بلوچستان جل رہا ہے

زرقا مفتی

محفلین
تقسیمِ ہند کے وقت تقریبا 565 ریاستیں موجود تھیں۔ ان سب ریاستوں کو پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کی آزادی تھی۔ علیحدہ مملکت قائم کرنے کی نہیں۔ آج ان 565 ریاستوں میں سے کسی ریاست کا آزادانہ تشخص قائم نہیں۔ اس لئے مسئلے کی بنیاد ریاست قلات کو پاکستان میں ضم کرنا درست نہیں۔
ریاست کو پاکستان میں ضم کرنے سے وہاں کی عوام کی فلاح بہبود یا مفادات پر کوئی ضرب نہیں لگی۔ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی میں مرکزی کردار وہاں کے سرداروں کا ہے پاکستان کی مرکزی حکومت کا نہیں۔
مشرف دور میں جب بلوچستان میں ترقیاتی کام شروع کئے گئے تو علیحدگی کی تحریکوں نے بھی زور پکڑ لیا۔ بلوچستان میں سڑکیں ، سکول اور ہسپتال بننے لگے تو گیس لائنوں اور بجلی کی تنصیبات کو دھماکے سے اُڑایا جانے لگا۔
بلوچستان کے بڑے شہروں کو چھوڑ کر بقیہ آبادی کا ذریعہ معاش تھوڑی بہت کاشت ، گلہ بانی یا پھر سرداروں کی چاکری ہے۔ سڑکیں بننے سے زرعی اجناس کی نقل و حمل میں آسانیاں پیدا ہو رہی تھیں اور عام بلوچی معاشی خودمختاری کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔
تعلیم و ترقی روایتی سرداروں کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتی تھی اس لئے ایک اور بغاوت کا آغاز ہوا
شہری علاقوں میں پڑھے لکھے پنجابیوں کو ڈراؤ دھمکاؤ اور مارو کی پالیسی شروع کی گئی۔ پنجابی بلوچستان سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔
دُنیا کی کسی بھی حکومت کی طرح علیحدگی پسندوں کے خلاف کاروائیاں شروع ہوئیں تو انہیں فوج اور دیگر ایجینسیوں کا جبر قرار دیا گیا۔
 

زرقا مفتی

محفلین
بلوچستان کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے کا 46٪ ہے مگر یہاں کی کُل آبادی لاہور شہر سے بھی کم ہے۔
اگر آبادی کو رقبے پر تقسیم کیا جائے تو ہر کلومیٹر پر 12 لوگ رہتے ہیں۔ روزگار کے محدود مواقع کے باعث یہاں کی آبادی میں اضافہ نہ ہو سکا۔ دوسرے صوبوں سے وفاق کے تحت ملازمت کرنے والے پڑھے لکھے افراد بلوچستان میں رہائش پذیر ہوئے اور کچھ وہیں بسنے لگے ۔
مگر ۲۰۰١ کے بعد پنجابیوں کو قتل اور اغواکرنے کے واقعات سامنے آنے لگے
1998 کی مردم شماری کے مطابق
بلوچستان کی آبادی کو مادری زبان کے لحاظ سے کچھ اس طرح تقسیم کیا جا سکتا ہے
بلوچی ۔54.76%
پشتو ۔29.64%
سندھی ۔5.58%
پنجابی ۔2.52%
سرائیکی ۔2.42%
اُردو ۔0.92%
دیگر ۔4.11%
http://www.census.gov.pk/MotherTongue.htm

2011 کے اعدادو شمار اب تک شائع نہیں کئے گئے
اس لحاظ سے بلوچستان میں بلوچی اکثریت میں ہیں لیکن یہ اکثریت دو تہائی سے بہت کم ہے۔

مورخین نے بلوچوں کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیاہے
﴿١﴾
۔رند۔ ان کی اولاد میں ،بگٹی، لغاری ،مزاری ،گشکوری، قیصرانی
،لنڈ،مستوئی،اور دیگر قبائل شامل ہیں
(2)
۔لاشار۔ ان کی اولاد میں مگسی،جتکانی،لشاری،بھوتانی جستکانی، شامل ہیں
(3)
۔ہوت ۔ کھوسہ،عمرانی،حملانی،ان کی اولاد میں دیگر قبائل شامل ہیں
بنیادی طورپر پاکستان ایران ،افغانستان، اور خلیج کی ریاستوں میں بسنے والے بلوچ قبائل ان ہی تین حصوں میں منقسم ہیں بعد میں ان کی بہت سی ذیلی تقسیم بھی ہوئی ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
بلوچستان کے موجودہ حالات کو اکثر بیرونی مداخلت کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے اس کی دو بڑی وجوہات ہیں
بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت
بلوچستان کے معدنی وسائل
تاریخی اہمیت
ایشیا کے جنوب مشرقی ایشیا میں داخلے کے لیئے اور ہمالیہ پہاڑ کو عبور کرنے کے لیئے ہمیں صرف دو ہی راستے ملیں گے ایک برصغیر ہندو پاک کے مغرب میں دریائے سندھ کے مغرب میں واقع تمام خطے کے ذریعے جو پاکستان کے پانچوں صوبوں سے گزرتے ہوئے ملیں گے دوسرا برصغیر کے مشرق میں بدوسری جانب بنگلہ دیش کے انتہائی شمال مشرق میں واقع راستے ہیں ان دونوں راستوں میں ایران اور سینٹرل ایشیا سے برصغیر میں داخلے کا راستہ انتہائی سہل اور آسان اور محفوظ راستہ ہے جس پر تمام پاکستان کے چاروں ہی صوبے واقع ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ہزاروں برس سے وسط ایشیا ایران اور یورپ کے حملہ آورں نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں واقع کسی نہ کسی راستے کو برصغیر میں داخلے کا زریعہ بنایا ہے جبکہ برصغیر سے وسط ایشیا ایران جانے کے لیئے پاکستان کے صوبہ پنجاب یا سندھ سے ہی گزر کر صوبہ پختون خواہ یا بلوچستان میں سے گزرتے ہوئے ایران یا وسط ایشیا کا رخ کیا گیا ہے جیسا کہ وسط ایشیا سے آریائی حملہ آور برصغیر میں داخلے کے لیئے پہلے پاکستان مین داخل ہوئے یہاں انہوں نے ایک طویل مدت اپنے آپ کو اس خطے میں قدم جمانے صرف کی جس کے بعد آریا قبائل دریائے سندھ کو عبور کرکے برصغیر میں داخل ہوئے۔
http://balochistansearch.blogspot.com/p/history-of-balochistan.html
 

زرقا مفتی

محفلین
برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی آمد ساتویں صدی عیسوی میں ہوئی اور بتدریج مسلمانوں کی حکومت پورے برِ صغیر پر قائم ہو گئی۔ البتہ شمال سے حملہ آوروں کی آمد کا سلسلہ بھی موقوف نہ ہوا۔
بلوچستان پر مقامی سرداروں کی عملداری قائم رہی مگر وہ ١۷۰۷ تک مغلوں کے وفادار رہے۔ نادر شاہ کے حملے کے بعد وہ ١۷۴۷ تک اُس کے زیر نگیں رہے ۔ احمد شاہ ابدالی کے ساتھ بھی اُنہوں نے ایسا ہی وفاداری کا حلف لیا۔
بلوچستان میں برطانیہ کی دلچسپی کا آغاز انیسویں صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی میں اس وقت ہوا جب اسے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ روس اپنی سرحدوں کو جنوب کی طرف بڑھانا چاہتا ہے۔ اسی خدشے کے پیش نظر اس وقت کی برطانوی حکمت عملی کے تحت، جسے ’گریٹ گیم‘ کا نام دیا گیا، بلوچستان کو طاقت کی عالمی رسہ کشی میں پھنسا دیا گیا۔
برطانیہ نے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے انیسویں صدی کی آخری دو سے تین دہائیوں کے دوران بلوچستان کے کچھ حصے ایران اور کچھ افغانستان کو ’تحفتاً‘ دے دیئے اور یوں اسے تین مختلف ریاستوں میں منقسم کر دیا۔
بلوچستان کی سرحدوں کا از سرِ نو تعین اٹھارہ سو اکہتر میں میجر جنرل فریڈرک گولڈ سمتھ کی سربراہی میں بننے والے ’پرشو بلوچ باؤنڈری کمیشن‘ اور اٹھارہ سو چھیانوے میں سر ہنری میکماہون کی قیادت میں قائم ہونے والے ’اینگلو پرشن جوائنٹ باؤنڈری کمیشن‘ کے تحت کیا گیا۔
بلوچوں نے اگرچہ اس تقسیم کو قبول نہیں کیا تھا لیکن برطانیہ ایران کو روس سے دور رکھنے کے لیے اسے کسی نہ کسی طرح خوش کرنا چاہتا تھا۔ برطانوی تقسیم کے بعد بلوچستان کے علاقے سیستان اور مغربی مکران ایران کا حصہ بن گئے جبکہ سیستان سے ملحقہ علاقوں اور ریگستان کو افغانستان کے حوالے کر دیا گیا۔
اسی طرح ڈیرہ جات، سبی اور جیکب آباد کو برٹش انڈیا میں شامل کر دیا گیا۔ تاہم باقی ماندہ بلوچستان پر خان آف قلات کی حکمرانی برقرار رکھی گئی۔ اگرچہ بعد میں خان کے زیر اثر لسبیلہ، مکران اور خاران کے رئیسوں سے بھی براہ راست روابط قائم کر لیے۔
Balochis of Pakistan on the margins of history​
 

زرقا مفتی

محفلین
بیسویں صدی میں رونما ہونے والے کچھ اہم واقعات کی بدولت گریٹ گیم کی خالق طاقتوں کی ترجیحات بدل گئیں اور پچھلی بندربانٹ اُنہیں اپنے ہی مفادات کے خلاف نظر آنے لگی سو اب نئی ترجیحات کے تحت نئے نقشے بنائے گئے اہداف طے ہوئے اور سازشیں بھی شروع کر دی گئیں
برطانیہ کی سب سے بڑی غلطی بلوچستان کو ایک صوبے کی حیثیت نہ دینا تھا۔ صوبہ بنانے کے لئے اُسے یہاں انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنا پڑتا جس پر ہونے والے کثیر اخراجات وہ برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ بلوچستان معاشی لحاظ سے کمزور تھا اور یہاں کی افرادی قوت غیر ہنرمند اور بکھرے ہوئے افراد پر مشتمل تھی۔ اسلئےبرطانیہ نے کوئٹہ میں چھاؤنی قائم کی. کوئٹہ اور کچھ شمالی علاقے برطانوی راج کے زیر اثررہے۔
تاہم افغانستان میں روس کی آمد، انقلاب ایران، روس کی شکست و ریخت اور چین کا ایک عالمی قوت کے طور پر اُبھرنا ایسے غیر معمولی واقعات تھے جن کی بنا پر مغربی طاقتوں نے گریٹ گیم کو از سرِ نو تشکیل دیا۔ نئے نقشے سے سب واقف ہیں تاہم
MEmapTHEN.jpg


نقشے سے واضح ہوتا ہے کہ برطانیہ امریکہ اور دیگر حلیف اب لسانی بنیادوں پر بلوچستان کومتحد کرکے ایک کمزور آزاد ملک قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایران افغانستان اور پاکستان سے بلوچی علاقے الگ کر کے ایک مملکت بنا نے کا پروگرام ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
مغربی قوتوں کی نئی گریٹ گیم نہ تو دُنیا میں قیامِ امن کے لئے ہے اور نہ ہی بلوچوں سے ہونے والی مبینہ زیادتیوں کے سدِ باب کے لئے۔ یہ گیم صرف چین کو بحیرہٴ عرب تک رسائی پانے سے روکنے کے لئے ہے۔ باغی بلوچ سرداروں نے وعدہ کیا ہے کہ آزادی کی صورت میں گوادر میں مغربی طاقتوں کو اڈے بنانے کی اجازت رہے گی۔
مستقبل میں چین شاہراہِ ریشم کے راستے گوادر کے ذریعے تجارت بڑھا سکتا ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی قوتیں بحیرہٴ عرب کے راستے ہونے والی تیل کی تجارت پر اجارہ رکھتی ہیں اُنہیں اس اجارے میں کسی نئی قوت کی شراکت برداشت نہیں۔
کوئٹہ میں حالیہ بم دھماکوں بھی گوادر کے چین کو حوالے کرنے کے فیصلے کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
کسی بھی واقعے کے تجزیے کے وقت ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس واقعے کا فائدہ کس کو ہو گا۔
حالیہ دھماکوں سے نہ تو پاک فوج کا کوئی مفاد وابستہ تھا اور نہ ہی پاکستانی حکومت کا۔ یہ دھماکے اگر کسی کے مفاد میں تھے تو وہ علیحدگی پسندوں کے ۔اگر ہزارہ برادری کے مطالبے کو تسلیم کر کے کوئٹہ کو فوج کے حوالے کر دیا جاتا۔ تو بلوچ باغی راہنما اقوام ِ متحدہ کو بلوچستان میں مداخلت کے لئے آ سانی سے آمادہ کر سکتے تھے۔
آج یہ خبر سامنے آئی کہ آسٹریلیا نے ۲۵۰۰ ہزارہ خاندانوں کو پناہ دینے کی پیشکش کی ہے۔ ایسی پیشکش کشمیریوں کو تو کبھی نہیں کی گئی؟
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس تھريڈ پر پاکستان کے حوالے سے جس نفشے کا ذکر کيا گيا ہے اس کی بنياد آرمڈ فورسز جرنل کے جون 2006 ميں شا‏ئع ہونے والا ايک آرٹيکل ہے جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.armedforcesjournal.com/2006/06/1833899

يہ آرٹيکل ايک ريٹائرڈ آرمی کرنل، ناول نگار اور کالم نويس رالف پيٹرز نے لکھا تھا۔ رالف پيٹرز کے بارے ميں تفصيل آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://en.wikipedia.org/wiki/Ralph_Peters

يہ بات خاصی افسوس ناک ہے کہ اردو فورمز پر کچھ دوست اس جعلی نقشے کو اس خطے کے مستقبل کے حوالے سے امريکہ کی پاليسيوں سے مربوط کر رہے ہيں۔ يہ نقشہ محض ايک ايسے شخص کی ذاتی رائے پر مبنی ہے جو اس وقت امريکی حکومت يا امريکی فوج کے کسی عہدے پر فائز نہيں ہے۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ يہ"خفيہ نقشہ" کسی صحافی کی تحقيقاتی کاوشوں کے نتيجے ميں منظر عام پر نہيں آيا بلکہ ايک جريدے ميں شا‏ئع ہوا اور اس کے بعد کئ ويب سائٹس پر پوسٹ کيا گيا۔ کسی بھی "سازش" کے حوالے سے سب سے اہم عنصر يہ ہوتا ہے کہ اس سازش کو خفيہ رکھا جاتا ہے، اس حوالے سے تو يہ نقشہ سازش کی بنيادی تعريف پر بھی پورا نہيں اترتا۔

