بارہ مرچوں کا کچھ بیاں ہوجائے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پیارے قارئینِ! چونکہ آپ بہت عقلمند ہیں اور ہر مراسلے کو بغور دیکھ کر جانچتے پرکھتے ہیں تو یقیناً اس وقت آپ کے ذہنِ رسا میں یہ سوال چھلانگ مار کر باہر آنے بلکہ کیبورڈ پر کودنے کے لیے مچل رہا ہوگا کہ ایسی کیا آفت آپڑی جو قبلہ ظہیؔر احمد شاعری کے زمرے سے نکل کر یکایک باورچی خانے میں جھانکنے لگے۔ آپ کے اس فضول سے سوال کا مختصر جواب ویسے تو یوں بھی دیا جاسکتا ہے کہ یہ تحریر منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے لکھی ہے لیکن اس کا اصل جواب جو بہت پہلے اس خاکسار نے کسی کتاب میں پڑھا تھا وہ کچھ یوں ہے کہ کسی چیز کا خوف دور کرنے کے لیے اُس چیز کے بارے میں اکثر اور کھل کر بات کرنا چاہیے۔
اصولاً تو اس وضاحت کے بعد سوالات کے کارخانے میں کام بند ہوجانا چاہیے لیکن ہر معاملے کو کریدنا اور بال کی کھال نکالنا چونکہ ہمارا قومی مشغلہ ہے اس لیے تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ فدوی نے اکتیس بتیس برس پہلے پاکستان کے روایتی مصالحے دار کھانوں سے منہ موڑ کر جب بوجوہ "بلینڈ" امریکی کھانوں کو ہاتھ لگایا تو وہ سر چڑھ گئے۔ اس غیر ملکی دوستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ دن بدن زبان اور مرچوں میں ایک گونہ مخاصمت سی پیدا ہوتی چلی گئی۔ رفتہ رفتہ نوبت با ایں جا رسید کہ جب کہیں کسی دیسی دعوت میں مرچ کی تیزی زبان پر آتی تو فوراً ماتھے پر پسینہ اور لبوں پر سی سی کا ورد جاری ہوجاتا۔ حلق سے معدے تک تیکھے پن کی ایک تیزابی لکیر سی کھنچ جاتی۔ مرچ اگر معمول سے تیز تر ہوتی تو چند لقموں کے بعد ہچکیاں بھی شروع ہوجاتیں۔ جس کی وجہ راقم کی ناقص سمجھ میں یہی آتی کہ ہو نہ ہو کوئی میٹھی چیز مجھے یاد کررہی ہے۔ چنانچہ مرچ آلود کھانا چھوڑ کر سیدھے سیدھے میٹھے کی میز کا رخ کرنا پڑتا۔ میرے اِس مرچ مخالف دسترخوانی رویے کی وجہ سے بعض میزبان خواتین کچھ ناراض سی ہونے لگیں۔ اُن کی ناراضگی تو خیر یہ کہہ کر دور کردی جاتی کہ قورمہ بریانی وغیرہ تو کھاتے ہی رہتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ کا حلوہ کہاں نصیب! حلوہ نہیں من و سلویٰ ہے! وغیرہ وغیرہ۔ کچھ عرصے تک تو ہماری یہ شیریں سخنی کام کرتی رہی لیکن جب یہی بات ہم نے کئی دعوتوں میں کھیر ، کسٹرڈ اور گلتّی کے بارے میں بھی دہرائی تو زنانہ میزبان حلقوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور کچھ شکوک و شبہات سر اٹھانے لگے۔ چٹپٹے کھانوں سے اس عدم رغبت کا احوال ہر میزبان خاتون نے حسبِ توفیق نمک مرچ لگا کر اگلی متوقع میزبان تک پہنچانا ضروری سمجھا۔ یہ شکایت نما خبریں جب ہوتے ہوتے فدوی کی ہوم گورنمنٹ تک پہنچیں تو معاملات نے کچھ پیچیدہ سی صورت اختیار کرنا شروع کردی۔ ان شکایاتِ غیرلذیذہ و ناپسندیدہ پر قابو پانے کے لیے ایک شام کچن کے پاس کھانے کی میز پر پکوان کونسل کا ہنگامی اجلاس خاتونِ خانہ کی زیرِ صدارت منعقد کیا گیا۔ یوں تو اس خاکسار کو مدتوں پہلے "آج کیا پکائیں" کے روزمرہ سوال کے جواب میں چکن کا بھرتہ اور آلو کی نہاری جیسی کئی شاندار تجاویز دینے اور اُن پر اصرار کرنے کی پاداش میں پکوان کونسل سے معطل کیا جاچکا تھا لیکن اس اہم اجلاس میں بطور سامع بطورِ خاص مدعو کیا گیا۔ ہمارے دونوں صاحبزادگان نے سیاسی وجوہات کی بنا پر اجلاس میں بطور رکن شرکت کرنے کے بجائے دور ہی دور سے مبصرین کا فریضہ انجام دینے اور تالیاں بجانے کو ترجیح دی۔ چنانچہ اس یک رکنی کونسل نے معاملے کی سرسری سماعت کے بعد چند قرادادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں۔ قراردادوں کی بلامخالفت متفقہ منظوری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ صدرِ کونسل کو اپنا ویٹو پاور استعمال نہیں کرنا پڑا۔ ویسے بھی کونسل کے فیصلوں سے اختلاف کی نہ کسی میں ہمت تھی اور نہ کسی کو اجازت۔
القصہ مختصر ، مذکورہ بالا جمہوری نظام کے تحت منظور کردہ قرارداد نمبر تین کی رو سے مجھے روزانہ زبردستی مرچیلے کھانے کھلانے کی ایک باقاعدہ مہم شروع کردی گئی تاکہ زبان اُس ذائقۂ رفتہ سے دوبارہ شناسائی اختیار کرلے کہ جس سے ترکِ تعلقات کو ایک زمانہ ہوگیا تھا۔ مرچ مصالحے اِس بارِ دگر شناسائی پر خوش ہوئے یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن اِن بھولے بسرے مراسم کے دوبارہ استوار ہونے پر یہ زبانِ عاجز دہان مرچ کی شان میں کچھ کہے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن نتیجہ اس ہجوِ ملیح کا ہر بار یہ نکلتا کہ اگلے روز کھانے میں مرچیں پہلے سے زیادہ تیزی اور جوش و خروش کے ساتھ کام و دہن سے معانقے کے لیے تیار نظر آتیں۔ اب دکھائی یہ دیتا ہے کہ خاکسار کے غدود ہائے ذائقہ ان تیکھے ترچھے غذائی حملوں کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکیں گے اور گھٹنے ٹیکتے ہی بنے گی۔ چنانچہ ہتھیار ڈالنے کی رسم کو باوقار و باعزت بنانے کے لیے عدو سے سمجھوتا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ذیل کا مضمون اسی دشمنِ دہاں کو سمجھنے اور برداشت کرنے کی ایک کوشش ہے۔ آپ حضرات سے میٹھے میٹھے تبصروں کی درخواست ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بارہ مرچوں کا کچھ بیاں ہوجائے!

