بروالہ سیدان 226 تا 231

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ 226

سيد محمد حسن
(شجر ہ صفحہ ۲۰۷ پرہے)
سي دحسن علی کے سب سے بڑے صا جزادے تھے۔۱۸۸۷ء ميں بروالہ سيدان ميںپيدا ہو ئے اور والد کے زير سائے تربيت حاصل کی۔مگر ابھی نو عمر ہی تھے کے والد کا انتقال ہو گيا۔سب سے بڑی اولادہونے کے باعث خاندا ن کی سربراہی کی زمہ داری ان کے کندھوںپر آپڑی ،جسے نبھانے کی انہوں نے اپنی صلاحيتوں کے مطا بق پوری کوشش کی۔ وہ بہت ٹھنڈے دل و دماغ سے اور دھمے مزاج کے آدمی تھے۔ طبیعت ميں نرمی کاعنصر غالب تھا ۔ اس کا نقصان يہ ہوا کہ خاندان کی صورت اس نہچ پر بر قرار نہ رہ سکی جس کا نمونہ انکے والد نے قائم کيا تھا۔کیونکہ معاملات کو روبراہ رکھنے کے لئے نرمی کے ساتھ ساتھ کھبی کھبارسختی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔اس کے با وجود اپنے والد کے بعد اپنے خاندان اور سادات بروالہ کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے بڑا کام کیا۔ان کی حقیقی تایازاد بھائیوں کی تعداد پچاس کے قریب تھی جو سب ان کی سرداری کوتسلیم کرتے تھے اور یہ بھی سب کی سرپرستی کرتے تھے اور ہر ایک کے کام آتے تھے۔سادات بروالہ بھی انہیں سربراہ مانتے تھے اور بلاتفریق سب کا خیال رکھتے تھے۔اپنی زمینداری کے دو گائوں کے نمبردار تھے۔کرسی نشیں تھے۔ڈسٹرکٹ بورڈ کے نامزد ممبر اور سیشن کورٹ کے اسیسر تھے۔اس حیثیت میں سرکار دربار میں انہیں بڑا رسوخ حاصل تھا اور علاقہ میں ہر سرکاری کام کے لئے ان کی رائے لی جاتی تھی۔سید حسن علی کے بعد ان کے تمام صاحبزادوں کو رئس لکھا جاتاتھا اور سید محمد حسین ان کے سربراہ تھے۔تمام علاقہ میں میراں جی کے لقب سے پکارے جاتے تھے اور ہر شخص ان کی عزت کرتاتھا۔انہوں نے پوری زندگی بہت اعتدال اور توازن کے ساتھ بسر کی۔سحر خیزی اور نماز روزہ کی سخت پابندی اور وظائف،تسبیح و تہلیل اور صبح کی سیر کے مشاغل پر مداومت کی۔ مطالعہ کے شائق اور بہت وسیع المطالعہ ہستی تھے۔خاص طور پر مذہبی کتب کی ایک بڑی لائبریری ان کے پاس موجود تھی۔شام کے وقت بلاناغہ کوٹھی کے سامنے میدان میں محفل جمتی تھی۔کرسیاں اور مونڈھے رکھے جاتے تھے۔حقہ بیچ میں رکھا ہوتا تھا۔قصبہ کے کچھ لوگ روزانہ کے حاضر باش تھے ان کے علاوہ کام کاج والے،ضرورتمند،مسائل اور تکالیف کے مارے آتے تھے اور حتی الامکان ہر ایک کی مدد کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
۱۹۳۰ء کے لگ بھگ ان کے پاس ذاتی سواری کے لئے کار موجود تھی۔اس وقت ان کے علاوہ اس علاقہ کا کوئی مسلمان ایسا نہیں تھا جس کے پاس کر کی سہولت موجود ہو۔
