بدن سے روح نکلتی ہے اس طرح ، جیسے

عمر سیف

محفلین
بدن سے روح نکلتی ہے اس طرح ، جیسے
پرندہ شاخِ شجر سے اچانک اُڑ جائے
کبھی سراب سے دریا کی پیاس بجھتی ہے
قرار دل کو نہ آئے گا خالی وعدوں سے
تمہارے جسم سے بوئے محبت آتی ہے
برہنہ شانوں کو چوموں لرزتے ہونٹوں سے
عجب مقامِ تحیر ہے ، جائے استعجاب
شبِ وصال کو ہم گفتگو میں کھو آئے
سنو کہ عشق تو ہے ترکِ اختیار کا نام
یہ زندگی مجھے بخشی ہے تحفت ٌ اس نے​
 
Top