ہندوستانی پکوان عالمی دسترخوان پر اپنے مرچ مصالحوں کے باعث اپنی خاص پہچان رکھتا ہے۔ بریانی ، قورمہ ، کوفتے ، کباب ، تکے ، نہاری ، حلیم اور انواع و اقسام کی اچار چٹنیاں کسی بھی سیاسی کارکن کی بھوک ہڑتال کے لیے ایک چیلنج اور کسی بھی خاتونِ خانہ کی ڈائیٹنگ کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان تمام رنگ برنگ کھانوں میں ایک بات جو مشترک ہے وہ ہے مرچوں کی تیزی اور مصالحوں کی شدت! لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی کھانے ہزاروں سال سے ذائقے میں یونہی تیز اور مرچیلے چلے آتے ہیں تو آپ کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ آسمانِ مطبخ کے یہ کواکب چند صدیوں پہلے ایسے نہیں تھے کہ جیسے اب نظر آتے ہیں۔ یوں تو ہندوستان ہمیشہ ہی سے مصالحوں کی سرزمین رہا ہے۔ زیرہ ، لونگ ، الائچی ، سونف ، دارچینی، دھنیا ، ہلدی وغیرہ پر مشتمل بارہ مصالحے ہزاروں سال سے کھانوں اور دواؤں میں استعمال ہوتے آرہے ہیں لیکن سرخ اور سبز مرچ ہندوستان میں پہلی بار سولہویں صدی کے آخر میں پرتگالیوں کے توسط سے آئی۔ اس سے پہلے ہندوستانی کھانوں میں کالی مرچ (جسے انگریزی میں pepper اور فارسی میں فلفل کہا جاتا ہے) استعمال ہوتی تھی۔ کالی مرچ اپنی اصل میں ہندوستانی ہے اور اس کی کئی اقسام مالابار کے ساحلی علاقوں میں قرنوں سے کاشت ہوتی آرہی ہیں۔
سرخ اور سبز مرچ دراصل کیپسی کم (capsicum) نامی پودے کا پھل ہیں اور اپنی اصل میں امریکی ہیں۔ وسطی اور جنوبی امریکا کی سرزمین میں کیپسی کم کی مختلف اقسام ہزاروں سال سے اُگائی جاتی رہی ہیں۔ مرچ کو جنوبی امریکا کی قدیم زبان میں چلی (chili) کہا جاتا تھا۔ کولمبس کی امریکا دریافت کے بعد مرچ یورپ میں پہنچی اور پھر اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پرتگالی جب اسے ہندوستان لائے تو یہاں اسے پیپر یعنی کالی مرچ سے ملتے جلتے ذائقے کی بنا پر گرین پیپر اور ریڈ پیپر کا نام دے دیا گیا۔ لیکن علمِ نباتات کی رو سے کالی مرچ اور سبز/سرخ مرچ کے پودوں کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ دونوں کام و دہن کے لیے ایک ہی کام کرتے ہیں۔
مرچ کی متعدد اقسام میں سے کئی اقسام ایسی ہیں جو امریکی کھانوں کا حصہ بن چکی ہیں اور اکثر سبزی کی دکانوں میں عام طور پر دستیاب ہوتی ہیں۔ ان میں سے کئی مرچوں کی رسائی ہماری رسوئی تک بھی ہے۔ (رسوئی ہندی میں باورچی خانے کو کہتے ہیں۔ باورچی خانے کو فصیح اردو میں اب کچن کہا جاتا ہے)۔ ان مرچوں کے بارے میں ایک چٹپٹی بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی تیزی یعنی مرچیں لگانے کی صلاحیت بالکل الگ الگ درجے کی ہے۔ اسے انگریزی میں ہیٹ (heat)کہتے ہیں۔ مرچوں کی اس "مرچائیت" کو ناپنے کا ایک طریقہ وِلبر اسکووِل نامی ایک امریکی کیمیا دان نے 1912 میں ایجاد کیا تھا اور اسے اسکووِل اسکیل (Scoville-Scale) کہا جاتا ہے۔اس پیمانے کے تحت مرچوں کی تیزی کو اسکووِل ہیٹ یونٹ (SHU) میں رقم کیا جاتا ہے۔ زیادہ یونٹ زیادہ تیزی اور کم یونٹ کم تیزی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اول اول تو اس تیزی کا تعین مختلف رضاکاروں کو مرچوں سے کشید کیا ہوا عرق پلا کر کیا جاتا تھا لیکن آج کل جدید سائنسی طریقہ استعمال کرتے ہوئے مرچ کے اندر موجود کیپسے سینوائڈ (capsaicinoid) کیمیکل کی مقدار دریافت کرلی جاتی ہے ۔ یہی کیمیکل مرچ کی حدت یا تیزی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ذیل میں ان بارہ مرچوں کے نام اور ان کا اسکووِل اسکیل دیا جارہا ہے۔ ( آخر میں آپ کی ضیافتِ بصارت کے لیے ان مرچوں کی رنگارنگ بے پردہ تصاویر بھی پوسٹ کی گئی ہیں) ۔ یوں تو ان بارہ مرچوں کے بارے میں درجن بھر گرما گرم مسالے دار پیراگراف لکھے جاسکتے ہیں لیکن اختصار کی خاطر ہم محض دو چار کا ہی تذکرہ کرتے ہیں۔

