بابرؔ بہ عیش کوش

جونؔ ایلیا کا ایک قول اکثر و بیشتر پڑھے لکھے دوستوں کے طفیل نظر سے گزرتا رہتا ہے جس میں انھوں نے خوش رہنے کا تعلق بے حسی سے بتایا ہے اور دلیل دی ہے کہ عظیم لوگوں کی اکثریت اپنی زندگیوں میں اداس رہی ہے۔ دانشمندوں کی بات تو ایک طرف رہی، مجھے یاد آتا ہے کہ مائیکل جیکسن جیسے عوامی سطح کے شخص نے بھی اپنی تمام تر مقبولیت، شہرت اور دولت کے باوجود اعتراف کیا تھا کہ وہ خود کو دنیا کا تنہا ترین انسان خیال کرتا ہے۔
ایک صاحب ہیں، احمد جاوید۔ فیس بک پر ان کا پیج کوئی صاحب چلاتے ہیں اور ان کے افکار و اشعار وغیرہ سے نوازتے رہتے ہیں۔ آج احمد جاوید صاحب کا ایک قول پڑھا:
خوش رہنا ایک روحانی ذمہ داری ہے۔
اسلام نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے۔ مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اگر آپ عظیم لوگوں میں انبیا، اولیا اور صوفیا وغیرہ کو شمار نہ کریں تو شاید جونؔ کے خیال سے کسی حد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ فلاسفہ اور دانش وروں سے کہیں زیادہ بڑا حلقۂِ اثر ان بزرگوں کا رہا ہے۔ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ، مگر عظما کی فہرست سے انھیں خارج کرنا ایسی بددیانتی ہے جس کا مقدمہ خود تاریخ لڑنے کو تیار بیٹھی ہے۔
اب جہاں تک ان مذہبی بزرگوں کا تعلق ہے، ان کی اکثریت کی بابت ہم بڑے تیقن سےکہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ زندگی سے نالاں نہیں تھے۔ زندگی نے مثلاً جونؔ کو یا شوپن ہاؤر کو جتنے چرکے لگائے، ان سے کہیں زیادہ اور گہرے گھاؤ احمد بن حنبلؒ اور مسیحِؑ مصلوب کو لگے۔ کیا غضب ہے کہ ان کی تعلیمات میں قنوطیت پھر بھی بار نہ پا سکی۔ باقی مناقب سے لحظہ بھر کے لیے صرفِ نظر کر لیا جائے تو بھی یہی ایک خوبی ان کی عظمت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
حافظؔ شیرازی کا ایک شعر ہے:
عاقبت منزلِ ما وادیءِ خاموشان است
حالیا غلغلہ در گنبدِ افلاک انداز ! ! !
فرماتے ہیں کہ آخر ہماری منزل خاموشوں کی وادی یعنی موت ہے۔ لہٰذا آسمانوں کے اس گنبد میں جس قدر شور مچا سکتے ہو مچا لو۔
یہ پیغام داغؔ دہلوی دیتے تو اچنبھا نہ ہوتا۔ حافظؔ کے اس البیلے پن پر حیرت ہوتی ہے۔ لیکن دیکھا جائے تو موصوف کا یہ بیان بجائے خود زندگی کو سنجیدگی کے گھونگٹ میں مقید کرنے والے دانشوروں کے خلاف ایک مسکت دلیل بن گیا ہے۔یعنی زندگی کی بے ثباتی پر رونے کی بجائے مسکرانا وہ شریعت ہے جس کے متبعین بھلے جہان کے بانکے ہوں، ائمہ بہرحال حافظؔ جیسی محترم ہستیاں ہیں۔
مجھے ان معصوم مفکروں پر نہایت رحم آتا ہے جو زندگی کی رمزیں گنتے رہتے ہیں، غم شمار کرتے رہتے ہیں، شبِ ہجر کی طوالت ماپتے رہتے ہیں اور ان کے برابر والا میٹرک فیل لونڈا رومان انگیز موسیقی کی دھنوں پر لہراتے ہوئے مسکراتی آنکھوں سے اپنی محبوبہ کے ایس ایم ایس پڑھتا رہتا ہے۔ منٹو کا افسانہ چغد یاد آیا؟ اس میں بھی ایک دانشمند تھا جو اپنی دنیا میں اسیر تھا۔ ایک آزاد، لفنگا اس کے سپنوں کی رانی کو لے اڑا۔
عورت زندگی کا سب سے طاقتور استعارہ ہے۔ چغد کی ہیروئین ایک عورت تھی جس نے ایک شائستہ اور سنجیدہ نوجوان کی بجائے ایک ٹرک ڈرائیور کو اپنا آپ سونپنا مناسب سمجھا۔ لیکن دانشمند یہ رمز نہیں سمجھتے۔ دانش مند نہیں سمجھتے کہ سنجیدگی اور تفکر ایک حد سے گزر کر زندگی کے لیے اسی طرح مہلک ہو جاتے ہیں جیسے بار بار دھویا ہوا مکھن زہر بن جاتا ہے۔