ويسے دوستوں کی دلچسپی کے ليے يہ بتاتا چلوں کہ مختلف ممالک اور خطوں کے مستقبل کے حوالے سے ممکنہ نقشوں کی تخليق کوئ نئ بات نہيں ہے۔ مستقبل ميں امريکہ کی ممکنہ تقسيم کے حوالے سے يہ نقشہ اس کی ايک مثال ہے۔


http://www.ridingthetiger.org/2011/09/01/breakup-of-the-united-states-imminent/


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


 

arifkarim

معطل
سعودی عرب ، یو اے ای ، قطر اور ایران کیا کردار ادا کر رہے ہیں خاص طور پر گوادر بندرگاہ کے تناظر میں اور ایران سعودیہ پراکسی وار کے تناظر میں، پہلی مرتبہ مقدس گائیں یوں ٹی وی پر ڈسکس کی جارہی ہیں۔۔۔ :)
اور ہمارے نام نہاد بہترین حساس ادارے اور باقی خفیہ عسکری ایجنسیاں کیا انڈے دے رہی ہیں؟
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس تھريڈ پر پاکستان کے حوالے سے جس نفشے کا ذکر کيا گيا ہے اس کی بنياد آرمڈ فورسز جرنل کے جون 2006 ميں شا‏ئع ہونے والا ايک آرٹيکل ہے جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.armedforcesjournal.com/2006/06/1833899

يہ آرٹيکل ايک ريٹائرڈ آرمی کرنل، ناول نگار اور کالم نويس رالف پيٹرز نے لکھا تھا۔ رالف پيٹرز کے بارے ميں تفصيل آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://en.wikipedia.org/wiki/Ralph_Peters

يہ بات خاصی افسوس ناک ہے کہ اردو فورمز پر کچھ دوست اس جعلی نقشے کو اس خطے کے مستقبل کے حوالے سے امريکہ کی پاليسيوں سے مربوط کر رہے ہيں۔ يہ نقشہ محض ايک ايسے شخص کی ذاتی رائے پر مبنی ہے جو اس وقت امريکی حکومت يا امريکی فوج کے کسی عہدے پر فائز نہيں ہے۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ يہ"خفيہ نقشہ" کسی صحافی کی تحقيقاتی کاوشوں کے نتيجے ميں منظر عام پر نہيں آيا بلکہ ايک جريدے ميں شا‏ئع ہوا اور اس کے بعد کئ ويب سائٹس پر پوسٹ کيا گيا۔ کسی بھی "سازش" کے حوالے سے سب سے اہم عنصر يہ ہوتا ہے کہ اس سازش کو خفيہ رکھا جاتا ہے، اس حوالے سے تو يہ نقشہ سازش کی بنيادی تعريف پر بھی پورا نہيں اترتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

فواد صاحب کو شا ید یاد ہو گا کہ امریکی ایوانِ نمائندگان میں میں بلوچستان کے عوام کو حقِ خود ارادیت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ دُنیا پر نظر ڈالیں تو انڈونیشیا سے ایسٹ تیمور کو الگ کیا گیا۔ اور حال ہی میں سوڈان کو دو لخت کیا گیا
ہم مقامی لوگوں کے جواب تو آپ کو پسند نہیں آتے اس لئے انگریزی زبان میں جواب پڑھ لیجیے
http://www.globalresearch.ca/balochistan-crossroads-of-another-us-proxy-war/31703

محفل کے ارکان کے لئے اسی آرٹیکل کا اُردو ترجمہ جو میں نے درج ذیل ربط سے نقل کیا
http://www.irak.pk/2012/august-1-2012/474-balochistan-crossroads-of-another-us-proxy-war.html

بلوچستان: ایک اور خفیہ امریکی جنگ کا دوراہا
Eric Draitser
اِس وقت بلوچستان میں جو شورش برپا ہے وہ افراد کے لاپتا ہو جانے، اغوا کرلیے جانے، قتل کر دیے جانے اور دہشت گردی کے مختلف واقعات کے گرد گھومتی ہے۔ یہ سب کچھ تو وہ ہے جو دکھائی دے رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ عام آدمی کو دکھائی نہیں دے رہا، وہ امریکا اور اس کے یورپی حلیفوں کا ایجنڈا ہے، جس کا بنیادی نکتہ ’’خفیہ جنگ‘‘ ہے۔ ہمارے علاقائی اور بین الاقوامی بحرانوں کے تناظر میں دیکھیے تو بلوچستان بظاہر غیر اہم یا کم اہم ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ امریکی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں مختلف حکمت ہائے عملی کا ملاپ ہو رہا ہے یا وہ آپس میں ٹکرا رہی ہیں۔
بلوچستان کا تکوینی محل وقوع
بلوچستان جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے دنیا کے اہم ترین مقامات میں سے ہے۔ یہ خطہ مشرقی ایران، مغربی پاکستان اور جنوبی افغانستان سے جڑا ہوا ہے، جو اس وقت امریکا اور یورپ کے لیے طاقت کے اظہار کا میدان بن گیا ہے۔ وسطِ ایشیا سے توانائی کی ترسیل کا راستہ بھی یہی ہے۔ بحرہند تک رسائی بھی بلوچستان ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ہی ممالک کے لیے بلوچستان کوئی ایسا خطہ نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کردیا جائے۔ اس حقیقت کے تناظر میں بلوچستان تمام عالمی قوتوں کے لیے نہایت اہم ہوگیا ہے۔
معاملہ محض سیاست اور جغرافیہ پر آکر رک نہیں جاتا۔ بلوچستان کے سینے میں تیل اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر کے علاوہ معدنیات کا خزانہ بھی چھپا ہوا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان، ایران اور افغانستان کے لیے یہ خطہ نزاع کا باعث بنتا جارہا ہے۔ ہر ملک زیادہ سے زیادہ قدرتی وسائل کے حصول کے لیے بلوچستان کو اپنی مٹھی میں لینا چاہتا ہے۔
بلوچستان چونکہ مشرق اور مغرب کے درمیان اہم تجارتی راستوں پر بھی واقع ہے اس لیے اس کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ زمانہ بدل چکا ہے اور آمد و رفت کے ذرائع بھی بے حد ترقی کرچکے ہیں مگر اس کے باوجود بلوچستان کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ چین کی ترقی میں زمینی تجارت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مستحکم بلوچستان کے بغیر چین اور علاقے کے دیگر ممالک کے لیے موثر زمینی تجارت ممکن نہیں۔ امریکا اور یورپ اسی نکتے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
چین میں معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے توانائی بنیادی ضرورت ہے۔ اگر بلوچستان میں استحکام ہو تو چین کی مصنوعات بلوچستان تک پہنچ کر بحرہند کے خطے اور افریقا تک پہنچ پائیں گی۔ چین اسی راستے سے تیل اور قدرتی گیس کے حصول کا بھی خواہش مند ہے۔ چین نے اپنے مفادات کو مستحکم اور محفوظ کرنے کے لیے گوادر میں گہرے پانی کی بندر گاہ تعمیر کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لی۔ اس کے لیے اس نے صرف سرمایہ نہیں بلکہ تکنیکی معاونت بھی فراہم کی۔ چینی معیشت کے لیے بلوچستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر امریکا اور یورپ اسے غیر مستحکم رکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
عدم استحکام پیدا کرنے کے مغربی ہتھکنڈے
بلوچستان کو غیر مستحکم رکھ کر چینی معیشت کو دھچکا لگایا جاسکتا ہے اور اسی کے ساتھ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ایران اور پاکستان کے خلاف امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی خفیہ جنگ کا مرکزی راستہ بلوچستان ہے۔ بلوچستان کے معاملات کو مٹھی میں لے کر مغربی قوتیں پاکستان اور ایران پر مستقل دباؤ بڑھا سکتی ہیں۔ بلوچستان کا رقبہ خاصا وسیع ہے اور بیشتر حصہ پتھریلا اور بے آب و گیاہ ہے۔ شر پسند اور دہشت گرد عناصر مغربی ممالک کے خفیہ اداروں کی مدد سے شورش برپا کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے خفیہ ادارے اچھی طرح جانتے ہیں کہ بلوچستان میں مغربی خفیہ ادارے کام کر رہے ہیں اور معاملات کو بُری طرح الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستانی خفیہ اداروں کو یہ بھی معلوم ہے کہ بلوچستان میں تشدد اور قتل و غارت مغربی قوتوں کے اشارے پر ہو رہی ہے۔ پاکستان کی ریاستی مشینری اچھی طرح جانتی ہے کہ ملک کی سلامتی اور سالمیت کا مدار اس بات پر ہے کہ بلوچستان میں شورش اور علیحدگی پسندی کو کس حد تک کامیابی سے دبایا جاسکتا ہے۔ پاکستان بیرونی قوتوں کی مداخلت کا الزام براہِ راست عائد کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
قطر سے شائع ہونے والے انگریزی زبان کے اخبار ’’دی پیننسیولا‘‘ (The Peninsula) نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے بلوچستان میں قدم جمانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ مقامی باشندوں کو ایجنٹ بننے کے عوض ماہانہ ۵۰۰ ڈالر تک ادائیگی کی جارہی ہے۔ افغانستان میں نیٹو افواج کے سابق کمانڈر اور سی آئی اے کے موجودہ سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس نے بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغان پناہ گزینوں کو عمدگی سے استعمال کیا ہے۔ اِس انکشاف کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سی آئی اے کی جانب سے بلوچستان بھر میں ایجنٹس کی بھرتی اس بات کا اشارہ ہے کہ سی آئی اے کی حکمتِ عملی کے کئی رُخ ہیں۔ ایک طرف تو ایجنٹس کے ذریعے خفیہ معلومات حاصل کرکے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور دوسری طرف خطے میں کام کرنے والے دہشت گرد گروپوں کو بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ خرابی پیدا کرنا مقصود ہے۔ امریکی جریدے ’’فارن پالیسی‘‘ کے ایک مضمون میں بیان ہوا ہے کہ سی آئی اے اور موساد جنداللہ کو کنٹرول کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں کیونکہ بلوچستان جنداللہ کا گڑھ ہے۔ جنداللہ کو استعماری قوتیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایران کے سائنس دانوں اور دیگر ماہرین کے قتل اور ایرانی معیشت و معاشرت کو غیر مستحکم کرنے میں جنداللہ ملوث ہے۔
سی آئی اے، برطانوی خفیہ ادارہ ایم آئی سکس، اسرائیل کا موساد اور بھارت کا خفیہ ادارہ ’’را‘‘ مل کر بلوچستان میں دہشت گرد اور علیٰحدگی پسند گروپوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ ان گروپوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے۔ براہمداغ بگٹی کی قیادت میں کام کرنے والی دی بلوچستان لبریشن آرمی کے برطانوی خفیہ اداروں سے دیرینہ روابط ہیں۔ یہ گروپ بلوچستان میں دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں ملوث ہے۔ بلوچستان لبریشن آرمی اور دیگر گروپ اس امر کا بیّن ثبوت ہیں کہ امریکا اور یورپ انہیں استعمال کرکے کس طور بلوچستان کو غیر مستحکم کرتے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کے باعث بلوچستان میں ترقیاتی کام رک جاتے ہیں اور اس کا نقصان بلوچستان کے عوام کے ساتھ ساتھ چین کو بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
سیاسی شر پسندی
بلوچستان میں شر پسندی کا بازار صرف دہشت گردی اور جاسوسی کے ذریعے گرم نہیں کیا جارہا بلکہ سیاسی میدان میں بھی اِس خطے کو مشکلات سے دوچار کیا جارہا ہے۔ امریکی کانگریس بھی بلوچستان کے معاملات میں مداخلت کرکے معاملات کو بگاڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کانگریس کے رکن ڈانا روربیکر (Dana Rohrbacher) نے ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو حق خود ارادی دیا جائے۔ اس کا سیدھا سادہ مفہوم صرف یہ ہے کہ پاکستان کو شدید عدم استحکام سے دوچار کردیا جائے۔ اس قرارداد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رور بیکر اور ان کے ہم خیال افراد امریکی استعمار کے لیے معاون کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یعنی اگر کسی ملک کو آسانی سے کنٹرول کرنا ہے تو اسے تقسیم کردو۔ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے چین کی بے مثال ترقی دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے لیے ترقی کا راستہ چُنا ہے، محاذ آرائی کا نہیں۔ پاکستان ہر معاملے میں امریکا کے آگے جھکنا نہیں چاہتا، حاشیہ بردار کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا۔
ڈانا رور بیکر نے امریکی کانگریس میں جو قرارداد پیش کی اس میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کا ساتھ دیا جائے اور پاکستان کی منتخب حکومت سے تمام روابط ختم کرلیے جائیں۔ رور بیکر نے کئی مواقع پر اُکسانے والے بیانات اور دھمکیاں دی ہیں۔ پاکستان کی حکومت بجا طور پر ڈانا رور بیکر کے بیانات کو اپنے معاملات میں مداخلت سے تعبیر کرتی ہے۔ ان دھمکیوں اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے در اصل یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے اور اس کے خلاف امریکا جو کچھ بھی کرے وہ جائز ہے۔
بلوچستان کے حوالے سے استعماری قوتوں کے عزائم بالکل واضح ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ چین علاقے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ نہ کر پائے اور یوں اس کی اقتصادی اور عسکری قوت کی راہ میں دیوار کھڑی ہو۔ مغربی استعمار سیاسی سطح پر شرارت اور دہشت گردی کرکے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سو سال پہلے کے برطانوی سامراج کی طرح امریکا کو ایک ایسا پاکستان قبول کرنا چاہیے جو قوم پرستانہ جذبات رکھتا ہو، ہر معاملے میں امریکی بالا دستی قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو اور کسی حد تک اپنی بات منوانے کا خواہش مند ہو۔ پاکستان کو عالمی برادری میں با اصول اور مخلص دوست بھی رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ امریکیوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور بلوچوں کو اب تک پیادوں کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں مضبوط حکومت کے بغیر، جو امریکی اقدامات کے خلاف احتجاج سے بڑھ کر بھی کچھ کرنا چاہتی ہو، بلوچستان میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا اور ایسی صورت میں اکیسویں صدی میں اپنی بالا دستی برقرار رکھنے کی ہر امریکی کوشش صورت حال کو مزید خراب کرے گی اور اس کی بھاری انسانی و معاشی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔
("Balochistan: Crossroads of Another US Proxy War?"... "Global Research". July 1st, 2012)
 