ہابنیرو (Habanero): اس مرچ کا نام کیوبا کے دارلحکومت ہوانا (Havana) کی نسبت سے رکھا گیا جسے ہسپانوی زبان میں La-Habanaکہتے ہیں۔ اسے کھانے کے لیے پتھر کا جگر اور اسٹیل کا معدہ چاہیے۔ اس مرچ کی رسائی ہماری رسوئی تک ابھی نہیں ہوئی ہے اور میرے جیتے جی ہو بھی نہیں سکتی۔ البتہ کبھی کبھی یہ خیال ذہن میں ضرور آتا ہے کہ جن کرم فرما دوستوں کے کچھ قرض اس جانِ ناتواں پر باقی ہیں انہیں دعوت پر بلا کر اس مرچ سے بنےگرما گرم کھانوں سے تواضع کی جائے تو شاید دل کو کچھ ٹھنڈک پہنچے۔

گھوسٹ پیپر (Ghost -pepper) یا بھوت جھلوکیا: مرچ کی یہ قسم شمال مشرقی ہندوستان میں آسام اور ناگالینڈ کے علاقوں سے شروع ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان علاقوں کے علاوہ اگر کہیں اور کاشت کی جائے تو اس مرچ کی حدت ذرا کم ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ ہمارےدوست حاجی مقصود الہٰی کے بقول ہندوستانی مزاج کی تیزی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ایک دوست کے ہاں ضیافت میں اس کی ذرہ برابر چٹنی چکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس انگلی سے چکھی تھی اس پر دو دن تک برف لگانا پڑی۔ یہ شر انگیز شے بطنِ عزیز میں بغاوت کا کام کرتی ہے۔ محض آدھی مرچ ہی داخلی معاملات اور امورِ خارجہ کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ میری ناقص رائے میں اس شے کو اشیائے خوردنی کے بجائے بائیلوجیکل ویپن کی فہرست میں رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔

کیرولائنا رِیپر (Carolina- Reaper): دنیا کی سب سے تند و تیز مرچ ہے۔ اسے ملکۂ مرچ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ یہ حرارت بھری شرارت قدرت کا تحفہ نہیں بلکہ انسانی فطانت کا فتنہ ہے۔ جنوبی کیرولائنا کے ایک کاشتکار ایڈ کری (Ed -Currie) نے گھوسٹ پیپر اور ہابنیرو مرچ کے پودوں کی باہم پیوندکاری کے ذریعے اس مرچ کو وجود بخشا۔ (یہ صاحب مرچوں کی ایک بہت بڑی کمپنی کے مالک ہیں۔ ان کی کمپنی کے نام میں مرچوں کی خاصیت کا ایک خاص حوالہ شامل ہے جسے سن کر اہلِ ذوق کا منہ سکیڑنا لازم آتا ہے۔ مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ اردو محفل کی طہارت اس نام کے ترجمے اور تذکرے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔متجسس خواتین و حضرات چچا گوگل سے رجوع فرمائیں۔) یہ مرچ اسمِ با مسمیٰ ہے ۔ انگریزی میں ریپر (reaper) محاورتاً مجسم موت کو کہتے ہیں ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس مرچ کو خود کشی کے لیے استعمال کیاجاسکتا ہے۔ اسے کاشت کرنے والی کمپنی کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ مرچ ٹرائی کرنے سے پہلے ایمبولینس بلوالی جائے تو بہتر ہے کیونکہ چند مرچیں کھانے کے بعد چند روز تک ہسپتال میں داخلہ تقریباً یقینی ہوجاتا ہے۔

جاتے جاتے اگر تتیّا مرچ کا ذکر بھی ہوجائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ پاک و ہند میں بکثرت پائی جانے والی یہ چھوٹی سی زردی مائل مرچ تعارف کی محتاج نہیں۔ اس کی ڈنک مار مرچائیت نام ہی سے ظاہر ہے۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ اس کی تیزی اور کاٹ بیوی کے طنز سےبس ذرا ہی کم ہوتی ہے۔ چونکہ ہر شخص موصوفہ (یہاں مرچ کی طرف اشارہ ہے) کی خصوصیات سے بخوبی واقف ہے اس لیےاندیشۂ نقصِ امن کے تحت غیر ضروری تفصیلات سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ امید ہے کہ عقلمند قارئین تھوڑے لکھے کو بہت جانیں گے اور اپنے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں خالی جگہیں پُر کر لیں گے۔ دیگر قارئین مزید معلومات کے لیے محفل پر موجود خواتین سے رابطہ فرمائیں کہ باورچی خانے کے معاملات اُن سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ :censored:
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
بارہ مرچوں کا کچھ بیاں ہوجائے!