آخر عمر میں بیماری کے باعث سفر سے معذور ہوگئے تھے اس لئے اپنا کام پہلے اپنے بیٹے سید حسین کے سپرد کیا اور اس کے بعد سید احسن نے یہ کام سنبھالا پاکستان آنے کے بعد ۱۹۴۷ء بورے والا میں انتقال ہوا۔​
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۷

سید ممتاز حسن نقوی
(شجرہ صفحہ ۲۰۸ پر ہے)

سید حسن علی کے چھ بیٹیوں میں یہ چھوتے نمبر پر تھے۔۱۸۹۷ء میں پیدا ہوئے تھے۔قدرت نے انہیں اس قدر غیر معمولی ذہنی صلاحیتیں عطاء کی تھیں کہ اگر ان کے والد کی وفات جلد نہ ہوجاتی اور انہیں تعلی م و تربیت کے مراحل مکمل کرنے کا موقعہ مل جاتا تو یقینا ان لوگوں میں سے ہوتے جن کے ذہنی کارنامے دوسروں کے لئے مثال بن جاتے ہیں۔جن کا ذکر بعد میں مدتوں کیاجاتاہے۔انہیں اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ لاہور میں داخل کرادیا گیا اور مقصد یہ تھا کہ وہ لاہور میں رہ کر اعلٰی تعلیم حاصل کریں۔مگر یہ مقصد پورا نہیں ہوسکا کیونکہ ان کے والد کی وفات کے بعد خاندان کے معاملات کو اس نہچ پر قائم نہیں رکھا جاسکاجس پر وہ چلے آرہے تھے۔ان کے خاندان کے ذرائع وسیع تھے۔اللہ کے فضل سے کسی چیز کی کمی نہیں تھی لیکن سید حسن علی کی وفات کے بعد تدبر اور تنظیم کی ایسی کمی واقع ہوگئی جس نے اس خاندان کو بہت نقصان پہنچایا۔اگرچہ خاندانی شان و شوکت ،عزت و وقار، اثر و رسوخ اور دبدبہ آخروقت تک برقرار رہا مگر سید حسن علی کے دور عروج کے بعد اس بلندی کو قائم نہیں رکھا جسکا اور بروالہ میں رہتے ہوئے دوبارہ اس درجہ کو حاصل نہیں کیا جاسکا۔
سید ممتاز حسن اپنے دوسرے بہن بھائوں کی طرح انتہا کے سحر خیز تھے۔جاگنے کے بعد وضو کرکے تسبیح و تہلیل میں مصروف ہوجاتے تھے۔شروع میں تہجد کی پابندی نہیں کرتے تھے۔مگرآخر عمر میںاس کے بھی پابند ہوگئے تھے۔نماز فجر کے بعد سیر کے لئے نکل جاتے تھے اور واپس آکر دیگر مصروفیات کی جانب دھیان دیتے تھے۔نماز روزہ کے انتہائی پابند تھے۔نماز کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ آخر عمر میں جب فالج کے حملہ کے بعد بستر سے اٹھنا بھی ممکن نہ رہا تو اشاروں سے اس فرض کو ادا کرتے رہے۔نماز کا وقت ہوتے ہی بے چین ہواکرتے تھے اور جب تک تیمم کراکے نماز نہ پڑھادی جاتی،سکون نہیں آتاتھا۔تلاوت قرآن سے بڑا شغف تھا۔خاص طور پر رمضان کے دوران تو معمول کے طور پر روزانہ کم از کم دس سپارے پڑھا کرتے تھے۔
