الف عین
لائبریرین
اس نوک جھونک کا انجام سوائے مناظرہ کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ راز اپنی ”رفیقِ زندگی“ کے جواب میں ایک لمبی تقریر میں مشرقی عورت کی ناروا آزادی اور بے راہ روی کا نقشہ کھینچتے ہیں اور اپنی شریکِ حیات سے ہمدردی کی توقع رکھتے ہیں۔ اس کے بدلہ میں انہیں ”رفیقِ زندگی ‘ کے بڑھتے ہوئے غصّہ کا سامنا کرنا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ باہمی شکر رنجی کی شکل میں نظر آتا ہے:
مناظرہ :
رفیقِ زندگی، یہ بات کیا ہے
کہ نقشہ دہر کا بگڑا ہوا ہے
عجب اک عالمِ بیم و رجا ہے
خدا کے فضل کا بس آسرا ہے
نہ گھر میں چین ملتا ہے نہ باہر
ٹھکانہ ہی نہیں گویا کہیں پر
اسی کا نام شاید ہے ترقی
کہ خانم کو نہیںکچھ فکر گھر کی
یقینا اس کا حق ہے سیرِ گلشن
اگر جلتا ہے جل جائے نشیمن
اُسے پروائے ننگ و نام کیا ہے
اسے عہدِ وفا سے کام کیا ہے
....
جواباً انہیں یہ سننے کو ملتا ہے:
بہت اچھا، میں اتنی کم نظر ہوں
بہت بہتر، میں ایسی بے ہنر ہوں
بڑی کم ظرف ہوں میں، خود نما ہوں
بہت کج خلق ہوں میں، بیوفا ہوں
مجسّم عیب، سرتاپا خطا ہوں
خودی و خودسری کا آئنا ہوں
مگر تم، اے مرے سرتاج، تم بھی
کبھی کرتے ہو دلداری کسی کی؟
....
بات بگڑتی دیکھ کر راز چرب زبانی سے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ”رفیقِ زندگی“ کی تعریف کے پُل باندھ دیتے ہیں۔ ”رفیقِ زندگی“ اس تعریف کے پردہ میں پوشیدہ الزامات اور شکوہ سے بے خبر نہیں ہے۔ دونوں کی نوک جھونک بہت دلچسپ ہے۔ قاری کو دونوں کے لب و لہجہ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ شکر رنجی مصنوعی سی ہے اور بالآخر ملاپ کی شکل اختیار کر لے گی:
شکر رنجی :
رفیقِ زندگی! سرمایۂ جاں!
انیسِ خاطرِ راز پریشاں
میں قائل ہوں تری فہمِ رسا کا
تری فہمِ رسا، عقدہ کشا کا
جہاں میں تو ہی میری رازداں ہے
مرا ہر رازِ دل تجھ پر عیاں ہے
سراپا سوز ہوں یا ساز یکسر
مجسّم آئنہ یا راز یکسر
الٰہی خیر! آخر راز کیا ہے
جفا ہے، کیا کوئی طرزِ وفا ہے؟
بتاؤ تو سہی کچھ، بات کیا ہے
مری تعریف کا دفتر کھلا ہے
یقینا کچھ نہ کچھ ہے راز اس میں
شمار اب تک کیا ہے مجھ کو کس میں؟
معمّا ہے، پہیلی ہے، یہ کیا ہے
ہوئی سرزد کوئی مجھ سے خطا ہے؟
نہیں ایسا نہیں، ہرگز نہیں ہے
مرا دل آج کچھ اندوہگیں ہے
عجب بے رنگ سا ہے رنگِ محفل
سمجھنا ہو گیا ہے اس کا مشکل
خودی ہے یا مجسّم حق پرستی؟
معمّا سی ہے کچھ عورت کی ہستی
کبھی تصویر ہے جور و جفا کی
کبھی تفسیر ہے قہرِ خدا کی
کبھی خاموش، مثلِ بے زباں ہے
کبھی ہنگامہ آرائے جہاں ہے
میں اب سمجھی،میں اب سمجھی حقیقت
مری کمزوریوں پر تو نظر ہے
جزاک اللہ، یہ لطف و عنایت!
مگر اپنی بھی کچھ تم کو خبر ہے؟
بصیرت ہو تو کھل جائے حقیقت
معمّا مرد ہوتا ہے کہ عورت !
....