زرقا مفتی

محفلین
فواد صاحب کے لئے ایک اور چشم کُشا تحریر
http://www.globalresearch.ca/balochistan-power-politics-and-the-battle-for-oil/5226
Balochistan, Power Politics and the Battle for Oil
Since 1947, the Islamic Republic of Pakistan (Land of the Pure), a military dictatorship, has been a fragile entity perpetually on the brink of internal civil war, and constantly at loggerheads with India over contested Kashmir. It is a destabilizing factor on the Asian continent. The recent sacking of Pakistan’s Supreme Court Justice by President Pervez Musharraf in March of 2007 is just another one of many straws weighing on the central government’s back in Islamabad, a portent of what more is to come.
The Sunni dominant country is a nation-state in name only being held together by the force of its military and with the Machiavellian support of the USA. It is a powder keg of conflict pitting Pakistan’s ruthless military against tribal factions in the North along Afghanistan’s border and, in particular, against the Baloch in the South whose homeland is resource rich Balochistan.
In many respects, Musharraf’s Pakistan resembles the US puppet regime of Hamid Karzai in Kabul, Afghanistan. There, the central government has little influence beyond its seat of government in the capital city and any authority it does have comes from the barrel of a gun or the bomb rack of an American made military aircraft. And, in rather depressing respects, Islamabad’s handling of the Baloch and their homeland is seems a mirror image of the US treatment of local Iraqis in the ongoing US misadventure in Iraq. But, one must have hope that the USA will learn.
PAK has NUKE: Anyone Care?
The CIA Factbook 2007 paints an even grimmer picture of the Land of the Pure. It garners a “high risk” mark for food and waterborne diseases such as bacterial diarrhea, hepatitis A and E, and typhoid fever. It suffers from water pollution from raw sewage, industrial wastes, and agricultural runoff. Pakistan has limited natural fresh water resources and a majority of the population does not have access to potable water. It’s a transit country for opium. Yet, this military dictatorship overseen by Musharaff maintains a nuclear arsenal and each year, in the face of its internal strife, manages to find the funds to purchase weaponry from an assortment of international military contractors—among them the USA. But the hard reality for the USA is that Pakistan, or whatever may become of it, will remain a chess piece for the geopolitical machinations of the USA, China, India and Russia.
If the National Security Policy of the USA makes any sense at all, then it’s Pakistan that the USA should be looking to target with UN sanctions or economic/military pressure, perhaps in conjunction with India and in consultation with China and Russia. After all, Pakistan is a failing state that already has nuclear weapons. And it is worth stating again that the country is a military dictatorship whose intelligence service—the ISI—is known to have a lot of animosity towards the USA, and has continually lent support to the Taliban–if not Al Qaeda. Moreover, US oil and natural gas concerns own 30% of the finds in Balochistan. It would be in the USA’s best interest to court the local Baloch rather than sit by and watch the government in Islamabad crush the Baloch. Lessons-learned in Iraq should have taught the leaders in Washington, DC something (anything?) about how not to make enemies out of local populations.
Strategic Interests Served
Balochistan is in the southwest portion of Pakistan and borders Iran, Afghanistan, and India. The province is rich in oil & natural gas and its mostly 800 miles of underdeveloped coastline is flush with an abundance of ocean resources. A portion of Balochistan resides in Iran and is known as “Sistan and Balochestan”, an Iranian province bordering on the Sea of Oman and Afghanistan and Pakistan. It is Iran’s poorest province and is home to roughly 400,000 people. Could the US and Iran find some common ground for an independent Balochistan? Why not link the issue to current US and Iranian grievances with each other? Perhaps Iran cedes some territory for US concessions and economic aid. Once the troublesome Pakistani military is out of Balochistan on the Pakistan side, and the Baloch become independent and negotiate fair treatment for their people, and worthy prices for their land and resources, the Baloch might agree to stop attacking commercial interests.
The Baloch view themselves as an occupied territory and have done so since March 27, 1948 when the Pakistanis invaded Balochistan. Quoting Dr. Wahid Baloch, “Balochistan was a free sovereign independent state with its own parliament, the Dar-ul Awaam, the House of Commons, and Dar-ul Umraa, House of Lords. Soon after the creation of Pakistan, Pakistan invaded Balochistan and forcefully annexed it into Pakistan. From 1977-2005, Pakistan continues its crime against the Baloch people. Thousands of Baloch political activists and students have been arrested and are being tortured in secret jails. Many are missing, including Dr. Allah Nazar Baloch, Goher Baloch and Akther Nadeem Baloch. Pakistani military, paramilitary and security forces are given the task to arrest, kidnap or kill any Baloch who talks or thinks about freedom. More than 600 military check [points] have been established all over Balochistan to control the activities and movements of the Baloch people.
There are 60,000 Pakistani troops stationed in Balochistan and more are on the way. Balochistan has been turned into a military occupied war zone. Baloch people are living in fear and in hopelessness. They are desperately looking to the world community…for their help and rescue against the tyranny of Pakistani and Iranian regimes.”
Just so.
According to a recent report by Forum-Asia; Asian Legal Resource Centre, INFID; and Pax Romana; in Pakistan’s Balochistan province, more than 4000 people have reportedly disappeared as the result of military operations between 2001 and late 2005. They have not been produced before a court by the military intelligence agencies–such as the notorious ISI–and their whereabouts remain unknown.
Turkey to Pakistan: Treat Baloch Like Kurds! Investors Don’t Care
China, through Islamabad, has already gotten a piece of the action in Balochistan. China’s Harbour Engineering Company recently helped Pakistan complete Phase II of the mammoth deep sea Port at Gwadar and it is open for business for all, it seems, except Baloch locals. Associated with that development effort are dozens of opportunities that are destined to cut-out the local population: resorts, casinos, and the letting of commercial fishing rights are among those listed by the Pakistan Board of Investment that are, worldwide, normally associated with corruption. The PAKBOI showed its contempt for the Baloch when it indicated on its website (pakboi.gov.pk) that “…Balochistan can provide land on easy terms.”
In 2003, the South Asian Analysis Group (www.saag.org) noted the many ways in which the Musharraf government has exploited the Baloch.
Military authorities have bought most of the prime land at throw-away prices.
Large-scale influx of Pashtuns from the North-West Frontier Province of Pakistan and Afghanistan, officially encouraged by the Pakistan Army, and re-settlement of Punjabi ex-servicemen in order to reduce the Balochs to a minority in their homeland.
Non-payment of adequate royalty to the people of Balochistan for the gas found in their territory, which has contributed to the economic development of Punjab, without any economic benefits for the Balochs; the displacement of a large number of poor Balochs by the construction of the Gwadar port and town with Chinese assistance without adequate compensation; the re-settlement of a large number of Punjabi and Pashtun ex-servicemen in Balochistan to work in the Gwadar port and Mekran coastal highway projects, in violation of the Government assurances that preference would be given to the sons of the soil for work in the projects; violation of the labour rights of the people employed by the Chinese construction company which is building the port; and the setting-up of three new cantonments by the army in Balochistan.
The anger over the non-payment of adequate royalty for the gas being supplied to Punjab and Sindh has led to a number of incidents of sabotage of the gas pipelines and attacks involving the use of explosives and landmines directed against the staff employed for the protection of the pipelines.
The construction of the Gwadar Port and the Mekran coastal highway has resulted in the displacement of thousands of Balochs from their ancestral land and the forcible acquisition of their land by the Government without paying them adequate compensation and without giving them suitable land in return. Moreover, fearing Indian attempts to sabotage the projects, the Government has forcibly removed the Hindus and many of the Balochs, whose loyalty was suspected, from the area, which has been declared a sensitive defence zone.
Balochs, who are suspected of being sympathetic to India, have been removed far away from the site of the Gwadar port. A large number of Punjabi and Pashtun ex-servicemen, whose loyalty to Islamabad is beyond doubt, have been re-settled in the Mekran coastal area to work in sea port projects.
Washington, DC! Hello! Listen to This!
According to Shaukat Baloch, here’s what would happen if the Baloch got their shot at nationhood. “If a referendum under the supervision of UN is held in Balochistan and the people are asked to answer ‘yes’ or ‘no’ to the question ‘whether Balochistan should be declared to be an independent country, ‘ it is certain that this question would answered in the affirmative by a large majority of people. If the international community seriously puts its pressure on Pakistani generals–who are the de facto rulers even during civilian governments—they would agree to it. Gas and minerals would be sold toPakistan and India on rates fixed by Balochistan. In this regard no artificial problems would be created for the people of remaining Pakistan. Pakistan would be treated as a friendly country. Foreign companies would be invited to invest on further research of oil, gas and minerals.
Balochistan would be a secular, democratic country with freedom of faith, religion, thought and expression in a peaceful manner. There would be complete freedom of worship for all. No person would be allowed to preach hatred. Under the constitution, slogans based on religion, sects, etc. would be excluded from election campaigns. There would be a parliamentary system of government accompanied with an independent judiciary and a free press. Religious extremists would be asked not to meddle in politics. However they may keep their views with themselves. Unlike today, religious extremists will not receive funds in millions of dollars from ISI and other sources. Consequently they would remain peaceful. A Nation of Baloch of about 7 million will run and flourish in a way similar toSwitzerland and Scandinavian countries. Professors, scientists and experts in other fields from the West would be invited to work in the universities and labs of Balochistan.”
The Baloch Nation wants Independence not just because they are being persecuted and cheated by both Iran and Pakistan with regards to their natural resources, said Shabir Ahmed. The primary reason is that they want to be free to govern themselves. Whatever the reasons for the creation of Pakistan , the illegal annexation of Balochistan by Pakistan is a bitter pill to swallow.
According to Ahmed, “Simply put the Baloch Nation will never accept Pakistani or Iranian rule . It is inhuman and cruel to expect people of different races and languages to become 3rd class citizens in their own land , and to be governed by aliens . With regards to what shape a future Baloch Government should take , the best role model in that respect is the British political model we have today. The House of Commons and the House of Lords . This particular system was up and running in 1947, and then brought to an abrupt end by the illegal annexation of Balochistan by Pakistan. The Baloch are very different from their more fanatical immediate neighbors . Baloch society is naturally secular and very tolerant of other religions and races . However it must be noted that history shows us that the Baloch love their freedom and will never tolerate interference from outsiders , or alien rule. There are many a Widows sons who will fight to the bitter end to bring about an Independent Baloch State.”
An independent Balochistan is inevitable (as is an independent Kurdistan) and essential to peace on the Asian continent. The sheer will and tenacity of Baloch freedom fighters makes this outcome certain.
As anonymous said, “Dear Baloch friends. 90% of Balochistan is controlled by real sons of soil–meaning Baloch Liberation fighters. Pakis and their cronies control few cities and towns inBalochistan. Bravo! Baloch Fighters. Victory belongs to Baloch warriors! “
John Stanton is a Virginia based writer specializing in political and national security matters. Reach him at cioran123@yahoo.com
 

زرقا مفتی

محفلین
Destroying a Nation State: US-Saudi Funded Terrorists Sowing Chaos in Pakistan​
Baluchistan, Target of Western geopolitical interests, Terror wave coincides with Gwadar Port handover to China. The Hidden Agenda is the Breakup of Pakistan​
Pakistan_ethnic_1973-400x379.jpeg


Quetta, the capital of Pakistan’s southwest Baluchistan province, bordering both US-occupied Afghanistan as well as Iran, was the site of a grisly market bombing that has killed over 80 people.According to reports, the terrorist group Lashkar-e-Jhangvi has claimed responsibility for the attack. Billed as a “Sunni extremist group,” it instead fits the pattern of global terrorism sponsored by the US, Israel, and their Arab partners Saudi Arabia and
Qatar
The terrorist Lashkar-e-Jhangvi group was in fact created, according to the BBC, to counter Iran’s Islamic Revolution in the 1980′s, and is still active today. Considering the openly admitted US-Israeli-Saudi plot to use Al Qaeda and other terrorist groups across the Middle East to counter Iran’s influence, it begs the question whether these same interests are funding terrorism in Pakistan to not only counter Iranian-sympathetic Pakistani communities, but to undermine and destabilize Pakistan itself
The US-Saudi Global Terror Network
While the United States is close allies with Saudi Arabia and Qatar, it is well established that the chief financier of extremist militant groups for the past 3 decades, including Al Qaeda, are in fact Saudi Arabia and Qatar. While Qatari state-owned propaganda like Al Jazeera apply a veneer of progressive pro-democracy to its narratives, Qatar itself is involved in arming, funding, and even providing direct military support for sectarian extremists from northern Mali, to Libya, to Syria and beyond
France 24′s report “Is Qatar fuelling the crisis in north Mali?” provides a useful vignette of Saudi-Qatari terror sponsorship, stating:
“The MNLA [secular Tuareg separatists], al Qaeda-linked Ansar Dine and MUJAO [movement for unity and Jihad in West Africa] have all received cash from Doha

A month later Sadou Diallo, the mayor of the north Malian city of Gao [which had fallen to the Islamists] told RTL radio: “The French government knows perfectly well who is supporting these terrorists. Qatar, for example, continues to send so-called aid and food every day to the airports of Gao and Timbuktu.”
The report also stated
“Qatar has an established a network of institutions it funds in Mali, including madrassas, schools and charities that it has been funding from the 1980s,” he wrote, adding that Qatar would be expecting a return on this investment.
“Mali has huge oil and gas potential and it needs help developing its infrastructure,” he said. “Qatar is well placed to help, and could also, on the back of good relations with an Islamist-ruled north Mali, exploit rich gold and uranium deposits in the country.”
These institutions are present not only in Mali, but around the world, and provide a nearly inexhaustible supply of militants for both the Persian Gulf monarchies and their Western allies to use both as a perpetual casus belli to invade and occupy foreign nations such as Mali and Afghanistan, as well as a sizable, persistent mercenary force, as seen in Libya and Syria. Such institutions jointly run by Western intelligence agencies across Europe and in America, fuel domestic fear-mongering and the resulting security state that allows Western governments to more closely control their populations as they pursue reckless, unpopular policies at home and abroad.
Since Saudi-Qatari geopolitical interests are entwined with Anglo-American interests, both the “investment” and “return on this investment” are clearly part of a joint venture. France’s involvement in Mali has demonstrably failed to curb such extremists, has instead, predictably left the nation occupied by Western interests while driving terrorists further north into the real target, Algeria.