وہ علم و ادب کا بہت اعلٰی اور ستھرا ذوق رکھتے تھے۔اس ذوق کی عکاسی ان کی بہت وسیع اور قیمتی لائبریری سے ہوتی تھی۔اس لائبریری میں اردو کی قریبا تمام کلاسیکی کتابییں موجود تھیں۔مولانا عبدالحلیم،مولانا راشدالخیری،رتن ناتھ سرشار،منشی پریم چند،خواجہ حسن نظامی وغیرہ کی کتابوں کے پورے سیٹ اور مشہور شعرا کے تمام دیوان موجود تھے۔طلسم ہوشربا اور بوستان خیال کی تمام جلدیں موجود تھیں جو بڑے سائز پر چھپی تھیں۔اپنے زمانہ کے تمام قابل ذکر رسالوں کے بھی وہ مستقل خریدار تھے۔نیرنگ خیال،عالمگیر،ساقی،پیمانہ،مولوی،معارف وغیرہ رسالوں کی پوری فائلیں ان کی لائبریری میں موجود تھیں۔جنہیں بڑی خوبصورت جلدیں بنواکر محفوظ کرلیا گیا تھا۔راقم الحروف نے اردو کی کلاسیکی کتابوں کا مطالعہ اسی لائبریری سے کیا تھا اور شائد مطالعہ ذوق یہیں سے پیدا ہوا۔ اس ذوق کو وہ اس قدر اہمیت دیتے تھے۔اس کا اندازہ راقم کے بچپن کے اسی واقعہ سے لگایا جاسکتا ہےکہ رتن ناتھ سرشار کی سیر کوہسار کا مطالعہ کیا۔پہلی جلد ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ دوسری جلد الماری میں موجود نہیں ہے شائد کوئی لے گیا تھا اور واپس نہیں کی تھی۔انہوں نے اسی وقت لکھنئو خط لکھ کر نولکشور سے کتاب منگوائی جو تین چار دن میں وی پی کے ذریعہ پہنچ گئی اور راقم الحروف کے مطالعہ کی تکمیل ہوئی۔اقبال سے بھی بانگ درا کے ذریعے انہوں نے متعارف کرایا۔اور اس کے چیدہ شعروں کو طبیعت کا جزو بنانے کی کوشش کی کسی بھی اچھی کتاب کے چھپنے کی خبر ملتی تو فوراً اسے منگوانے کی کوشش کرتے تھے۔خط لکھ دیا جاتاتھا اور کتاب وی۔پی کے ذریعہ پہنچ جاتی تھی۔اس کے بعد اسے پڑھا اور پڑھایا
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۸


جاتا تھا اور پھر اس پر گفتگو کا سلسلہ چلتا تھا۔راقم الحروف کو یاد ہے کہ تقسیم ملک سے کچھ عرصہ قبل ایسی گفتگوئیں۰غبار خاطر۰ اور ۰ رحمت اللعالمین۰ پر ہوا کرتی تھیں۔اچھی کتاب ان کی ذہنی غذا تھی۔چھوٹے موٹے سفر میں بھی کوئی نہ کوئی کتاب ضرور ان کے ساتھ ہوتی تھی اور سفر سے واپسی پر کوئی نء خریدی ہوئی کتاب ضرور لایاکرتے تھے۔کتاب پڑھ کر اس پر باقاعدہ اپنی رائے لکھا کرتے تھے۔مطالعہ بہت تیزی کے ساتھ کرتے تھے اور حاصل مطالعہ کو ذہن میں محفوظ رکھتے تھے۔
مطالعہ کے ساتھ ساتھ قدرت نے انہیں بہت ستھرا شعری ذوق اور قلم پر قدرت بھی عطاکی تھی۔اچھے شعر کہتے تھے اور رواں نثر لکھتے تھے۔اپنی غزلوں اور نظموں کا ایک مجموعہ انہوں نے مرتب کرلیا تھا جسے شائع کرانے کا ارادہ تھا مگر ہجرت کے سفر میں وہ راستے میں ضائع ہوگیا۔ان کے چند افسانے عالمگیر اور نیرنگ خیال کے ابتدائی دور کے پرچوں میں شائع ہوئے تھے۔بعد میں ان کی زیادہ توجہ افسانوں کے بجائے مضامین کی جانب رہی۔ان کے مضامین مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوا کرتے تھے۔یہ سلسلہ پاکستان آنے کے بعد تک جاری رہا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث ان کے مضامین کے موضوع عوامی اور معاشرتی مسائل بنتے تھے۔پاکستان آنے کے بعد انہوں نے زیادہ مضامین مہاجرین کے مسائل پر لکھے جن میں سے اکثر روزنامہ امروز لاہور میں شائع ہوئے۔اس سلسلہ کے چند مضامین انہوں نے عام جلسوں میں بھی پڑھے۔