اس منزل پر پہنچ کر راز خود کو مجبور پاتے ہیں اور معاملہ کو رفع دفع کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی بے راہ روی اور عورت کی آزاد خیالی اتنے اہم مسائل نہیں ہیں کہ ان پر جھگڑا کر کے گھر کا سکون برباد کیا جائے۔ ملاپ میں اس قصّہ کا انجام جس طرح ہوتا ہے وہ پڑھنے والے کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے اور اس کے لبوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ بھی لاتا ہے :
ملاپ :
رفیقِ زندگی! دلگیر کیوں ہے
سراپا سوز کی تصویر کیوں ہے
غضب آلود چشمِ سرمگیں ہے
شرر افشاں ہر اک چینِ جبیں ہے
پریشاں گیسوئے عنبر فشاں ہے
لبِ گل رنگ پر دودِ فغاں ہے
ذرا سی بات پر یہ برہمی ہے
مگر اس برہمی میں دلکشی ہے
میں قرباں! یہ ادائے بے نیازی
میں صدقے! یہ طریقِ دل نوازی
چلو جاؤ، ہٹو، مجھ سے غرض کیا
معمّا ہوں معمّا میں سراپا
مری فطرت مرے رُخ سے عیاں ہے
مری طینت حریفِ آسماں ہے
ستم گاری سے ہے مجھ کو محبت
ریاکاری ہے گویا میری فطرت
ڈرو مجھ سے، مری برقِ نظر سے
مری چشمِ غضب، جادو اثر سے
میں واقف ہوں کسی کے رازِ دل سے
نگاہِ شوق و سوز و سازِ دل سے
نہ مانو گے، نہ مانو گے مگر تم!
بتاؤں کس قدر ہو خوش نظر تم
دکھاؤں میں اگر شانِ جلالی
مٹا دوں سب کسی کی خوش جمالی
کھلا سکتی ہوں گل ہائے معانی
دکھا سکتی ہوں حسنِ خوش بیانی
مری فطرت میں وہ سوزِ نہاں ہے
کہ جس کے ساز پر رقصاں جہاں ہے
بڑے آئے کہیں کے ناز بردار
پڑے اس ناز برداری پہ پھٹکار
ستانے سے مجھے حاصل ہوا کیا؟
جلانے سے مجھے حاصل ہوا کیا؟
ادا کیا، ناز کیا، انداز کیا ہے
یہ عشوہ اور غمزہ کیا بلا ہے؟
مجسّم شعر ہوں، نغمہ ہوں، لَے ہوں
کوئی سازِ طرب ہوں میں کہ نَے ہوں
تمہیں حاصل اگر حسنِ بیاں ہے
تو میرے منہ میں بھی گویا زباں ہے
بس اب خاموش ہو جاؤ خدارا
کہیں پھر ہو نہ کوئی بات پیدا
مناظرہ :
رفیقِ زندگی، یہ بات کیا ہے
کہ نقشہ دہر کا بگڑا ہوا ہے
عجب اک عالمِ بیم و رجا ہے
خدا کے فضل کا بس آسرا ہے
نہ گھر میں چین ملتا ہے نہ باہر
ٹھکانہ ہی نہیں گویا کہیں پر
اسی کا نام شاید ہے ترقی
کہ خانم کو نہیںکچھ فکر گھر کی
یقینا اس کا حق ہے سیرِ گلشن
اگر جلتا ہے جل جائے نشیمن
اُسے پروائے ننگ و نام کیا ہے
اسے عہدِ وفا سے کام کیا ہے
....
جواباً انہیں یہ سننے کو ملتا ہے:
بہت اچھا، میں اتنی کم نظر ہوں
بہت بہتر، میں ایسی بے ہنر ہوں
بڑی کم ظرف ہوں میں، خود نما ہوں
بہت کج خلق ہوں میں، بیوفا ہوں
مجسّم عیب، سرتاپا خطا ہوں
خودی و خودسری کا آئنا ہوں
مگر تم، اے مرے سرتاج، تم بھی
کبھی کرتے ہو دلداری کسی کی؟
....
بات بگڑتی دیکھ کر راز چرب زبانی سے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ”رفیقِ زندگی“ کی تعریف کے پُل باندھ دیتے ہیں۔ ”رفیقِ زندگی“ اس تعریف کے پردہ میں پوشیدہ الزامات اور شکوہ سے بے خبر نہیں ہے۔ دونوں کی نوک جھونک بہت دلچسپ ہے۔ قاری کو دونوں کے لب و لہجہ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ شکر رنجی مصنوعی سی ہے اور بالآخر ملاپ کی شکل اختیار کر لے گی:
شکر رنجی :
رفیقِ زندگی! سرمایۂ جاں!