جو روٹی کھائی نہ جائے اسے کتے کو ڈال دینا چاہیے۔ ایسی عقل کو کیا کرنا صاحبو، جو باسی روٹی کی طرح گلے میں اٹک جائے۔ نہ نگلی جائے، نہ اگلی جائے۔ دنیا آپ کو دیکھ دیکھ کر مسکرائے، آپ دنیا کو دیکھ دیکھ کر رویا کریں۔
مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابرؔ سے منسوب ایک شعر سننے میں آیا ہے جس کا دوسرا مصرع خاص طور پر زیادہ معروف ہے۔ شعر کچھ یوں ہے:
نوروز و نو بہار و مے و دلبرے خوش ست
بابرؔ بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ! ! !
نوروز ہے، بہار کی نوخیزیاں ہیں، شراب ہے اور پیارا سا محبوب ہے۔ بابرؔ، عیش میں سرگرم ہو جا کہ دنیا دوبارہ نہیں ملنے والی!
بابرؔ ہندوستان کے عظیم مغلیہ دودمان کا جدِ امجد تھا۔ اگر یہ شعر واقعی اس کا ہے تو ان زاہدوں کا کیا کیجیے جوعیش کوشی و مسرت اندوزی کو زوالِ فرد و ملت کا سبب سمجھتے ہیں؟ بابرؔ نے کئی معرکہ آرائیوں کے بعد ہندوستان کے ایک بڑے حصے کو زیر کیا اور اس کی نسل نے صدیوں تک اس دھرتی پر راج کیا۔ آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفرؔ کا یاسیت پرستانہ مزاج سب کو معلوم ہے۔ ان کے دور میں سلطنت اپنے اندوہ گین انجام کو پہنچی۔ کیا یہ سب اتفاق تھا؟
میں سمجھتا ہوں، نہیں۔ بابرؔ کی مبینہ عیش کوشی تسخیرِ بحر و بر میں حائل نہیں ہوئی۔ اور ظفرؔ کی مفکرانہ اور قنوطیت پسندانہ افتادِ طبع پوری سلطنت کو لے ڈوبی۔ شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ زندگی سے پورے طور پر لطف اندوز ہونا نہ صرف انسان کا بنیادی حق ہے، بلکہ ایک فطرتی فریضہ بھی ہے۔ قرآن ہمیں پاکیزہ چیزوں سے حظ اندوز ہونے کا حکم دیتا ہے اور ڈانٹ کر پوچھتا ہے کہ وہ کون ہے جس نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو اس کے بندوں پر حرام ٹھہرایا۔ لیکن اس معاملے میں جو قاعدہ ہے وہ اقبالؔ نے " شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر" کی صورت میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو طاؤس و رباب کے پیچھے پڑتے ہیں وہ شمشیر و سناں سے آہستہ آہستہ غافل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ورنہ خدا کی نعمتوں سے کماحقہ فیض اندوزی تو ایک طرح کا شکرانہ ہے جس سے انتہا پسند لوگ خود کو بلاوجہ محروم کر کے کفران کی سزا پاتے ہیں۔
صاحبو،آدھا بھرا ہوا گلاس سامنے ہو تو دو ہی رستے ہوتے ہیں۔ یا تو خوش ہو جائیے کہ پینے کو مل گیا۔ یا ماتم کیجیے کہ پورا نہ ملا۔ انتخاب آپ کا ہے۔ رومیؔ نے اس سلسلے میں ایک خوبصورت بات کی ہے۔
بال زاغاں را بگورستاں برد---
بال بازاں را سوئے سلطاں برد
یعنی پر ہی ہوتے ہیں جو کووں کو قبرستان لے جاتے ہیں اور پر ہی ہوتے ہیں جو شاہینوں کو شاہنشاہ کی جانب کھینچ لاتے ہیں۔ وسیلہ وہی پر ہیں مگر ایک کو موت اور رذالت کی طرف بھیجتے ہیں دوسرے کو زندگی اور جبروت کی طرف۔ وہ عقل والے بھی غلط نہیں جو زندگی میں رونے کا سامان دریافت کرتے رہتے ہیں۔ اور وہ دل والے بھی جھوٹے نہیں جو دنیا کے تماشوں کی داد دیتے نہیں تھکتے۔ کیا کریں۔ نصیب اپنا اپنا!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا کہنے راحیل بھائی۔۔۔۔ شاندار ترین۔۔۔
ہم تو برسوں سے یہی راگ الاپ رہے ہیں ۔۔۔ کہ "خواجے بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست"
 