سید ممتاز حسن سادات بروالہ کے پہلے فرد تھے جنہوںنے سیاست میں عملی میں حصہ لے کر اپنے سیاسی شعور کا اظہار کیا۔ان کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز تحریک خلافت کے زمانہ سے ہوا۔پہلی جنگ عظیم کے دور کے اخبارات کے فائل ان کے پاس آخر تک موجود تھے۔جن میں پوری تفصیلی کے ساتھ چھپتا تھا کہ یورپی اقوام نے ترکی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے اور ترکی کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لئے کیا کچھ کرنا پڑا ہے۔ان میں سے بعض خبریں تصویروں سمیت چھپتی تھی۔وہ اپنے علاقہ کی خلافت کمیٹی کے سیکرٹری تھے۔بعد میں کانگریس میں شامل ہوگئے تھے اور کھدرکے کپڑے اور گاندھی ٹوپی پہننی شروع کردی تھی۔یہاں بھی انہیں علاقہ کی کانگریس کمیٹی کا سیکرٹری منتخب کیا گیا تھا۔مگر جب انہیں اندازہ ہوا کہ کانگریس کی نیت مسلمانوں کے بارے میں درست نہیں ہے تو اس کی رکنیت سے علیحدہ ہوگئے تھے۔اس کے بعد ۱۹۴۶ء میں علاقائی مسلم لیگ کی پہلی شاخ ان کی کوٹھی پر ہی قائم ہوئی۔اسی شاخ کے تحت سادات بروالہ نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ اور اس قصبہ میں اس تحریک کو جوش،جذبہ،آہنگ اور بلندی عطا کرنے والے ان کے ہی صاحبزادے تھے۔
مطالعہ کے علاوہ دو چیزوں کا خاص شوق رکھتے تھے۔اول شکار،دوم شطرنج،بہت اعلٰی پایہ کے شکاری اور نشانہ باز تھے۔اس زمانہ میں بروالہ کے آس پاس کے علاقہ مین شکاری اور جنگلی جانوروں کی بہتات تھی۔خاص طور پر چیتل،چکارا اور سیاہ ہرن تو سینکڑوں کی ڈار کی صورت میںپھرا کرتے تھے۔پنجاب کے رئوسا اور بڑے لوگ شکار کی خاطر بروالہ جایا کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر کا قیام ان کی کوٹھی پر ہی ہوتاتھا۔شکار میں ان کی مہارت کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک دن میں انہوں نے اکاون ہرن شکار کئے تھے۔نشانہ کی درستگی اور پختگی کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتاہے کہ ایک دفعہ اونٹ پر سوار چلے آرہے تھے۔جالی آگے بیٹھا تھا اور مہار کو تھامے ہوئے تھے۔یہ بندوق لئے پیچھے بیٹھے تھے ریت کے دو اونچے بٹوں کے درمیان سے اونٹ گزرنے لگا تو ایک خوفناک بھیڑیا اچانک ٹبہ کے اوپر سے نکلا اور ان پر حملہ آور ہوگیا۔ٹبہ کی بلندی کے باعث وہ ایک دم ان کے سر پر پہنچ گیا۔یہ بالکل پلک جھپکتے کی بات تھی۔اسی پلک جھپکتے میں ہی ان کی بندوق سیدھی ہوکر فائر