انیسِ خاطرِ راز پریشاں
میں قائل ہوں تری فہمِ رسا کا
تری فہمِ رسا، عقدہ کشا کا
جہاں میں تو ہی میری رازداں ہے
مرا ہر رازِ دل تجھ پر عیاں ہے
سراپا سوز ہوں یا ساز یکسر
مجسّم آئنہ یا راز یکسر
الٰہی خیر! آخر راز کیا ہے
جفا ہے، کیا کوئی طرزِ وفا ہے؟
بتاؤ تو سہی کچھ، بات کیا ہے
مری تعریف کا دفتر کھلا ہے
یقینا کچھ نہ کچھ ہے راز اس میں
شمار اب تک کیا ہے مجھ کو کس میں؟
معمّا ہے، پہیلی ہے، یہ کیا ہے
ہوئی سرزد کوئی مجھ سے خطا ہے؟
نہیں ایسا نہیں، ہرگز نہیں ہے
مرا دل آج کچھ اندوہگیں ہے
عجب بے رنگ سا ہے رنگِ محفل
سمجھنا ہو گیا ہے اس کا مشکل
خودی ہے یا مجسّم حق پرستی؟
معمّا سی ہے کچھ عورت کی ہستی
کبھی تصویر ہے جور و جفا کی
کبھی تفسیر ہے قہرِ خدا کی
کبھی خاموش، مثلِ بے زباں ہے
کبھی ہنگامہ آرائے جہاں ہے
میں اب سمجھی،میں اب سمجھی حقیقت
مری کمزوریوں پر تو نظر ہے
جزاک اللہ، یہ لطف و عنایت!
مگر اپنی بھی کچھ تم کو خبر ہے؟
بصیرت ہو تو کھل جائے حقیقت
معمّا مرد ہوتا ہے کہ عورت !
....
اس منزل پر پہنچ کر راز خود کو مجبور پاتے ہیں اور معاملہ کو رفع دفع کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی بے راہ روی اور عورت کی آزاد خیالی اتنے اہم مسائل نہیں ہیں کہ ان پر جھگڑا کر کے گھر کا سکون برباد کیا جائے۔ ملاپ میں اس قصّہ کا انجام جس طرح ہوتا ہے وہ پڑھنے والے کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے اور اس کے لبوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ بھی لاتا ہے :
ملاپ :
رفیقِ زندگی! دلگیر کیوں ہے
سراپا سوز کی تصویر کیوں ہے
غضب آلود چشمِ سرمگیں ہے
شرر افشاں ہر اک چینِ جبیں ہے
پریشاں گیسوئے عنبر فشاں ہے
لبِ گل رنگ پر دودِ فغاں ہے
ذرا سی بات پر یہ برہمی ہے
مگر اس برہمی میں دلکشی ہے
میں قرباں! یہ ادائے بے نیازی
میں صدقے! یہ طریقِ دل نوازی
چلو جاؤ، ہٹو، مجھ سے غرض کیا
معمّا ہوں معمّا میں سراپا
مری فطرت مرے رُخ سے عیاں ہے
مری طینت حریفِ آسماں ہے
ستم گاری سے ہے مجھ کو محبت
ریاکاری ہے گویا میری فطرت
ڈرو مجھ سے، مری برقِ نظر سے
مری چشمِ غضب، جادو اثر سے
میں واقف ہوں کسی کے رازِ دل سے
نگاہِ شوق و سوز و سازِ دل سے
نہ مانو گے، نہ مانو گے مگر تم!
بتاؤں کس قدر ہو خوش نظر تم
دکھاؤں میں اگر شانِ جلالی
مٹا دوں سب کسی کی خوش جمالی
کھلا سکتی ہوں گل ہائے معانی
دکھا سکتی ہوں حسنِ خوش بیانی
مری فطرت میں وہ سوزِ نہاں ہے
کہ جس کے ساز پر رقصاں جہاں ہے
بڑے آئے کہیں کے ناز بردار
پڑے اس ناز برداری پہ پھٹکار
ستانے سے مجھے حاصل ہوا کیا؟
جلانے سے مجھے حاصل ہوا کیا؟
ادا کیا، ناز کیا، انداز کیا ہے
یہ عشوہ اور غمزہ کیا بلا ہے؟
مجسّم شعر ہوں، نغمہ ہوں، لَے ہوں
کوئی سازِ طرب ہوں میں کہ نَے ہوں
تمہیں حاصل اگر حسنِ بیاں ہے
تو میرے منہ میں بھی گویا زباں ہے
بس اب خاموش ہو جاؤ خدارا
کہیں پھر ہو نہ کوئی بات پیدا