بہت عمدہ تحریر داد قبول فرمائیے۔
ویسے ہمارے نزدیک زندگی کی اصل حقیقت غم ہی ہے۔
قناعت پسندی یا راضی با رضا ہونا ۔۔غم سے بری ہونا نہیں۔
فرق دنیا و آخرت کا ہے۔
کسی کو حساب آخرت کا غم ستاتا ہے۔
تو کسی کو
دنیا کا غم۔
آپ کو بہر حال ہم سے اختلاف کو پورا حق حاصل ہے۔
 
اختلافات بھی ہوتے رہینگے راحیل فاروق بھائی، مگر پہلے تو اس خوبصورت تحریر پر بہت بہت داد قبول کیجئے۔ اور ایک بار پھر کیجئے۔
اب یہ بتائیں کہ اتنا اچھا لکھتے ہیں اچھے شعر کہتے ہیں تو یہ سب کہیں کھپا بھی رہے ہیں یا نہیں؟
 
:in-love:
کیا کہنے راحیل بھائی۔۔۔۔ شاندار ترین۔۔۔
ہم تو برسوں سے یہی راگ الاپ رہے ہیں ۔۔۔ کہ "خواجے بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست"
میں نے وہ مضمون پڑھا تھا آپ کا۔ المیہ یہ ہے کہ جسے آپ خواجے کا گواہ کہتے ہیں اس کی بابت ہماری ایجنسیوں کا اجماع ہے کہ وہ کھاڈے کا گواہ ہے۔ منطق پر آپ کی سی گرفت تو نہیں مگر قیاس کہتا ہے کہ ڈڈو چونکہ عموماً کھاڈوں میں فروکش ہوتا ہے اس لیے وہاں کے مابہ النزاع امور میں اس کی گواہی مقبول نہیں۔ کھاڈا مقامی اور شاید غیر مقامی پنجابی میں بھی اس مقامِ غیر محمود کو کہتے ہیں جہاں لوگ برتن اور منہ وغیرہ مانجھتے ہیں۔
حوصلہ افزائی کا شکریہ۔ :smile-big:
ہمارے نزدیک زندگی کی اصل حقیقت غم ہی ہے۔
دریں چہ شک؟ سوال یہ ہے کہ غمِ زندگی کا علاج ایلوپیتھک ہونا چاہیے یا ہومیوپیتھک؟ یعنی علاج بالضد کے قاعدے سے صیاد کو ہنس ہنس کے مار ڈالا جائے یا علاج بالمثل کی رو سے درد کے حد سے گزر کر دوا ہونے کا انتظار کرنا افضل ہے؟
میرے والد ہومیوپیتھ تھے! :sinister:
بہت عمدہ،منظر نگاری خوب نبھائی ہے،ماشاءاللہ۔
شکریہ، ملک صاحب۔ جزاک اللہ!
اختلافات بھی ہوتے رہینگے راحیل فاروق بھائی، مگر پہلے تو اس خوبصورت تحریر پر بہت بہت داد قبول کیجئے۔ اور ایک بار پھر کیجئے۔
پچھلے قرض یوں نہیں چکنے والے، سرکار۔۔۔;)
اللہ سدا خوش رکھے آپ کو۔ بہت شکریہ۔
اب یہ بتائیں کہ اتنا اچھا لکھتے ہیں اچھے شعر کہتے ہیں تو یہ سب کہیں کھپا بھی رہے ہیں یا نہیں؟
محفل میں اور محفل کو کھپا رہے ہیں!
 