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۲۹


نہ کردیتی تو جانے کیا ہوجاتا۔گولی سیدھی بھیڑئے کے حلق میں گء وہ وہیں الٹ کر جا پڑا۔اس قسم کے بے شمار واقعات ان کی شکاری زندگی کا حصہ ہیں۔شطرنج کے اس قدر ماہر کھلاڑی تھے کہ پورے علاقہ میں ان کا مقابلہ کسی سے نہیں تھا۔بلکہ ان کے ساتھ کھیلنے والا ہی کوئی نہیں تھا۔وہ چلتے چلتے بھی کسی کو ایک آدھ چال بتادیتے تھے تو ساری بازی الٹ جاتی تھی۔اسی سلسلہ میں ان کی بڑی شہرت تھی اور ان کی برتری کو پوری طرح تسلیم کیا جاتاتھا۔انتہائی پختہ ایمان و عقیدہ کے مالک اور بہت باہمت اور بلند حوصلہ ہستی تھے۔اس خصوصیت نے مضبوط قوت ارادی،صبر،شکر ،قناعت،توکل،برداشت،تحمل،وسعت قلب ونظر اور سرچشمی کی ایسی خوبیاں ان کے اندر پیدا کردی تھیں جو بہت کم لوگوں کو عطا ہوتی ہیں۔دولت پور میں برابرکے زمیندار جاٹوں سے سخت دشمنی ان کے والد کے زمانے سے چلی آتی تھی۔اس دشمنی میں کئی جانیں چلی گئی تھیں۔اس لئے سید حسن علی کے خاندان کا کوئی فرد اگر رات کو دولت پور میں قیام کرتا تو اپنی حفاظت کا خصوصی انتظام کرتاتھا مگر انہوں نے ہمیشہ اس جانب سے لاپرواہی کی۔۱۹۴۷ء کے آغاز میں ایک رات یہ دوسلت پور میں اپنے ڈیرہ پر تھے کہ کوئی شخص آیا اور روشندان کے راستے اس بستر پر فائر کئے جس پر یہ سوئے ہوئے تھے۔مگر اللہ تعالٰی نے انہیں بچانا تھا کہ فائر ہونے سے چند لمحے قبل ہی وہ اٹھ کر کسی ضرورت سے ساتھ والے کمرے میں گئے تھے۔اس واقعہ پر انہوں نے نہ شور مچایا،نہ کسی کو جگایا اور دوبارہ اطمینان سے اسی بستر پر سوگئے۔دوسرے دن صبح اٹھ کر بروالہ آگئے تو یہاں بھی کسی سے ذکر نہیں کیا۔دوسرے بھائیوں کو پتہ چلا تو میرانجی حسب دستور سب کواکٹھا کیا ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے واقعہ کی اطلاع دوسرے بھائیوں کو کیوں نہیں دی۔انہوں نے کہا کہ اگر ہماری حالت یہی ہوگئی ہے کہ لوگ ہمارے گھروں پر آکر فائر کرنے کی جرائت کرسکتے ہیں تو ذکر و اذکار کا فائدہ ہی کیا رہ گیا ہے۔پھر وہی بات ہوئی کہ میٹنگ مین میرانجی نے صرف یہ کیا کہ حکم دیدیا کہ آئندہ خاندانوں کا کوئی فرد رات کو دولت پور میں قیام نہ کرے۔انہوں نے اس حکم کی تعمیل اس لئے ضروری نہ سمجھی کہ کم ہمتی والا حکم تھا۔چند دن بعد فائر کرنے والا شخص کچھ لوگوں کو سفارشی بناکر ساتھ لے آیا تو اسے معاف بھی کردیا۔
