نعمان حجازی
محفلین
مجھے تم سے محبت تھی!
محبت اس قدر۔۔۔۔۔۔ جو غم کے سب رشتوں پہ فائق تھی
محبت بے غرض۔۔۔۔۔۔ جو دل میں بس رہنے کے لائق تھی
بنا اس ساری چاہت کی مگر۔۔۔۔۔۔ اک خود فراموشی پہ قائم تھی
کہ اپنے سامنے دنیائے دائم تھی!
زمیں پہ بیٹھ کر ہم ایک سی تھالی میں کھاتے تھے
کوئی فکرِ جہاں تھی
نہ ہی اس کا غم اٹھاتے تھے!
ہماری سمت و احساسات
نصب العین اور جذبات۔۔۔۔۔۔ یکساں تھے!
عذاب و خواب۔۔۔۔۔۔ یکساں تھے!
مگر پھر یوں ہوا۔۔۔۔۔۔
اک دن
تمہارے خواب پلٹا کھا کے
تم کو اس نئی دنیا میں لے آئے
کسی اُجلی زمیں، نکھرے فلک، اونچی منازل دیکھنے کے خواب تھے!
۔۔۔۔۔۔ اور تم روانہ تھے!
تمہارے ولولے اس روز
میرے سب دلائل سے توانا تھے!
ادھر میں بھی کہیں پر دور
اپنے حال سے مجبور ہو کے
دشت پیمائی کو جا نکلا!
کبھی جو میرے اپنے تھے
وہ سارے اب پرائے تھے!
۔۔۔۔۔ کہ واں مٹی کے گھر تھے اور
ٹپکتی چھت کے اوپر
آتش و آہن کے سائے تھے!
مرے حصے میں یہ منظر
میری چاہت سے آئے تھے!
اُدھر تم بھی
نکل کے ان زمینوں سے
اُبھر کے برقی زینوں سے
فلک کو چھونے والی بستیوں میں جگمگاتے
کانچ کے محلوں میں جا پہنچے!
یہاں ایمان نہیں، انساں کی وقعت تھی
یہاں محنت نہیں، لمحات بکتے تھے!
مشینیں اب تمہاری دوست تھیں اور تم
ترقی کی سبک رفتاریوں میں ان کے ہم آہنگ تھے جبکہ۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے شہر والے میرے لوگوں سے مسلسل برسرِ جنگ تھے!
زمانے نے بہت سی کروٹیں بدلیں!
بہت کچھ بارشیں برسیں
مرے بغداد و غزہ سے
یہاں کشمیر و کابل تک!
یونہی اک روز میں
افغان بستی کے کسی کھنڈر سے جب گزرا۔۔۔۔۔۔
مرے ماضی کی یادیں
مجھ کو اپنے حال کی دنیا میں لے آئیں
وہاں اُجڑی زمیں، بکھرے مکیں، ٹوٹے مقابر دیکھ کے یک دم
تمہارے خواب یاد آئے!
خیال آیا۔۔۔۔۔
وہ سارے خواب اب کتنے نمایاں ہو چکے ہوں گے
سہانی زندگی، راحت کا عنواں ہو چکے ہوں گے
تمہاری سوچ بھی جدت کے زینے چڑھ گئی ہو گی
تمہارے گھر کے قالینوں کے فر کی بھی
طوالت بڑھ گئی ہو گی!
مہکتی کیاریوں میں بھی
کہیں ڈیزی کہیں ٹیولپ کھلے ہوں گے!
تمہیں لیکن وطن سے خط ملے ہوں گے۔۔۔۔۔
کہ اپنے ہاں تو موسم ”کارپٹ“ بمباریوں کا ہے!
سدا ”ڈیزی کٹر“ کی، آگ کی برسات رہتی ہے!
یقیں جانو۔۔۔۔۔
مری امت یہ غم ہر روز سہتی ہے!
مجھے یہ بھی خیال آیا
تمہارے پھول سے بچے۔۔۔۔۔ بڑے اب ہو چکے ہوں گے
خود اپنے پاؤں پہ وہ بھی۔۔۔۔۔ کھڑے اب ہو چکے ہوں گے
کبھی وہ نیاگرا کے پانیوں میں جھومتے ہوں گے
کبھی پکنک منانے۔۔۔۔۔۔۔ ڈزنی لینڈ اور ٹریڈ سنٹر کی
فلک کو چھونے والی بستیوں میں گھومتے ہوں گے!
سمجھتا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ میرے اور تمہارے درمیاں
بس صرف ”ٹوئن ٹاور“ ہی حائل ہیں!
مگر یہ ہٹ گئے
پھر بھی تو دوری کم نہ ہو پائی!
ارے ہاں۔۔۔۔ کہہ رہا تھا میں!
تمہارے بیٹے بھی۔۔۔۔ ”آئی۔ٹی“ کے ماہر ہو گئے ہوں گے!
پرانی سوچ، دقیانوسیت سے کچھ تو باہر ہو گئے ہوں گے!
معزز بیٹیاں۔۔۔۔ حقوقِ انسانی کے دفتر میں ملازم ہو گئی ہوں گی!
