ذوق بلبل ہوں صحنِ باغ سے دور اور شکستہ پر

بلبل ہوں صحنِ باغ سے دور اور شکستہ پر
پروانہ ہوں چراغ سے دور اور شکستہ پر

کیا ڈھونڈے دشتِ گمشدگی میں مجھے کہ ہے
عنقا مرے سراغ سے دور اور شکستہ پر

اُس مرغِ ناتواں پہ ہے حسرت جو رہ گیا
مرغانِ کوہ و راغ سے دور اور شکستہ پر

ساقی بطِ شراب ہے تجھ بن پڑی ہوئی
خُم سے الگ ایاغ سے دور اور شکستہ پر

خود اُڑ کے پہنچے نامہ جو ہو مرغِ نامہ بر
اُس شوخِ خوش دماغ سے دور اور شکستہ پر

کرتا ہے دل کا قصد کماں دار تیرا تیر
پر ہے نشانِ داغ سے دور اور شکستہ پر

اے ذوقؔ میرے طائرِ دل کو کہاں فراغ
کوسوں ہے وہ فراغ سے دور اور شکستہ پر

استاد شیخ ابراہیم ذوقؔ​
 
Top