ایک مرتبہ کچھ ہمدرد لوگوں نے مشورہ دیا کہ محض زمینداری کے ذریعے زیادہ ترقی نہیں کی جاسکتی۔کوئی کاروبار بھی کرنا چاہئے۔بڑی سوچ وبچار کے بعد ایک لاری خریدی گئی۔ڈرائور اور دو مددگار ملازم رکھے گئے اس لاری نے ہانسی اور اکلانہ منڈی کے درمیان چلنا شروع کردیا۔ان دونوں مقامات کو ملانے والی کچی سڑک بروالہ کے ساتھ سے گزرتی تھی۔ چند دن تو یہ لاری لشٹم پشٹم چلتی رہی۔اس کے بعد ایک دن اچانک ہی اپنے ڈرائیور سمیت غائب ہوگء۔کاروبار کا مشورہ دینے والے ہمدردوں نے پولیس کی مدد حاصل کرنے کی صلاح دی تو فرمایا میں تمہارا ایک مشورہ مان کر ہی مشکل مین پھنس گیا ہوں ۔کیا تم چاہتے ہو کہ مزید مشورے مان کر اپنی مشکلات میں اضافہ کرتا چلاجائوں۔چنانچہ انہوں نے قصبہ کو ہی فراموش کردیا اور پولیس میں رپورٹ تک نہیں کرائی۔
ہجرت کے وقت ہر اثاثہ،ہر چیز چھوڑ کر سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستے میں گڈا ٹوٹ گیا تو وہ راستے میں ہی رہ گیا۔ پاکستان پہنچے تو اپنے اور بیوی بچوں کے تن پر کپڑے بھی پورے نہیں تھے۔مگر استغنا،توکل اور صبر و شکر کا عالم جوں کا توں تھا۔یوں لگتاتھاکہ انہوں نے تمام عمر مادی احتیاجات اور مادی میارات سے کچھ بلند رہ کر زندگی گزاری اور ان کے اسی رویہ میں حالات کی سختی سستی نے کبھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی۔چنانچہ پاکستان آنے کے بعد وہ دنیوی لحاظ سے کافی پیچھے رہ گئے اور کچھ عرصہ کافی سختی اور شدت میں گزارنا پڑا ۔اس صورت حال نے بچوں کی تعلیم و تربیت اور مستقبل پر بھی اثر چھوڑا مگر ان کی زبان پر کبھی حرف شکایت نہیں آیا۔ان کی زبان تو ہمہ وقت شکر اور ذکر سے تر رہتی تھی۔گھر کے افراد میں سے اگر کوئی حالات کی سختی سے تنگ آکر کبھی حرف شکایت زبان پر لے آتا تھا تو بہت ناراض ہوتے تھے اور تلقین فرماتے تھے کہ ان نعمتوں کا شکر ادا کرو جو اللہ تعالٰی نے تمہیں عنایت فرمائی ہیں اور
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۳۰


جن سے بے شمار لوگ محروم ہیں۔
فیاضی اور دریا دلی کا یہ عالم تھا کہ انتہائی تنگدستی کے دنوں میں بھی کوئی مدد کا طالب ہوا تو اسے مایوس نہیں کرتے تھے۔ایک دن پرانے متعلقین میں سے ایک شخص اپنی بدحالی کا دکھڑا لے کر آیا اور مدد کا طالب ہوا۔اتفاقاً گھر میں کچھ موجود نہیں تھاکہ اس کی حاجت پوری نہیں ہوتی صرف ایک زیور تھا جو ہندوستان کی آخری نشانی تھا اور بدن پر ہونے کے باعث ساتھ آگیا تھا۔صبر و شکر کا مجسمہ بیوی نے وہی نکال کر دیدیا اور انہوں نے جاکر ضرورت مند کے حوالے کردیا کہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔
کرتے کے نیچے ہمیشہ پتلے کپڑے کی سفید فتوحی پہنا کرتے تھے۔بورے والا میں ایک دفعہ بازار سے لکڑیاں خرید کر لانے کے لئے گئے۔واپس آئے تو لکڑیاں اٹھائے ہوئے تھے مگر بدن پر صرف فتوحی تھی۔کرتا غائب تھا۔بیوی نے ہوچھا تو بتایاکہ ایک سائل مل گیا تھا۔پیسے میرے پاس باقی نہیں رہے تھے۔میں نے کرتا اسے دیدیا۔