ہندوستانی پکوان عالمی دسترخوان پر اپنے مرچ مصالحوں کے باعث اپنی خاص پہچان رکھتا ہے۔ بریانی ، قورمہ ، کوفتے ، کباب ، تکے ، نہاری ، حلیم اور انواع و اقسام کی اچار چٹنیاں کسی بھی سیاسی کارکن کی بھوک ہڑتال کے لیے ایک چیلنج اور کسی بھی خاتونِ خانہ کی ڈائیٹنگ کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان تمام رنگ برنگ کھانوں میں ایک بات جو مشترک ہے وہ ہے مرچوں کی تیزی اور مصالحوں کی شدت! لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی کھانے ہزاروں سال سے ذائقے میں یونہی تیز اور مرچیلے چلے آتے ہیں تو آپ کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ آسمانِ مطبخ کے یہ کواکب چند صدیوں پہلے ایسے نہیں تھے کہ جیسے اب نظر آتے ہیں۔ یوں تو ہندوستان ہمیشہ ہی سے مصالحوں کی سرزمین رہا ہے۔ زیرہ ، لونگ ، الائچی ، سونف ، دارچینی، دھنیا ، ہلدی وغیرہ پر مشتمل بارہ مصالحے ہزاروں سال سے کھانوں اور دواؤں میں استعمال ہوتے آرہے ہیں لیکن سرخ اور سبز مرچ ہندوستان میں پہلی بار سولہویں صدی کے آخر میں پرتگالیوں کے توسط سے آئی۔ اس سے پہلے ہندوستانی کھانوں میں کالی مرچ (جسے انگریزی میں pepper اور فارسی میں فلفل کہا جاتا ہے) استعمال ہوتی تھی۔ کالی مرچ اپنی اصل میں ہندوستانی ہے اور اس کی کئی اقسام مالابار کے ساحلی علاقوں میں قرنوں سے کاشت ہوتی آرہی ہیں۔
سرخ اور سبز مرچ دراصل کیپسی کم (capsicum) نامی پودے کا پھل ہیں اور اپنی اصل میں امریکی ہیں۔ وسطی اور جنوبی امریکا کی سرزمین میں کیپسی کم کی مختلف اقسام ہزاروں سال سے اُگائی جاتی رہی ہیں۔ مرچ کو جنوبی امریکا کی قدیم زبان میں چلی (chili) کہا جاتا تھا۔ کولمبس کی امریکا دریافت کے بعد مرچ یورپ میں پہنچی اور پھر اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پرتگالی جب اسے ہندوستان لائے تو یہاں اسے پیپر یعنی کالی مرچ سے ملتے جلتے ذائقے کی بنا پر گرین پیپر اور ریڈ پیپر کا نام دے دیا گیا۔ لیکن علمِ نباتات کی رو سے کالی مرچ اور سبز/سرخ مرچ کے پودوں کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ دونوں کام و دہن کے لیے ایک ہی کام کرتے ہیں۔
مرچ کی متعدد اقسام میں سے کئی اقسام ایسی ہیں جو امریکی کھانوں کا حصہ بن چکی ہیں اور اکثر سبزی کی دکانوں میں عام طور پر دستیاب ہوتی ہیں۔ ان میں سے کئی مرچوں کی رسائی ہماری رسوئی تک بھی ہے۔ (رسوئی ہندی میں باورچی خانے کو کہتے ہیں۔ باورچی خانے کو فصیح اردو میں اب کچن کہا جاتا ہے)۔ ان مرچوں کے بارے میں ایک چٹپٹی بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی تیزی یعنی مرچیں لگانے کی صلاحیت بالکل الگ الگ درجے کی ہے۔ اسے انگریزی میں ہیٹ (heat)کہتے ہیں۔ مرچوں کی اس "مرچائیت" کو ناپنے کا ایک طریقہ وِلبر اسکووِل نامی ایک امریکی کیمیا دان نے 1912 میں ایجاد کیا تھا اور اسے اسکووِل اسکیل (Scoville-Scale) کہا جاتا ہے۔اس پیمانے کے تحت مرچوں کی تیزی کو اسکووِل ہیٹ یونٹ (SHU) میں رقم کیا جاتا ہے۔ زیادہ یونٹ زیادہ تیزی اور کم یونٹ کم تیزی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اول اول تو اس تیزی کا تعین مختلف رضاکاروں کو مرچوں سے کشید کیا ہوا عرق پلا کر کیا جاتا تھا لیکن آج کل جدید سائنسی طریقہ استعمال کرتے ہوئے مرچ کے اندر موجود کیپسے سینوائڈ (capsaicinoid) کیمیکل کی مقدار دریافت کرلی جاتی ہے ۔ یہی کیمیکل مرچ کی حدت یا تیزی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ذیل میں ان بارہ مرچوں کے نام اور ان کا اسکووِل اسکیل دیا جارہا ہے۔ ( آخر میں آپ کی ضیافتِ بصارت کے لیے ان مرچوں کی رنگارنگ بے پردہ تصاویر بھی پوسٹ کی گئی ہیں) ۔ یوں تو ان بارہ مرچوں کے بارے میں درجن بھر گرما گرم مسالے دار پیراگراف لکھے جاسکتے ہیں لیکن اختصار کی خاطر ہم محض دو چار کا ہی تذکرہ کرتے ہیں۔

ہابنیرو (Habanero): اس مرچ کا نام کیوبا کے دارلحکومت ہوانا (Havana) کی نسبت سے رکھا گیا جسے ہسپانوی زبان میں La-Habanaکہتے ہیں۔ اسے کھانے کے لیے پتھر کا جگر اور اسٹیل کا معدہ چاہیے۔ اس مرچ کی رسائی ہماری رسوئی تک ابھی نہیں ہوئی ہے اور میرے جیتے جی ہو بھی نہیں سکتی۔ البتہ کبھی کبھی یہ خیال ذہن میں ضرور آتا ہے کہ جن کرم فرما دوستوں کے کچھ قرض اس جانِ ناتواں پر باقی ہیں انہیں دعوت پر بلا کر اس مرچ سے بنےگرما گرم کھانوں سے تواضع کی جائے تو شاید دل کو کچھ ٹھنڈک پہنچے۔

گھوسٹ پیپر (Ghost -pepper) یا بھوت جھلوکیا: مرچ کی یہ قسم شمال مشرقی ہندوستان میں آسام اور ناگالینڈ کے علاقوں سے شروع ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان علاقوں کے علاوہ اگر کہیں اور کاشت کی جائے تو اس مرچ کی حدت ذرا کم ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ ہمارےدوست حاجی مقصود الہٰی کے بقول ہندوستانی مزاج کی تیزی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ایک دوست کے ہاں ضیافت میں اس کی ذرہ برابر چٹنی چکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس انگلی سے چکھی تھی اس پر دو دن تک برف لگانا پڑی۔ یہ شر انگیز شے بطنِ عزیز میں بغاوت کا کام کرتی ہے۔ محض آدھی مرچ ہی داخلی معاملات اور امورِ خارجہ کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ میری ناقص رائے میں اس شے کو اشیائے خوردنی کے بجائے بائیلوجیکل ویپن کی فہرست میں رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔

کیرولائنا رِیپر (Carolina- Reaper): دنیا کی سب سے تند و تیز مرچ ہے۔ اسے ملکۂ مرچ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ یہ حرارت بھری شرارت قدرت کا تحفہ نہیں بلکہ انسانی فطانت کا فتنہ ہے۔ جنوبی کیرولائنا کے ایک کاشتکار ایڈ کری (Ed -Currie) نے گھوسٹ پیپر اور ہابنیرو مرچ کے پودوں کی باہم پیوندکاری کے ذریعے اس مرچ کو وجود بخشا۔ (یہ صاحب مرچوں کی ایک بہت بڑی کمپنی کے مالک ہیں۔ ان کی کمپنی کے نام میں مرچوں کی خاصیت کا ایک خاص حوالہ شامل ہے جسے سن کر اہلِ ذوق کا منہ سکیڑنا لازم آتا ہے۔ مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ اردو محفل کی طہارت اس نام کے ترجمے اور تذکرے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔متجسس خواتین و حضرات چچا گوگل سے رجوع فرمائیں۔) یہ مرچ اسمِ با مسمیٰ ہے ۔ انگریزی میں ریپر (reaper) محاورتاً مجسم موت کو کہتے ہیں ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس مرچ کو خود کشی کے لیے استعمال کیاجاسکتا ہے۔ اسے کاشت کرنے والی کمپنی کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ مرچ ٹرائی کرنے سے پہلے ایمبولینس بلوالی جائے تو بہتر ہے کیونکہ چند مرچیں کھانے کے بعد چند روز تک ہسپتال میں داخلہ تقریباً یقینی ہوجاتا ہے۔

جاتے جاتے اگر تتیّا مرچ کا ذکر بھی ہوجائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ پاک و ہند میں بکثرت پائی جانے والی یہ چھوٹی سی زردی مائل مرچ تعارف کی محتاج نہیں۔ اس کی ڈنک مار مرچائیت نام ہی سے ظاہر ہے۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ اس کی تیزی اور کاٹ بیگم کے طنز سےبس ذرا ہی کم ہوتی ہے۔ چونکہ ہر شخص موصوفہ (یہاں مرچ کی طرف اشارہ ہے) کی خصوصیات سے بخوبی واقف ہے اس لیےاندیشۂ نقصِ امن کے تحت غیر ضروری تفصیلات سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ امید ہے کہ عقلمند قارئین تھوڑے لکھے کو بہت جانیں گے اور اپنے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں خالی جگہیں پُر کر لیں گے۔ دیگر قارئین مزید معلومات کے لیے محفل پر موجود خواتین سے رابطہ فرمائیں کہ باورچی خانے کے معاملات اُن سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ :censored:

بہت خوب!
 

سیما علی

لائبریرین
القصہ مختصر ، مذکورہ بالا جمہوری نظام کے تحت منظور کردہ قرارداد نمبر تین کی رو سے مجھے روزانہ زبردستی مرچیلے کھانے کھلانے کی ایک باقاعدہ مہم شروع کردی گئی تاکہ زبان اُس ذائقۂ رفتہ سے دوبارہ شناسائی اختیار کرلے کہ جس سے ترکِ تعلقات کو ایک زمانہ ہوگیا تھا۔ مرچ مصالحے اِس بارِ دگر شناسائی پر خوش ہوئے یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن اِن بھولے بسرے مراسم کے دوبارہ استوار ہونے پر یہ زبانِ عاجز دہان مرچ کی شان میں کچھ کہے بغیر نہ رہ سکی۔
بہت اعلیٰ و ارفع تحریر ۔
جیتے رہیے ،شاد و آباد رہیے آمین۔
کھانوں میں مرچوں کی مقدار کو بیلنس رکھنا ایک فن ہے۔یہی حال باتوں میں بھی متوازن انداز میں کیا جائے تو سننے والے کو لطف آتا ہے پر اگر یہی مقدار بڑھ جائے تو دوسرے کو بہت زور سے لگ جاتیں ہیں ۔۔یہ نصیحت خاص طور پر خواتین کے لئے ہے جس طرح کھانوں میں بینلس رکھتی ہیں اسی طرح باتوں میں متوازن رکھیں تو لگنے کا اندیشہ کم رہتا ہے ۔۔
 
