باب 3
غزلیات راز
چھیڑا ہے راز میں نے افسانۂ محبت
آغاز سے ہو اچھا انجام داستاں کا
راز کے مجموعۂ غزلیات ”نوائے راز“ پر ہندوستان کے مشہور نقّاد جناب خلیل الرحمٰن اعظمی نے جو پیش لفظ لکھا تھا وہ راز کی غزلیہ شاعری کو سمجھنے اور پرکھنے میں بہت معاون ہے۔ انہوں نے غزلیاتِ راز کے بعض ایسے محاسن کی نشاندہی کی ہے جن کو ہر وہ شخص غیرشعوری طور پر نظرانداز کر سکتا ہے جو ان غزلوں کا مطالعہ روایتی غزل گوئی کے تناظر میں کرے گا۔ اس پیش لفظ کے مندرجہ ذیل اقتباسات زیرِ نظر تالیف کے مطالعہ کے پیش خیمہ کے طور پر استعمال کیے جا سکتے ہیں:
”ہم کسی نئے غزل گو شاعر کی تعریف کرناچاہیں گے تو .... اگر وہ جذبات کا شاعر ہے اور اس کے جذبات میں شدّت ہے تو ہم اسے میر کے قبیلہ کاشاعر کہیں گے۔ اگر اس کے یہاں فکر کا عنصرہے یا اس کے تخیلات میں پیچیدگی اور اشکال ہے تو اسے غالب کی برادری میں شامل کریں گے۔ اگر معاملہ بندی اور چٹخارہ ہے تو جرأت اور داغ کے مماثل بتائیں گے۔ اگر استادی اور کرتب ہے تو ناسخ اور ذوق یا اسی قبیل کے کسی استادِ فن سے اُس کا سلسلۂ نسب ملائیں گے۔ بیسویں صدی میں ہم نے چند اور غزل گویوں کے سر پر عظمت کا تاج رکھا ہے۔ مثلاً حسرت، اصغر، فانی اور جگر وغیرہ۔ اب عام ناقدین نے اُردو کے کسی جدید غزل گو کو نوازنے کا یہ ڈھنگ نکالا ہے کہ اُسے اچھا غزل گو اور جدید شاعر کہنے کے لئے انہیں عناصرِ اربعہ کےساتھ رکھ کر دیکھنا اور کسی نہ کسی سے اُس کی قسمت کے ستارے کو وابستہ رکھنا ضروری سمجھاہے ....“
وہ آگے چل کر راز کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
”اس طرح کی شاعری پر تنقید یا تعارف کے لئے غزلیہ شاعری کے عام معیاروں کو سامنے رکھنا کچھ زیادہ سود مند نہ ہو گا .... اگر عام تنقیدی اصولوں سے دامن چُھڑا کر براہِ راست شاعر کے ساتھ ذہنی سفر کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس مجموعہ میں بعض ایسی باتیں ملیں جو چاہے کسی اور شاعر کے یہاں نہ ہوں یا کسی اور کے یہاں محاسن کے طور پر موجود نہ ہوں، لیکن وہی باتیں اس مجموعہ کی فضا کو ایک ایسا رنگ دیتی ہیں جو میرے نزدیک بہت بڑی خوبی ہے ا ور اسی خوبی کی بنا پر اس شاعری کو زندہ رہنے کا حق ہے۔“
”سب سے پہلی بات جو مجھے راز کی شاعری میں نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں شدّت یا تلخی نہیں ہے۔ شاعر کے یہاں محسوسات بھی ہیں اور تجربات بھی، غم اور افسردگی، ناکامی اور نامرادی کے لمحے بھی ہیں، لیکن ان کو شاعر نے ہضم کرنے کے بعد اس طرح پیش کیا ہے کہ یہ شدّت ایک خوشگوار اعتدال میں تبدیل ہو گئی ہے اور زہر کی تلخی امرت رس معلوم ہونے لگتی ہے۔“
”راز کی شاعری ایک نارمل اور عام انسان کے دکھ درد، مسرت و انبساط اور اس کی آرزؤوں اور خوابوں کا نارمل اور سادہ اظہار ہے۔ اسی لئے اس میں رنگینی، سرشاری، ربودگی، اُڑان، فلسیانہ فکر، پیچیدگی اور بہت سے ایسے عناصر نہیں ملیں گے جو عام اُردو غزل گویوں کا طرۂ امتیاز ہیں۔“
....
خلیل الرحمٰن اعظمی کی اس تحریر سے مندرجہ ذیل باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں:
(١)
راز کا کلام روایتی غزل گوئی کی شاہراہِ عام سے الگ اپنا مخصوص اور منفرد رنگ رکھتا ہے جس سے لطف اُٹھانے کے لئے غزل گوئی کے عام معیار اور اصول نہ صرف کارآمد نہیں ہیں بلکہ وہ راز کی شاعری کی فہم و تحسین میں ایک حد تک رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
(٢)
راز کے کلام میں جذبات و احساسات کی صداقت ہے، مگر وہ ایسی شدّت ِ جذبات سے پاک ہے جو طبیعت میں تکدر یا انقباض پیدا کرے۔
(٣)
ان کی شاعری ایک عام آدمی کے سیدھے سادے اور فطری جذبات کا فطری اظہار ہے۔ چنانچہ اس میں ایک عام شخص کی ذہنی اور جذباتی آسودگی کا سارا سامان موجود ہے۔ البتہ اس سامان کی ظاہری نوعیت روایتی غزل گوئی کے متعلقات سے مختلف ہے۔
کلامِ راز کی مذکورہ ندرت و انفرادیت کی ترکیب کئی عناصر سے ہوئی ہے، مثلاً زبان و بیان کے چند غیرمعمولی التزامات جو راز نے بڑے اہتمام سے برتے ہیں، اُردو غزل کے روایتی مضامین اور روایتی اندازِ بیان سے تقریباً مکمل احتراز، حلاوتِ فکر وغیرہ۔ اسی لئے اُن کی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُس کے اِن بنیادی عناصر سے واقفیت حاصل کی جائے اور مطالعۂ راز کے وقت انہیں ذہن میں رکھا جائے۔
راز کے التزاماتِ شعری :
اُردو غزل گوئی کے ہر دَور میں ہزاروں شعراءکی نغزگوئی اس بات کی شاہد ہے کہ بیشتر شعراءکا کلام ایسی امتیازی خصوصیات سے کم و بیش مبرّا ہوتا ہے جو اسے انفرادیت سے سرفراز کر سکیں۔ صدیوں کی غزل سرائی نے اب کوئی ایسا جذبہ یا خیال نہیں چھوڑا ہے جس کو متعدد شعراءنے اپنے اپنے انداز میں نظم نہ کیا ہو۔ چنانچہ اکثر شعراءکا اپنے پیش روؤں یا ہم عصروں کی بازگشت نظر آنا حیرت کا مقام نہیں ہے۔ انفرادیت اور عظمت ہر دَور میں معدودے چند شعراءکا ہی حصّہ رہی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ انفرادیت، عظمتِ کلام کو مستلزم نہیں ہے جب کہ عظیم کلام کا منفرد ہونا ایک فطری امر ہے۔
انفرادیتِ کلام کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ کہیں یہ شدّتِ جذبہ اور احساس کی اثر پذیری میں ظاہر ہوتی ہے (میر تقی میر) تو کہیں بلندئ یال کی شکل اختیار کر لیتی ہے (مرزا غالب)، کہیں زبان کی سادگی اور معاملہ بندی پر منحصر ہوتی ہے (داغ) اور کہیں مشاقئ لفاظ پر (ناسخ)۔ اسی طرح انفرادیتِ کلام شعوری بھی ہو سکتی ہے اور غیر شعوری بھی۔ شعوری انفرادیت اس خصوصیت کلام کو کہا جائے گا جسے شاعر اختیاری طور پر، سوچ سمجھ کر اپناتا ہے اور غیرشعوری انفرادیت اس خصوصیت کو کہیں جو شاعر کی افتادِ طبع اور تربیتِ فکر کے قدرتی نتیجہ کے طور پر اضطراری طور پر اس کے کلام میں دَر آتی ہے۔