زندگی معمولات کو انہوں نے ہمیشہ اس قدر باقاعدہ اور صحت مند رکھا کہ بیمار ہونے کی نوبت کم ہی آئی اور بیمار ہوئے تو بھی دوا بڑے اسرار کے باوجود استعمال نہیں کرتے تھے۔محض اپنی مضبوط قوت ارادی کے بل پر بیماری کو شکست دے دیتے تھے۔یہاں تک کہ آخر عمر میں ایک مرتبہ پیشاب زیادہ آنے لگا تو سب کے کہنے کے باوجود ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے۔چند دن تک تل استعمال کئے اور سیر اور پیدل چلنے کے معمولات کو اور سخت بنالیا اور اسی طریقہ سے اس بیماری پر قابو پالیا۔قوت ارادی کی مضبوطی اور ہمت کی بلندی میں بہت کم لوگ ان کا مقابلہ کرسکتے تھے مشکلات کا منہ زور طوفان بھی انہیں پریشان نہین کر سکتا تھا۔اور حالات کے شدید سے شدید نامساعدت بھی ان کی پیشانی پر بل نہیں ڈال سکتی تھی ہر حال میں کلمات شکر سے ان کی زبان تر رہتی تھی اور ہر صورت میں آئیندہ کل سے بہتری کی امید رکھتے تھے۔
ان کی شادی ۱۹۲۶ء میں ہوئی تھی۔اللہ تعالٰی نے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں عناایت فرمائیں۔دو بیٹیاں کم سنی میں اللہ کو پیاری ہوگء تھیں۔باقی تمام بچے پڑھے لکھے اورر قابل بنے۔ان کے خاندان میں تین نسلوں سے یہ روایت چلی آئی تھی کہ کسی شخص کو پوتا دیکھنے کی مسرت نصیب نہیں ہوئی۔تین نسلوں کے بعد وہ پہلے فرد تھے جنہیں اللہ تعالٰی یہ مسرت نصیب فرمائی۔
آخری عمر میں فالج کا حملہ ہوگیا تھا۔اس کے باعث صاحب فراش رہے۔آخر ۲۵ دسمبر ۱۹۷۰ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔انتقال بورے والا میں ہوا۔
 

ف۔قدوسی

محفلین
صفحہ ۲۳۱

سیدہ کرم دولت
(شجرہ صفحہ ۲۰۴ پر ہے)


gیہ مشاہدہ بہت سے لوگوں نے کیا ہوگا کہ کسی شہر،کسی مقام،کسی گائوں میں بعض اوقات اللہ تعالٰی ایسی ہستیاں پیدا کردیتا ہے جو زمان و مکان کے لحاظ سے اس شہر،اس مقام اور اس وقت سے کچھ الگ سی ہوتی ہیں۔انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوا کرتا ہے جیسے یا تو وہ غلط مقام پر پیدا ہوگئیں ہیں،یا پھر اپنے وقت سے پہلے دنیا میں آگئی ہیں۔یہی وہ ہستیاں ہوتی ہیں جو اپنے معاشرہ اور اپنے ماحول کے لئے خیر و برکت کا باعث بنی ہیں۔ایک عام سی زندگی بسر کرنے کے باوجود پورے ماحول کو متاثر کرتی ہیں۔اس میں ایک خاموش تبدیلی لاتی ہیں۔اور زندگی کے جمود سے محفوظ رکھ کر آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہیں۔
