باقیاتِ راز از سرور عالم راز سرور

الف عین

لائبریرین
O
بُرہانِ جوازِ خودنمائی کیا ہے
خوددار ہے تو، یہ خودستائی کیا ہے
صد شکر، حریفِ پاک باطن، صد شکر
میں جانتا ہوں کہ پارسائی کیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
O
ہر گل ہے فریب کار، توبہ توبہ
عیّار و ستم شعار، توبہ توبہ
کیوں باغِ جہاں سے ہو نہ دل کو وحشت
ہے رشکِ خزاں بہار، توبہ توبہ
 

الف عین

لائبریرین
O
دلبر ہے ستم شعار، اللہ اللہ
اس حسن کا اعتبار، اللہ اللہ
آئے گی خزاں کبھی نہ اس میں گویا
یہ باغِ سدا بہار، اللہ اللہ
 

الف عین

لائبریرین
O
میں اور سوالِ خود نمائی، توبہ
میں اور وبالِ خودستائی، توبہ
اک رندِ بلا نوشِ ازل ہوں اے راز
میں اور خیالِ پارسائی، توبہ
 

الف عین

لائبریرین
O
دنیا کہتی ہے یہ کہ تو ہے مجھ سے
واللہ عجیب گفتگو ہے مجھ سے
معلوم نہیں ہے راز اس کو شاید
گلزارِ جہاں میں رنگ و بو ہے مجھ سے
 

الف عین

لائبریرین
O
جب یہ احساسِ خودی خود آشنا ہو جائے گا
خود بخود تو حق شناس و حق نما ہو جائے گا
دردِ دل بڑھ جائے گا یا جان پر بن جائے گی
بے نیازی سے کسی کی اور کیا ہو جائے گا
حشر پر موقوف تو رکھا ہے میرا فیصلا
کون کہہ سکتا ہے لیکن فیصلا ہو جائے گا
راز راہِ عشق میں کیا حاجتِ خضرِ طریق
جذبۂ صدقِ محبت رہنما ہو جائے گا
 

الف عین

لائبریرین
O
پھر بہار آئی، گلستاں پھر گلستاں ہو گیا
حسنِ پنہاں پردے پردے سے نمایاں ہو گیا
آنکھ والو! دیکھنا نیرنگئ راز و نیاز
عشق جب ظاہر ہوا تو حسنِ پنہاں ہو گیا
اور کیا تھا راز آشفتہ نوائی کا اثر
جس نے افسانہ سُنا میرا، پریشاں ہو گیا
 

الف عین

لائبریرین
O

رفتہ رفتہ حسنِ فطرت دلنشیں ہو جائے گا
وحشت آبادِ جہاں خُلدِ بریں ہو جائے گا
دُور ہے وہ مجھ سے، ہونے دو، مجھے پروا نہیں
دُور ہو کر آنکھ سے، دل کے قریں ہو جائے گا
اضطرابِ شوق میں پیدا تو کر رنگِ سکوں
جو خیال آئے گا پھر وہ دلنشیں ہو جائے گا
دوستوں کی خودنمائی جب عیاں ہو جائے گی
خودبخود اے راز تو خلوت گزیں ہو جائے گا
 

الف عین

لائبریرین
O

دیکھا ہے تماشہ جو تری جلوہ گری کا
ملتا ہے دماغ اب کہاں بادِ سحری کا
اے راز میں ہوں محوِ خیالِ رخِ جاناں
کیا جانے کوئی راز مری بیخبری کا
 

الف عین

لائبریرین
O
لذّتِ دیدار کیسی، دیکھنا دُشوار تھا
جلوۂ حسنِ حقیقت مانعِ دیدار تھا
انتہا میں زندگی کی آرزو کیوں بڑھ گئی
ابتدائے عشق میں جینے سے میں بیزار تھا
راز دل افگار، مستِ بادۂ صدق و وفا
آہ وہ کافر، خدا بخشے بڑا دیں دار تھا
 

الف عین

لائبریرین
O
شکر ہے تیرا بیکسی، کام یہ کام کا ہوا
تیرے کرم سے آج ادا سجدۂ بے ریا ہوا
منزلِ لامکاں ہے اب میری نظر کے سامنے
دیکھ کہاں پہنچ گیا تجھ کو میں ڈھونڈتا ہوا
جیسے بھی راز بن پڑا، فرض تو ہو گیا ادا
اس سے مجھے غرض نہیں حاصلِ سجدہ کیا ہوا
 

