نذیر احمد قریشی
محفلین
جب پاس ہو تو اُس کے ستم مجھ پہ بے حساب
اور دور ہو تو زندگی بن جائے اک عذاب
ناکامیوں نے سر نہ اُٹھانے دیا کبھی
میرے ہر اک سفر کے تعاقب میں تھے سُراب
سب زخم دل کے دھوئے مئے لالہ فام سے
ٹپکا جو آنکھ سے وہ لہو تھا کہ تھی شراب
یک جان عشق میں ہوئے محبوب اور میں
سوچے سوال اُس نے مرے لب پہ تھے جواب
انسانیت اساس ہو گر تیرے دین کی
پھر دل میں حق تلاش اسی کو بنا کتاب
حرص و ہوس بڑھی تو گئے ٹوٹ ضابطے
پھر کس کو فکر تھی کہ گنہ کیا ہے کیا ثواب
اور دور ہو تو زندگی بن جائے اک عذاب
ناکامیوں نے سر نہ اُٹھانے دیا کبھی
میرے ہر اک سفر کے تعاقب میں تھے سُراب
سب زخم دل کے دھوئے مئے لالہ فام سے
ٹپکا جو آنکھ سے وہ لہو تھا کہ تھی شراب
یک جان عشق میں ہوئے محبوب اور میں
سوچے سوال اُس نے مرے لب پہ تھے جواب
انسانیت اساس ہو گر تیرے دین کی
پھر دل میں حق تلاش اسی کو بنا کتاب
حرص و ہوس بڑھی تو گئے ٹوٹ ضابطے
پھر کس کو فکر تھی کہ گنہ کیا ہے کیا ثواب