بسنت اب کبھی نہیں آئے گی

امن ایمان

محفلین
جی آج بسنت نائٹ ہے۔۔جولوگ لاہور سے ہیں۔۔جلدی سے یہاں آئیں اور اپنی تیاریوں کے بارے میں اپڈیٹ انفارمیشن دیں۔
میں تفصیلی پوسٹ بعد میں کروں گی۔

( ذاتی طور پر میں بسنت کے خلاف ہوں۔۔لیکن کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جن میں ہماری پسند اور نا پسند نہیں چلتی۔۔سو ابھی اس ٹاپک کو جسٹ فار انجوائمنٹ لیں۔۔سیرئیس گفتگو منع ہے)
 
بسنت کے خلاف تو میں بھی ہوں۔
لیکن اس پر گفتگو اور انجوائے منٹ (صرف گفتگو کی حد تک) کے لیے حاضر ہوں

پر میں کراچی میں ہوں۔

یہاں بھی کہی جگہ بسنت منانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
جن میں بحریہ آڈیٹریم اور ایک دو جگہیں اور بھی شامل ہیں۔
 

عمر سیف

محفلین
فضول کام اور پیسے ضائع کرنے کا ایک طریقہ۔
لاہور میں سنا ہے کہ 2 ارب سے زائد ان دو دنوں میں لٹائے جائیں گے۔ یہی کسی بھوکے بچے کو روٹی کھلانی پڑے تو سب کو موت پڑ جائے۔
 

امن ایمان

محفلین
اوہ ویسے مجھے امید یہی تھی کہ اس تھریڈ میں جواب اسی طرح کے ہی ہوں گے ۔۔ بسنت کیا تھی۔۔؟صرف غریبوں کا کھیل۔۔جسے امیروں نے خراب کردیا۔۔پہلے ہلکی ڈور پر پتنگیں اڑائی جاتیں۔۔۔سامنے والے گھر میں اگر برابر تعداد میں لڑکے ہوتے تو اُن سے کہا جاتا۔۔کہ چلو پھر ایک ایک پیچ ہوجائے ۔۔جس کی پتنگ پہلے کٹتی۔۔دوسری جانب سے شور اور بو کاٹا کے نعرے اور گیم ختم۔
لیکن اب پیسوں کا ضائع اسٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔۔ چھت سے ہوائی فائرنگ نہ ہو تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ لوگ غریب ہیں یا بزدل ۔۔ لیکن ابھی بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اسے صرف سستی تفریح سمجھ کے انجوائے کرتے ہیں۔۔اس کی مثال ہمارا گھر اور ہمارے اردگرد کے باقی گھر ہیں۔
ہم نے بسنت کیسے منائی۔۔۔ میرے کزنز، ماموں اور چاء فیملیز سب ہمارے گھر آئے۔۔ میرےایک بھائی کو پتنگیں اڑانا آتی ہیں۔۔ایک کو نہیں وہ صرف چرخی پکڑتا ہے۔۔دونوں نے اپنے پیسوں سے کچھ پتنگیں اور ڈور خریدی ۔۔۔بسنت نائٹ پر بابا نے باربی-کیو کا ارینجمنٹ کیاتھا۔۔وہ رات اور کل کا دن تھا جس میں ساری فیملی ایک ساتھ تھی۔۔۔چھت پر پتنگ پکڑنے کی دوڑ۔۔اور اپنی پتنگ اڑانے پر پرموٹرز کا شور اور بس۔۔۔

ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں۔۔اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے کس طرح دیکھ رہے ہیں۔۔آپ یقین کریں کہ اس دن جو لوگ حکومت سے ناراض ہوتے ہیں۔۔اسے بےہودہ کھیل کہتے ہیں وہ بھی اگر پتنگ اڑاتے نہیں تو چھتوں پر دیکھنے ضرور آتے ہیں۔
میں خود کہوں گی کہ یہاں میرے قول و فعل میں بھی تضاد ہے۔۔۔ مجھے بسنت اس لیے اچھی نہیں لگتی کہ بہت سے معصوم لوگوں کی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں لیکن اگر اپنے گھر کودیکھوں تو پھر یہی خیال آتا ہے کہ ہم تو کچھ غلط نہیں کر رہے نا۔ :?
 
