بس کر ماما .............../تحریر زریاب شیخ

zaryab sheikh

محفلین
ایک وقت تھا ماما والدہ کے بھائی کو کہا جاتا تھا پھر محبوبہ کی شادی ہو جائے تو اس کے بچے بھی ماما کہنے لگ جاتے ہیں اب یہ حال ہے کہ ہر کوئی ماما بن چکا ہے آپ کوئی کام کریں ایک نہ ایک ماما آپ کو مل جائے گا جو آپ کی مرضی میں اپنی ٹانگ گھسائے گا جیسے اگر کسی نے غلطی سے داڑھی رکھ لی تو ایسے ماموؤں کی طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں گی یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان کے نام نہاد اسلامی کلچر میں داڑھی رکھنا اکژیت کی نظر میں ایک غلطی سمجھا جاتا کیونکہ جیسے ہی آپ رکھیں گے تو پہلا ماما یہ کہے گا ارے مولوی بن گئے لوگ کیا کہیں گے اور پھر پتہ نہیں کہاں کہاں سے مامے نکل آئیں گے بندہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ میں نے ایسا کیا کردیا مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مامے خود جو مرضی کریں لیکن جیسے ہی آپ اپنی مرضی کریں گے ان کے دماغ میں گھنٹی بجنے لگے گی آج کل لوگوں کے پاس عشق کے علاوہ کرنے کیلئے کچھ نہیں اگر کوئی لڑکی بے چاری شادی کیلئے اپنی مرضی کرے اور گھر والے غلطی سے راضی بھی ہو جائیں تو یہ مامے خوشیوں پر پانی پھیر دیں گے اف خدایا تمھاری بیٹی ایسی نکلے گی کبھی سوچا بھی نہ تھا ارے وہ تو بہت اچھی تھی ہائے اللہ یہ کس کی نظر لگ گئی ماں باپ اس وقت یہ سوچتے ہی نہیں کہ بیٹی ہماری ہے اور رو یہ مامے رہے ہیں ہمارے محلے میں ایک پچاس سالہ کنوارہ رہتا تھا بہنوں کو بیاہتے بیاہتے بال سفید ہوئے تو شادی کا ارادہ ترک کر بیٹھا سب کہتے تھے ہائے بے چارا بہنوں کا سوچتے سوچتے خود رہ گیا اس کو کسی بھلے مانس نے رشتہ بتایا اور بات پکی ہوگئی لیکن بجائے خوش ہونے کے مامے ایک دم لوٹا بن گئے اور کہنے لگے ارے دیکھو اس عمر میں لوگ پوتے پوتیوں سے کھیلتے ہیں اس کو جوانی چڑھی ہوئی ہے وہ بے چارا ان ماموؤں کے چکر میں آج بھی ترسی ہوئی زندگی گزار رہا ہے اگر آپ ارد گرد کا جائزہ لیں تو سب سے زیادہ لوگ ان ماموؤں کی وجہ سے پریشان نظر آئیں گے ایک محلے دار نے ایک بار کہا تھا کہ بیٹا تم ایسا کرلو ویسا کرلو تو میں نے بس ایک بات کہی ، تُسی میرے مامے لگدے او ، اگر آپ جینا چاہتے ہیں خوش رہنا چاہتے ہیں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو بے فکر ہو کر کریں ان ماموؤں کی فکر نہ کریں کیونکہ یہ معاشرے کے وہ فضول لوگ ہوتے ہیں جن پاس کرنے کیلئے کچھ نہیں
۔
زریابیاں
 
Top