راز کی غزل گوئی میں انفرادیت کے متعدد پہلو نظر آتے ہیں جو روایتی کہے جا سکتے ہیں۔ ان کے یہاں سادگی اور پُرکاری بھی ہے اور پُر شکوہ ترکیبیں بھی، صفائیِ زبان بھی ہے اور چست • بندش بھی، جذباتِ عالیہ اور فلسفہ و تصوف بھی ہیں اور ایک عام انسان کا دکھ درد بھی۔ لیکن ان سب اجزا کی فرداً فرداً موجودگی کو ان کے کلام کی انفرادیت کا ضامن نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ہر اچھے شاعر کے کلام میں مذکورہ خصوصیات موجود ہوتی ہیں، مگر جب تک اس کے کلام کی دلپذیری اور معنی آفرینی کا مدار کسی ایک خصوصیت پر نہ ہو اس پر انفرادیت کا حکم مشکل ہی سے لگ سکتا ہے۔ میر اپنے سوز و گداز اور شدّتِ جذبات، غالب اپنی معنی آفرینی اور بلند • افکار، داغ اپنی صفائیِ زبان اور اقبال اپنے شکوہِ الفاظ اور فلسفۂ عالیہ کے حوالہ سے اسی لئے منفرد تھے کہ اُن کا کلام ان خصوصیات سے سراسر مملو تھا اور یہی خصوصیات ان کی شاعری کی عظمت و امتیاز کی بڑی حد تک ضامن تھیں۔
دراصل راز کے کلام کو غزلیہ شاعری کی راہِ عام سے ممتاز و منفرد کرنے کے ضامن اُن کے وہ التزامات ہیں جو انہوں نے حیرت انگیز ضبط و نظم سے اپنی غزلوں میں برتے ہیں اور اس خوبصورتی سے کھپا دیے ہیں کہ بیک نظر دکھائی نہیں دیتے۔ جب تک ان کی غزلیہ شاعری کا بالاستیعاب تجزیہ نہ کیا جائے،یہ التزامات ذہن پر مرتب نہیں ہوتے کیونکہ وہ کلام کی خوبصورتی اور دلپذیری میں گھل مل کر شیر و شکر ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ اجمال قدرے تفصیل کا متقاضی ہے۔
1۔
”مصحفِ راز“ کی دو سو ترپن (253) غزلوں میں اٹھائیس (2
غزلیں ایسی ہیں جن کی ردیف صیغۂ واحد متکلم (میں، مجھے، میرے لئے، مرا،میں نے، ہوں، وغیرہ) میں ہیں اور شاعر کو ہر شعر کا مضمون اس طرح بیان کرنے پر مجبور کرتی ہیں جیسے وہ اس کا ذاتی تجربہ، مشاہدہ یا جذبہ ہو۔ چنانچہ ایسی غزلوں کا ہر شعر راز کی ترجمانی پر مامور معلوم ہوتا ہے۔ یہ امر بذاتِ خود غیرمعمولی یا اہم نہیں ہے، لیکن درج ذیل تین اور التزامات کے ساتھ مل کر نہایت دلچسپ اور اہم ثابت ہوتا ہے۔
2۔
مندرجہ بالا اٹھائیس غزلوں کے علاوہ اسّی (80) غزلیں ایسی ہیں جن کے مطلعوں میں راز نے صیغۂ متکلم ( میں، مجھ کو، میرے لئے وغیرہ) استعمال کر کے ان کے مضامین کو ایک شخصِ واحد (راز) کی آپ بیتی کی شکل دے دی ہے۔ یہ مطلعے ان سینکڑوں اشعار کے علاوہ ہیں جن میں انہوں نے اسی التزام کے ساتھ آپ بیتی کا انداز برتا ہے اور جو ان کی غزلوں میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔
3۔
مذکورہ اشعار میں وہ دو سو ترپن (٣5٢) مقطع شامل کیجئے جن میں راز نے بھی ہر شاعر کی طرح اپنے تخلص کے حوالہ سے دنیا کی بات خود پر ڈھال کر کہہ جانے کا ڈھنگ اپنایا ہے، تو اس التزام کی اہمیت اور بھی ظاہر و واضح ہو جاتی ہے۔
4۔
علاوہ ازیں یہ بات نہایت دلچسپ اور قابلِ ذکر ہے کہ راز نے اپنے پورے غزلیہ کلام میں صیغۂ جمع متکلم (ہم، ہمارے، ہم سے ،وغیرہ) کے استعمال سے تقریباً مکمل اجتناب برتا ہے۔ یہ صورتِ حال نہایت غیرمعمولی ہے اور اُردو غزل گوئی میں یقیناً منفرد بھی ہے کیونکہ کسی اور شاعر نے اس شدّت و اہتمام سے یہ التزام نہیں برتا ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس طرح راز نے اپنی غزلوں کے تمام مشاہدات، خیالات و احساسات کو ایک شخصِ واحد (راز) کی ذات سے بلا شرکتِ غیرے وابستہ کر دیا ہے۔ ”ہم، ہمارے“ اور ایسے ہی دوسرے الفاظ سے اظہارِ خیال میں جو عمومیت سی پیدا ہو جاتی ہے ،اس کے لئے راز بالکل تیار نظر نہیں آتے۔ یہ التزام ان کی انا اور خودداری کی جانب اشارہ کرتا ہے، جو ان کی طبیعت کے اہم اجزا تھے۔
صیغۂ جمع متکلم سے مکمل احتراز و اجتناب ایک حد تک شعوری معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس اہتمام اور ضبط و نظم سے اختیار کیا ہوا ہر التزام ایک سوچی سمجھی اور شعوری کوشش کا متقاضی ہے، ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہزاروں اشعار میں دو ایک مقامات کے سوا راز خود پر ”ہم، ہمارے، وغیرہ“ کے اطلاق کو جائز نہیں سمجھتے ہیں؟ تاریخِ ادبِ اردو میں شاید ہی کوئی شاعر گزرا ہو گا جس نے اس شدّت و اہتمام سے اعلانِ انا کی ایسی مخصوص صورت اختیار کی ہو۔ یہ التزام ایک حد تک غیرشعوری بھی ہو سکتا ہے۔ راز نہایت غیور اور خوددار شخصیت کے مالک تھے اور اپنی افتادِ طبع میں دنیا اور راہِ عام سے گریزاں تھے۔ یہ طرزِ عمل نخوت وتکبّر کی بنا پر ہرگز نہیں تھا کیونکہ ان کی طبیعت بلا کی سادہ اور حق پسند تھی اور نخوت و تکبّر انہیں چھو کر بھی نہیں گزرے تھے۔ وہ ہنگامہ آرائی اور شور و شغب سے بہت گھبراتے تھے اور انہوں نے اپنی دنیا الگ ہی بسا رکھی تھی۔ وہ اپنی شاعری کو بھی راہِ عام سے ممتاز و ممیز رکھنا چاہتے تھے۔ اس جذبہ کو انہوں نے اپنے کلام میں مختلف انداز میں پیش کیا ہے:
حسنِ ظن ہے یہ اہلِ عالم کا
ورنہ ان سے میں ہم کلام نہیں
راز تقلیدِ مزاجِ عام مستحسن نہیں
فطرت ِشاعر کو تو آزاد ہونا چاہئے
اے راز شعرِ خاص ہے سرمایۂ ادب
تکلیفِ التفات نہ دے ذوقِ عام کو
جس بادۂ سرجوش سے میں مست ہوں اے راز
میخانۂ ہستی میں تو وہ عام نہیں ہے
چنانچہ مذکورہ التزام راز کی خاموش طبیعت اور عزلت گزینی کا زائیدہ معلوم ہوتا ہے۔ انہیں اس افتادِ طبع اور اندازِ فکر کے نتائج کا بخوبی احساس تھا، مگر وہ اپنی فطرت سے جنگ پر آمادہ نہیں تھے:
مشکل نہیں کہ رونقِ محفل نہ بن سکوں
لیکن میں اپنے رنگِ طبیعت کو کیا کروں
گمنام ہوں، گمنام سہی بزمِ ادب میں
اے راز یہ کیا کم ہے کہ بدنام نہیں ہوں
راز کا یہ رجحانِ طبع عوام پسند شاعری کرنے میں ہمیشہ حارج رہا اور اُن کا شاعرانہ خطاب، اربابِ ذوق و ادب سے ہی انہیں کی زبان و استعارہ میں رہا۔ چنانچہ انہیں وہ قبولیتِ عام حاصل نہ ہو سکی جس کے وہ مستحق تھے۔ البتّہ ادبی حلقوں میں ان کا مقام و مرتبہ مناسب بھی تھاور محترم بھی۔
............