بسنت کی خونی لہریں

بسنت کی خونی لہریں



اللہ تعالیٰ ہمیں غلامی کے عذاب سے محفوظ رکھے ۔ انسان کا جسم غلام ہو یا ذہن۔۔۔۔۔۔ دونوں اس کی تباہی کا ذریعہ بن جاتے ہیں حتیٰ کہ انسان اپنا ذاتی وقار و وجاہت ، اپنا دین و مذہب اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنا نسب تک بھلا دیتا ہے ۔ اگر قوموں کے مقتدا ذہنی غلامی میں مبتلا ہو جائیں تو پوری قوم کی قسمت داؤ پر لگ جاتی ہے ، آج کل ہمارے اربابِ اختیار بھی کچھ ایسی ہی راہوں پر چل رہے ہیں اور اپنے ساتھ بعض بدعقلوں کو بھی ہنکا رہے ہیں ۔ بسنت کی شکل میں ان کا اٹھایا ہوا طوفان آج ملک و ملت کا بے پایاں سرمایہ اور قیمتی زندگیاں تباہ کر رہا ہے ، کئی معصوم بچوں ، راہ چلتوں اور غریب مزدوروں کی جانیں پتنگوں کے دھاتی ڈوروں کا نشانہ بن چکی ہیں ، دردِ دل رکھنے والا ہر سنجیدہ شخص ان جاں گسل اور دگرگوں حالات کو دیدہ خونبار سے دیکھ رہا ہے،آیئے!ذرا تاریخ کے دریچوں میںجھانک کر نظارہ کرتے ہیں کہ ہندوؤں کی بیہودہ رسموں نے مسلمان معاشرے میں اپنا راستہ کسیے بنایا؟بسنت کا آغاز کہاں اور کیوں ہوا؟ اور ہمارے معاشرے پر اس کے پڑنے والے مضر اثرات کیا ہیں؟دسویں صدیں ہجری میں اسلامی تاریخ کے پہلے ان پڑھ بادشاہ جلال الدین اکبر نے چند درباری ملاؤں کے اضلال پر ''دین الٰہی'' کی بنیاد رکھی اور اسلام کی اصل تصویر کو مسخ کر دیا ۔اس کی دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ ایک واضح خرابی یہ بھی تھی کہ اس میں ہندو لڑکیوں سے شادی کو حلال ٹھہرایا گیا ۔ اکبر بادشاہ نے اس کا آغاز اپنی ذات سے کیا اور راجہ ''بہاری مل'' کی بیٹی اور راجہ ''بھگوان داس'' کی بہن کو اپنے حرم میں داخل کر دیا ، کچھ عرصے بعد اس نے ریاست ''جودھ پور کی رانی'' ''جودھ بائی'' سے بھی شادی رچا لی ، ان ہندو رانیوں نے اکبر کے حرم میں داخل ہو کر قصر سلطانی کو ہندوانہ رسم و رواج کا اکھاڑا بنا دیا ۔دین اکبری کے پیروکاروں نے اپنے بادشاہ کی اقتدا کی ، اوردھڑا دھڑ ہندو لڑکیاں ان کے آنگنوں میں آ بیٹھیں ، یہ پہلا موقع تھا جب ہندوانہ رسم و رواج ، تہوار اور میلے مسلمان کہلانے والوں کے گھروں میں باقاعدہ انجام پانے لگے ،یہیں سے ہمارے ،معاشرے میں ان بے ہودہ رسموں کی داغ بیل پڑی ۔ اس سلسلے کو مزید ترقی ملی اور رفتہ رفتہ ہندو مذہب کے اخّص الخاص شعائر یعنی گائے ذبح کرنے کی ممانعت ، داڑھی منڈوانا ، آفتاب کے رخ بیٹھ کر جھروکا درشن ، بھدرا کروانا ، قشقہ لگوانا بھی دین اکبری کے لازمی اجزا بن گئے ۔
مجدد الف ثانی ؒ کی قربانیوں سے دین اکبری کا سورج غروب ہوا ، تو ہندوانہ عقائد بھی اسلامی معاشرے سے دم توڑ گئے ، لیکن بعض رسومات اور مخلوط میلوں ٹھیلوں کا زہر کسی نہ کسی درجے میں بہرحال باقی رہا۔
انگریزوں کی غلامی کا دور بھی ہندومسلم سنگت کا دور تھا،اس عرصے میں وہ مردہ جراثیم پھر سے زندہ ہوئے اور ہندوؤں کی بعض رسمیں ہماری شادی بیاہ ، مذہبی تہواروں اور خصوصی ایام میں رچ بس گئیں، ان میں سے بعض میلے اور رسوم خالص علاقائی تھے اور ہندو انہیں کسی خاص موسم میں خاص یادگار کے طور پر کسی خاص علاقے میں مناتے تھے بسنت بھی انہیں رسموں اور میلوں میں سے ایک ہے ۔