کہیں مصروفیت میں خود سے بھی وہ کھو گئی ہوں گی
تمہارے سر کی چاندی، فرم کی مٹی کو سونا کر گئی ہو گی
تمہاری ”چیرٹی“ کتنے غریبوں کی تجوری بھر گئی ہوگی!
مگر اس سارے منظر میں
بھلا خود تم۔۔۔۔ کہاں ہو گے؟
کسی اجلی زمیں، نکھرے فلک، اونچی منازل دیکھنے کے خواب
آنکھوں مین سجائے۔۔۔۔۔
ان کہی اک داستاں ہو گے؟
سنو!
تم سے محبت تھی!
بہت زیادہ محبت! اب مگر۔۔۔۔۔۔
اس کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ اکثر تو ہمدردی نے لے لی ہے!
دعا کے روپ میں اب بھی یہ لیکن سر اٹھاتی ہے
کبھی جب یاد آتی ہے!
فقیرِ بے نوا کے ہاں۔۔۔۔ بھلا اب اور کیا ہوگا؟
سوائے ان دعاؤں کے!
میں اکثر سوچتا ہوں یہ
کسی خاموش سے لمحے میں مل جاؤں گا مٹی میں،
مگر کیا تم؟
مرا اللہ نہ چاہے۔۔۔۔ کسی دن
”اولڈ ہاؤس“ کی نذر ہو جاؤگے؟ یا پھر
فلک کو چھونے والی جگمگاتی بستیوں کے پاس ہی!
”ہڈسن“ کے ساحل پر جڑے۔۔۔۔۔۔ مجسمہ حریت کی چھاؤں میں
گم سم کھڑے ہوگے؟
کہیں تنہا پڑے ہو گے؟
کہو تم ہی۔۔۔۔ کوئی انصاف ہے یہ بھی؟!
اگر چاہو۔۔۔۔۔۔!
تمہیں اک عدل کی تجویز دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔
مرا مٹی کا گھر لے لو!
عوض اس کے مجھے۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں
بس اپنے سارے خواب تم دے دو!
کسی اجلی زمیں، نکھرے فلک، اونچی منازل دیکھنے کے خواب
ہاں دے دو مجھے ۔۔۔۔۔۔ اے جاں!
میں ان خوابوں کی جا کر
اور کسی دنیا میں تعبیریں بنا لوں گا!ٓ
ہمیشہ رہنے والے شیش محلوں میں
کسی دن اذن حق پا کر۔۔۔۔۔۔
تمہاے نام کی تختی سجا دوں گا!
یہ قرضہ بھی چکا دوں گا!
محبت اس قدر۔۔۔۔۔۔ جو غم کے سب رشتوں پہ فائق تھی
محبت بے غرض۔۔۔۔۔۔ جو دل میں بس رہنے کے لائق تھی
بنا اس ساری چاہت کی مگر۔۔۔۔۔۔ اک خود فراموشی پہ قائم تھی
کہ اپنے سامنے دنیائے دائم تھی!
زمیں پہ بیٹھ کر ہم ایک سی تھالی میں کھاتے تھے
کوئی فکرِ جہاں تھی
نہ ہی اس کا غم اٹھاتے تھے!
ہماری سمت و احساسات
نصب العین اور جذبات۔۔۔۔۔۔ یکساں تھے!
عذاب و خواب۔۔۔۔۔۔ یکساں تھے!
مگر پھر یوں ہوا۔۔۔۔۔۔
اک دن
تمہارے خواب پلٹا کھا کے
تم کو اس نئی دنیا میں لے آئے
کسی اُجلی زمیں، نکھرے فلک، اونچی منازل دیکھنے کے خواب تھے!
۔۔۔۔۔۔ اور تم روانہ تھے!
تمہارے ولولے اس روز
میرے سب دلائل سے توانا تھے!
ادھر میں بھی کہیں پر دور
اپنے حال سے مجبور ہو کے
دشت پیمائی کو جا نکلا!
کبھی جو میرے اپنے تھے
وہ سارے اب پرائے تھے!
۔۔۔۔۔ کہ واں مٹی کے گھر تھے اور
ٹپکتی چھت کے اوپر
آتش و آہن کے سائے تھے!
مرے حصے میں یہ منظر
میری چاہت سے آئے تھے!
اُدھر تم بھی
نکل کے ان زمینوں سے
اُبھر کے برقی زینوں سے
فلک کو چھونے والی بستیوں میں جگمگاتے
کانچ کے محلوں میں جا پہنچے!
یہاں ایمان نہیں، انساں کی وقعت تھی
یہاں محنت نہیں، لمحات بکتے تھے!
مشینیں اب تمہاری دوست تھیں اور تم
ترقی کی سبک رفتاریوں میں ان کے ہم آہنگ تھے جبکہ۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے شہر والے میرے لوگوں سے مسلسل برسرِ جنگ تھے!
زمانے نے بہت سی کروٹیں بدلیں!
بہت کچھ بارشیں برسیں
مرے بغداد و غزہ سے
یہاں کشمیر و کابل تک!