راز اور غزل کے روایتی مضامین :
تکلفاتِ قیام و سجود ہیں بے سود
کہاں خلوص و محبت، کہاں رسوم و قیود
رموزِ حسن و محبت سے راز واقف ہے
مگر یہ راز ہے دنیائے راز تک محدود
غزل کے لغوی معنی ”محبوب سے گفتگو کرنا“ ہیں۔ اُردو غزل نے اپنے سارے متعلقات فارسی سے مستعار لئے ہیں۔ کیا زبان و بیان اور کیا استعارے اور تشبیہیں، کیا مضامین اور کیا ہیئت، سب کچھ ہی فارسی کا مرہونِ منّت ہے۔ وہی حسن و عشق کی واردات ہے اور وہی ہجر و وصال کے افسانے، وہی حسن کی بیوفائی ہے اور وہی عشق کی واماندگی اور نوحہ گری۔ گل و بلبل، آشیانہ و قفس، بہار و خزاں، جنون و صحرانوردی، دشت پیمائی و آبلہ پائی، جام و سبو، کعبہ و بت خانہ، موعظاتِ ناصح، رقیب کی ریشہ دوانیاں، غرضیکہ کون سا مضمون ہے جو فارسی کی خوشہ چینی کا ثمرہ نہیں ہے۔ ہر شاعر نے ایسے ہی مضامین پر زورِ قلم صرف کیا ہے۔ لہٰذا اکثر شعراءدوسروں کے حاشیہ بردار اور صدائے بازگشت معلوم ہوتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ روایتی غزل کے روایتی مضامین کی پاسداری نے اُردو غزل گو کو ایک ایسا فرضی اور افسانوی محبوب ایجاد کرنے پر مجبور کر دیا جس کا وجود انسان کی روزمرّہ کی زندگی میں اگر یکسر ناممکن نہیں ہے تو کم از کم بے حد مشکل اور بعید از قیاس ضرور ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اسی محبوب کے حوالہ سے غزل کو وارداتِ قلب، معاملہ بندی، جذبات نگاری اور معنی آفرینی کے بے شمار دلنشیں اور بیش بہا تحائف بھی ملے ہیں۔ لیکن اس ضمن میں کمال اور سرفرازی ہر دَور میں چند شعراءتک محدود رہی ہے۔
ایک غزل گو کی حیثیت سے راز مذکورہ روایتی مضامین سے یکسر اغماض تو نہیں برت سکتے تھے، البتہ انہوں نے اس منزل میں بھی اجتہاد و انفرادیت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا ہے۔ اس انفرادیت کے دو پہلو ان کے کلام میں نمایاں ہیں:
1۔ چند روایتی غزلیہ مضامین کو انہوں نے تقریباً یکسر چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ عشق کی افسانوی نامرادی، غمِ ہجراں، دشت نوردی اور آبلہ پائی، خُمریات وغیرہ سے انہوں اہتمام و التزام کے ساتھ احتراز برتا ہے اور اگر کہیں بھولے بھٹکے ان کا ذکر آ بھی گیا ہے تو وہ راز کے مخصوص اندازِ فکر و بیان کی آنچ میں تپ کر اپنی روایتی شکل کھو بیٹھاہے۔ مثلاً:
اسیرانِ قفس کو کاش یہ احساس ہو جائے
شکستہ بازوؤں میں قوتِ پرواز ہوتی ہے
پروانے خودغرض تھے کہ خود جل کے مر گئے
احساسِ سوزِ شمعِ شبستاں نہ کر سکے
لگا دو آگ،جلا دو اب آشیانے کو
بہار آنے کی کوئی امید ہی نہ رہی
وہ مصلحت تھی کہ پاسِ ادب، خدا جانے
مگر خزاں کو سمجھنا پڑا بہار مجھے
جو سوزِ محبت سے نہ ہو شعلہ بداماں
وہ شمع کبھی رونقِ محفل نہیں ہوتی
اس اندازِ فکر اور طرزِ بیان میں اور روایتی غزل میں جو فرق ہے اس پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے۔
....
2۔ راز کے یہاں محبت اور اس کے متعلقات ایک منفرد رنگ سے آراستہ نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں محبت میں گریہ و زاری کی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ وہ راہِ محبت سے گزرتے ہیں، مگر صبر و تحمل سے۔ گویا یہ مرحلہ سخت تو ہے مگر اس میں رو رو کر زمین و آسمان سر پر اٹھانا عاشقی کی توہین ہے۔ ان کا عشق ایک سیدھے سادے مگر خوددار شخص کا عشق ہے:
وہ مری آہ و بکا تھی خامکاری کی دلیل
ہو گیا خاموش،ذوقِ عشق جب کامل ہوا
دردِ فراقِ یار کی مجبوریاں بجا
اتنا تو ہو نہ شور، قیامت کہیں جسے
...
اس کا یہ مطلب نہیں کہ راز محبت کے قائل نہیں ہیں۔ محبت تو ان کا محبوب موضوع ہے اور ان کے کلام میں اس پر سینکڑوں اشعار ملتے ہیں۔ وہ محبت کے شاعر ہیں اور اسی کے پیامی۔ البتہ ان کے یہاں اس کا تصور اور اس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ شاید فکرو بیان کی یہ اجنبیت بیک نظر ہماری توجہ کا دامن نہیں کھینچتی ہے۔ ان کی محبت ایک سیدھے سادے عام شخص کی سیدھی اور سچی محبت ہے جو اپنے ہر تجربہ میں سادگی، خلوص اور دلسوزی رکھتی ہے، جو بازارِ عام کی رسوائی کو پسند نہیں کرتی اور اپنی واماندگی اور بے سروسامانی کا تماشا ساری دنیا کو نہیں دکھانا چاہتی ہے۔ ان کی محبت میں ایک تہذب اور رکھ رکھاؤ ہے۔ وہ کسی وقت بھی لب و لہجہ اور جذبات کی شرافت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کے بیانِ محبت میں ایک تازگی اور شائستگی ہے جو اپنے اندر بے ساختگی بھی رکھتی ہے اور اثر پذیری بھی۔ ایسے رکھ رکھاؤ کی محبت کی قدر و قیمت دنیا کے بازارِ عام میں چاہے جیسی بھی ہو، اہلِ درد اس سے خوب واقف ہیں کہ یہ محبت راز کی نظروں میں عبادت کے مترادف ہے۔
مرا ذوقِ پرستش ہے جدا سارے زمانہ سے
محبت کرتا جاتا ہوں، عبادت ہوتی جاتی ہے
....
محبت کی تعریف راز کی زبانی ہی سنئے:
محبت کیا ہے ، نیرنگی ہے اک حسنِ طبیعت کی
کبھی کافر، کبھی حق آشنا معلوم ہوتی ہے
مایۂ زیست و جانِ راحت ہے
ہائے کیا چیز یہ محبت ہے
ابھی واقف نہیں دنیا محبت کی حقیقت سے
حقیقت میں محبت ہی تو حسنِ زندگانی ہے
....
وہ محبت کے پرستار ہیں اور اسے جان سے بھی عزیز جانتے ہیں:
محبت بے بہا اک چیز ہے دنیائے امکاں میں
اگروہ جان دے کر بھی تجھے مل جائے،سستی ہے
بڑی تقدیر ہے اس کی جو دل پہلو میں رکھتا ہے
بڑی قسمت ہے اُس دل کی محبت جس میں بستی ہے
اک خانماں خراب کی دولت کہیں جسے
وہ درد دل میں ہے کہ محبت کہیں جسے
....
