بام پر جمع ہوا، ابر، ستارے ہوئے ہیں۔۔۔ عرفان ستار

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بام پر جمع ہوا، ابر، ستارے ہوئے ہیں
یعنی وہ سب جو ترا ہجر گزارے ہوئے ہیں

زندگی، ہم سے ہی روشن ہے یہ آئینہ ترا
ہم جو مشاطہءِ وحشت کے سنوارے ہوئے ہیں

حوصلہ دینے جو آتے ہیں، بتائیں انھیں کیا؟
ہم تو ہمت ہی نہیں، خواب بھی ہارے ہوئے ہیں

شوق ِ واماندہ کو درکار تھی کوئی تو پناہ
سو تمہیں خلق کیا، اور تمہارے ہوئے ہیں

خود شناسی کے، محبت کے، کمال ِ فن کے
سارے امکان اُسی رنج پہ وارے ہوئے ہیں

روزن ِ چشم تک آپہنچا ہے اب شعلہ ءِ دل
اشک پلکوں سے چھلکتے ہی شرارے ہوئے ہیں

ڈر کے رہ جاتے ہیں کوتاہیءِ اظہار سے چُپ
ہم جو یک رنگیءِ احساس کے مارے ہوئے ہیں

ہم کہاں ہیں، سر ِ دیوار ِ عدم، نقش ِ وجود
اُن نگاہوں کی توجہ نے اُبھارے ہوئے ہیں

بڑھ کے آغوش میں بھر لے ہمیں اے رُوح ِ وصال
آج ہم پیرہن ِ خاک اُتارے ہوئے ہیں

(عرفان ستار)

 
Top