Additionally, it should be noted, that France in particular, played a leading role along side Qatar and Saudi Arabia in handing Libya over to these very same extremists. French politicians were in Benghazi shaking hands with militants they would be “fighting” in the near future in northern Mali.
Lashkar-e-Jhangvi is Part of US-Saudi Terror Network
In terms of Pakistan’s Lashkar-e-Jhangvi, as well as the infamous Lashkar-e-Taiba that carried out the 2008 Mumbai, India attack killing over 160, both are affiliates of Al Qaeda, and both have been linked financially, directly to Saudi Arabia. In the Guardian’s article, “WikiLeaks cables portray Saudi Arabia as a cash machine for terrorists,” the US State Department even acknowledges that Saudi Arabia is indeed funding terrorism in Pakistan:
Saudi Arabia is the world’s largest source of funds for Islamist militant groups such as the Afghan Taliban and Lashkar-e-Taiba – but the Saudi government is reluctant to stem the flow of money, according to Hillary Clinton.
“More needs to be done since Saudi Arabia remains a critical financial support base for al-Qaida, the Taliban, LeT and other terrorist groups,” says a secret December 2009 paper signed by the US secretary of state. Her memo urged US diplomats to redouble their efforts to stop Gulf money reaching extremists in Pakistan and Afghanistan.
“Donors in Saudi Arabia constitute the most significant source of funding to Sunni terrorist groups worldwide,” she said.
Three other Arab countries are listed as sources of militant money: Qatar, Kuwait and the United Arab Emirates.
Lashkar-e-Jhangvi has also been financially linked to the Persian Gulf monarchies. Stanford University’s “Mapping Militant Organizations: Lashkar-e-Jhangvi,” states under “External Influences:”
LeJ has received money from several Persian Gulf countries including Saudi Arabia and the United Arab Emirates[25] These countries funded LeJ and other Sunni militant groups primarily to counter the rising influence of Iran’s revolutionary Shiism.
Astonishingly, despite these admission, the US works politically, financially, economically, and even militarily in tandem with these very same state-sponsors of rampant, global terrorism. In Libya and Syria, the US has even assisted in the funding and arming of Al Qaeda and affiliated terrorist groups, and had conspired with Saudi Arabia since at least 2007 to overthrow both Syria and Iran with these terrorist groups. And while Saudi Arabia funds terrorism in Pakistan, the US is well documented to be funding political subversion in the very areas where the most heinous attacks are being carried out.
US Political Subversion in Baluchistan, Pakistan
The US State Department’s National Endowment for Democracy (NED) has been directly fundingand supporting the work of the “Balochistan Institute for Development” (BIFD) which claims to be“the leading resource on democracy, development and human rights in Balochistan, Pakistan.” In addition to organizing the annual NED-BFID “Workshop on Media, Democracy & Human Rights” BFID reports that USAID had provided funding for a “media-center” for the Baluchistan Assembly to “provide better facilities to reporters who cover the proceedings of the Balochistan Assembly.” We must assume BFID meant reporters “trained” at NED-BFID workshops.


BaluchistanUSstateDept.jpg
Image: A screenshot of “Voice of Balochistan’s” special US State Department message. While VOB fails to disclose its funding, it is a sure bet it, like other US-funded propaganda fronts, is nothing more than a US State Department outlet. (click image to enlarge)​
NED_in_Baluchistan.jpg


Images: In addition to the annual Fortune 500-funded “Balochistan International Conference,” the US State Department’s National Endowment for Democracy has been busy at work building up Baluchistan’s “civil society” network. This includes support for the “Balochistan Institute For Development,” which maintains a “BIFD Leadership Academy,” claiming to “mobilize, train and encourage youth to play its effective role in promotion of democracy development and rule of law.” The goal is to subvert Pakistani governance while simultaneously creating a homogeneous “civil society” that interlocks with the West’s “international institutions.” This is how modern empire perpetuates itself.​
There is also Voice of Balochistan whose every top-story is US-funded propaganda drawn from foundation-funded Reporters Without Borders, Soros-funded Human Rights Watch, and even a direct message from the US State Department itself. Like other US State Department funded propaganda outfits around the world – such as Thailand’s Prachatai – funding is generally obfuscated in order to maintain “credibility” even when the front’s​
constant torrent of obvious propaganda more than exposes them.​
bsona-929x195.jpg
Image: Far from parody, this is the header taken from the “Baloch Society of North America” website.
Perhaps the most absurd operations being run to undermine Pakistan through the “Free Baluchistan” movement are the US and London-based organizations. The “Baloch Society of North America” almost appears to be a parody at first, but nonetheless serves as a useful aggregate and bellwether regarding US meddling in Pakistan’s Baluchistan province. The group’s founder, Dr. Wahid. Baloch, openly admits he has met with US politicians in regards to Baluchistan independence. This includes Neo-Con warmonger, PNAC signatory, corporate-lobbyist, and National Endowment for Democracy director Zalmay Khalilzad.
Dr. Wahid Baloch considers Baluchistan province “occupied” by both the Iranian and Pakistani governments – he and his movement’s humanitarian hand-wringing gives Washington the perfect pretext to create an armed conflagration against either Iran or Pakistan, or both, as planned in detail by various US policy think-tanks.
There is also the Baloch Students Organisation-Azad, or BSO. While it maintains a presence in Pakistan, it has coordinators based in London. London-based BSO members include “information secretaries” that propagate their message via social media, just as US and British-funded youth organizations did during the West’s operations against other targeted nations during the US-engineered “Arab Spring.”
BaluchistanLondon.jpg

Image: A screenshot of a “Baloch Human rights activist and information secretary of BSO Azad London zone” Twitter account. This user, in tandem with look-alike accounts has been propagating anti-Pakistani, pro-”Free Baluchistan” propaganda incessantly. They also engage in coordinated attacks with prepared rhetoric against anyone revealing US ties to Baluchistan terrorist organizations.
And while the US does not openly admit to funding and arming terrorists in Pakistan yet, many across established Western policy think-tanks have called for it.
pakistanmap1.png


Image: A screenshot of a “Baloch Human rights activist and information secretary of BSO Azad London zone” Twitter account. This user, in tandem with look-alike accounts has been propagating anti-Pakistani, pro-”Free Baluchistan” propaganda incessantly. They also engage in coordinated attacks with prepared rhetoric against anyone revealing US ties to Baluchistan terrorist organizations.
And while the US does not openly admit to funding and arming terrorists in Pakistan yet, many across established Western policy think-tanks have called for it.

Selig Harrison of the Center for International Policy, has published two pieces regarding the armed “liberation” of Baluchistan.
Harrison’s February 2011 piece, “Free Baluchistan,” calls to “aid the 6 million Baluch insurgents fighting for independence from Pakistan in the face of growing ISI repression.” He continues by explaining the various merits of such meddling by stating:
“Pakistan has given China a base at Gwadar in the heart of Baluch territory. So an independent Baluchistan would serve U.S. strategic interests in addition to the immediate goal of countering Islamist forces.”
Harrison would follow up his frank call to carve up Pakistan by addressing the issue of Chinese-Pakistani relations in a March 2011 piece titled, “The Chinese Cozy Up to the Pakistanis.” He states:
“China’s expanding reach is a natural and acceptable accompaniment of its growing power—but only up to a point. ”
He continues:
“To counter what China is doing in Pakistan, the United States should play hardball by supporting the movement for an independent Baluchistan along the Arabian Sea and working with Baluch insurgents to oust the Chinese from their budding naval base at Gwadar. Beijing wants its inroads into Gilgit and Baltistan to be the first step on its way to an Arabian Sea outlet at Gwadar.”
While aspirations of freedom and independence are used to sell Western meddling in Pakistan, the geopolitical interests couched behind this rhetoric is openly admitted to. The prophetic words of Harrison should ring loud in one’s ears today. It is in fact this month, that Pakistan officially hands over the port in Gwadar to China, and Harrison’s armed militants are creating bloodshed and chaos, attempting to trigger a destructive sectarian war that will indeed threaten to “oust the Chinese from their budding naval base at Gwadar.”
Like in Syria, we have a documented conspiracy years in the making being carried out before our very eyes. The people of Pakistan must not fall into the trap laid by the West who seeks to engulf Baluchistan in sectarian bloodshed with the aid of Saudi and Qatari-laundered cash and weapons. For the rest of the world, we must continue to uncover the corporate-financier special interestsdriving these insidious plots, boycott and permanently replace them on a local level.
The US-Saudi terror racket has spilled blood from New York City, across Northern Africa, throughout the Middle East, and as far as Pakistan and beyond. If we do not undermine and ultimately excise these special interests, their plans and double games will only get bolder and the inevitability of their engineered chaos effecting us
individually will only grow.

http://www.globalresearch.ca/destroying-a-nation-state-us-saudi-funded-terrorists-sowing-chaos-in
pakistan/5323295
 

زرقا مفتی

محفلین
عالمی سیاسی کھیل کا محور: بلوچستان
امریکہ پاکستان کے اندر موجود نسلی تضادات کو استعمال کرکے اور بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی لہر کو مزید ابھار کر، پاکستان کی اندرونی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ گذری اتوار کو پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبے کی ایک پارٹی، بلوچستان ریپبلیکن پارٹی نے قومی تحریک کے ایک بڑے رہنما اکبر بگٹی کے یوم انتقال کے موقع پر، جنہیں چھ سال پہلے حکومتی فوج نے مار ڈالا تھا، صوبہ بھر میں ہڑتال کی کال دی تھی۔
بلوچستان آزاد پاکستان کی تاریخ کے پورے دورانیے میں مرکزی حکومت کے لیے سردرد بنا رہا ہے اور آج بھی ہے۔ 1947 میں کچھ بلوچ سیاستدانوں نے پاکستان کو اپنا وطن تسلیم نہیں کیا تھا اور پاکستانی علاقے میں واقع بلوچوں کے علاقے کو ہمسایہ ملکوں ایران اور افغانستان میں بلوچ آبادی والے علاقوں کو ملا کر ایک نیا ملک بلوچستان تخلیق کرنے کا تصور دیا تھا۔ کچھ کم ساٹھ برسوں سے آزاد حکومت کے قیام کے لیے لڑائی کبھی بھڑکتی رہی، کبھی دم توڑتی رہی اور بارہا کھلی دہشت گردی کی شکل بھی اختیار کر چکی ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جہاں ایک طرف منافع بخش معدنیات کے بڑے بڑے ذخائر ہیں ، وہاںدوسری طرف یہاں کی آبادی انتہائی عسرت زدہ ہے۔ پھر بہت سی تاریخی وجوہات کی بنا پر بلوچستان معاشی طور پر سب سے زیادہ غیر ترقی یافتہ صوبہ بھی ہے۔ روس کے انسٹیٹیوٹ برائے تزویری تحقیق کے ایک ماہر بورس وولہونسکی اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں،" گذشتہ عرصے میں بلوچستان کی صورت احوال ایک نئی شکل اختیار کر چکی ہے۔ مرکزی حکومت نے یہاں کے انفراسٹرکچر کو ترقی دینے کے بڑے بڑے منصوبوں پر کام شروع کیا ہے، جس میں سب سے پہلے گوادر نام کی بندرگاہ کی تعمیر اور سڑکین و پائپ لائنیں بچھایا جانا آتا ہے جس سے وہ چین کے جنوب مغربی خطوں سے منسلک ہو جائے ۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر میں چین کی بے حد دلچسپی ہے اسی لیے اس نے نہ صرف یہاں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے بلکہ اس مقصد کی خاطر ٹکنالوجی بھی فراہم کی ہے۔ امریکہ کو تزویری اہمیت کا حامل یہ پاک چین منصوبہ قطعی پسند نہیں ہے۔ اس کو سبوتاژ کیے جانے کی خاطر امریکہ نے بلوچ کارڈ کھیلنا شروع کر دیا ہے۔"
اس سلسلے میں کانگریس کے رکن ڈانا روہرا باخر بہت فعال ہیں جو پاکستان پر اپنی شدید تنقید کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ گذشتہ برس کے اواخر میں ان کا ایک مضمون شائع ہوا تھا، جس میں انہوں نے براہ راست آزاد بلوچستان کو تسلیم کیے جانے کی تجویز دی تھی۔ اس برس کے ماہ فروری میں امریکہ کی سینیٹ میں بلوچ مسئلے بارے امریکی موقف سنا گیا۔ تاحٰتی امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھی اس معاملے میں ملوث ہو گیا۔ اس برس کے ماہ جنوری میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان وکٹوریہ نولینڈ نے ایک بیان دیا تھا جس میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر کھل کر تنقید کی گئی تھی، بورس وولہونسکی کہتے ہیں،"بوالعبی یہ ہے، کہ اس نوع کا بیان دے کر امریکہ نے ان لوگوں کی حمایت کی ہے، جن کو ابھی تک اس نے دہشت گرد قرار نہیں دیا ہے، یوں اس نے "بلوچ کارڈ" کھیلنا شروع کر دیا ہے تاکہ اس طرح اس خطے میں چین کا اثر ورسوخ ہی کم نہ ہو بلکہ اس سلسلے میں دو اور اہم معاملات ہیں کہ ایران کے ساتھ کس نوع کا برتاؤ کیا جانا چاہیے اور افغانستان سے نیٹو کے فوجی دستے نکالے جانے کے بعد وہاں کیا کیا جانا چاہیے، یوں اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس علاقے میں اپنے محور قائم رکھے اور ان دکھتے مقامات سے قریب تر بھی رہے۔"
پاکستان کو اپنی قربت سے دور دھکیل کر بلوچستان کی بفر سٹیٹ بنانا بلا شبہ امریکہ کی دلچسپی نہیں ہے تاہم جیسے حالات بلوچستان میں ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ کو بیک وقت تین ملکوں یعنی پاکستان ، ایران اور افغانستان پر دباؤ ڈالنے کے اضافی مواقع ہاتھ لگ جائیں گے۔
http://urdu.ruvr.ru/2012_08_28/86451910/
 