راز کے یہاں عاشق کو خودداری کی تعلیم دی جاتی ہے اور نیازِ عشق، حسن کو نیازمندی پر مجبور کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ ان کی دیوانگی بھی ہوش کا رنگ لئے ہوئے ہے اور محبت کی خودفراموشی بھی محبوب کی یاد کا بہانہ بن جاتی ہے:
نیازِ عشق میں اتنا کمال پیدا کر
کبھی
کہ نازِ حسن سراپا نیاز بن جائے
کمالِ عشق ہے یہ ، شانِ عاشقی ہے یہی
کہ سوزِ عشق مبدّل بہ ساز ہو جائے
ہشیار ہوں ہشیار، میں بیہوش نہیں ہوں
مینوشِ محبت ہوں، بلا نوش نہیں ہوں
سرگرم تکلم ہوں تصوّر میں کسی سے
گو صورتِ تصویر ہوں، خاموش نہیں ہوں
اہلِ ظاہر بے خبر ہیں غالباً اس راز سے
خودفراموشی بھی اک صورت ہے اُس کی یاد کی
....
یہ رنگ و آہنگ بیک نظر غزل کی روایتی معاملہ بندی اور وارداتِ قلب سے یکسر مختلف معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو راز کا رنگ اور مذکورہ روا یتی رنگ ایک ہی سکّہ کے دو رُخ ہیں۔ راز کی محبت میں وہ بے اختیاری اور والہانہ پن ڈھونڈنا بیکار ہے جو دوسروں کے کلام میں نظر آتا ہے۔ راز کے لئے محبت ایک تقاضائے فطرت ضرور ہے، مگر اس کے لئے وہ دلِ درد آشنا کے ساتھ بلند نگاہی اور طبعِ سلیم کی موجودگی بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار کی گھلاوٹ، نرمی اور لب و لہجہ کا رکھ رکھاؤ دیکھئے اور خود ہی فیصلے کیجئے کہ وہ دل کے تاروں پر مضراب کا اثر رکھتے ہیں کہ نہیں :
انجامِ تمنّا کی تفسیر سے کیا حاصل
اک خوابِ پریشاں کی تعبیر سے کیا حاصل
دیوانہ سہی لیکن دیوانۂ اُلفت ہوں
پابندِ محبت ہوں، زنجیر سے کیا حاصل
سراپا سوز ہوتا ہے، مجسم ساز ہوتا ہے
حقیقت میں دلِ دردآشنا اک راز ہوتا ہے
ہزاروں جام ہائے تلخ و شیریں پینے پڑتے ہیں
بڑی مشکل سے کوئی آشنائے راز ہو تا ہے
حسن کیا چیز ہے ، محبت کیا
خواب ہے ، خواب کی حقیقت کیا
ناکام محبت ہوں اے راز تو کیا غم
یہ بات بھی ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی
کسی کی بے نیازی کو کہاں احساس ہوتا ہے
ہزاروں بار سجدے میں جھکائی ہے جبیں میں نے
ہائے وہ میری آخری حسرت
دل سے نکلی تھی جو دُعا ہو کر
....
یہ دلسوزی، نرمی اور لب ولہجہ کی گھلاوٹ وہی کیفیت ہے جس کے متعلق خلیل الرحمٰن اعظمی نے لکھا ہے کہ راز نے اپنے تجربات و محسوسات کو ہضم کرنے کے بعد اس طرح پیش کیا ہے کہ ”یہ شدّت ایک خوشگوار اعتدال میں تبدیل ہو گئی ہے اور زہر کی تلخی امرت رس معلوم ہونے لگتی ہے“۔ دراصل راز اپنی شعر گوئی کے کسی لمحہ میں بھی اس میانہ روی اور شائسگتی سے بیگانہ نہیں ہونا چاہتے جو اُن کی شخصیت اور فطرت کے اہم اجزا میں شمار کی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ یہ اندازِ سخن نہ اختیار کرتے تو اپنی ذات سے انحراف کے ذمہ دار ٹھہرتے۔ اس اندازِ کلام نے راز کے اشعار کو میر کے اس شعر کی فکری تفسیر بنا دیا ہے
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا
............
راز اور” تقلیدِ مزاجِ عام“ :
اس سے قبل یہ ذکر ہو چکا ہے کہ راز راہِ عام پر چلنے کے قائل نہیں تھے۔ چنانچہ شاعری میں عوام پسند کلام سے ان کا احتراز ایک حد تک یقینا شعوری تھا۔ وہ جس موضوع پر بھی طبع آزمائی کرتے تھے اس کو اپنے مخصوص رنگ و آہنگ سے نئی یا کم از کم مختلف شکل دے دیتے تھے۔ ”تقلیدِ مزاجِ عام“سے یہ کنارہ کشی ان کی شاعری کو انجمنِ عوام سے نکال کر بزمِ خاص میں پہنچا دیتی ہے۔ چنانچہ ان کے کلام سے لطف اندوز ہونے کے لئے ہمیں ان ظروف اور پیمانوں کو ترک کرنا پڑتا ہے جو روایتی شاعری کے مطالعہ کے لئے عموماً استعمال ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے، خلیل الرحمٰن اعظمی اسی لئے ان کی شاعری کے متعلق لکھتے ہیں کہ :
”اس طرح کی شاعری پر تنقید یا تعارف کے لئے غزلیہ شاعری کے عام معیاروں کو سامنے رکھنا کچھ زیادہ سودمند نہ ہو گا .... اگر عام تنقیدی اصولوں سے دامن چھڑا کر براہِ راست شاعر کے ساتھ ذہنی سفر کیا جائے تو ممکن ہے کہ اس مجموعہ میں بعض باتیں ایسی ملیں جو چاہے کسی اور شاعر کے یہاں نہ ہوں یا کسی اور کے یہاں محاسن کے طور پر موجود نہ ہوں، لیکن وہی باتیں اس مجموعہ کی فضا کو ایسا رنگ دیتی ہیں جو میرے نزدیک بہت بڑی خوبی ہے .... “
اس رنگ کی چند مثالیں پچھلے صفحات پر گزر چکی ہیں۔ یہاں خمریات اور مسئلہ جبر و قدر کے حوالے سے مختصراً اس موقف کی مزید تائید مقصود ہے۔ یہی تائید راز کی شعر گوئی کی انفرادیت اور دیگر مضمرات کی گرہ کھولنے میں بھی معاون ہو گی۔
جب مرزا غالب نے کہا تھا کہ
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
تو انہوں نے ایک لطیف حقیقت کی جانب اشارہ کیا تھا۔ اردو غزل کی روایت کا ایک اہم اور دلکش حصّہ وہ ہے جو جام و شراب، ساقی و میکدہ اور کیف و سرور سے وابستہ ہے۔ ہر قابلِ ذکر شاعر نے اس موضوع پر اپنے انداز میں طبع آزمائی کی ہے۔ راز بھی اس کوچہ سے بیگانہ نہیں ہیں البتہ وہ اس شراب سے تقریباً ناواقف نظر آتے ہیں جو اردو غزل کو بہکنے کے ہزار بہانے فراہم کرتی ہے ۔ ایک آدھ جگہ و ہ ضرور کہتے ہیں کہ
رندی ہے اساسِ پارسائی
پینے سے پھر احتراز کیا ہے
فکرِ دنیا جاں گسل تھی، فکرِ عقبیٰ دل خراش
میں نے ان دونوں کو نذرِ جام و مینا کر دیا
اب ترے اشعار میں پہلی سی رنگینی نہیں
غالباً اے راز تو نے ترک پینا کر دیا
لیکن فوراً ہی وہ سنبھل کر اس دوسری شراب کے گن گانے لگتے ہیں جو انہیں عزیز ہے اور اپنے نشہ میں محبت اور عرفانِ حقیقت کا رنگ لئے ہوئے ہے:
ازل سے راز مخمورِ شرابِ نابِ الفت ہوں
مری بادہ پرستی بھی دلیلِ حق پرستی ہے
ہے بادۂ اُلفت سے حاصل مجھے سرشاری
سب سے ہے الگ میرا معیارِ گنہ گاری
مستِ مئے عرفاں ہوں، ساقی کا یہ احساں ہے
اب میں بھی مسلماں ہوں، دنیا بھی مسلما ں ہے
کرنا تھا کچھ نہ کچھ تو علاجِ خودی مجھے
سیدھی سی بات بادہ کشی اختیار کی
جتنے میکش ہیں، مئے ہوش کے متوالے ہیں
کیا خراباتِ جہاں میں کوئی ہشیار نہیں؟
اس مے کشی اور غزلیہ شاعری کی روایتی مے کشی میں جو فرق ہے وہ توضیح و تشریح کا محتاج نہیں ہے۔ راز کے یہاں مے کشی ایک حد سے گزر جانے کے بعد ہوشیاری کی ضامن ہو جاتی ہے، بیہوشی اور بے حالی کی نہیں
انتہائے مے کشی میں ہوشیاری بڑھ گئی
ابتدا میں تو یہ کیفیت مجھے حاصل نہ تھی
اور ایسا ہونا بھی چاہئے کہ اس مئے عرفاں اور بادۂ الفت کا یہی فطری تقاضا ہے۔