ہمت نہیں ایسی اعلیٰ و ارفع ٰ،شگفتہ و شاداں ، باغ و بہاراں تحریرکی تعریف و تحسین میں اپنے بے بضاعت قلم سے کچھ لکھنے کی کوشش کروں ۔ مگر اِس درخواست کی جسارت سے باز نہیں رہوں گا کہ محتر م ظہیرصاحب اب جبکہ آپ نے اِس دلآویز نثرنگاری کا سلسلہ شروع کرہی دیا ہے تو ازرہ ٔ خدا اِسے منقطع نہ ہونے دیجیے گا کہ جس طرح ہم نے آپ کی شاعری سےنت نئی جیتی جاگتی ترکیبیں، محاکات کو مات دیتی تشبہیں،مبنی بر حقیقت استعارےاور دیگر شعری لوازمات لیے، معنوی حسن و رعنائی اور فکر وخیال کی دلربائی اِ س سے سِوا ہے ، ایسے ہی آپ کی گل و گلزار نثر میں خوشہ چینی کے لیے بڑی قیمتی قیمتی چیزیں موجود ہیں۔۔۔
تخاطب کا رنگ:
قاری کی توجہ اپنےمضمون کی طرف مبذول کرانے کا خوبصورت انداز آغاز سے ہی تکلم اور خطاب کا رنگ لیے ہوئے ہے اور مضمون کے آخیر لفظ تک یہی معلوم ہوتاہے جیسے آپ ہمارے غریب خانے میں یا ہم آپ کے دولت کدے میں بیٹھے بالمشافہ گفتگو کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔واہ محترم واہ!
محاوروں کا ایٹمی استعمال:
بال کی کھال نکالنا،سرچڑھنا،سراُٹھانا،نمک مرچ لگانا،گھٹنے ٹیکنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُردُو کے ضخیم ناولوں میں محاوروں کی بارودی سرنگیں بچھانے کی رسم عام ہے سو آپ نے بھی اِس مضمون میں چند محاوروں سے ایٹمی دھماکوں کا کام خوب لیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔واہ !
چنچل اور شریرمرکبات:
مرچ آلود ،دسترخوانی رویہ،ہوم گورنمنٹ ،شکایاتِ غیرلذیذہ و ناپسندیدہ،پکوان کونسل،مرچیلے کھانے،ذائقہ ٔ رفتہ،زبانِ عاجزدہاں، غدودہاے ذائقہ،دشمنِ دہاں۔۔۔۔۔یہ ترکیبیں خود بھی نچلی نہیں بیٹھ رہیں اور لکھنے والوں کو بھی اشتعالک دے رہی ہیں کہ موقع ہو تو ایسے ہی تھرکتے ، تڑپتے ،مچلتے ،چنچل اور شریر مرکبات لکھنے سے باز نہ رہیں۔ آفریں!
بے ساختہ، قدرتی اور عین فطری جملے انگریزی میں بولے تو سن ٹین سز:
اِس چھوٹی سی تحریرسے تحریر و ترقیم کا عین فطر ی اور غیر مصنوعی انداز سیکھنے میں بھی مدد لی جاسکتی ہے ۔ہر جملہ بے ساختگی کا مظہر ، قدرتِ کلام کا شہکار اور فطرت سے بغلگیر معلوم ہوتا ہے:
’’ایسی کیا آفت آپڑی جو قبلہ ظہیراحمد شاعری کے زُمرے سے نکل کریکایک باورچی خانے میں جھانکنے لگے۔‘‘
’’زنانہ میزبان حلقوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں اور کچھ شکوک و شبہات سراُٹھانے لگے۔‘‘
’’چنانچہ اس یک رکنی کونسل نے معاملے کی سرسری سماعت کے بعد چند قرادادیں متفقہ طور پر منظور کرلی۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ، ان شاء اللہ بشرطِ فرصت تھوڑا ساقرض اوربے باق کرنے کی طالب علمانہ کوشش کروں گا اور کرنا کیا ہے سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے جو کچھ لکھوں گا اس کی حیثیت مشق اور خودآزمائی کی ہی تو ہے، ورنہ میں کیا اور میری اوقات کیا جو اِس قدرکلاسیکی تحریرپر اپنی رائے بگھاروں ۔۔۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
یہ تو بہت شاہکار تحریر لگ رہی ہے۔ سرسری مطالعے سے بات نہ بنے گی۔ میں ایسی تحاریر فرصت میں پڑھنے کا عادی ہوں۔ تبصرہ ادھار!
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
خوش نصیب مرچیں!
مرچوں پر ایک انتہائی شگفتہ تحریر! اسی بہانے مرچوں کے تمام خاندان سے ملاقات ہو گئی۔ دل میں خواہش جاگی کہ کاش ہم بھی کسی مرچ کے رشتہ دار ہوتے!
چائینیز اور اٹالینز کھانوں میں ہالاپینیو تو ہمیں بھی پسند ہیں۔ چپوٹلے ساس کا نام مرچوں کے باعث ہے اب معلوم ہوا!
کم مرچیں کھانے کا فائدہ یہ ہے کہ کھانے کا اصل ذائقہ معلوم ہو جاتا ہے۔ کراچی میں کئی لوگ تیز مصالحے کی بریانی بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ ہم سے تو کبھی نہ کھائی گئی۔ تو کم مرچوں کے معاملے میں میں ہم آپ کے ہم نوا ہیں۔ بیرونی مداخلت کے ذریعے گھریلو معاملات حل کرنے کا دل چاہے تو ہماری خدمات معمولی کمیشن پر حاضر ہیں۔
 

صاد الف

محفلین
عمدہ تحریر اور اعلیٰ اسلوب ، کل ہی ایک دوست نے مجھے مرچوں بارے کسی کی تحریر کا درج ذیل حصہ واٹس ایپ پر بھیجا ہے:

بعض اوقات مرچیں کچھ کیے بغیر بھی لگ جاتی ہیں۔ جیسے بہو بڑی اچھی ہو شوہر کا خیال رکھے تو ساس کو مرچیں لگ جاتی ہیں۔ اگر بیوی سج سنور کے شوہر کے سامنے جائے ، شوہر موبائل میں مصروف ہوں اور تعریف نہ کرے تو بیوی کو مرچیں لگ جاتی ہیں۔ اگر بیوی لذیذ کھانا پکائے اگر شوہر اس میں کوئی خامی نکالے تو بیوی کو مرچیں لگ جاتی ہیں۔
لہذا تمام شوہروں سے گذارش ہے کہ وہ اپنی بیویوں کا خاص خیال رکھیں اور مرچیں نہ لگائیں۔ کیونکہ مرچیں بغیر کسی موسم کے سردی گرمی کے دنوں میں با آسانی لگائی جا سکتی ہیں۔ غنیمت جانیں کہ آپکی شادی ہوچکی ہے۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو مرچوں کی زیادتی کی وجہ سے آپ کے رشتے میں دراڑ پڑجائے۔
 

زیک

مسافر
ہندوستانی پکوان عالمی دسترخوان پر اپنے مرچ مصالحوں کے باعث اپنی خاص پہچان رکھتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میں برصغیری کھانوں میں مرچ برداشت نہیں کر سکتا لیکن دیگر کھانوں میں کھا لیتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ یہ لگا کہ ہندوستانی و پاکستانی پکوان میں مرچ کو ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی کھانے ہزاروں سال سے ذائقے میں یونہی تیز اور مرچیلے چلے آتے ہیں تو آپ کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔
امریکا کی دریافت سے دنیا بھر کے کھانوں میں جو انقلابی تبدیلی آئی وہ حیران کن ہے۔

