کی گئ ہے۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ انٹر رسک ايک مقامی پاکستانی کمپنی ہے اور يہ اولين ذمہ داری پاکستان کی حکومت کی ہے کہ پاکستان ميں طے شدہ قوانين اور قواعد وضوابط پر عمل درآمد يقينی بنايا جائے۔

يہ نقطہ بھی قابل توجہ ہے کہ رائج عالمی قوانين کے عين مطابق حکومت پاکستان کو اس بات کا پورے اختيار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے اندر رہائش پذير اور کام کرنے والے ہر غير ملکی شخص اور کمپنيوں کی نقل وحرکت اور سرگرميوں کے حوالے سے اپنی مرضی کے قواعد وضوابط اور قوانين مرتب کرے۔

اسلام آباد ميں موجود امريکی سفارت خانہ پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور اس ضمن ميں کسی بھی قانون يا قاعدے ميں نرمی کا خواہ نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

باسم

محفلین
سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ اسلام آباد ميں امريکی سفير اين پيٹرسن کی سربراہی ميں سفارت خانے کی يہ ذمہ داری ہے کہ وہ سيکورٹی سميت باہمی مفاد کے تمام معاملات پر حکومت پاکستان اور اہم عہديدران سے مسلسل رابطے میں رہے۔

اس تناظر ميں امريکی سفير اين پيٹرسن کی جانب سے خط وکتابت يا کسی اور ذريعے سے روابط قائم کرنا کوئ انہونی بات نہيں ہے۔ يہ پاکستان ميں ان کی ذمہ داريوں کا اہم جزو ہے۔

جہاں تک پاکستان ميں سفارتی عملے کی سيکورٹی کا سوال ہے تو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کا اس ضمن ميں ڈين کورپ نامی کمپنی سے معاہدہ ہے۔ اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی صوابديد پر ڈين کارپ نے انٹر رسک نامی پاکستانی سيکورٹی کمپنی سے ايک ذيلی معاہدہ کيا تا کہ اس معاہدے کی تکميل کے لیے سيکورٹی کے ضمن ميں مقامی اہلکار بھرتی کيے جا سکيں۔ اس معاہدے کی رو سے امريکی سفارت خانے کی حفاظت کے استعمال ہونے والے ہتھيار باقاعدہ امريکی حکومت کی جانب سے مہيا کردہ ہيں۔ اس معاہدے کی پاسداری کے لیے انٹر رسک کی جانب سے ہتھياروں کی سپلائ کی کوئ ضرورت نہيں ہے۔

اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی معلومات کے مطابق ہمارے ساتھ کیے گئے معاہدے کی حد تک ڈين کارپ اور ان کے سب کنٹريکٹر کی جانب سے مقامی لائنسس اور پرمٹ کے قواعد کے ضمن ميں کوئ خلاف ورزی نہيں کی گئ ہے۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ انٹر رسک ايک مقامی پاکستانی کمپنی ہے اور يہ اولين ذمہ داری پاکستان کی حکومت کی ہے کہ پاکستان ميں طے شدہ قوانين اور قواعد وضوابط پر عمل درآمد يقينی بنايا جائے۔

يہ نقطہ بھی قابل توجہ ہے کہ رائج عالمی قوانين کے عين مطابق حکومت پاکستان کو اس بات کا پورے اختيار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے اندر رہائش پذير اور کام کرنے والے ہر غير ملکی شخص اور کمپنيوں کی نقل وحرکت اور سرگرميوں کے حوالے سے اپنی مرضی کے قواعد وضوابط اور قوانين مرتب کرے۔

اسلام آباد ميں موجود امريکی سفارت خانہ پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور اس ضمن ميں کسی بھی قانون يا قاعدے ميں نرمی کا خواہ نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
خط لکھا گیا تھا یا نہیں اگر ہاں تو وہ کیا تھا
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department



کسی بھی ايشو کے حوالے سے تعميری اور غير جانبدرانہ گفتگو کے ضمن میں انصاف کا تقاضا ہے کہ جو سورس استعمال کيا جا رہا ہے وہ يکطرفہ نہ ہو۔ آپ نے جس کلپ کا ريفرنس ديا ہے اس ميں "آر – ٹی" دراصل رشيا ٹوڈے کا مخفف ہے۔ ميرا آپ سے سوال ہے کہ اگر پاکستان پر کسی حوالے سے کوئ الزام عائد کيا جائے اور پھر بھارت کے کسی ٹی وی چينل کا کوئ کلپ پيش کيا جائے تو کيا وہ آپ کو حتمی ثبوت کے طور پر قبول ہو گا؟