راز کے کلام میں اندازِ فکر کی یکسانیت بدرجۂ اتم ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہئے۔ اگر کہیں وہ انسانی فطرت کے تقاضے سے اپنے جادۂ فکر سے بھٹک بھی جاتے ہیں تو بہت جلد وہ پھر اپنی دیکھی بھالی راہ پر واپس آ جاتے ہیں۔ اس کی اچھی مثال وہ اشعار ہیں جو انہوں نے جبر و قدر کے مسئلہ پر کہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک عام انسان کی طرح رنج و غم، آزمائش اور ابتلا کی مختلف شکلوں سے زندگی بھرنبردآزما رہنے کے بعد ان کے ذہن میں سوالات اُبھرے ہوں گے۔ ایک ذکی الحس شاعر کی حیثیت سے انہیں ان سوالات کے جوابات کی تلخی کچھ زیادہ ہی محسوس ہوئی ہو گی۔ اپنی نامرادیوں اور پریشانیوں سے تنگ آ کر انہوں نے بھی آسمان کی جانب سوالیہ نگاہیں اٹھائی ہوں گی۔ ان کی فکر میں اس مسئلہ پر تضاد نظر آتا ہے جو انسانی فطرت کا خاصّہ ہے اور جس سے وہ اپنی طبیعت کے ضبط اور معتقدات کی سختی کے باوجود چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے ہیں۔
اپنی طبیعت اور تجربہ کے کسی کمزور لمحہ میں راز حسنِ عمل اور تدبیر و کوشش میں ہی ہر مشکل کا حل سمجھ لیتے ہیں اور تدبیر کے نتائج کو وہ نوشتۂ تقدیر کے مترادف مانتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ :
حسنِ عمل کا ہے وہ نتیجہ
کہتی ہے دنیا جس کو مقدّر
ہم نشیں ایسی کوئی تدبیر ہونی چاہئے
میرے قبضہ میں مری تقدیر ہونی چاہئے
کامیابی کی کیجئے تدبیر
بس یہی ہے نوشتۂ تقدیر
لیکن زندگی کے تلخ حقائق انہیں خواب و خیال کی دنیا سے باہر نکلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کی حیرانی و سراسیمگی درج ذیل اشعار سے ظاہر ہے:
حریفِ جبرکہوں یا شریکِ قدر اس کو
بہ لطفِ خاص دیا ہے جو اختیار مجھے
کیا تماشا ہے کسی بات کا مقدور نہیں
اور پھر یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مجبور نہیں
اور جب اس اختیار کی ملکیت کا انکشاف ہوتا ہے تو وہ صبر و شکر کے انداز میں کہتے ہیں:
حدّ امکاں تک تو بے شک کام ہے تدبیر کا
اس سے آگے جو مقدّر ہو مری تقدیر کا
اک رمز ہے لطیف، سمجھنے کی بات ہے
سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں اختیار میں
الزامِ اختیار کی تردید کیا کروں
وہ جانتا ہے جتنا مجھے اختیار ہے
یعنی ع چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا۔آخر کار، راز اپنی مجبوری کا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
کیا کہتے ہو تم مجھ سے، دیکھی ہے بہت میں نے
تقدیر کی دارائی ، تدبیر کی رسوائی
جب بگڑتی ہوئی دیکھی کوئی تدبیرِ خرد
کر دیا دفترِ تقدیر میں شامل میں نے
جب بگڑتی ہے قسمتِ تدبیر
دل شریکِ نماز ہوتا ہے۔
آخری شعر ہو بہو انسانی فطرت کی تصویر ہے کہ ع جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا۔راز بھی اپنے نام نہاد ”اختیار“ کی درماندگی دیکھ کر حرفِ آخر یوں ادا کرتے ہیں :
دیوانہ کن تھی کشمکشِ جبر و اختیار
اب جبر اختیار کیے جا رہا ہوں میں
تدبیر نہ بن سکی جو تقدیر
معلوم ہوا کوئی خدا ہے !
اللہ بس باقی ہوس!
آساں نہیں اے راز حقیقت کو سمجھنا
مشکل ہے نکلنا اثرِ وہم و گماں سے
............
چھوٹی بحروں میں غزل گوئی:
اُردو شاعری کی مقبولیت غزل کی مرہونِ منّت ہے۔ غزل کو الگ کیجئے اور پھر اُردو شاعری کو دیکھئے تو سوائے معدودے چند نظم گو اور مرثیہ نگار شعراءکے کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ چنانچہ اردو کی پوری تاریخ میں ایک بھی شاعر ایسا نہیں گزرا ہے جس نے اپنی سخن سنجی کے کسی نہ کسی لمحہ میں غزل میں طبع آزمائی نہ کی ہو۔ اچھی شاعری کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ دل میں اُتر جاتی ہے اور بہ آسانی زبان پر چڑھ جاتی ہے۔ غزل اس پیمانے پر پوری اترتی ہے۔ اس کا ہر شعر اپنے دو مصرعوں میں جذبات و خیالات، تجربات و مشاہدات کی دلکش ادائیگی کی جو صلاحیت رکھتا ہے وہی اس کی ہردلعزیزی کی ضامن ہے۔
غزل کہنا چاہے کتنا ہی آسان سمجھا جائے، اچھی غزل کہنا بہرکیف نہایت مشکل کام ہے اور چھوٹی بحر میں اچھی غزل کہنا اس مشکل میں ایک اور شرط کا اضافہ کرتا ہے۔ چھوٹی بحروں میں غزل گوئی اس کی متقاضی ہے کہ نفسِ مضمون کم سے کم الفاظ میں جذبہ اور اثرپذیری کی صداقت کے ساتھ ادا کیا جائے۔ یہ اس وقت ہی ممکن جب شاعر کو زبان و بیان دونوں پر مکمل عبور ہو۔ اظہارِ خیال، انتخابِ الفاظ، مناسبتِ تراکیب اور بندش کی چستی پر اگر قدرت نہیں ہے تو چھوٹی بحر میں غزل گوئی کارے دارد۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہئے کہ اگر شاعر زبان دان اور قادرالکلام نہیں ہے تو ایسی غزل کی اثر پذیری اور معنویت مجروح بلکہ اکثر معدوم ہو جاتی ہیں اور وہ اس شعر کی مانند گورکھ دھندا ہو سکتی ہے مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا
چند الفاظ میں ایک عمیق و دلکش خیال پیش کرنے کی مثال مومن کا وہ شعر ہے جس پر مرزا غالب اپنا پور دیوان نچھاور کرنے کو تیار تھے
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسر ا نہیں ہوتا
راز کو چھوٹی بحروں میں غزل گوئی کا نہ صرف شوق ہے بلکہ ملکہ بھی ہے۔ ”مصحفِ راز“ میں بہت بڑی تعداد میں ایسی غزلوں کی موجودگی ان کے اس شو ق و ترجیح پر دلالت کرتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ حقیقت ان کی مختصر نویسی، کم گوئی اور خاموش طبعی کا ہی شاخسانہ ہو۔ یہ بات قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص طویل گفتگو اور طولانی مباحث سے فطرتاً محترز ہو، وہ اپنی شاعری میں بھی اختصار کو پسند کرے گا اور چھوٹی بحروں میں طبع آزمائی کی جانب راغب ہو گا۔
راز نے چھوٹی بحروں میں جو غزلیں کہی ہیں، اُن میں جذبات و احساسات کی صداقت اور اثر بہت نمایاں ہیں۔ اشعار پڑھ کر دل پر اکثر ایک چوٹ سی لگتی ہے اور قاری خود کوان اشعار سے ہم آہنگ پاتا ہے ، یعنی
دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
چھوٹی بحروں میں راز کے درج ذیل اشعار اپنی سادگی اور پُرکاری میں کتنے دل نشیں ہیں:
ہائے وہ میری آخری حسرت
دل سے نکلی تھی جو دُعا ہو کر
فکرِ دنیا سے ہو گیا آزاد
میکدہ ، تیرا میکدہ آباد
یک بیک ہو گیا یہ کیا مجھ کو
کیا بتاؤں کہ آ گیا کیا یاد
جانتا ہوں بتا نہیں سکتا
کیسے دنیائے دل ہوئی برباد
کسی خود بیں سے ہوتا آشنا کیا
تجھے دیکھا تھا ، دنیا دیکھتا کیا
خودی کیا اور خودی کا اِدّعا کیا
جو بندہ ہے بنے گا وہ خدا کیا
تکلف بر طرف میں صاف کہہ دوں
وفا کیا اور پیمانِ وفا کیا
کرم گُستر، فقیرِ بے نوا ہوں
فقیرِ بے نوا کا مدّعا کیا !