کیرولائنا رِیپر (Carolina- Reaper): دنیا کی سب سے تند و تیز مرچ ہے۔ اسے ملکۂ مرچ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔
کئی دوست اسے کھانے کا مقابلہ بھی کرتے آئے ہیں

ان کی کمپنی کے نام میں مرچوں کی خاصیت کا ایک خاص حوالہ شامل ہے جسے سن کر اہلِ ذوق کا منہ سکیڑنا لازم آتا ہے۔
پکی بات ہے؟
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت اعلیٰ و ارفع تحریر ۔
جیتے رہیے ،شاد و آباد رہیے آمین۔
کھانوں میں مرچوں کی مقدار کو بیلنس رکھنا ایک فن ہے۔یہی حال باتوں میں بھی متوازن انداز میں کیا جائے تو سننے والے کو لطف آتا ہے پر اگر یہی مقدار بڑھ جائے تو دوسرے کو بہت زور سے لگ جاتیں ہیں ۔۔یہ نصیحت خاص طور پر خواتین کے لئے ہے جس طرح کھانوں میں بینلس رکھتی ہیں اسی طرح باتوں میں متوازن رکھیں تو لگنے کا اندیشہ کم رہتا ہے ۔۔
بہت بہت شکریہ ، آپا! دعاؤں کے لیے سراپا ممنون ہوں ۔
الحمدللہ ، ہمیں شکایت صرف کھانے میں مرچوں ہی سے ہے ، پکانے والوں سے ذرہ برابر شکایت نہیں۔ الحمدللہ ، ہم ساری عمر میٹھے لوگوں ہی میں گھرے رہے ہیں۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ آخر دم تک یہی معاملہ رکھے ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہمت نہیں ایسی اعلیٰ و ارفع ٰ،شگفتہ و شاداں ، باغ و بہاراں تحریرکی تعریف و تحسین میں اپنے بے بضاعت قلم سے کچھ لکھنے کی کوشش کروں ۔ مگر اِس درخواست کی جسارت سے باز نہیں رہوں گا کہ محتر م ظہیرصاحب اب جبکہ آپ نے اِس دلآویز نثرنگاری کا سلسلہ شروع کرہی دیا ہے تو ازرہ ٔ خدا اِسے منقطع نہ ہونے دیجیے گا کہ جس طرح ہم نے آپ کی شاعری سےنت نئی جیتی جاگتی ترکیبیں، محاکات کو مات دیتی تشبہیں،مبنی بر حقیقت استعارےاور دیگر شعری لوازمات لیے، معنوی حسن و رعنائی اور فکر وخیال کی دلربائی اِ س سے سِوا ہے ، ایسے ہی آپ کی گل و گلزار نثر میں خوشہ چینی کے لیے بڑی قیمتی قیمتی چیزیں موجود ہیں۔۔۔
تخاطب کا رنگ:
قاری کی توجہ اپنےمضمون کی طرف مبذول کرانے کا خوبصورت انداز آغاز سے ہی تکلم اور خطاب کا رنگ لیے ہوئے ہے اور مضمون کے آخیر لفظ تک یہی معلوم ہوتاہے جیسے آپ ہمارے غریب خانے میں یا ہم آپ کے دولت کدے میں بیٹھے بالمشافہ گفتگو کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔واہ محترم واہ!
محاوروں کا ایٹمی استعمال:
بال کی کھال نکالنا،سرچڑھنا،سراُٹھانا،نمک مرچ لگانا،گھٹنے ٹیکنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُردُو کے ضخیم ناولوں میں محاوروں کی بارودی سرنگیں بچھانے کی رسم عام ہے سو آپ نے بھی اِس مضمون میں چند محاوروں سے ایٹمی دھماکوں کا کام خوب لیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔واہ !
چنچل اور شریرمرکبات:
مرچ آلود ،دسترخوانی رویہ،ہوم گورنمنٹ ،شکایاتِ غیرلذیذہ و ناپسندیدہ،پکوان کونسل،مرچیلے کھانے،ذائقہ ٔ رفتہ،زبانِ عاجزدہاں، غدودہاے ذائقہ،دشمنِ دہاں۔۔۔۔۔یہ ترکیبیں خود بھی نچلی نہیں بیٹھ رہیں اور لکھنے والوں کو بھی اشتعالک دے رہی ہیں کہ موقع ہو تو ایسے ہی تھرکتے ، تڑپتے ،مچلتے ،چنچل اور شریر مرکبات لکھنے سے باز نہ رہیں۔ آفریں!
بے ساختہ، قدرتی اور عین فطری جملے انگریزی میں بولے تو سن ٹین سز:
اِس چھوٹی سی تحریرسے تحریر و ترقیم کا عین فطر ی اور غیر مصنوعی انداز سیکھنے میں بھی مدد لی جاسکتی ہے ۔ہر جملہ بے ساختگی کا مظہر ، قدرتِ کلام کا شہکار اور فطرت سے بغلگیر معلوم ہوتا ہے:
’’ایسی کیا آفت آپڑی جو قبلہ ظہیراحمد شاعری کے زُمرے سے نکل کریکایک باورچی خانے میں جھانکنے لگے۔‘‘
’’زنانہ میزبان حلقوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں اور کچھ شکوک و شبہات سراُٹھانے لگے۔‘‘
’’چنانچہ اس یک رکنی کونسل نے معاملے کی سرسری سماعت کے بعد چند قرادادیں متفقہ طور پر منظور کرلی۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ، ان شاء اللہ بشرطِ فرصت تھوڑا ساقرض اوربے باق کرنے کی طالب علمانہ کوشش کروں گا اور کرنا کیا ہے سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے جو کچھ لکھوں گا اس کی حیثیت مشق اور خودآزمائی کی ہی تو ہے، ورنہ میں کیا اور میری اوقات کیا جو اِس قدرکلاسیکی تحریرپر اپنی رائے بگھاروں ۔۔۔
آہا ہاہ! بھئی کیا بات ہے شکیل ، آپ کے اس خوبصورت تبصرے کی! جس طرح آپ نے ذیلی عنوانات لگائے ہیں وہ بجائے خود دلچسپ ہیں۔
محاوروں کا ایٹمی استعمال ! ہا ہا ہا! :D
آپ کی توجہ اور نقد و نظر کے لیے ممنون ہوں ۔ اللہ کریم آپ کو خوش رکھے۔ سلامت رہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خوش نصیب مرچیں!
مرچوں پر ایک انتہائی شگفتہ تحریر! اسی بہانے مرچوں کے تمام خاندان سے ملاقات ہو گئی۔ دل میں خواہش جاگی کہ کاش ہم بھی کسی مرچ کے رشتہ دار ہوتے!
ہا ہاہاہ! مرچوں پر مضمون لکھنے کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ مرچیں جوابی میزائیل نہیں داغ سکتیں۔ :D مرچ کے رشتہ داروں کی طرف روئے سخن کیا جائے تو تند و تیز جواب مضمون کا اندیشہ رہتا ہے۔ :grin:
( ایک عدد ہیلمٹ اور دو عدد زرہ بکتر والی ایموجیاں)