زرقا مفتی

محفلین
بلوچستان کے معدنی وسائل و مسائل اور کہانی ریکوڈک کی
ڈاکٹر غلام سرور

ڈاکٹر غلام سرور ۱۹۴۵ء میں میرٹھ ، یوپی ، ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد غلام رسول جیولوجیکل سروے آف انڈیا میں ملازم تھے۔ پاکستان بننے کے بعدمیں، انھوں نے ۱۹۴۹ء کے لگ بھگ جیولوجیکل سروے آف پاکستان میں ملازمت اختیار کی جو اسی وقت قائم ہوا تھا۔ کوئٹہ میں، ڈاکٹر سرور نے اپنی ابتدائی تعلیم سینٹ مائیکل سکول اور گورنمنٹ کالج کوئٹہ سے حاصل کی اور پھرکراچی یونیورسٹی سے MSc.جیولوجی کی ڈگری فرسٹ کلا س اور سکینڈ پوزیشن میں حاصل کی ۔ اس کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کوئٹہ اور بلوچستان یونیورسٹی میں چار سال تک پڑھانے کے بعد ۱۹۷۴ء میں اعلیٰ تعلیم کی غرض سے امریکہ چلے گئے۔
امریکہ میں انھوں نے یونیورسٹی آف سن سناٹی، اوہائیو سے ۱۹۷۷ء میں MS اور ۱۹۸۱ء میں Ph.D کی ڈگری جیولوجی میں حاصل کی اور ۲۰۰۹ء تک کئی بڑی آئل کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کے بعد پرنسپل جیولوجسٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ آج کل وہ ہیوسٹن ، ٹکساس میں بہ طور کنسلٹنگ جیولوجسٹ کام کر رہے ہیں۔ ان کے دوسرے مشاغل میں پڑھنا لکھنا ، شاعری ، آرٹ، جم سٹونز (Gemology) ، کارٹون بنانا اور جہاں گردی شامل ہیں۔
تدریس کے علاوہ پاکستان کے لیے ڈاکٹر سرور کی خدمات ’’ پاکستان جیوڈائنامکس پراجیکٹ ‘‘ Pakistan Geodynamics Project) (کے بانی ، کارکن اور کنٹری بیوٹر کی حیثیت سے مسلّم ہیں اور پاکستان کے پہاڑوں کی ساخت ، لس بیلہ کی کروڑوں برس پرانی پیچیدہ سمندری آتشی چٹانوں (Ophiolites) پر ان کا Ph.D کا کام یورپ وامریکہ اور پاکستان میں چھپ چکا ہے اور جنوبی پاکستان کی شکست وریخت سے کراچی کے زلزلوں کے تعلق پر ان کا ابھی کام جاری ہے، جس پر وہ کراچی یونیورسٹی اور GSPمیں لیکچرز بھی دے چکے ہیں۔
پاکستان جیو ڈائنامکس پراجیکٹ ڈاکٹر سرور نے ۱۹۷۶ء میں سن سناٹی یونیورسٹی سے پروفیسر کینر ڈی یانگ (Kees De Jong) کی سرپرستی میں اور پاکستان میں GSP کی اعانت سے شروع کیا تھا۔ اس کا خرچہ امریکن سائنس فاؤنڈیشن (NSF) کی گرانٹس نے ادا کیا تھا اور یہ ایک بڑا انٹرنیشنل پراجیکٹ تھا۔ اس میں امریکہ ، یورپ ، روس، آسٹریلیا اور پاکستان سے کوئی ۲۸ ماہرین نے حصہ لیا تھا۔ جیسے GSP سے ابوالفرح صاحب ، اسرار صاحب، غضنفر صاحب، سبحانی صاحب، کاظمی صاحب اورپشاور یونیورسٹی سے بزرگ پروفیسر ڈاکٹر طاہر خیلی صاحب اور کئی حضرات۔ اس پراجیکٹ کے تحت GSP نے ۱۹۷۹ء میں سارے کارکنوں کا کام اپنی شہرۂ آفاق کتاب
" "Geodynamics of Pakistan میں شائع کیا۔
اس کتاب میں شامل ریسرچ پیپرز نے سارے پاکستان کے پہاڑوں کی نوعیت، ساخت، زلزلوں سے تعلق اور معدنی دولت وغیرہ کی بڑی تصویر کو جدید پلیٹ ٹکٹانکس (Plate Tectonics) تھیوری کے اصولوں کے تحت اس طرح اجاگر کیا کہ یہ کام آج بھی معتبر سمجھاجاتا ہے اور دنیا بھر میں پاکستانی ارضیات پر جہاں بھی بات ہوتی ہے، وہ اس کتاب کے حوالوں سے جدا نہیں ہوتی۔ آج بتیس برس گزرنے کے بعد بھی یہ کام پاکستان کی ارضیاتی تحقیقات میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر سرور بارگاہ الٰہی میں اس کام کے ہوجانے پر انتہائی شکر گزار ہیں اور یہ بجا طور پر یہ فخر کی بات بھی ہے۔
انتساب : بلوچستان کی ارضیات پر مندرجہ ذیل مضمون کو ’’ جیو ڈائنامکس آف پاکستان ‘‘ کتاب کے ایڈیٹروں جناب ابوالفرح مرحوم اور کینر ڈی یانگ مرحوم کی یادوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ پروفیسر ڈی یانگ میرے استاد بھی تھے۔ شکریہ :
میں مقتدرہ کے چیئرمین ڈاکٹر انوار احمد کا مشکور ہوں کہ جنھوں نے مجھے اس مضمون کو لکھنے پر آمادہ کیا۔
یہ بات تو ہم عرصے سے سنتے چلے آرہے تھے کہ بلوچستان میں چاغی کے علاقے میں تانبا ہے کافی سارا ،اور کچھ مولی بڈنم (Molybdenum) اور سونا بھی ہے تھوڑی مقدار میں ، مگر جب یہ خبر آئی کہ مغربی چاغی کے ایک گاؤں ریکوڈک کے پاس تانبے اور سونے کے ایسے ذخائر ملے ہیں کہ جن کے تخمینے سات افلاک سے بھی پرے جاتے ہیں تو ہمارے کان کھڑے ہوئے اور پھر ایک دم انیسویں صدی کے نامور امریکی طنزومزاح نگار مارک ٹوئین کی یاد آئی ، جنھوں نے کسی سونے کی کان کی تعریف کچھ اس طرح کی تھی کہ ’’ سنو میں بتاتا ہوں تم کو کہ سونے کی کان کسے کہتے ہیں ، یہ دراصل زمین میں کھودے گئے اس گڑھے کو کہتے ہیں جس کے چاروں طرف جُھوٹوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہوگیا ہو۔ ‘‘
خیر یہ تو تھی مذاق کی بات اور اس سے ہمارا مقصد کسی قسم کے ماہرین کی، جو ریکوڈک کے آس پاس گئے ہوں ، توہین ہرگز نہیں ۔ یہ مسئلہ انتہائی سنجیدہ ہے کہ ریکوڈک کی حقیقت در اصل ہے کیا اور پاکستان کے معدنی و سائل ، ارضیات ودیگر مسائل کوسمجھنا کس قدر اہم ہے۔ یہاں ہم صرف بلوچستان کی حد تک پہلے معدنی وسائل کا ایک سرسری جائزہ لیں گے اور پھر مسائل وغیرہ کی بات کر کے، ریکوڈک کا اور تفصیل سے جائزہ لیں گے۔
شروعات:
ہندوپاک کی تقسیم کے بعد ۴۸۔۱۹۴۷ء میں ہی جیولوجیکل سروے آف پاکستان (GSP) کا دفتر کوئٹہ میں قائم کردیا گیا تھا اور اس محکمے کو سارے پاکستان کے ارضیاتی سروے اور معدنی وسائل کو ڈھونڈنے کا کام سونپا گیا تھا۔ اس کے پہلے سربراہ جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے ایک ا نتہائی قابل ماہر ارضیات ڈاکٹر ہنری کروک شینک تھے، جنھوں نے تقسیم کے بعد پاکستان آکرGSPکی بنیاد رکھنے کی ذمہ داری قبول کی تھی ، بجائے اس کے کہ وہ ریٹائرمنٹ لے کر اسی وقت ڈبلن ، آئر لینڈ واپس چلے جاتے ، جہاں کے وہ رہنے والے تھے ۔
ڈاکٹر کروک شینک کی تجربہ کار آنکھوں نے پاکستان میں جی ایس پی کے قیام کے لیے کوئٹہ کا انتخاب اسی بنا پر کیا تھا کہ بلوچستان میں معدنی دولت ملنے کے آثار نمایاں تھے اور کچھ دھاتوں کے بارے میں معلوم بھی تھا۔ جیسے مسلم باغ کا کرومائٹ (Chromite) ۔مسلم باغ کو اس زمانے میں ہندوباغ کہا جاتا تھا۔ جی ایس پی نے چاغی کا سروے بھی ۱۹۵۰ء کی دہائی میں شروع کیا اور سیندک کے مقام پر تانبے کے ذخائر کا پتہ چلا لیا۔ اس طرح ڈاکٹر کروک شینک نے مسلم باغ کے کرومائٹ سے لے کر چاغی کے سیندک والے تانبے اور لس بیلہ کے مینگنیز (Manganese) کے آثار پر خود کام کیا اور اپنے ماتحت جیولوجسٹوں سے بھی کروایا۔ مگر وہ اب بوڑھے ہوچکے تھے اور ۱۹۵۵ء میں واقعی ریٹائرمنٹ لے کر ڈبلن، آئر لینڈ واپس چلے گئے ۔ جہاں چند برسوں کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ ڈاکٹر کروک شینک کی سربراہی میں جی ایس پی اپنے پاؤں پر کھڑا ہوچکا تھا اور جب سے اب تک یہ بہت سے کام کرچکا ہے۔یہ اور بات ہے کہ ملکی حالات دگرگوں ہوجانے کی وجہ سے اس ادارے کی کارکردگی پربھی منفی اثرات پڑے۔ اور بہت سے قومی اداروں کی طرح ، یعنی جب سارے دریا میں طغیانی آجائے تو کوئی کشتی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔
تو آئیے، ان ابتدائی کلمات کے بعد ہم بلوچستان کے معدنی وسائل کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کچھ مسائل اور ان کے حل کی بات بھی کریں گے۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ جی ایس پی نے بلوچستان اور سارے پاکستان کے معدنی وسائل کی تلاش میں ایک بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور بلوچستان کے تقریباً تمام دھاتی اور غیر دھاتی منرلز (Minerals) کی تلاش، نقشہ بندی اور تحقیقات کا کریڈٹ جی ایس پی کو جاتا ہے۔ کم سے کم ابتدائی طور پر ۔ صوبائی محکموں ، جیسے بلوچستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (بی ڈی اے) کا بھی کردار ہے مگر ثانوی طور پر ۔
جاری ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
بلوچستان کے منرلز (Minerals) اور سجاوٹی پتھر (Decorative Stones) : ان کی تعداد کہنے کو تو بہت ہے مگر مقدار اور تجارتی اہمیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو صرف مندرجہ منرلز ہی قابل ذکر ہیں جو کان کنی کے لائق ہیں ۔
دھاتی منرلز :
ایلومینیم
(Aluminum) : اس کے بڑے ذخائر ہیں زیارت اور قلات کے علاقوں میں۔ قسم کے لحاظ سے یہ باکسائٹ (Bauxite) اور لیٹرائٹ (Laterite) کہلاتے ہیں۔
کرومائٹ (Chromite) :مسلم باغ اور خضدار ، لس بیلہ کے علاقے میں ملتا ہے مگر ذخائر محدود ہیں ۔ مسلم باغ میں اس کی چھوٹے پیمانے پر کام کنی بھی ہوتی رہی ہے۔ وقتاً فوقتاً۔
تانبا(Copper) : چاغی میں سیندک اور ریکوڈک جیسے مقامات پر اس کے بڑے ذخائر ہیں جن کے تخمینے پانچ بلین ٹن سے بڑھ کر یا کہیں بڑھ کر بتائے جاتے ہیں۔ یہ غیر ملکی کمپنیوں کے بڑے پراجیکٹ ہیں جن پر ہم آگے چل کر مزید باتیں کریں گے۔
سیسہ اور جست (Lead and Zinc) :خضدار اور لس بیلہ کے علاقوں میں ان کے کم وبیش ۶۰ ملین ٹن سے زیادہ ذخائر موجود ہیں۔ جنوبی کیرتھر بیلٹ کے علاقے دودّر میں بھی کوئی دس ملین ٹن کا ذخیرہ ملا ہے ۔
لوہا (Iron) : چاغی میں آتش فشانی چٹانوں میں ملا جلا لوہا بھی کوئی ا یک سو ملین ٹن کے لگ بھگ ہے اور زیادہ بھی ہوسکتاہے۔
سونا : چاغی میں سیندک اور ریکوڈک کے مقام پر مناسب مقدار میں ہے۔ چاغی میں چاندی ، مولی بڈنم (Molybdenum) ، یورینیم اور ٹنگسٹن (Tungsten) بھی کچھ مقدار میں ہے۔
پلاٹینم (Platinum) : مسلم باغ ، ژوب ، خضدار اور لس بیلہ کے علاقوں میں موجود ہے۔ تفصیل سے کام نہیں ہوا ہے اس پر ۔
ٹائی ٹینیم اور ذِرکن (Titanium & Zircon): یہ مکران کی ریت میں پائے گئے ہیں۔ مکران اور سیاہان کے علاقے میں اینٹی منی (Antimony) اور سونا چاندی بھی کچھ ملا تھا۔
غیر دھاتی منرلز :
ایلم (Alum) : یہ مغربی چاغی میں کو ہ سلطان آتشِ فشاں پہاڑ سے نکلتا ہے اور رنگسازی اور چمڑے کی صنعت میں کام آتا ہے۔
ایس بسٹاس (Asbistos): ژوب سے نکلتا ہے۔
بیرائٹ(Barite) : کو ہ سلطان ، چاغی ، لس بیلہ اور خضدار کے علاقوں سے نکلتا ہے۔ رنگوں اور ڈرلنگ کمپاؤنڈز بنانے میں کام آتا ہے۔
فلورائیٹ (Fluorite) : قلات میں دِلبند[دال بندین؟] اور آس پاس کے علاقوں میں اچھے ذخائر ہیں ۔ اس کی ابتدائی تحقیقات میں پروفیسر ڈاکٹر اقبال محسن اور راقم الحروف کا بھی کام ہے جو ۱۹۷۴ء میں جی ایس پی نے ہی چھاپا تھا۔ ہم دونوں نے لس بیلہ کے بیرائٹ پر بھی ۸۰۔۱۹۷۹ء کے لگ بھگ کام کیا تھا۔ یہ بھی چھپ چکا ہے۔
جپسم (Gypsum) : یہ اسپن تنگی، ہرنائی اور چم لانگ کی طرف ملتا ہے۔
چونے کا پتھر (Limestone) : بلوچستان میں بھرا پڑا ہے۔ ذخائر پانچ بلین ٹن کے اندازوں سے کہیں زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ سیمنٹ بنانے میں کام آتا ہے۔ دکی ، بارکھان ،کوئٹہ ، ہرنائی ، شاہرگ ، خضدار ، قلات اور لس بیلہ کے علاقوں میں بھرپور ملتا ہے۔
ڈولومائٹ (Dolomite) : قلات اور خضدار میں لائم سٹون کے ساتھ ملتا ہے۔
سجاوٹی پتھر: جیسے ماربل (Marble) ،آنکس (Onyx) ، سرپینٹین (Serpentine) ، گرینائٹ (Granite) ، ڈائیورائٹ (Diorite) گیبرو (Gabbro) ، بسالٹ (Basalt), رائیو لائٹ (Rhyolite) اور کوارٹزائٹ (Quartzite) بلوچستان میں چاغی، خضدار ، لس بیلہ کی طرف بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ لس بیلہ کے سجاوٹی پتھروں میں سربینٹین ، پکچر مارل سٹون، ریفل (Reefal) ، لائم اسٹون ، ماربل اور کئی قسموں کا فریکچرڈ لائم اسٹون مقبول ہیں اور کراچی کی کاٹج انڈسٹری کو سپلائی ہوتے ہیں جہاں ان سے فرش کے اور دیواروں کے لیے ٹائلز اور آرائشی برتن وغیرہ بنا کر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔
ابریسوِز (Abrasives) :یہ وہ سخت قسم کے منرلز ہوتے ہیں جن کی مدد سے دوسرے منرلز کو، جو نسبتاً نرم ہوتے ہیں ، کاٹا جاتا ہے اور پالش کیا جاتا ہے۔ مثلا گارنٹ (Garnet) ، پامس (Pumice) ،پارلائٹ (Parlite) اور بسالٹ (Basalt) وغیرہ۔ یہ سب چاغی کے علاقے میں دستیاب ہیں اور کچھ ژوب کی طرف۔
نمکیات (Salts) : اس مد میں ہم بوریکس (Borax) ، بوریٹس (Borates) اور سلفائڈ اور کاربونیٹس (Carbonates) کا نام لے سکتے ہیں، جو چاغی، لس بیلہ ، پنجگور اور مکران کی طرف ملتے ہیں جہاں نمک بھی ہوتا ہے۔
گندھک : چاغی میں اور کچھی ڈسٹرکٹ میں ملتی ہے۔
فرٹیلائزر ( Fertilizers): پوٹا شیم چاغی اور کچھی ڈسٹرکٹ میں، نائٹریٹ چاغی میں اور فاسفیٹ بولان پاس کے علاقے میں ملتا ہے۔ میگنیشیم خضدار ، قلات ، مسلم باغ اور ژوب کے علاقوں میں ہوتا ہے۔
رنگ سازی کی مد میں -- ذرد آکر (Ochre) زیارت، ڈسٹرکٹ میں ملتا ہے اور ٹالک (Talc) زیارت مسلم باغ کی طرف ۔
میگنی سائٹ (Magnesite) :ژوب ، مسلم باغ اور لس بیلہ کے علاقوں کی آتشی چٹانوں کے ساتھ ملتا ہے ، جن کے لاولے کے ساتھ مینگنیز (Manganese) بھی ملتا ہے۔
سیلسٹایٹ (Celestite) : یہ کوہلو ، ڈیرہ بگٹی ، بارکھان اور لورالائی کی طرف پایا جاتا ہے۔
جم سٹونز (Gemstones) : بلوچستان میں اتنے اچھے جم اسٹونز نہیں جیسے شمالی پاکستان میں ہیں۔ قابل ذکر پتھر یہ ہیں : گارنٹ (Garnet) وغیرہ ، سفید اور ہراکوارٹز (Quartz) جسے بلّور یا سنگ مردار بھی کہا گیا ہے۔ اقسام کے عقیق (Agates) ، فیروزہ (Turquoise) ،کری سوکولا (Chrysocolla) ، مالاکائٹ (Malachite) ، ذِرکن (Zircon) ، جیڈ (Jade) ،جاسپر (Jasper) ، لاپس لزولی(Lapis Lazuli) یعنی لاجورد وغیرہ ۔سٹ رین (Citrine) ، آئیڈوکریز (Idocrase) ،کرسوپریز (Chrysoprase) اور ایمی تھسٹ (Amethyst) وغیرہ بھی ملتے ہیں مگر کوالٹی اور مقدار کا انداز کم ہے۔
بلوچستان میں سلی کا سینڈ (Silica Sand) بھی ملتی ہے اور سرمہ (Stibnite= Antimony Sulphide) بھی چمن فالٹ کے ساتھ کچھ ملا تھا۔ مندرجہ بالا تمام منرلز پر کم وبیش ابھی مزید کام کی ضرورت ہے اور تازہ ترین ذخائر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے جی ایس پی سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
