افاعیل(فاعلاتن فعلاتن فعلن)
( رمل مسدس مخبون محذوف )
عشق کی آگ میں جل رہا ہوں
اک نئے رنگ میں میں ڈھل رہا ہوں
------------
توبہ کے بعد خطا ہو گئی پھر
گرنے کے بعد میں سمھل رہا ہوں
---------------
اب ندامت سے تو آنکھیں جُھکی ہیں
میں اسی آگ میں جل رہا ہوں
------------------
نور سے سینہ ہے میرا روشن
نور سے تیرے ہی میں دُھل رہا ہوں
--------------
خدا کے خوف سے دل ہے لرزاں
شاخ ہو جیسے کہ میں ہِل رہا ہوں
-------------
یہ کرم تیرا ہے جو میں ابھی تک
تیرے ہی رزق پہ میں پل رہا ہوں
--------------
تیرا ارشد تو گدا ہے یا رب
تیرے ہی کرم سے میں چل رہا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
رہا ہوں' کو فعلن کے وزن پر نہیں لایا جاتا۔ رہ ہو تقطیع ہوتا ہے، جس میں ہ کی تکرار بھی ہے اور گوارا بھی نہیں۔ خاص کر ہے، ہیں، ہوں سے پہلے رہا، رہی، یا کسی بھی الف پر ختم ہونے و الے لفظ کا الف گرانا غلط ہے۔
اب وقت ہے کہ اگلے مرحلے کی طرف سفر ہو، یعنی معنی آفرینی کی طرف۔ قافیہ بندی اور شعر کے فرق کا خیال رکھا جائے۔
 
Top