....
راز کے کلام میںکہیں کہیں ایسے اشعار بھی نظر آ جاتے ہیں جن کا لہجہ تیکھا اور اندازِ بیان قدرے شوخی آمیز ہوتا ہے۔ اُن کے کلام کی عمومی سنجیدگی اور قنوطیت کے پیشِ نظر ایسے اشعار اور بھی دلچسپی اور لکشی کے حامل ہو جاتے ہیں۔
عشق میں جو خراب ہوتا ہے
بس وہی کامیاب ہوتا ہے
زندگی ہے تغیّرات کا نام
روز اک انقلاب ہوتا ہے
حسن ہو گا ، شباب بھی ہو گا
آدمی پھر خراب بھی ہو گا
غور سے دیکھ تو کتابِ حیات
کامیابی کا باب بھی ہو گا
فکرِ دیر و حرم نہیں ہے
گویا کوئی بھی غم نہیں ہے
ہم رنگِ کرم ستم نہیں ہے
اتنا احساں بھی کم نہیں ہے
مجھ کو تجھ سے کوئی شکایت
واللہ! تری قسم نہیں ہے
تصویرِ جہاں میں رنگ بھرنا
تخلیقِ جہاں سے کم نہیںہے
کائنات پر نظر ڈالئے، اس کی گوناگوں بوقلمونی دیکھئے اور پھر شعر کو بار بار پڑھئے۔ اس کی صداقت اور سادگی اپنی اثرانگیزی کے ساتھ دل کے دروازہ پر دستک دے گی۔ ع کرشمہ دامن ِدل می کشد کہ جا ایں جاست
............
تصوف اور کثرت و وحدت :
راز کو فطرتِ فیاض نے ایک درد مند دل، حساس طبیعت اور نہایت سادہ مزاج سے متصف کیا تھا۔ ان کے مختصر حالاتِ زندگی سے یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ زندگی بھر آلام روزگار کا شکار رہے۔ کم عمری ہی میں بڑے خاندان کی ذمہ داری، مالی تنگ حالی، نوجوان اولاد کی دائمی جدائی، سب نے مل کر ان کو ہمیشہ ملول و پریشان ہی رکھا۔ پھر بھی ایک طرف اگر ان کی غیور اور خوددار طبیعت نے انہیں دنیا کے سامنے اپنا دُکھڑا بیان کرنے سے روکا تو دوسری طرف اسی طبیعت نے اُن میں جدوجہد کا جذبہ اور خود اعتمادی پیدا کر دی۔ دنیا اور اہلِ دنیا سے وہ حسنِ ظن کم ہی رکھتے تھے۔
یہ بزمِ دہر اور یہ ابنائے روزگار
مدّت ہوئی زیارتِ انساں کیے ہوئے
غم ہائے روزگار نے انساں بنا دیا
عالم اب اور ہے مری بزمِ خیال کا
منتشر ہیں تمام اہلِ نماز
کیاحرم میں کوئی بلال نہیں؟
چنانچہ سکونِ قلب کی تلاش میں ان کی نظریں تصوّف کی جانب اٹھی تھیں اور انہوں نے ایک عرصہ تک کوچۂ تصوّف کی نظری و عملی سیر کی تھی۔ ان کی کسی تحریر سے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ انہوں نے باقاعدہ کسی صاحبِ حال بزرگ سے اس سلسلہ میں رجوع کیا تھا یا خود اپنے طور پر اس منزل میں گامزن ہوئے تھے۔ چونکہ ان کی طبیعت ہمیشہ سے نام نہاد اہلِ حال و قال سے بدظن تھی اور اس کٹھن راہ میں کسی صحیح راہ نما کا ملنا معلوم ، چنانچہ گمانِ اغلب ہے کہ انہوں نے خود ہی مطالعہ اور ریاض کا دوگانہ ادا کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ انہیں تصوّف میں وہ گوہرِ مقصود ہاتھ نہیں آیا جس کے وہ متلاشی تھے اور وہ پھر سے ایک عام انسان کی آزمائش بھری زندگی میں یہ کہتے ہوئے واپس آ گئے تھے
سکونِ قلب بڑی چیز ہے، یقینا ہے
مگر ملے بھی کہیں دَورِ زندگانی میں
پھر بھی راز اور ان کی شاعری پر اس تجربہ کا اثر ہمیشہ رہا۔ ان کی فطرت، تصوف کے محرکات و متعلقات کو جذب کرنے کے لئے موزوں تو تھی ہی، چنانچہ ان کے کلام میں وحدت الوجود، خود ی و بیخودی، کائنات و فطرت، تلاشِ حق، جبر و قدر اور ایسے ہی دوسرے موضوعات پر کثرت سے اشعار ملتے ہیں۔ ان سے راز کی وسعتِ فکر و نظر، مشاہدہ کی گہرائی اور اس خلش کا اندازہ ہوتا ہے جو انہوں نے حیات و فطرت کو سمجھنے اور سمجھانے میں صرف کی ہے۔ مثلاً مندرجہ ذیل اشعار پر غور کیجئے:
اب یہ عالم ہے میری حیرت کا
آئنہ ہوں جمالِ فطرت کا
خلوتِ دل عجیب خلوت ہے
اک مرقع ہے اس کی محفل کا
حسنِ فطرت ہے یہاں جلوہ نما میرے لئے
ذرّہ ذرّہ دہر کا ہے آئنا میرے لئے
اک ترا جلوہ ہے جس کی دید میں مصروف ہوں
ورنہ بزمِ دہر میں ہے اور کیا میرے لئے
یہ ساری کائنات ایک ہی ذات کا عکس ہے۔ وہی حقیقتِ واحد ہے، باقی سب ”حلقۂ دامِ خیال“ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
مری فطرت حقیقت آشنا معلوم ہوتی ہے
نظر پڑتی ہے جس شے پر خدا معلوم ہوتی ہے
یہاں مرزا غالب کا مشہور شعر بے اختیار یاد آ جاتا ہے کہ
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
....