یونہی اک روز میں
افغان بستی کے کسی کھنڈر سے جب گزرا۔۔۔۔۔۔
مرے ماضی کی یادیں
مجھ کو اپنے حال کی دنیا میں لے آئیں
وہاں اُجڑی زمیں، بکھرے مکیں، ٹوٹے مقابر دیکھ کے یک دم
تمہارے خواب یاد آئے!
خیال آیا۔۔۔۔۔
وہ سارے خواب اب کتنے نمایاں ہو چکے ہوں گے
سہانی زندگی، راحت کا عنواں ہو چکے ہوں گے
تمہاری سوچ بھی جدت کے زینے چڑھ گئی ہو گی
تمہارے گھر کے قالینوں کے فر کی بھی
طوالت بڑھ گئی ہو گی!
مہکتی کیاریوں میں بھی
کہیں ڈیزی کہیں ٹیولپ کھلے ہوں گے!
تمہیں لیکن وطن سے خط ملے ہوں گے۔۔۔۔۔
کہ اپنے ہاں تو موسم ”کارپٹ“ بمباریوں کا ہے!
سدا ”ڈیزی کٹر“ کی، آگ کی برسات رہتی ہے!
یقیں جانو۔۔۔۔۔
مری امت یہ غم ہر روز سہتی ہے!
مجھے یہ بھی خیال آیا
تمہارے پھول سے بچے۔۔۔۔۔ بڑے اب ہو چکے ہوں گے
خود اپنے پاؤں پہ وہ بھی۔۔۔۔۔ کھڑے اب ہو چکے ہوں گے
کبھی وہ نیاگرا کے پانیوں میں جھومتے ہوں گے
کبھی پکنک منانے۔۔۔۔۔۔۔ ڈزنی لینڈ اور ٹریڈ سنٹر کی
فلک کو چھونے والی بستیوں میں گھومتے ہوں گے!
سمجھتا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ میرے اور تمہارے درمیاں
بس صرف ”ٹوئن ٹاور“ ہی حائل ہیں!
مگر یہ ہٹ گئے
پھر بھی تو دوری کم نہ ہو پائی!
ارے ہاں۔۔۔۔ کہہ رہا تھا میں!
تمہارے بیٹے بھی۔۔۔۔ ”آئی۔ٹی“ کے ماہر ہو گئے ہوں گے!
پرانی سوچ، دقیانوسیت سے کچھ تو باہر ہو گئے ہوں گے!
معزز بیٹیاں۔۔۔۔ حقوقِ انسانی کے دفتر میں ملازم ہو گئی ہوں گی!
کہیں مصروفیت میں خود سے بھی وہ کھو گئی ہوں گی
تمہارے سر کی چاندی، فرم کی مٹی کو سونا کر گئی ہو گی
تمہاری ”چیرٹی“ کتنے غریبوں کی تجوری بھر گئی ہوگی!
مگر اس سارے منظر میں
بھلا خود تم۔۔۔۔ کہاں ہو گے؟
کسی اجلی زمیں، نکھرے فلک، اونچی منازل دیکھنے کے خواب
آنکھوں مین سجائے۔۔۔۔۔
ان کہی اک داستاں ہو گے؟
سنو!
تم سے محبت تھی!
بہت زیادہ محبت! اب مگر۔۔۔۔۔۔
اس کی جگہ۔۔۔۔۔۔۔ اکثر تو ہمدردی نے لے لی ہے!
دعا کے روپ میں اب بھی یہ لیکن سر اٹھاتی ہے
کبھی جب یاد آتی ہے!
فقیرِ بے نوا کے ہاں۔۔۔۔ بھلا اب اور کیا ہوگا؟
سوائے ان دعاؤں کے!
میں اکثر سوچتا ہوں یہ
کسی خاموش سے لمحے میں مل جاؤں گا مٹی میں،
مگر کیا تم؟
مرا اللہ نہ چاہے۔۔۔۔ کسی دن
”اولڈ ہاؤس“ کی نذر ہو جاؤگے؟ یا پھر
فلک کو چھونے والی جگمگاتی بستیوں کے پاس ہی!
”ہڈسن“ کے ساحل پر جڑے۔۔۔۔۔۔ مجسمہ حریت کی چھاؤں میں
گم سم کھڑے ہوگے؟
کہیں تنہا پڑے ہو گے؟
کہو تم ہی۔۔۔۔ کوئی انصاف ہے یہ بھی؟!
اگر چاہو۔۔۔۔۔۔!
تمہیں اک عدل کی تجویز دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔
مرا مٹی کا گھر لے لو!
عوض اس کے مجھے۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں
بس اپنے سارے خواب تم دے دو!
کسی اجلی زمیں، نکھرے فلک، اونچی منازل دیکھنے کے خواب
ہاں دے دو مجھے ۔۔۔۔۔۔ اے جاں!
میں ان خوابوں کی جا کر
اور کسی دنیا میں تعبیریں بنا لوں گا!ٓ
ہمیشہ رہنے والے شیش محلوں میں
کسی دن اذن حق پا کر۔۔۔۔۔۔
تمہاے نام کی تختی سجا دوں گا!
یہ قرضہ بھی چکا دوں گا!