برما کا سپاہی

سید ذیشان

محفلین
اٹھ دیکھ۔ اے میرے تسکینِ دل! اے میرے ہمسفر!! میں تیرا سپاہی ہوں۔ برما کا ایک گمنام سپاہی۔ دھتکارا گیا۔ ٹھکرایا گیا۔

مہرباں جنگل کے مہرباں اندھیرے نے جس دم مجھے جاپان کے خونخوار بمباروں سے اپنی گود میں چھپایا تھا۔ تب میں بھٹکا ہوا تھا۔ تمہارے گاؤں کی صورت مجھے حیاتِ نو میسر آئی۔ اور تمہاری صورت میں گوہر ِنایاب۔ جب تمہیں میں اپنے گاؤں لایا۔ تو میں پر یقین تھا۔ لیکن میرا گاؤں بھٹکا ہوا تھا۔ غیروں نے مجھے پناہ دی اور اپنوں نے مجھے ٹھکرایا۔ پشتونوں کی غیرت ایک کافر دلہن کو مسلمان دولہا کیساتھ کیسے برداشت کرتی؟ ایک اور مہربان جنگل ہمارا سہارا بنا تھا، جہاں ہم نے دن رات ایک کر کے ایک جھونپڑا بنایا۔ صوفی تو گوہرِ مقصود کی تلاش میں جنگلوں کی خاک چھانتا پھرتا ہے میں نے تو وہ گوہر پا کر جنگل کو اپنا گھر بنایا۔نہ میں خرقہ پوش تھا اور نہ ہی بہت دنیا دار۔ اب میری دنیا ہی کتنی رہ گئی ہے؟ ہماری سچی محبت کو معاشرے کی قبولیت نہ مل سکی۔ آج اسی جنگل میں تمہارا مزار بنایا ہے۔ وہ دیکھو سب عشاق چلے آ رہے ہیں۔ قیس بھی، منصور بھی، فرہاد بھی! سب ہم پر رشک کرتے ہیں۔ ہمارا تمہارا یہی قبیلہ ہے۔ عشاق کا قبیلہ!
 
آخری تدوین:
Top