یہاں ہم بلوچستان کے کوئلے ، تیل اور گیس کے ذخائر کا ذکر کرتے چلیں ،جن پر تفصیلی گفتگو کسی دوسرے مضمون میں ہوگی۔ بلوچستان میں تیل کم اور روایتی (Conventional) گیس کے ذخائر زیادہ ہیں مگر ایسے آثار ہیں کہ غیر روایتی گیس (Unconventional Gas) کے ذخائر بھی بڑی مقدار میں مل سکتے ہیں۔ جیسے غازج شیل (Ghazij Shale) قدرتی گیس سے بھرا ہوسکتا ہے اور بہت سی شیل فارمیشنز ہیں ، بلوچستان میں اور بقیہ پاکستان میں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان سے گیس نکال کر ملکی توانائی کا مسئلہ حل نہ کرسکیں۔ بشرطیکہ ہم پوری تندہی اور ایمانداری سے اپنا فرض ادا کریں۔ تیل اور گیس کے سلسلے میں اگر کسی کو دلچسپی ہو تو ان باتوں کو اور آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ راقم الحروف بھی ایک کنسلٹنگ جیولوجسٹ ہے۔ توانائی کے سلسلے میں بلوچستان کے کوئلے کا ذکر بھی واجب ہے، جو بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جی ایس پی کے مطابق ، کوئٹہ ، مچھ ، شاہرگ اور اسپن کاریز کے اطراف میں کوئی ۲۱۷ ملین ٹن کوئلہ موجود ہے اور پاکستان کا ۶۰ فی صد کوئلہ بلوچستان پیدا کرتا ہے ۔یہ کوئلہ زیادہ تر صوبے سے باہر اینٹوں کے بھٹوں میں جلایا جاتا ہے۔
جاری ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
یہاں تک پڑھنے والوں کو یہ احساس ہوچلا ہوگا کہ بلوچستان میں طرح طرح کے منرلز پائے توجاتے ہیں مگر سوائے چند ایک کے جیسے تانبا اور لوہا، بڑی مقدار کے ذخائر کے ثبوت کے لیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے بیرائٹ ، فلورائٹ ، سیسہ اور جست (Lead & Zinc) کے بڑے ممکنہ ذخائر موجود ہوسکتے ہیں مگر میری رائے میں ابھی اور تفصیلی نقشہ بندی اور تحقیقات کی ضرورت ہے۔ قلات سے لس بیلہ تک کی کیرتھر بلٹ میں جیوراسک (Jurassic) زمانے کی( کوئی ۲۰ کروڑ برس پرانی)کاربونیٹ چٹانوں میں جو فلورائٹ ، بیرائٹ ، لیڈ اور زنک کے ذخائر ملے ہیں وہ از قسم مسی سیپی وادی یعنی (Mississippi valley type) کہلاتے ہیں۔ ان کی جغرافیائی زوننگ(Zoning) کچھ یوں لگتی ہے کہ قلات کی طرف فلورائٹ ملتا ہے اور لس بیلہ کی طرف بیرائٹ ، لیڈ اور زنک۔ سوال یہ ہے کہ قلات سے شمال کی طرف کوئٹہ ، مسلم باغ اور ژوب کی اسی عمر اور قسم کی چٹانوں میں کیا ہے اور کتنی مقدار میں ہے اور اگر نہیں ہے تو کیا وجوہات ہیں۔ موجودہ ذخائر کے تازہ ترین نمبروں کے لیے GSP سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
کچھ مسائل کے بارے میں :
بلوچستان میں معدنی وسائل کی تحقیقات اور تلاش میں ہمیشہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ ایک تو علاقہ ہی بنجر ، بیابان ، پہاڑی ، صحرائی اور وسیع وعریض ہے جہاں سڑکوں کا کال تھا اور قبائلی سرداروں کی رضا مندی ودوستی کہیں حاصل تھی اور کہیں نہیں۔ پاکستان میں جی ایس پی کے قیام سے لے کر آج تک قبائلی مسائل اور سرکاری (فوجی) قبائلی جھگڑوں نے بہت نقصان کیا ہے، ملک وقوم کا ۔ معصوم جانوں کا زیاں ہوا ہے اور جیولوجسٹ بھی اس کا شکار ہوئے ہیں۔
راقم الحروف کی جیپ پر بھی لس بیلہ خضدار کے علاقے میں فائرنگ ہوئی تھی۔ یہ ۸۰۔ ۱۹۷۷ء کا زمانہ تھا جب اس علاقے میں فوجی کارروائی جاری تھی۔ سفلی سیاست اور فوجی مداخلتوں نے صوبائی اور ملکی حالات کو اس قابل نہ ہونے دیا کہ سکون سے کوئی تعمیری کام کیا جاسکتا۔ آج کے حالات گلوبل جیوپالی ٹکس کی وجہ سے بھی مزید ابتر ہیں۔ میرا اشارہ مغربی ممالک کی حالیہ افغانی مہم ، ایران کی حلقہ بندی اور پاکستان میں پرلے درجے کی ریشہ دوانیوں کی طرف ہے۔ یہ پاکستانی اور ایرانی بلوچستان کو کاٹ کر ایک علیحدہ ریاست بنانے کی سازش ہے، جو کویت اور سعودی عرب کی طرح مغربی طاقتوں کی پٹھو ہوگی اور جہاں سے مزید وسائل مغرب کے ہاتھ آئیں۔ ایسے حالات میں بلوچستان میں فیلڈ میں کام کرنا اور زندہ رہنا بے حد مشکل ہوگیا ہے۔ جب پولیس والے اور فرنٹےئر کور کے جوان دہشت گردی کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں تو بے چارہ غیر مسلح جیولوجسٹ کیسے بچ سکتا ہے اور ایسے حالات میں کیا کام ہوسکتا ہے۔ قصہ مختصر، امن وامان قائم کیے بغیر کوئی سنجیدہ کام نہیں ہوسکتا۔
اس صدی میں ہم لوگ وسائل کی اس سردجنگ کا شکار بھی ہورہے ہیں جو آج کل دنیا بھر میں قدرتی وسائل کے حصول اور بھرپور کنٹرول کے لیے لڑی جارہی ہے۔ اس کے فریقین مشرق ومغرب کی بڑی طاقتیں ہیں۔ ہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملک کو تیل ، گیس اور کوئلے کے علاوہ صنعتی دھاتوں اور غیر دھاتوں کی ضرورت ہے۔ روس اور برازیل قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں مگر چین اور بھارت اپنی بڑی آبادیوں کی وجہ سے وسائل رکھنے کے باوجود ضرورت مند ہیں اور ایشیاء کے دوسرے ممالک میں ، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں وسائل ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف مغربی طاقتیں اپنے روایتی ہتھکنڈوں سے اپنا اثرورسوخ اور سیاسی ومعاشی کنٹرول بڑھانے کی تگ ودو میں لگی رہتی ہیں۔ اس سرد جنگ میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک دونوں طرف کی کھینچا تانی کا شکار ہوتے ہیں۔ افریقہ ، افغانستان اور دنیائے عرب پر مغرب کی یلغار عرصے سے جاری ہے اور ہماری گوادر کی بندر گاہ کی تعمیر اور اندرون ایشیاء کو جاتی ، پھلتی پھولتی تجارتی سڑکوں کے خواب ، سبھی اس جیوپالی ٹکس کا شکار نظر آتے ہیں۔ اسی رنگ میں آپ ایران کے خلاف محاذ آرائی اور بلوچستان کو کاٹنے کی ڈھکی چھپی اور کھلی کوششوں کو بھی رنگ سکتے ہیں۔ بلوچستان کی علیحدہ ریاست پاکستان اور ایران کو موجودہ حالت میں ختم کر کے ہی قائم کی جاسکتی ہے اور اس طرح سے افغانی خزانوں اور بلوچستان کے وسائل کو سمندری راستے سے نکالا جاسکتا ہے۔ مرکزی ایشیاء اور اردگرد کے سارے ممالک کو ہر طرح سے حسب ضرورت الجھایا جاسکتاہے۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد اہل مغرب نے عرب دنیا میں جو بندر بانٹ مچائی تھی اور نئی ریاستیں تشکیل دی تھیں، ان کا خمیازہ اس علاقے کے مسلمان پچھلے نوے برس سے بھگت رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلمان اور دوسری ایشیائی طاقتیں کیا بلوچستان میں ہونے والے کھیل کو روک سکتی ہیں، یا نہیں ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال ہے اور صرف ہم ہی اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں ، کوئی دوسر ا نہیں۔ یہ مسئلہ سارے ایشیاء کا ہے مگر پہلے ہمارا ہے۔
تعلیم اور تکنیکی ٹریننگ :
اس حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں ارضیاتی اور ماحولیاتی تعلیم (Earth Sciences and Environmental Science) پرائمری درجہ سے شروع کی جائے اور مڈل سے ہائی اسکول پہنچتے ہوئے بچوں کو اپنے وسائل اور ماحولیات کا خوب اندازہ ہوجانا چاہیے۔آج کی دنیا میں، جب دنیا کی آبادی سات بلین سے آگے جا رہی ہے، یہ علم اور احساس پیدا ہونا بے حد ضروری ہے۔
اس کے علاوہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ارضیاتی مائیننگ اور ماحولیاتی نصاب کا سٹینڈرڈ اور بلند کیا جائے۔ پاکستانی اور غیر ملکی تعلیمی اداروں کے باہم روابط اور تبادلوں سے ہم اپنا معیار بلند کرسکتے ہیں۔ اسی طرح تعلیم کے دوران ہمیں اپنے طلبا کی ٹریننگ کا بندوبست متعلقہ انڈسٹری کے تعاون سے کروانا چاہیے۔ اپرنٹس شپ اور’کام پر ٹریننگ‘ کا کوئی بدل نہیں۔ امریکہ میں طلبا تعلیم کے دوران ٹریننگ کے لیے اپنی مرضی کی کمپنیوں میں (Internship)کے لیے جاتے ہیں اور چند ماہ زندگی کے حقیقی مسائل پر کام کرتے ہیں۔ اس طرح بہت سی کمپنیاں بعد میں تعلیم پوری ہونے پر انھیں جاب آفر دے دیتی ہیں اور اس طرح روزگار کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔
بلوچستان میں سیندک اور ریکوڈک جیسے پراجیکٹس سے قطع نظر پاکستانی مائننگ انڈسٹری چھوٹے پیمانے پر گڑھے ، سرنگیں، نالیاں اور کواریاں کھودنے پر مشتمل ہے (یہاں کوئلے کی کانوں کی بات ہم نہیں کر رہے ہیں) ۔ایسے کاموں میں ماہر فن افراد کا کال ہے اور مالی فنڈنگ اور ٹیکنالوجی کمیاب یا نایاب ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سیندک اور ریکوڈک جیسے پراجیکٹس کے ذریعے ہم لوگوں کو روزگار اور سرکار کو آمدنی فراہم کریں اور ساتھ ساتھ تکنیکی مہارت اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر بھی کروائیں، تاکہ آگے چل کر خود کفیل ہواجاسکے۔
فنونِ لطیفہ کے خلاف منفی تعصبات کا خاتمہ :
اس مد میں وہ تمام باتیں آتی ہیں جن کی وجہ سے رقص وموسیقی ، گائیکی ، ڈرامہ، آرٹ،پینٹنگ ، تھیٹر، فلم اور بت تراشی میں مسلمانوں نے عموماً اور جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں نے خصوصاً اپنے آپ کو بالکل مفلوج کر رکھا ہے۔ میں یہاں کسی بحث میں پڑے بغیر صرف اتنا کہوں گا کہ انہی چیزوں سے انسان کی زندگی میں رنگ ہے اور خوبصورتی اور خوشگواری آتی ہے۔ روایتی تنگ نظری اور مذہبی تعصبات کی وجہ سے ہم نے سنگتراشی کو گل کاری اورجالی کے کام تک ہی محدود رکھا جیسا کہ مغلیہ دور کی عظیم الشان عمارتوں کے کام سے ظاہر ہے۔ اس کے برعکس ہند، چین ، روس اور مغربی دنیا میں آرٹ اور سنگتراشی کے فنون کو عروج پر پہنچایا گیا ۔ اٹلی میں مائیکل انجیلو جیسے اساتذہ نے سنگتراشی میں انسانی جسم کو سنگ مر مر میں ڈھالنے میں حرف آخر کہا ۔ کہتے ہیں کہ جب اس نے حضرت داؤد ؑ کا سنگ مر مر کا مجسمہ مکمل کیا تھا تو وہ اپنے فن پر اس قدر نازاں تھا کہ اپنے تخلیق شدہ مجسمے کے گھٹنے پر ہولے سے ہتھوڑا رکھ کر اس نے کہا تھا کہ ’’ اب بول ‘‘ ۔یہ شاہکار اٹلی میں آج بھی دیکھا جاسکتا ہے اور اس کا حسن لازوال معلوم ہوتا ہے۔
جاری ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
بلوچستان کے خوبصورت پتھر جیسے چاغی کا آنکس (Onyx) ماربل اور لس بیلہ کی سبز اور لال سرپنٹین (Serpentine) جیسے شاندار پتھروں کو تراشنا پاکستان میں کسی کو نہیں آتا۔ کراچی میں جولوگ اس سے برتن ، ظروف اور اینڈے بینڈے جانور تراشتے ہیں وہ فن کاری نہیں جانتے ۔ یہی پتھر جب چین اور اٹلی جا کر تراشے جاتے ہیں تو انسان سبحان اللہ کہہ اٹھتا ہے۔ کاش اگر ہم خام پتھر باہر بھیجنے کے بجائے اسے دیدہ زیب برتنوں، مجسموں او رسجاوٹی اشیا میں تراش کر باہر کے ملکوں کو بھیجنے کے قابل ہوجائیں تو کس قدر منافع ہو۔ حال ہی میں کوئٹہ میں ایک پتھر تراشی سکھانے کا ادارہ قائم تو ہوا ہے مگر ہنوز دلی دور است، اور سچی بات تو یہ ہے کہ ابھی تو شکار پور بھی نہیں آیا ہے۔
اسی طرح اگر ہم اپنے جم اسٹونز (Gemstones) کو بھی تراش کر باہر بھیجیں تو خوب زرمبادلہ کماسکتے ہیں۔ یہ صنعت بھی پاکستان میں ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ پشاور اور کوئٹہ میں کچھ ٹریننگ کے ادارے پیدا تو ہوئے ہیں مگر ایک عمر چاہیے اس دشت کی سیاحی کے لیے۔ پتھر کاٹنے ، تراشنے اور پالش کرنے کا فن سکھانے کے لیے ابھی تو ڈھنگ کے اساتذہ بھی ایک اچھی تعداد میں پیدا کرنے کا کام وقت طلب ہے۔ GSP اس ٹریننگ میں بھی کچھ کردار ادا کر رہا ہے۔ کوئٹہ میں اس صنعت کو ترقی دے کر ہم اپنے جم اسٹونز سے جیولری، مینوفیکچرنگ سنٹر اور ڈیزائنگ سنٹر بنا کر تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ان کاموں سے پہلے تو ہمیں امن وامان کا مسئلہ حل کر کے مائننگ کو بھی جدید طرز پر لانا ہوگا۔ ایسے ضوابط کو لاگو کروانا چاہیے جن کی روسے کسی غیر کوالیفائڈ فرد کو ایکسپلوریشن اور مائننگ کی ٹریننگ لیے بغیر لائسنس نہ دئیے جائیں کیونکہ ایسے لوگ صحیح کام نہیں کرپائیں گے اور وسائل کا نقصان ہوگا۔ یہ سیفٹی (Safety) کے لیے بھی اچھی بات نہیں۔ ایسے لوگ ہی مزدوروں سے کچے گڑھے کھدواتے ہیں جن کی دیواریں گر جاتی ہیں اور ایسی سرنگیں لگواتے ہیں جو بیٹھ جاتی ہیں اور جانی نقصان ہوتا ہے۔ ایکسپلوریشن اور مائننگ کے لائسنس اور پرمٹ کے حصول میں کرپشن اور رشوت بھی ایک لعنت ہے جو غلط کام کرواتی ہے۔
قصہ مختصر، ہمیں ہر شعبے کو اوپر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ارضیاتی اور مائننگ انجینئرنگ کی تعلیم کو سنوارنا ہوگا ۔ارضیاتی سروے ، تفصیلی نقشہ بندی (Detailed Mapping) ،جیوفزیکل اور جیو کیمیکل سروے (Geophysical & Geochemical Survey) جہاں جہاں بھی ضروری ہوں، کرنے ہوں گے اور اس قسم کا سارا مواد (Data) خواہشمند اور کوالیفائیڈ لوگوں کو فراہم کروانا ہوگا۔ اسی طرح بہتر مالی فنڈنگ اور بینکنگ کی سہولیات بھی پیدا کرنی ہوں گی۔ ان کاموں کے لیے سالہا سال تک سنجیدہ کوششوں اور بے لوث محنت کی ضرورت ہے، جو ہم کو ہی کرنی ہوں گی۔ کوئی اور نہیں کرے گا ہمارے لیے ۔ کیا ہم تیار ہیں اس کے لیے۔
کہانی ریکوڈک کی اور اس سے سبق سیکھنے کی :