جہاں تک اسلام آباد ميں مختلف مکانوں کی تصاوير کا سوال ہے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ يہ بالکل درست ہے کہ اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں توسيع کے سبب کچھ ملازمين کو کرائے کے مکانات ميں منتقل کيا گيا ہے۔ جيسے ہی عمارت کی تعمير کا منصوبہ مکمل ہو گا، ان ملازمين کو سفارت خانے کی عمارت ميں واپس منتقل کر ديا جائے گا اور اسلام آباد ميں کرائے پر لیے جانے والے مکانات ميں بتدريج کمی آئے گی۔

اسلام آباد ميں امريکی سفير نے اس بات کی وضاحت باقاعدہ ايک پريس بريفنگ ميں کر دی ہے۔ کچھ ٹی وی اينکرز کی جانب سے بے بنياد کہانيوں اور تشہير کے برعکس يہ کوئ خفيہ سازش نہيں بلکہ سرکاری ريکارڈ کا حصہ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
خیر اصلیت 2012 کے بعد واضح ہو جائے گی جیسے مجاہدین کی اصلیت 1990 کے بعد واضح ہو گئی تھی!
 

گوہر

محفلین
بلیک واٹر- دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا چاہیے

30-09-2009
ریٹائرڈ کیپٹن کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ
شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
اسلام آباد پولیس
تفتیش کی جا رہی ہے کہ مذکورہ نجی سکیورٹی ایجنسی کا تعلق بلیک واٹر کے ساتھ ہے
اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے امریکی سفارت کاروں کو سکیورٹی فراہم کرنے والی ایک نجی سکیورٹی ایجنسی کے مالک کو غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں دو دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے کیپٹن ریٹائرڈ جعفر علی زیدی کی گرفتاری کو منگل کے روز ظاہر کیا تھا اور پولیس کے مطابق ملزم کی گرفتاری اُن کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد ہونے پر عمل میں لائی گئی۔
اس مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے اس ماہ کی انیس تاریخ کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس میں ایک گھر میں چھاپے کے دوران بڑی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ قبضے میں لے لیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ ملزم ایک نجی سکیورٹی کمپنی کے مالک ہیں اس لیے اتنی بڑی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ رکھنا نہ صرف خلاف قانون ہے بلکہ اس کو شہر میں شدت پسندی کی ورادات میں بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی ملزم کا پانچ روز کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے تاہم عدالت نے ملزم کا دو دن کا جسمانی ریمانڈ دے کر ملزم کو دو اکتوبر کو عدالت میں دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اور حساس ادارے اس بات کی تفتیش کر رہے ہیں کہ مذکورہ نجی سکیورٹی ایجنسی کا تعلق امریکہ کی ایک نجی سیکورٹی ایجنسی بلیک واٹر کے ساتھ ہے جس کی پاکستان میں مبینہ موجودگی کو مقامی میڈیا میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اُدھر عدالت نے اسی مقدمے میں گرفتار ہونے والے دو افراد توقیر احسن اور محمد خان کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ان افراد کو ریڈ کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس نے ملزم علی زیدی کے خلاف غیر قانونی اسلحہ اور جعل سازی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کے سربراہ کلیم امام نے منگل کے روز انسانی حقوق کے بارے میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ اسلام آباد کے مختلف سیکٹروں میں امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں نے کرائے پر لیے ہوئے ہیں اور یہ اہلکار اسلام آباد پولیس کی استعداد کار بڑھانے میں معاونت کررہے ہیں تاہم انہوں نے کسی ایجنسی کا نام نہیں لیا۔
 

زینب

محفلین
بلیک واٹر کا ٹریننگ سنٹر بھی پکڑا گیا ہے روات میں سپیئر پارٹ‌فیکٹری کی آر میں چلایا جا رہا تھا پر کیا ہے کہ اس پر پردہ ڈالنے والے اور نہ نہ کر کے صفایئاں دینے والے پھر بھی نہین تھکیں گے
 

ساجد

محفلین
فواد صاحب ، میں نے اپنے طور پہ جو چشم دید ثبوت اکٹھے کئیے ہیں وہ آپ کی باتوں کا بطلان کر رہے ہیں۔ لہذا آپ کو چاہئیے کہ اپنی معلومات کو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی بجائے کسی آزاد مصدر سے تازہ کریں۔ اگر آپ کا مقصد ہی ہر اردو سائٹ پہ امریکی پراپیگنڈے کا فروغ ہے تو یہ دوسری بات ہے۔ آپ کے کچھ بھی کہہ دینے سے حقیقت بہر حال تبدیل نہیں ہو گی۔
ہمارے حکمرانوں کے بیانات بھی دوہرانے کا فائدہ نہیں کہ ان کا اعتبار کب کا اٹھ چکا۔
 
Top