لے قرض یوں نہیں چکنے والے، سرکار۔۔۔;)
اللہ سدا خوش رکھے آپ کو۔ بہت

راحیل بھائی، "مداری" پر آپ سے ان بکس میں بات ہوئی ہے۔ کیا یہ "حسابِ دوستاں" کے زمرے میں فال نہیں کرتا؟
بھائی اگر حضوری کا موقع ملے تو بندہ تبصرہ کیا، تجزیہ بھی پیش کردے مگر چھوٹا منہ بڑی بات۔ اس محفل میں آپ جیسے ماہرین بھی اچھی تعداد میں ہیں اور اساتذہِ کرام بھی موجود ہیں، کوئی بات کرو تو لگتا ہے سورج کو چراغ دیکھا رہے ہیں۔ اس لیے پڑھتے زیادہ ہیں لکھتے کم ہیں۔
لیکن اگر قبلہء عالم حکم فرمادیں تو خادم کٹے ہاتھ سے بھی لکھے گا
 
راحیل بھائی، "مداری" پر آپ سے ان بکس میں بات ہوئی ہے۔ کیا یہ "حسابِ دوستاں" کے زمرے میں فال نہیں کرتا؟
بھائی اگر حضوری کا موقع ملے تو بندہ تبصرہ کیا، تجزیہ بھی پیش کردے مگر چھوٹا منہ بڑی بات۔ اس محفل میں آپ جیسے ماہرین بھی اچھی تعداد میں ہیں اور اساتذہِ کرام بھی موجود ہیں، کوئی بات کرو تو لگتا ہے سورج کو چراغ دیکھا رہے ہیں۔ اس لیے پڑھتے زیادہ ہیں لکھتے کم ہیں۔
لیکن اگر قبلہء عالم حکم فرمادیں تو خادم کٹے ہاتھ سے بھی لکھے گا
ارے، میں تو مذاق کر رہا تھا، بھائی۔ واللہ، آپ سے کوئی شکوہ نہیں۔ بلکہ خوشی ہے کہ آپ نے ہمیں قبلۂِ عالم کہا اور حکم وغیرہ جیسے الفاظ ہمارے لیے استعمال کیے۔ ہم اپنی بیگم کو دکھائیں گے!
 