ریکوڈک کی کہانی کچھ اس طرح شر وع ہوتی ہے کہ جولائی ۱۹۹۳ء میں بلوچستان سرکار کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ایک دیوزاد آسٹریلوی ایکسپلوریشن اور مائننگ کمپنی بی ایچ پی (BHP) نے چاغی کے علاقے میں کام شروع کیا تھا۔ ۲۰۰۰ء کے لگ بھگ دونوں پارٹیوں کے درمیان ایک جائنٹ وینچر (Joint Venture) کے معاہدے کے تحتBHP کا حصہ۷۵ فیصد اور بلوچستان سرکار کا حصہ ۲۵ فی صد تھا۔ بعدازاں ، بوجوہ BHP اپنا حصہ ٹیتھین کاپر کمپنی(Tethyan Copper Company) کو دے کرنکل گئی، جو ایک کینیڈین دیوزاد کمپنی (Barrick Gold) اور ایک چلی کی کمپنی انٹافگاسٹا (Antafagasta) کا جائنٹ وینچر ہے۔ جس کو ہم TCC کہیں گے۔ TCC نے اپنی جیب سے ۴۰۶ ملین ڈالر لگا کر پندرہ بیس سال کی محنت کے بعد اپنی فیزیبلٹی رپورٹ بنائی جس کے مطابق ریکوڈک کے مقام پر ،جو مغربی چاغی میں واقع ہے، تانبے اور سونے کے ذخائر موجود ہیں جن کا تخمینہ یوں ہے کہ تانبا ۳ء۱۲ ملین ٹن اور سونا ۲۱ ملین اونس ہے۔ یہ بھی سنا گیا کہ ریکوڈک کے ایک دوسرے مقام پرH14-15 نام کے ڈیپازٹ میں ۱۸ ملین ٹن تانبا اور ۳۲ ملین اونس سونا اس کے علاوہ ہے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ TCC نے خیانت کی ہے اور اصل ذخائر اس مقدار سے بدر جہا بہتر ہیں، جو سرکار کو بتائے گئے ہیں جو عین ممکن ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ذخائر بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں اور ’مقصد ‘کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔ کوئی ایک تخمینہ نہیں ہوتا ۔یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ، اوردکھانے کے اور ہوتے ہیں، ویسے ہی مقدار کے اندازے (Reserves Calculation) بھی ہوتے ہیں۔ ایک اندازہ وہ ہوتا ہے جس کے تحت کمپنی اپنی امیدیں لے کے ایک علاقے میں بغرض تلاش جاتی ہے ، ایک اندازہ وہ ہوتا ہے جو Investers کو دکھایا جاتا ہے، یا کسی اور کمپنی کے ساتھ ساجھے داری (Joint Venture) بنانے کے لیے ہوتا ہے ، ایک اندازہ وہ ہوتا ہے جو سرکار کو دکھایا جاتا ہے۔اور’’ اگر کچھ مل جائے‘‘ تو ایک تخمینہ وہ بھی ہوتا ہے جو اسٹاک مارکیٹ کو بتایا جاتا ہے ۔ ان تمام مقاصد میں’ کاروباری مصلحت‘ ہوتی ہے، خیانت کا ہونا ضروری نہیں ہے اور پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ کمپنی نے غلط اندازے لگائے اور چھوڑ کر بھاگ گئی کہ یہاں کچھ نہیں ہے اور بعدازاں کسی اور کمپنی نے اسی جگہ سے قارُون کا خزانہ ڈھونڈ نکالا۔
یہاں یہ بات یادر کھنی چاہیے کہ آج بھی انسان اپنی تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود زمین کی تہوں میں پوشیدہ وسائل کے اندازے لگا تو سکتا ہے مگر ان کا صحیح ہونا ضروری نہیں ہے۔ کچھ اندازے بہتر ہوتے ہیں اور کچھ بدتر۔ راقم الحروف امریکہ میں دیوزاد تیل کمپنیوں کے ساتھ اپنے تیس سالہ تجربات کی بنا پر یہ باتیں لکھ سکتا ہے۔
؂ہوتا ہے شب روز تماشہ مِرے آگے
اور یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک کمپنی اپنے اندازوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی کرتی ہے۔ اس لیے کہ اسے مزید معلومات ہوتی رہتی ہیں۔ جیسے جیسے کام آگے بڑھتا ہے۔ TCC کی ویب سائٹ پر آپ دیکھیں تو ریکوڈک کے ذخائر یہ ہیں :۹ء۵ بلین ٹن اور (Ore) میں تانبا۴ء۰ فیصد اور سونا۲۲ء۰گرام فی ٹن ہے۔ جس سے سالانہ دو لاکھ ٹن تانبا اور ڈھائی لاکھ اونس سونا نکلے گا۔ یہ پراجیکٹ۵۶ سال چلے گا اور ۳ء۳ بلین ڈالروں کا خرچہ ہوگا۔ اس سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔ تو اندازے اتنے منجمد بھی نہیں ہوتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں۔ بہتری کی طرف یا بدتری کی طرف۔ ہاں، ایک بات یہ ہے کہ سرکار کو رائلٹی دینے کی بات جب آتی ہے تو اندازے بہت مختلف ہوسکتے ہیں، اصل سے۔ امریکہ میں بھی سرکار کے ساتھ یہی ہوتا ہے اور قریباً دنیا کے ہر ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ تو آئیے پھر ریکوڈک کی طرف ۔
TCC سے ذخائر کے نمبر ملنے کے بعد بلوچستان سرکار کو یہ احساس ہوچلا کہ انھوں نے گھاٹے کا سودا کرلیا تھا اور ان کو ۲۵ فی صد سے زیادہ حصہ ملنا چاہیے تھے۔نیز یہ کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔لہٰذا بھروسہ نہیں رہا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم میں بذاتِ خود اتنی علمی اور تکنیکی اہلیت ہو کہ ہم اپنے قدرتی وسائل کی نقشہ بندی اور سمجھ کے بعد اس قابل ہوں کہ ذخائر کا خود اندازہ لگا سکیں اور جب بیرونی سرمایہ کاروں اور بڑی مائننگ کمپنیوں سے جائنٹ وینچر کی بات کریں تو اپنی زمین کی دولت کے اچھے اندازے کے ساتھ ۔علم سے جب اعتماد حاصل ہو تو دھوکہ کھانے کا امکان گھٹ جاتاہے۔د وسری بات یہ ہے کہ اگر ہم خود اتنے اہل نہ بھی ہوں تو آج کی دنیا میں ہر قسم کا مشیر اور ماہر (Consultant) دستیاب ہے جو کرائے پر کام کرتا ہے اور آپ کی پوری مدد کرسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے بھی کچھ جانکاری ضروری ہے۔ ہم جیسے جلا وطن بھی مٹی کی محبت میں بہت کچھ کرسکتے ہیں مگر ہمیں وہی بلائے جو صحیح کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔
بلوچستان سرکار کی بڑبراہٹ سن کر سیندک پر کام کرنے والی چینی کمپنیMCC نے ۲۰۱۰ء میں بلوچستان سرکار کو ایک آفر بھی دے دی ، جو ایک اخباری اطلاع کے مطابق یہ تھی کہ اگرMCC کوریکوڈک کا پراجیکٹ دے دیا جائے تو وہ سرکار کو نہ صرف ۲۵ فی صد آمدنی میں حصہ دے گی بلکہ ۵ فی صد رائلٹی بھی اداکرے گی۔ بلوچستان سرکارنے اسی دوران TCC کی مائننگ لیز نومبر ۲۰۱۱ء میں معطل کردی۔ اس حرکت پر TCC نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے انٹرنیشنل آربی ٹریشن (International Arbitration) کادروازہ کھٹکھٹایا اور درخواست دائر کردی ہے۔ اب یہ کھچڑی وہاں پک رہی ہے اور کوئی فیصلہ ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔
ادھر معاملہ یاروں نے پاکستان سپریم کورٹ تک بھی پہنچادیا اور کورٹ نے سرکار کی حمایت دکھائی۔ بلوچستان سرکار اور TCCکو یہ معاملہ آپس میں خود ہی طے کرلینا چاہیے ،TCCاپنے معاہدوں کی پابندی کر کے ریکوڈک کے پراجیکٹ کو آگے لے جانا چاہتی ہے اور مائننگ شروع کر کے بلوچستان اور پاکستان کو اکیسویں صدی کے جدید دور میں لانا چاہتی ہے،جو یقیناًہمارے لیے ایک انقلابی قدم ہوگا۔
دوسری طرف بلوچستان سرکار بزعمِ خود یہ کام شروع کر کے ایک ریفائنری بھی بنانے کا قصد کرتی نظر آتی ہے۔ ڈان اخبار کے مطابق سرکار نے ۱۲۰ بلین روپوں کی رقم بھی رکھی ہے اس کارخیر کے واسطے۔ رہی بات علمی اور تکنیکی مہارت اورمشینوں اور ٹیکنالوجی ،کی جو اتنے بڑے کاموں کے لیے چاہئیں۔ تو وہ کہاں۔۔۔ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔۔۔، مگر کچھ لوگ مطمئن نظر آتے ہیں جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ مثلاً پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ۲۰۱۰ء میں پاکستان سپریم کورٹ میں کچھ ایسی بات کی کہ اگر پاکستان ریکوڈک کو خود مائن کرے اور تانبے اور سونے کو رفائن کرے تو وہ دوبلین ڈالر سالانہ کماسکتا ہے، اور اگر خود نہ کرے تو فقط۱۶۰ ملین ڈالر کی رائیلٹی ہی ملے گی۔ شاید وہ جانتے ہوں کہ پاکستان اتنا بڑا اور دقیق پراجیکٹ خود کرنے کا اہل ہے(اگر ایسا ہے تو ان کے منہ میں گھی شکر ) ۔
یہاں میرے لیے اپنے بزرگ اور محترم ماہر ارضیات ڈاکٹر صبیح الدین بلگرامی کا ذکر بھی لازم ہے، جو ایک کمپنی (Resources Development Corp.) کے ریٹائرڈ چےئرمین ہیں۔ انھوں نے بلوچستان میں مسلم باغ کے کرومائیٹ کی تحقیقات ، ریسرچ اور مائننگ میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ بلگرامی صاحب اپنے تجربات کی بناء پر یہ نصیحت دے چکے ہیں کہ ریکوڈک کے حوالے سے TCC کی رپورٹس کو چیک کرنے کے لیے انٹرنیشنل ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں کیونکہ ایسی مہارت پاکستان میں حاصل نہیں۔ اس کے بعد TCC سے ہی یا کسی اور سے یہ کام کروایا جائے اور قومی حقوق کی حفاظت کی ضمانت کے ساتھ۔ بیچ اس مسئلے کے ’ راقم الحروف کی رائے یہ ہے کہ سرکار کو اپنے معاہدوں کا پابند ہونا چاہیے ، ورنہ، ملک وقوم کی بدنامی ہوتی ہے اور دنیا بھر کے سرمایہ کاروں اور چھوٹی بڑی ایکسپلوریشن اور مائننگ کمپنیوں کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ آپ سے کیے ہوئے معاہدوں کی کوئی وقعت نہیں اور ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ نتیجتاً دنیا کا سرمایہ کہیں اور چلا جائے گا ، پاکستان نہیں آئے گا۔ تو اے میری پیاری بلوچستان کی سرکار، TCC سے مذاکرات کر کے ہی کوئی حل ڈھونڈلے ۔ اس کمپنی نے اپنے ۲۰ برس اور۴۰۶ ملین ڈالر اِنوسٹ کیے ہیں۔ ریکوڈک اکیلا نہیں ہوگا۔۔۔ اور بھی ایسے بڑے ذخائر ہوں گے جن پر اپنے لیے بہتر شرائط منوانا اور لکھوانا ۔ ریکوڈک کو آگے جانے دو ، مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے دروازے کھول دو اور یہ سارا علم اور تکنیک سیکھو۔ ٹیکنالوجی بھی ٹرانسفر کرو۔ ریکوڈک سے یہ سارے سبق سیکھو۔
ماضی میں ہمیں پاکستان سے بڑی تیل کمپنیوں کی رخصتی کی وجوہات کا سبق بھی یاد رکھنا چاہیے۔ اگر وہ رہ جاتیں توآج ہمارے ہاں سے بھی اتنا تیل اور گیس نکل رہا ہوتا کہ ضرورت کو کافی ہوتا ۔یا ددہانی کے لیے یہاں اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ شیل (Shell) ، آکسی (Oxy) اور اموکو (Amoco) جیسی بڑی آئل کمپنیاں پاکستان سے انیس سو اسی اورنوے کی دہائی میں رخصت ہوگئی تھیں۔ وجوہات میں آپریٹنگ کنٹریکس کی شرائط ، سرکاری وسیاسی جوار بھاٹا ، غیر مستقل حالات اور قبائلی مشکلات وغیرہ شامل تھیں۔ حالات کی وجہ سے ہی میں خود ۲۰۰۹ء میں Conoco Phillips کو آمادہ نہ کرسکا کہ وہ پاکستان جائے۔ وہ دہشت گردی سے ڈر کے بنگلہ دیش چلے گئے ۔
جاری ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
پاکستان میں آج بھی کوئی ساٹھ ہزار بیرل تیل روزانہ نکلتا ہے جبکہ ضرورت اس سے پندرہ بیس گنا زیادہ کی ہے۔ اسی طرح گیس بھی ضرورت سے بہت کم نکلتی ہے جبکہ مزید نکالی جاسکتی ہے۔ مگر بوجوہ ایسانہیں ہورہا۔ اپنے وسائل ڈھونڈنے کے بجائے ہم ایران اور ترکمانستان کی گیس پائپ لائن بچھا کر لانے کے چکروں اور جیوپالی ٹکس کا شکار ہورہے ہیں۔ اس اثناء میں ہماری صنعتوں کا دیوالیہ نکل رہا ہے اور نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہماری مائیں ،بہنیں اور بچے کھانا پکانے کے لیے گیس کو ترس رہے ہیں ۔ لوگ سردی سے مر رہے ہیں اور گیس غائب ہے اوربجلی بھی ۔ دل روتا ہے یہ سب دیکھ کر ، خدا کی پناہ !
ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ بڑی انٹرنیشنل کمپنیوں کو پاکستان کے علاوہ اور بہت سے آپشنز ہیں جو انھیں بہتر نظر آتے ہیں۔ سیندک کے پراجیکٹ کو کئی کمپنیوں نے دیکھا ، جانچا اور بات نہیں بنی۔ کبھی یہ سنا کہ پانی نہیں ہے وہاں اور ذخائر بھی اتنے بڑے نہیں، وغیرہ۔ پھر ایک چینی کمپنی نے آخرکار ۲۰۰۳ء میں اس پر کام شروع کیا اور کر رہی ہے۔ ان کی اکنامک انا لسز مغربی کمپنیوں کی جیسی نہیں ہوتی جو سرمائے پر ایک خاص ’’ ریٹ آف رٹرن ‘‘ (Rate of Return) مانگتی ہیں اور زیادہ رسک اورس (Risk-averse) ہوتی ہیں ۔ حالات کو دیکھتے ہوئے وہ رسک نہیں لینا چاہتی تھیں۔
مگر افغانستان میں مغربی یلغار نے حالات کو بدل دیا آج کے دور میں سیٹیلائٹس کی مدد سے ریموٹ سنسنگ (Remote Sensing) کے آلات اور تکنیک استعمال کر کے انسان زمین پر فیلڈ ورک کیے بغیر قدرتی وسائل کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکن ارضیاتی ماہرین (جن کا تعلق USGS یعنی یونائیٹڈ سٹیٹس جیولوجیکل سروے سے تھا) نے افغانستان سمیت بہت سے ممالک کا معدنی سروے ریموٹ سنسنگ سے ہی کر رکھا ہے اور افغانستان میں فوج کے ساتھ ساتھ جیولوجسٹ بھی کام کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح انھوں نے جانا ہے کہ یہ سرزمین بہت سی دھاتوں، غیر دھاتوں اور نایاب منرلز جیسے لیتھیم (Lithium) کے بہت بڑے ذخائر رکھتی ہے۔ افغانستان کا قبائلی کلچر ایسے وسائل کو اپنے طور پر آج تک استعمال میں نہ لاسکا اور نہ بڑی دیر تک اس قابل ہوگا۔ اس کے علاوہ وہاں جم سٹونز (Gemstones) جیسے، روبی ، لاپس ، نورملین اور بہت کچھ ہے۔ اب مغربی کمپنیاں ان کا حصول چاہتی ہیں اور یہ کہانی بارڈر پار کرکے شمالی پاکستان ، پختون خواہ علاقوں اور چاغی میں آتی ہے۔ جہاں کہانی ابھی دل چسپ ہے اور بہت کچھ ملنے کے آثار ہیں۔ ریکوڈک لہٰذا اکیلی کہانی نہیں لگتی۔ ہمیں بھی ریموٹ سنسنگ پر بہت زور دینا چاہیے۔ جس سے نہ صرف منرلز بلکہ پانی ،جنگلات، آبادی، برفباری ، آب وہوا ، تیل ، گیس غرض کہ سارے مسائل اور وسائل پر بہتر گرفت حاصل ہوسکتی ہے ۔ تو میں تو یہ کہتا ہوں کہ نمی کو چھوڑ ، یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ، بس ذرا قلقل کو چھوڑ اور اٹھا پھاوڑا۔
آخر میں جو بات میں انتہائی زور دے کر کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے ہمیں اپنی صلاحیتوں کو ہی اجاگر کرنا ہوگا تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔ آخر کو ہم نے ایٹمی ٹکنالوجی کو بہت حد تک خود ہی قابو کیا اور ایٹمی طاقت بن گئے ۔ جرمنی اور جاپان دوسری جنگ عظیم کی راکھ سے اٹھ کر کہاں سے کہاں پہنچے۔ چین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ اسی جذبے سے ہم کو بھی کام کرنا ہوگا ورنہ سامراجی طاقتیں اپنا ایجنڈاہم پر مسلط کرتی رہیں گی۔ ڈاکٹر قدیر اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے بزرگوں کی لیڈر شپ اور جذبہ ہم کو قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے بھی چاہیے۔ ہمیں ان کی تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کی کوشش میں پوری مدد کرنی چاہیے۔ کاش ہم اپنا محاسبہ کر کے خود اپنی اصلاح کرلیں اور بے لوث کام کر کے ایک زندہ قوم بن جائیں۔ آج اگرہم نے یہ نہیں کیا تو کل بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ تو آؤ اے میرے جوانو، دوستو اور بزرگو، اپنے کام میں لگ جائیں اور جو بھی ہمارا رول ہے اسے پوری تندہی سے ادا کریں۔ اگر ہر ایک اپنا فرض ادا کرے تو کیا بات ہے۔
؂ اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
***
http://www.nla.gov.pk/uakhbareurdu/march2012/March_3.html
 