بروالہ سیدان میں ایک ایسی ہستی سید غلام محمد کے خاندان میں سیدوزیر علی ابن سید شیر محمد کے گھر ۱۹۰۵ میں سیدہ کرم دولت کے روپ میں اللہ تعالٰینے بھیجی۔چار بہنوں اور تین بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھیں۔صرف ایک بہن بڑی تھی۔اللہ تعالٰی نے انہیں غیر معمولی صلاحیتوں اور علم کے بے انتہا شوق سے نوازا تھا یہی وہ بات تھی جو انہیں اپنے معاشرتی روایات سے الگ کرتی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کے مسلم معاشرہ میں عورت کی تعلیم کو نہ صرف غیر ضروری بلکہ معیوب خیال کیا جاتا تھا۔خاص طور پر ہریانہ جیسے پسماندہ اور اجڈ علاقہ میں تو یہ بات کسی گناہ سے کم نہ تھی۔کہ کوئی مسلمان لڑکی اسکول کی تعلیم کا خیال دل میں لائے۔اسی لئے اس قصبہ میں مسلمان لڑکیوں کے لئے سرے سے کوئی سکول موجود نہیں تھا۔صرف ایک ہندی پرائمری سکول تھا اور وہاں صرف ہندو لڑکیاں تعلیم پاتی تھیں۔اب خاندان کے بزرگوں کی برہمی اور معاشرہ کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ ہندو سکول میں کیسے داخل ہوں۔وہاں توکبھی کوئی مسلمان لڑکی داخل نہیں ہوئی تھی مگر حصول علم کے بے انتہا شوق اور اپنے درست ہونے کے مضبوط جذبے نے مخالفت کے تمام طوفانوں،معاشرے کی تمام غلط رکاوٹوں اورہر قسم کی مشکلات پر قابو پالیا۔والد اور والدہ نے انہیں سکول جانے کی اجازت دے دی اور ہیڈ مسٹریس انہیں داخلہ دینے کے لئے تیار ہوگئی۔
انہوں نے باقاعدہ سکول جانا شروع کردیا تو مخالفت کم ہونے کے بجائے اور زیادہ ہوگئی نت نئی باتیں سننا پڑتی تھیں۔بعض اوقات تو بڑی ناگوار صورتحال بھی پیدا ہوتی رہی خاندان کے ایک آدھا بذرگ نے دھمکی دی کہ اب وہ سکول گئی تو اس کی ٹانگیں توڑدیں گے۔مگر ان کی ہمت اور حوصلہ نے ہر مشکل اور ہر مخالفت کو زیر کرلیا۔ان کی سکول کی تعلیم جاری رہی۔یہاں تک انہوں نے اس سکول کا آخری امتحان امتیاز سے پاس کرلیا۔اس زمانہ میں پرائمری کا امتحان صوبائی سطح پر محکمہ تعلیم کے تحت ہوتا تھا اور اس کے باقاعدہ سند جاری کی جاتی تھی۔یہ سند تدریس،پٹوار اوراسی قسم کی چھوٹی موٹی پیشہ ورانہ تربیت کے اداروں میں داخلہ لئے بنیادی اور کافی معیار سمجھی جاتی تھی۔
سیدہ کرم دولت کے لئے تو اسی سند کا حصول اپنے ماحول کی مشکلات اور عناد کے پیش نظر بہت بڑا کارنامہ تھا۔پورے علاقہ میں وہ پہلی مسلمان لڑکی تھی جنہوں نے سکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔مزید تعلیم کی سہولت تو انہیں حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔مگر انہوں نے مطالعہ پر توجہ دی ااور اس طرح اپنے علم کے شوق کی تسکین کی۔مگر علم کی روشنی کو وہ صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھنا چاہتی تھیں۔اور مخالفت کا اصل طوفان تو اسی وقت برپا ہوا جب انہوں نے قصبہ کی مسلمان لڑکیوں کے لئے اردو سکول کی اجراء کی طرح ڈالی۔اب جو بات نہ ہوئی تھی وہ ہوئی۔الزام اور اتہام تک نوبت پہنچی اور
 
Top