آئی کے عمران
محفلین
کوئی خواہش نہ حرص باقی ہے
دل سے دنیا نکال پھینکی ہے
لطف آئے نہ اب کسی شے میں
بے دلی سے یہ زیست کرنی ہے
سچ کہوں تو بڑے سکوں سے ہوں
جب سے دل حسرتوں سے خالی ہے
جانے کتنے دکھوں کا درماں ہے
کہ یہ جو مرگِ نا گہانی ہے
سو نہیں کی دوائے درد دل
ایک ہی تو تری نشانی ہے
پاس تم ہوتے تو کہاں ہوتا
کہ یہ جو لطفِ شعر گوئی ہے
مار ہے تیرے ایک پرتو کی
یہ جو چھائی ہوئی اداسی ہے
دل سے دنیا نکال پھینکی ہے
لطف آئے نہ اب کسی شے میں
بے دلی سے یہ زیست کرنی ہے
سچ کہوں تو بڑے سکوں سے ہوں
جب سے دل حسرتوں سے خالی ہے
جانے کتنے دکھوں کا درماں ہے
کہ یہ جو مرگِ نا گہانی ہے
سو نہیں کی دوائے درد دل
ایک ہی تو تری نشانی ہے
پاس تم ہوتے تو کہاں ہوتا
کہ یہ جو لطفِ شعر گوئی ہے
مار ہے تیرے ایک پرتو کی
یہ جو چھائی ہوئی اداسی ہے