وحدت الوجود یا ہمہ اوست کے فلسفہ پر راز نے اپنے منفرد انداز میں جا بجا خیال آرائی کی ہے، مگر ایک فلسفی کی طرح نہیں۔ انہوں نے اس حقیقت کو ایک صاحبِ دل انسان کی طرح دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے جو اپنی وسیع النظری کے باوجود ان پابندیوں کا بھی ااحترام کرتا ہے جو خود اس کے وجود نے اس پر عائد کر رکھی ہیں۔
ذوقِ نظارہ یہ اعجاز دکھاتا ہے مجھے
ہر طرف حسن کا جلوہ نظر آتا ہے مجھے
نگہِ شوق ذرا دیکھ کہیں وہ تو نہیں
دل کے آئینہ میں کوئی نظر آتا ہے مجھے
عالم ہے یہ اب میری وسیع ا لنظری کا
بالا ہے نظر میری حدِ کون و مکاں سے
پابندیوں کی حد ہی میں آزاد ہم ہیں راز
آگے قدم بڑھا کہ گرفتار ہو گئے
جب دیا ہوش نے دھوکا درِ جاناں کے قریب
بیخودی لے گئی مجھ کو رہِ عرفاں کے قریب
راز اپنے کلام میں بے خودی کو اُس کے معروف مفہوم میں ہی استعمال کرتے ہیں یعنی وہ کیفیتِ سرخوشی جو انسان کو اپنے نفس کے تقاضوں سے اعراض پرآمادہ کرتی ہے، یا دل و دماغ کی وہ یکسوئی جو خالقِ کائنات کی ہستی کا اثبات اور دوسری ہر شے کی نفی کرتی ہے اور وجدان و عرفان الٰہی کہنے کے لئے ضروری ہے۔ اُن کی خودی اقبال والی خودی نہیں بلکہ وہ خودی کو خودسری اور خودنمائی اور خود فروشی کے معنی میں استعمال کرتے ہیں
خودی کیا اور خودی کا اِدّعا کیا
جو بندہ ہے ، بنے گا وہ خدا کیا
جب تک ہے خودی دل میں ہو گی نہ پذیرائی
بیکار ہیں یہ سجدے، ان سجدوں سے کیا ہو گا
رموز و کُنہِ حقیقت سے ہوتا کیا واقف
وہ خود فروش جو اپنا بھی رازداں نہ ہوا
خداملتا ہے لیکن بیخودی سے آشنا ہو کر
حقیقت تک پہنچ سکتا نہیں تو خود نما ہو کر
اس بیخودی کی ایک منزل وہ ہے جس میں انسان خود کو پہچان لیتا ہے اور اپنی حقیقت ِنفس کے وجدان سے سرفراز ہوتا ہے۔ راز کے نزدیک عرفان ِالٰہی تک پہنچنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔
حل ہو سکا نہ ان سے کبھی عقدۂ جہاں
حاصل جو اپنے نفس کا عرفاں نہ کر سکے
اپنی تلاش گویا اس کی ہی جستجو ہے
جو خود کو ڈھونڈتا ہے، وہ اس کو ڈھونڈتا ہے
اور یہ اس لئے ہے کہ کیا کہوں تیری نظر محدودہے ورنہ وہ تو ہر جگہ موجود ہے !
اس کیفیت کی آخری منزل خودآگاہی اور خودشناسی کی راہ سے خداشناسی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے، جہاں من و تو کا فرق دھندلا جاتا ہے اور دل بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ
مظہر ہوں کسی کے حسن کا میں
جلووں کا کسی کے آئینا ہوں
ہے کوئی نگاہ والا؟
بندہ ہوں مگر خُدا نما ہوں
خود پرستی، حق پرستی ہے بہ شکلِ اجتہاد
سرحدِ تقلید سے آگے ہے بُت خانہ مرا
یہ وہی خود پرستی ہے جو ہر منصور کو عرفانِ حق تک دار و رسن کی راہ سے لے جاتی ہے
انا الحق کہنے والے تو بہت ہوتے ہیں دُنیا میں
مگر ان میں کوئی اک آدھ ہی منصور ہوتا ہے
کچھ ایسی ہی کیفیت سے غالب دو چار ہوئے ہوں گے جب انہوں نے یہ شعر کہا تھا
ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلہ کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
جس طبیعت و محبت نے راز کو اس منزل پر کامیابی سے پہنچایا تھا اسی نے انہیں کثرت میں وحدت دیکھنے کا سلیقہ بھی سکھایا تھا۔ وہ یوں بھی ایک صلح کل، عالی مشرب اور وسیع القلب انسان تھے۔ تصوف کے شوق نے انہیں اصل پر زور دینا اور فروعات سے احتراز کرنا سکھا دیا تھا، چنانچہ انہیں وہ تعصبات اور اختلافات بالکل پریشان نہیں کرتے تھے جو اوروں کے لئے انتشار و افترق کا سامان بہم پہنچاتے تھے۔ وہ مرزا غالب کے اس شعر پر ایمان رکھتے تھے
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے
مرے بتخانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو
چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ :
ذرّہ ذرہ سے عیاں شانِ خود آرائی ہے
کثرتِ جلوہ گری شاہدِ یکتائی ہے
ہر ایک کے پردہ سے آواز تری آئی
جس ساز کو بھی چھیڑا جلوہ گہِ کثرت میں
یہ کعبہ، وہ بت خانہ، کچھ فرق نہیں ان میں
اک حسن کی خلوت ہے، اک حسن کی محفل ہے
کثرت ہے عکسِ وحدت، وحدت ہے روحِ کثرت
ظاہر ہے یہ حقیقت بت خانۂ جہاں سے
یہ اشعار راز کے مشربِ محبت کی تصدیق کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انہیں ان مصنوعی اقدار اور اندازِ فکر و عمل سے بَیرہے جو صرف کسی ایک مخصوص نقطۂ نظر میں ہی یقین رکھتے ہیں اور ہر مختلف نقطۂ نظر کو غلط اور بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ اِدھر راز یہ کہہ رہے تھے کہ پرتوِ مہر حسن ہیں دونوں شمعِ کعبہ ، چراغِ بُت خانہ
اور اُدھر دنیا ان کی وسیع النظری کو شک و شبہ کی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی
کوئی مومن بتاتا ہے، کوئی کافر سمجھتا ہے
مگر جو کچھ حقیقت ہے وہ پہچانی نہیں جاتی
بہت سمجھے تو بس اتنا کہ کافر کہہ دیا مجھ کو
مذاقِ حق پرستی کو کہاں اہلِ جہاں سمجھے
یہ صورت ناگزیر سی تھی کیونکہ دنیا ور اہلِ دنیا، وسیع النٰظری کا ساتھ عموماً نہیں دیتے ہیں اور راز کے نزدیک وحدت و کثرت اور عبادت و محبت ہم معنی تھے۔
مراذوقِ پرستش ہے جدا سارے زمانے سے
محبت کرتا جاتا ہوں، عبادت ہوتی جاتی ہے
دیدۂ دل وا ہوا دیدارِ جاناں ہو گیا
عین ایماں آج عشقِ کفرساماں ہو گیا
کہاں ہیں غیر، سب اپنے ہیں بزمِ فطرت میں
کہ قیدِ مذہب و ملّت نہیں محبت میں
دیکھ لیتا ہوں جہاں بھی تو نظر آتا ہے
شکر، صد شکر، کہ سرگشتۂ اّیام نہیں
ضیائے حسن سے معمور ہے فضائے جہاں
ہر ایک جلوہ یہ کہتا ہے شاہکار ہوں میں
پڑ گیا عکسِ حسنِ عالم تاب
بن گیا دل اب آئنہ خانہ
ان اشعار کو پڑھ کر دل و دماغ پر جو مجموعی تاثر پیدا ہوتا ہے اسے ہر صاحبِ دل آسانی سے پہچان سکتا ہے کیونکہ راز کی فکر اور اظہارِ خیال کا تعلق ہر لمحہ ہماری روزمرہ کی دنیا اور زندگی سے ہی ہے۔ اس خصوصیتِ کلام کو اپنے تجزیہ میں خلیل الرحمٰن اعظمی نے یوں قلمبند کیا ہے:
”....(راز کے) کسی شعر کو پڑھنے کے بعد ہم پر یہ تاثر نہیں ہوتا کہ شاعر عام آدمیوں سے علاحدہ کوئی مخلوق ہے یا اس کی شخصیت کچھ مافوق الفطرت ہے، عجیب و غریب ہے یا اس کے تجربات کچھ اس طرح کے ہیں کہ جن سے ہم غیرمعمولی طور پر مرعوب یا بھوچکّے ہو جائیں اور اس کی بنا پر ’واہ‘ کہہ دیں۔“
اس خوبی کو اگر راز کے غزلیہ کلام کی روح کہا جائے اور اسی کو اگر ان کی شاعری کی بقا و دوام کا ضامن ٹھہرایا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔
اے راز یہی ہے بے کمالی ورنہ مجھ میں کمال کیا ہے
............