لاہور کے کوٹ خواجہ سعید نامی محلے میں ''چوک تندوراں والا'' سے ایک سیدھی سڑک قبرستان کی طرف جاتی ہے قبرستان کو عبور کرنے کے بعد اک باغ اور دودھ ماتا کا مندر ہوا کرتا تھا آس پاس کھلے میدان اور کھیت واقع تھے اسی جگہ بدنام زمانہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہندو ''حقیقت رائے'' کیفر کردار کو پہنچا تھا۔ ہندوؤں نے اس کے مرگھٹ پر ایک سیرگاہ تعمیر کی ۔اور ساتھ ہی ایک ہندو سیٹھ کالو رام نے ایک مندر کھڑا کر دیا۔آجکل وہ باغ اور دودھ ماتا کا مندر تو موجود نہیں ہاں کالورام کا مندر اور سیرگاہ اب بھی موجود ہے الغرض حقیقت رائے کے مردار ہونے کے دن بہار کے اوائل میں تھے ۔ہندو ہر سال موسم بہار میں یہاں اکٹھے ہوتے اور گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ''حقیقت رائے '' کی سمادھ پر میلہ مناتے اسی میلے کا نام بسنت رکھا گیا۔ بسنت لغت میں سرسوں کے کھلے ہوئے زرد پھول کو کہتے ہیں حقیقت رائے کے مرگھٹ کے آس پاس سرسوں کے بے شمار کھیت تھے موسم بہار میں یہ پھول خوب کھلتے اور ہندو اسی مناسبت سے زرد لباس پہن کر سمادھ پر حاضری دیتے۔
پنجاب پر راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت آئی تو بسنت عروج پر جاپہنچا۔راجہ خود میلے میں شرکت کرنے آتا ، وہ اور اس کے درباری زرد لباس اور پگڑیاں پہن کر ہاتھیوں اور گھوڑوں پر سوار ہوتے، ان کا جلوس قلعہئ لاہور شالامار باغ کی طرف روانہ ہوتا ، پھر ''حقیقت رائے'' کی سمادھ پر حاضری دی جاتی ، اس تمام راستے میں یہ جلوس سرسوں کے کھیتوں سے گزارا جاتا ، تاکہ پھولوں کےساتھ زرد لباس کی میچنگ دلفریبی کا باعث بنے ۔
بسنت کے موقع پر پتنگ بازی کا قبیح رواج بھی خاصا قدیم ہے ۔
مؤرخین کے مطابق بسنت کے دن سرگرمیوں کا آغاز طلوع سحر سے بہت پہلے ہو جاتا۔۔۔۔۔۔جب خصوصی طور پر بنائے گئے ڈبہ پتنگوں میں موم بتیاں جلا کر انہیں لالٹین کی طرح اڑایا جاتا تو یہ منظر یوں معلوم ہوتا جیسے آسمان پر ادھر ادھر روشنیاں حرکت کر رہی ہیں ۔اسے لاہور میں پتنگ بازی کی رسم کا افتتاح سمجھا جاتا ۔چھتیں اور منڈیریں ہر عمر کے مردوں ، عورتوں اور بچوں سے بھر جاتی تھیں ،مرد پیلے رنگ کا لباس اور پگڑیاں پہنتے ،جوان اور بوڑھی عورتیں بھی سروں پر پیلے رنگ کی چنیاں اوڑھتی تھیں۔طلوع سحر کے ساتھ فضا مختلف رنگوں ، شکلوں ، سائزوں اور ساختوں کی ہزاروں پتنگوں سے بھر جاتی تو یہ سارے لوگ بھنگڑے ڈال ڈال کر ماحول کو ''بوکاٹا'' کے بدبودار نعروں سے آلودہ کر دیتے ۔
آج بسنت علاقائی رسم نہ رہی بلکہ اب تو اس ہندوانہ رسم کو ہمارے حکمرانوں کی سرپرستی حاصل ہے وہ اپنے ازلی اور بدترین دشمن بھارت کے ہاں اپنا امیج بہتر بنانے کےلئے بسنت کی کامیابی کا باچھیں پھیلا پھیلا کر اعلان کر رہے ہیں ۔بسنت ایک گستاخ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی یادگار ہے ۔ایک مسلمان کو پہلے تو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ہندو جیسے غلیظ دشمن کے رسم و رواج کو اپنے ہاں جگہ دے ، چہ جائیکہ وہ ایک گستاخ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں منائے جانیوالی رسم پر خود میدانوں میں نکل کر تھرکنا شروع کر دے، یقیناً یہ کام وہ انسان کر سکتا ہے جس کا دل رائی بھر ایمان سے بھی خالی ہو ۔مقام عبرت ہے ہمارے حکمرانوں کےلئے ! کہ آج تک کسی ہندو رہنما نے مسلمانوں کے تہوار کو نہیں منایا اور نہ ہی اسے اپنا امیج بہتر بنانے کا ذریعہ گردانا ،پھر وہ کون سی فکرِ بیمارہے جو ہمارے حکمرانوں کی عقل چاٹ چکی ہے اور وہ گائے کا پیشاب پینے والے ہمارے فطری دشمن کے تہواروں کو ملک و قوم پر زبردستی مسلط کر رہے ہیں۔