چائینیز اور اٹالینز کھانوں میں ہالاپینیو تو ہمیں بھی پسند ہیں۔ چپوٹلے ساس کا نام مرچوں کے باعث ہے اب معلوم ہوا!
برگر وغیرہ میں ذرا سی چپوٹلے تو میں بھی کھالیتا ہوں۔ چپوٹلے ساس چونکہ مرچوں کے ساتھ عموماً پنیر یا میئو وغیرہ ملا کر بنائی جاتی ہے اس لیے مرچ کی شدت کم ہوجاتی ہے۔
آپ کبھی پیری پیری ساس آزمائیے گا۔ وال مارٹ وغیرہ پر کئی قسم کی دستیاب ہیں ۔ شکاگو میں پیری پیری چکن والوں کا ایک ریستوران کئی سال پہلے کھلا تھا کہ جس میں ہم جاسکتے تھے۔ وہ میرے بچوں کا پسندیدہ رہا ہے ۔ میں البتہ نہیں کھا سکتا۔ جب بھی وہاں گئے تو مجھے کول سلا پر ہی گزارا کرنا پڑا۔:)

بیرونی مداخلت کے ذریعے گھریلو معاملات حل کرنے کا دل چاہے تو ہماری خدمات معمولی کمیشن پر حاضر ہیں۔
ہا ہاہا ۔ کمیشن اور معمولی؟!
اگر اس کمیشن کی تفصیلات بہ آسانی لکھ سکیں تو گوش گزار کرنے کی گزارش ہے۔ اگر تفصیلات لکھنے میں تین صفحات سے زیادہ لگیں تو پھر کوئی ضرورت نہیں ۔ میں مرچوں سے سمجھوتا کرلوں گا۔ :D
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عمدہ تحریر اور اعلیٰ اسلوب ، کل ہی ایک دوست نے مجھے مرچوں بارے کسی کی تحریر کا درج ذیل حصہ واٹس ایپ پر بھیجا ہے:

بعض اوقات مرچیں کچھ کیے بغیر بھی لگ جاتی ہیں۔ جیسے بہو بڑی اچھی ہو شوہر کا خیال رکھے تو ساس کو مرچیں لگ جاتی ہیں۔ اگر بیوی سج سنور کے شوہر کے سامنے جائے ، شوہر موبائل میں مصروف ہوں اور تعریف نہ کرے تو بیوی کو مرچیں لگ جاتی ہیں۔ اگر بیوی لذیذ کھانا پکائے اگر شوہر اس میں کوئی خامی نکالے تو بیوی کو مرچیں لگ جاتی ہیں۔
لہذا تمام شوہروں سے گذارش ہے کہ وہ اپنی بیویوں کا خاص خیال رکھیں اور مرچیں نہ لگائیں۔ کیونکہ مرچیں بغیر کسی موسم کے سردی گرمی کے دنوں میں با آسانی لگائی جا سکتی ہیں۔ غنیمت جانیں کہ آپکی شادی ہوچکی ہے۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو مرچوں کی زیادتی کی وجہ سے آپ کے رشتے میں دراڑ پڑجائے۔
بہت شکریہ ، صاد الف صاحب! بہت ممنون ہوں ۔
اردو محفل پر خوش آمدید! امید ہے کہ آپ تادیر رونق افروز رہیں گے۔ اگر مناسب سمجھیں تو اپنے اسمِ گرامی سے آگاہی بخشیے۔
تعارف کے لیے پیشگی شکریہ!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دلچسپ بات یہ ہے کہ میں برصغیری کھانوں میں مرچ برداشت نہیں کر سکتا لیکن دیگر کھانوں میں کھا لیتا ہوں۔ مجھے ہمیشہ یہ لگا کہ ہندوستانی و پاکستانی پکوان میں مرچ کو ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ویپن آف ٹیسٹ ڈسٹرکشن تو یقیناً ہے۔
پکم پکی ۔ لوہا لاٹھ! :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اُن کی ناراضگی تو خیر یہ کہہ کر دور کردی جاتی کہ قورمہ بریانی وغیرہ تو کھاتے ہی رہتے ہیں لیکن آپ کے ہاتھ کا حلوہ کہاں نصیب! حلوہ نہیں من و سلویٰ ہے! وغیرہ وغیرہ۔ کچھ عرصے تک تو ہماری یہ شیریں سخنی کام کرتی رہی
آپ نے روشنی نہیں ڈالی کہ گھر تک شیریں سخنی کی شکایات پہنچنے پر ترشی بڑھانے کو پکوان کونسل نے مرچ مہم کا آغاز کیا ۔۔۔۔۔ اگر کہیں تو میں ذرا اس سطر میں موجود سچائیوں کو بیان کروں۔۔۔۔ آپ کے حکم کا منتظر۔۔۔
 
Top