حرفِ آخر :
شعر کہتا ہوں کہ ہوں مجبور ذوقِ طبع سے
راز کچھ خواہش نہیں مجھ کو نمود و نام کی
راز کا یہ شعر نہ صرف ان کی شاعری کے اصل محرک (ذوقِ طبع) کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ان کی غزل گوئی کے ان سب محاسن کی تائید و تصدیق بھی کرتا ہے جو پچھلے صفحوں میں ان کی شاعری کے مطالعہ اور تجزیہ سے ظاہر ہوتے ہیں۔ ہر چند کہ یہ محاسن اُن محاسن سے مختلف ہیں جو اُردو کے روایتی غزل گویوں میں پائے جاتے ہیں، مگر ان کی دلکشی اور ہمہ گیری سے انکار ممکن نہیں ہے۔
روایتی غزل گوئی کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے خلیل الرحمٰن اعظمی ”نوائے راز“ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ:
”لیکن یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ کبھی کبھی ہم انہیں محاسن سے اس لئے اوب جاتے ہیں کہ ہم اپنی عام زندگی کو ان سے ہم آہنگ نہیں پاتے اور اس وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید شاعری چند بندگانِ خدا کے لئے مخصوص ہے اور انہیں کی زندگی کی ترجمان ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے بھی خاص خاص لمحات درکار ہیں۔“
راز کی غزل گوئی کی اصل خوبی دراصل یہی ہے کہ ہمیں ان کی آواز میں آواز ملانے میں، یا ان کے دل کا درد خود محسوس کرنے میں ،یا ان کے جذبات و احساسات کو اپنے اندر بیدار اور جاری و ساری دیکھنے میں کسی تکلیف یا تکلف سے کام نہیں لینا پڑتا ہے۔ چونکہ اس شاعری میں ایک عام آدمی ہم سے مخاطب ہے اور اس کی بات میں خلوص اور صداقت ہے اور وہ بغیر کسی تکلف کے صرف اپنے ذوقِ طبع سے مجبور ہو کر گویا ہے، ہمیں اس کی آواز پر لبیک کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا۔
راز کی یہی ندرتِ فکر و بیان ان کی غزل گوئی کو دوسروں کی غزل سرائی سے جہاں ممتاز کرتی ہے، وہیں ان کے خیالات کے فہم اور ان کے فنِ شاعری کی پرکھ اور تحسین میں سدّ راہ بھی بن جاتی ہے اِلّا یہ کہ اُن کے منفرد اندازِ فکر و بیان سے ہمیں واقفیت ہو اور روایتی غزل سرائی سے جدا ایک نئی آواز اور نئے انداز کے استقبال کے لئے ہم تیار بھی ہوں۔
شاعری ہو یانثر نگاری، اندازِ بیان کی اہمیت بہرحال مسلّم ہے۔ اُردو غزل میں ہر وہ مضمون طرح طرح سے نظم ہو چکا ہے جو انسانی ذہن میں آسکتا ہے اور کسی نئے مضمون کی اُپچ کا تصور تقریباً ناپید ہے۔ البتہ جو خصوصیت ایک شاعر کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ یہی اندازِ بیان ہے۔ راز چونکہ راہِ عام سے گریزاں ہیں، انہوں نے بہت سے پامال مضامین کو اپنے سادہ مگر منفرد اندازِ بیان سے ایسی جِلا دے دی ہے کہ وہ نئے معلوم ہوتے ہیں۔ اسے آپ ان کی خوش بیانی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ مثلاً مندرجہ ذیل اشعار میں انہوں نے معمولی اور عام مضامین کو ایک نئی بلندی تک پہنچا دیا ہے۔
جو نہ جاتی ہو کوئے جاناں تک
مجھ کو معلوم ایسی راہ نہیں
جینے میں مل رہا ہے مجھے لطفِ مرگ بھی
حیران ہوں خُدا سے میں اب کیا دُعا کروں!
منظور ہے کیا اور ابھی مشتاق بنانا
یا جلوہ دکھانے ہی کا دستور نہیں ہے؟
تلاش اور بقا کی جہانِ فانی میں؟
یہ خواب دیکھا تھا میں نے بھی نوجوانی میں
یہی سادگی اور پُرکاری راز کے یہاں مشکل موضوعات کی ادائیگی میں بھی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ پچھلے صفحات سے ظاہر ہے ، راز زبان کی پیچیدگیوں سے بخوبی واقف ہیں اور اپنی فارسی کی مہارت کا ، تراکیب اور بندشِ الفاظ میں استادانہ اور دلپذیر استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ زندگی اور اس کے متعلقات پر آسان الفاظ میں، الجھاؤ اور التباس سے دامنبچا کر، اظہارِ خیال کا گر بھی خوب جانتے ہیں۔ اس قادرالکلامی کی وجہ شاید یہ ہے کہ انہیں خواہ مخواہ بات میں سے بات پیدا کرنے کا شوق نہیں ہے اور وہ اُن حُدود سے بخوبی واقف ہیں جن میں رہ کر وہ اچھی شاعری کر سکتے ہیں۔ جبکہ ماہرالقادری لکھتے ہیں: (٭)
”راز صاحب ایسی فضا میں پرواز کی کوشش نہیں کرتے جہاں پہنچ کر شہپر کی قوت جواب دے دے۔ ایک حد پر پہنچ کر اطمینان و سکون کے ساتھ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں، زبان سے ادا کر دیتے ہیں۔“
درج ذیل چند اشعار اس دعوے کی تائیدمیں پیش کیے جا سکتے ہیں:
پچھتانے سے کیا حاصل پچھتانے سے کیا ہو گا
کچھ تونے کیا ہوگا، کچھ تجھ سے ہوا ہو گا
جینے کا مزا جب ہے، جینے کا ہو کچھ حاصل
یوں لاکھ جیے کوئی، توجینے سے کیا ہوگا
کس منہ سے کروں میں اس کا شکوہ
اپنے ہی کیے کو رو رہا ہوں
سکونِ قلب بڑی چیز ہے ، یقیناً ہے
مگر ملے بھی کہیں دورِ زندگانی میں
دلیلِ جوشِ محبت ہے بدگماں ہونا
اگر خلوص بھی شامل ہو بدگمانی میں
ترے جلووں نے فرصت ہی نہیں دی
میں نیرنگِ زمانہ دیکھتا کیا
حقیقت کھل گئی ہے آرزو کی
میں اب ہوں گا کسی سے بدگماں کیا
خوش بیانی اور معنی آفرینی کا یہ رنگ راز کے مقطعوں میں بہت نظر آتا ہے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ انہوں نے کیوں راز تخلص اختیار کیا تھا، لیکن یہ کہنا شاید بے جا نہیں ہے کہ ان کا تخلص ان کی طبیعت اور شخصیت کی ترجمانی کرتا ہے۔ اُن کے اکثر مقطعے سیدھے سادے ہیں، مگر ان کی اثر پذیری میں کوئی شک نہیں کر سکتا :
راز سب سے ہوا ہے بیگانہ
کھل گئی دہر کی حقیقت کیا؟
راز مل جاتی ہے فکروں سے نجات
شاعری سے اور کچھ حاصل نہیں
بظاہر نغمہ زن ہوتا ہے راز بے نوا لیکن
حقیقت یہ ہے خود فطرت نوا پرداز ہوتی ہے
٭آگرہ اسکول کا ارتقائے نظم : ما ہر القادری
....
شاعر(آگرہ)سالنامہ1938 ء
اے راز یہ کوئی زندگی ہے
ممنونِ امید و آرزو ہوں
ہٹا نہ راز کبھی مرکزِ محبت سے
ہزار بار زمانہ میں انقلاب ہوا
راز دنیا سے بے نیاز تو ہے
اہلِ دل سے وہ بے نیاز نہیں
راز سے مل کے آپ خوش ہوں گے
آدمی ہے بڑی محبت کا
...
راز کی غزلیہ شاعری کے اس تجزیہ میں ان کے جذبات کی صداقت اور بیان کے خلوص کا بارہا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ یہ خوبیاں ان کی شاعری اور شخصیت و کردار دونوں کے حوالے سے ان کی ز