بسنت کی رسم کو باقاعدہ ٹی وی پر بھی دکھایا جاتا ہے۔
مخلوط نسل کے بے ہودہ نعرے ، پتنگ بازی ، ایک دوسرے پر زرد رنگ کا چھڑکاؤ اور رقص و موسیقی ، فحاشی و بے حیائی کے وہ ذریعے ہیں جس سے گھروں میں بیٹھی ہوئی پاکستانی قوم باقاعدہ محظوظ ہوتی ہے اس کا منفی اثر یہ پڑ رہا ہے کہ نوخیز نسل اس ملک دشمن تہوار کو ثقافتی عنصر کے طور پر قبول کر رہی ہے وہ یہ بھی نہیں سمجھ پا رہی کہ یہ ہمارے دوقومی نظرےے کے سینے میں گھونپنے والا زہر آلود خنجر ہے ۔
ذرا سوچئے! ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے؟جس ملک کی نصف سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہو، جس ملک کے اسی فیصد باسی پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہوں، جس ملک کے ہسپتالوں میں بنیادی ضروریات تک موجود نہ ہوں،جس ملک کے نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے خودکشیاں کر رہے ہوں، جس ملک کا بچہ بچہ قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہا ہو، جس ملک کی ہر گلی اور ہر کوچہ قتل وغارت گری کا بازار بن چکا ہو، جس میں لوٹ کھسوٹ ، بددیانتی ، کرپشن ، بدامنی ،رشوت خوری اور پولیس گردی عام ہو ، اور جس ملک کا غریب سبزی اور دال خریدنے کی سکت نہ رکھتا ہو۔اس ملک کے حکمرانوں کا کروڑوں روپے میراتھن اور بسنت جیسی تہواروں پر پھونکنا اپنی قوم کو ذبح کرنا نہیں تو اور کیا ہے، کون بے وقوف اسے عقلمندی اور روشن خیالی کہے گا، شاید اس سے بڑھ کر اور بدترین تاریک خیالی کا تو کہیں وجود ہی نہ ہو۔
شریف شہری چیخ رہے ہیں ، والدین عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں مائیں دہائیاں دے رہی ہیں ، کہ خدارا ! ان کے معصوم بچوںکو خاک و خون میں تڑپانے کا یہ خونی ذریعہ بند کر دیا جائے۔ پتنگ بازی کی اس قبیح رسم پر پابندی لگائی جائے اور ضائع ہونےوالی معصوم جانوں کی حفاظت کی جائے،لیکن ہمارے حکمران چند گنے چنے لونڈوں اور لونڈیوں کی خواہشات اور اغیار کی دلی تڑپ کو پورا کرنے کےلئے معزز شہریوں کی آواز کو سننا تک گوارا نہیں کر رہی اور نہ ہی عدالت کو آزادانہ فیصلے کا اختیار دے رہی ہے۔عدالت سرکار کے حکم سے مجبور گرگٹ کے رنگ کی طرح اپنے فیصلے تبدیل کر رہی ہے،یقیناً یہ کوئی بہت ہی بالائی آواز ہے جس کے سامنے سپریم کورٹ کے فیصلے بھی ذبح ہو رہے ہیں۔میری فکر کی پرواز یہاں پہنچی تو میرا دل دھواں دھواں ہو گیا ۔ اور میں اپنی شوریدہ قسمت قوم کو کلیجہ پھاڑ کے اقبال ؒ کے ان الفاظ کے ساتھ پکارنے لگا۔
نشان برگِ گل تک بھی نہ چھوڑ، اس باغ میں گلچیں
تیری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
والدین اور اپنی دعوت سے منسلکہ احباب کی خدمت میں یہ دردِ دل رکھنے کی جسارت کی جاتی ہے کہ اپنی اولادوں کو بچپن ہی سے ان زہریلے اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں ، ان کے ذہنوں میں اہل مغرب اور ہنود کی گندی رسموں کی نفرت بٹھائیں، اور قانونی قوت سے بسنت جیسی مکروہ رسموں کو معاشرے سے فنا کرنے کےلئے اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لائیں۔اﷲگ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین ثم آمین
٭٭٭
 

