برائے اصلاح (بحرِ رمل)

نوید ناظم

محفلین
زلف اگر شام نہ ہو پھر کہنا
وہ نظر جام نہ ہو پھر کہنا

کیوں نہیں زخم دکھاتا دل کے
اُس کا دل رام نہ ہو پھر کہنا

ہاں! محبت میں زیاں ہوتا ہے
گر تو ناکام نہ ہو پھر کہنا

پوچھ خود سے مِرے دل کی چوری
یہ ِترا کام نہ ہو پھر کہنا

لے چلو اُس کی گلی میں مجھ کو
دل کو آرام نہ ہو پھر کہنا

جھوٹ کے شہر میں سچ بولے گا؟
الٹا بدنام نہ ہو پھر کہنا

ہم بھی صیاد سے کچھ واقف ہیں
دانہ گر دام نہ پو پھر کہنا
 

La Alma

لائبریرین
اچھی غزل کہی ہے بس ردیف میں " تو " کی کمی محسوس ہوئی . شاید بحر کی مجبوری آڑے آئی ہو گی .

زلف اگر شام نہ ہو تو پھر کہنا
وہ نظر جام نہ ہو تو پھر کہنا
 
اچھی غزل کہی ہے بس ردیف میں " تو " کی کمی محسوس ہوئی . شاید بحر کی مجبوری آڑے آئی ہو گی .

زلف اگر شام نہ ہو تو پھر کہنا
وہ نظر جام نہ ہو تو پھر کہنا
لاجواب ۔۔۔۔بہت اچھی غزل ہے ۔۔۔اور اس بات پے گر عمل ہو تو چاشنی مزید بڑھ جائے گی ۔
 
Top