زرقا مفتی

محفلین
اب ہم بلوچستان کے مسائل کے ممکنہ حل کی طرف بڑھتے ہیں
سرداروں کا سب سے بڑا پروپیگنڈا یہ ہے کہ بلوچستان کو جبرا پاکستان کا حصہ بنایا گیا۔
دوسرے یہ کہ بلوچستان کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے یہاں ترقیاتی کام کروانے میں کبھی دلچسپی نہیں لی گئی۔ گیس کی رائلٹی پوری ادا نہیں کی جاتی۔ صوبے کو اس کی ضرورت سے کم مالی وسائل دئیے جاتے ہیں۔
میڈیا کو چاہیئے تھا کہ بلوچ سرداروں کے پہلے الزام کی سختی سے تردید کرتا ۔ کیونکہ تقسیم کے وقت اگر دو سے زیادہ ریاستوں کا قیام ممکن ہوتا تو حیدر آباد دکن ، کشمیر ، میسور اور دیگر ۵۰۰ سے زائد ریاستیں مکمل آزادی کا انتخاب کرتیں ۔ جبکہ آزادی تو درکنار کسی ریاست کا تشخص باقی نہیں۔
خیر حکومت کے لئے آسان ہے کہ وہ تمام سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز یا مذاکروں کے ذریعے اس پراپیگنڈے کی پر زور نفی کرے
این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کا حصہ بڑھایا جائے
باغی سرداروں سے مذاکرات کیے جائیں عام معافی دی جائے اُنہیں حکومت میں شریک کیا جائے
وفاق کے زیر ِ نگرانی تر جیحی بنیادوں پر ترقیاتی کام شروع کئے جائیں
روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں

جاری ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
balochistan-map1.jpg


بلوچستان کے نقشے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پشتون اکثریت کے علاقے کے پی کے سے متصل ہیں۔
ایک طرف عالمی طاقتوں کا منصوبہ ہے کہ بلوچ علاقوں کو تین ملکوں پاکستان ایران اور افغانستان سے الگ کرکے ایک الگ ملک بنا دیا جائے
ہم جانتے ہیں کہ بلوچستان صوبے میں بلوچ آبادی 55 ٪ سے کم ہے جبکہ پشتون آبادی تقریبا 30٪ ہے ۔ سو بہتر ہوگا کہ بلوچستان کے پشتون علاقوں کو کے پی کے میں ضم کر دیا جائے
ملک میں پنجاب کی تقسیم کا شہرہ ہے پنجاب کی آبادی کی لسانی بنیاد پر تقسیم ملاحظہ کیجیے
Punjab_pop_TLC_eriposte_2009.gif


اب بلوچستان کی آبادی کی تقسیم لسانی بنیاد پر دیکھیئے
Balochistan_pop_TLC_eriposte_2009.gif


بھارت میں صوبوں کو توڑ کر لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تشکیل کی گئی۔ اگر پنجاب میں وسائل کی بہتر تقسیم کو بنیاد بنا کر اسے تقسیم کیا جا سکتا ہے تو بلوچستان کو بھی انتظامی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے
 

زرقا مفتی

محفلین
گوادر اور مکران کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ انہیں حکومتِ پاکستان نے خرید کر پاکستان میں شامل کیا سو مکران کو الگ صوبہ بنایا جائے ۔ گوادر کو اسلام آباد کی طرح علیحدہ سٹیٹس دیا جائے۔ اسکی تنصیبات اور تعمیرات کی حفاظت کے لئے اسلام آباد کی طرز پر ریڈ زون بنایا جائے ۔
http://gwadarrabiacity.com/History.HTM
ریکوڈک اور چاغی میں موجود معدنیات کو قومی اثاثہ قرار دیا جائے
ایٹم بم بنانے کے لئے جس طرح ترجیحی بنیادوں پر فنڈز مختص کئے گئے اور جنگی بنیادوں پر اہداف حاصل کئے گئے اسی طرز پر ان معدنیات سے استفادے کی منصوبہ بندی کی جائے
میں نے اپنی دو کوڑی کی رائے دے دی فورم کے بقیہ ارکان کے ذہن میں کوئی تجویز ہو تو اسی سلسلے میں لکھیں
والسلام
زرقا
 
Top