الف عین

لائبریرین
O
دنیائے محبت میں یہ زیست کا ساماں تھا
جینے کی نہ صورت تھی، مرنے کا نہ امکاں تھا
ہر سمت تھی اک شورش، شورش بھی قیامت کی
امید کی دنیا تھی، یا حشر کا میداں تھا
دنیا سے جدا ہو کر یہ عقدہ کھلا مجھ پر
وہ خود مری طالب تھی، ناحق میں پریشاں تھا
آئینہ تھی پیشانی کیفیتِ پنہاں کی
جو راز کے دل میں تھا چہرے سے نمایاں تھا
 

الف عین

لائبریرین
O
آئے گا ہاں آئے گا، اب وقت مشکل آئے گا
دل کی بیتابی یہ کہتی ہے کہیں دل آئے گا
شورِ ہستی کی طرف سے کان پہلے بند کر
پھر ترے کانوں میں بھی آوازۂ دل آئے گا
رنگِ دنیا دیکھ کر اے راز آنکھیں کھل گئیں
اب کسی شے پر یہاں کی کیا مرا دل آئے گا
 

الف عین

لائبریرین
O
اچھے برے کا جس کو کچھ امتیاز ہو گا
دنیائے عشق میں کیا وہ سرفراز ہو گا
حسنِ نیاز پیدا کر شانِ عاشقی میں
پھر نازِ حسن سے تو خود بے نیاز ہو گا
مصروفِ نغمہ سنجی یہ کون بے نوا ہے
رنگِ سخن سے ظاہر یہ ہے کہ راز ہو گا
 

الف عین

لائبریرین
O
ترے حسن کا جس میں جلوا نہ ہو گا
وہ کچھ اور ہو گا، سُویدا نہ ہو گا
امیدوں سے اچھی مری ناامیدی
کہ اب دل میں ارمان پیدا نہ ہو گا
مری زندگی درد ہے چارہ سازو !
ہُوا میں جو اچھا تو ا چھا نہ ہو گا
سرافراز ہو گا وہ اے راز کیوں کر
جسے اس کی الفت کا سودا نہ ہو گا
 

الف عین

لائبریرین
O
سمجھ کر اے دلِ وحشی نواسنجانِ فغاں ہونا
بہت دشوار ہے برہم زنِ بزمِ جہاں ہونا
فنائے عشق میں مضمر حیاتِ جاودانی ہے
مبارک مٹنے والو ! تم کو بے نام و نشاں ہونا
خدا توفیق دے تجھ کو تو ترکِ آرزو کر دے
بڑی خوش قسمتی ہے بے نیازِ دوجہاں ہونا
مقدّر کا دھنی ہے راز، وہ تقدیر والا ہے
میسّر ہو جسے لذّت کشِ دردِ نہاں ہونا
 

الف عین

لائبریرین
O
کوئی اپنا نظر آیا، نہ بیگانہ نظر آیا
جسے دیکھا تری محفل میں دیوانہ نظر آیا
نگاہِ عبرت آگیں، دوربینی کے ترے قرباں
کہ یہ معمورۂ ہستی بھی ویرانہ نظر آیا
کیا اے راز میں نے غور جب رودادِ ہستی پر
ازل سے تا ابد دلچسپ افسانہ نظر آیا
 

الف عین

لائبریرین
O
جاں بلب ہے تشنگی سے ایک ناکامِ حیات
اے مسیحا کیش ساقی ! اب کوئی جامِ حیات
کیوں مجھے دیتی ہے اے امید، پیغامِ حیات
کیا نہیں دنیا میں کوئی اور ناکامِ حیات
اب کہاں وہ زندگی کا لطف، وہ زندہ دلی
دل تڑپ اٹھتا ہے جب سُنتا ہوں میں نامِ حیات
آہ یہ افسردگی، یہ بے حسی، یہ بے کسی
راز کیا معلوم، کیا ہونا ہے انجامِ حیات
 

الف عین

لائبریرین
O
رنج و غم اے دلِ ناکام عبث
شکوۂ گردشِ ایّام عبث
جائے عشرت نہیں غم خانہ ہے
دہر میں خواہشِ آرام عبث
دیدۂ دل سے اسے دیکھ اے راز
کیوں ہے سرگشتۂ اوہام عبث
 
Top