امن ایمان

محفلین
آمین ثم آمین
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری زندگی میں شامل باقی برائیوں کا بھی خاتمہ کرے۔۔۔اور ہمیں اپنے ایمان کی پختگی عطا کرے۔۔۔ہمیں اتنی ہمت اور طاقت عطا کرے کہ ہم نا صرف برائی کی نشاندہی کرتے رہیں بلکہ اپنے عمل سے یہ ثابت بھی کرسکیں کہ ہم اس برائی کا حصہ نہیں ہیں۔۔آمین ثم آمین۔
اللہ تعالی آپ کو اس کا بہترین اجر دے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بی بی سی کے مطابق 5 اموات ہوئیں اور 50 زخمی،

اللہ کریم زخمیوں کو صحت عطا فرمائے۔

لیکن ان اموات کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟ کس کے سر جائے گا ان کا خون؟ کیا وہ ماں باپ ساری عمر اپنے بچے کی موت کو بھول پائیں گے جس کے گلے پر ڈور پھر گئی اور وہ موت کے منہ میں چلا گیا۔

راجہ صاحب ہمارے اندھے حکمرانوں کو اس لیے نظر نہیں آتا کہ وہ ساون کے اندھے ہیں۔ ان کو ہر طرف اچھا ہی اچھا نظر آتا ہے۔

میرے بس میں ہوتا تو میں صدر، وزیر اعظم، پنجاب کے گورنر اور وزیر اعلی پر قتل کا مقدمہ دائر کر دیتا۔
 

پاکستانی

محفلین
basantkeebheent1bn3.gif
 

امن ایمان

محفلین
ایک بات پوچھنی تھی کہ۔۔۔۔

یہ سب کچھ جو آپ سب کہہ رہے ہیں مجھے تو نہیں کہہ رہے ۔۔۔حکومت کو کہہ رہے ہیں نا۔۔؟؟ :?
 

شمشاد

لائبریرین
ظاہر ہے امن یہ سب کچھ تمہیں نہیں کہہ رہے، حکومت کو ہی کہہ رہے ہیں۔ تم اپنے آپ کو قصور وار مت سمجھو۔
 

امن ایمان

محفلین
جی شمشاد چاء ۔۔بس پتہ نہیں کیوں یہ سب بہت عجیب عجیب سا لگ رہا ہے۔۔۔اس سے پہلے تک میں نے کبھی بسنت کو اس نظر سے نہیں دیکھا تھا ۔:(
 
بسنت کی وجہ سے جو اموات ہوئی ہیں انکے ذمہ دار ہمارے ارباب اقتدار ہیں!

انہی کی سرپرستی میں یہ بیہودگیاں ہو رہ ہیں

روشن خیالی کا منہ کالا
 
Top