ارے، میں تو مذاق کر رہا تھا، بھائی۔ واللہ، آپ سے کوئی شکوہ نہیں۔ بلکہ خوشی ہے کہ آپ نے ہمیں قبلۂِ عالم کہا اور حکم وغیرہ جیسے الفاظ ہمارے لیے استعمال کیے۔ ہم اپنی بیگم کو دکھائیں گے!
یار راحیل بھائی اس پر ایک قصہ یاد آگیا معروف ہے سب کے علم میں ہوگا مختصراً لکھ دیتا ہوں
دروغ بر گردنِ راوی
ایک بزرگ کی زوجہ ان سے حسبِ روایت ہر بات پر نالاں و شکوہ کناں رہتی تھیں۔ ایک دن اپنے گھر کے صحن میں بیٹھی تھیں کیا دیکھتی ہیں کہ ایک آدمی ہوا میں اڑتا ہوا جا رہا ہے۔ شام کو میاں گھر آئے تو کہنے لگیں کہ آپ تو بے وجہ وضیفے اور چلّے کرتے ہیں کرامت کوئی نظر نہیں آتی، آج دن میں ہمارے گھر کے اوپر کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہوا میں اُڑتے ہوئے جارہے تھے۔
بزرگ نے کہا، خدا کی بندی وہ میں ہی تو تھا۔
بیگم نے کہا " ہایں! آپ تھے .. ۔۔ جبھی تو میں کہوں یہ ٹیڑھا ٹیڑھا کیوں اُڑ رہا ہے۔۔۔

تو بھائی ، اگر آپ اس امید پر بیگم کو یہ القابات دکھانا چاہتے ہیں کہ مستقبل میں وہاں سے بھی اسی قسم کے القابات سننے کو ملیں تو میرے بھائی " سوچ ہے آپ کی"
ایسا نہ ہو کہ آپ کے ممدوح کی ذہنی حالت پر شک کا اظہار کیا جانے لگے۔

اب آپ کی اور ہماری عزت آپ کے محتاط طرزِ عمل پر منحصر ہے۔ باقی یہ کہ ہم تو دوست ہیں نیک نامی ہو کہ بدنامی ہر طرح آپ کے ساتھ ہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں نے وہ مضمون پڑھا تھا آپ کا۔ المیہ یہ ہے کہ جسے آپ خواجے کا گواہ کہتے ہیں اس کی بابت ہماری ایجنسیوں کا اجماع ہے کہ وہ کھاڈے کا گواہ ہے۔ منطق پر آپ کی سی گرفت تو نہیں مگر قیاس کہتا ہے کہ ڈڈو چونکہ عموماً کھاڈوں میں فروکش ہوتا ہے اس لیے وہاں کے مابہ النزاع امور میں اس کی گواہی مقبول نہیں۔ کھاڈا مقامی اور شاید غیر مقامی پنجابی میں بھی اس مقامِ غیر محمود کو کہتے ہیں جہاں لوگ برتن اور منہ وغیرہ مانجھتے ہیں۔
حوصلہ افزائی کا شکریہ۔
ہماری چونکہ زبان پر گرفت نہیں۔۔۔ اس لیے ہم جو بھی منہ اٹھائے لکھیں چھاپ دیتے ہیں۔۔۔ ویسے ہمارے ایک بہت محترم کا فرمانا ہےیہ کہ خوجہ ہے۔۔۔ :p
آپ کی سند بھی اپنے پاس رکھ رہے ہیں۔۔۔ اگر کبھی کوئی تحقیق کی۔ تو اس تحریر میں مناسب ترمیم کر لی جائے گی۔
 

آوازِ دوست

محفلین
راحیل بھائی بہت خوب ۔ احمد جاوید صاحب اگر کہتے ہیں کہ خوش رہنا ایک روحانی ذمہ داری ہےتو ٹھیک ہی کہتے ہیں مگر کیا کیجئے کہ انسان ذمہ داریوں کو اکثر بوجھ ہی سمجھنے لگ جاتا ہےکسی کے پسندیدہ ترین مشغلے سے اُس کی جان چھُڑانی ہو تو یہ شُغل اُس کی ذمہ داری بنا دیں۔ سب طرح سے راضی خوشی ہوتے ہوئے یا بہت سے لوگوں سے بہت بہتر ہوتے ہوئے بھی غم پھانکنا ایک ذہنی عیاشی جیسا ہے جس سے آپ خود کو سنجیدہ مدّبر اور گہری سوچ رکھنے والا انسان پوز کرنے کی (عموما") لاشعوری کوشش کرتے ہیں۔ غمزدگی کے کُچھ یونیک فیچرز بھی ہیں جیسے سیاہ رنگ ہر رنگ پر غالب آ جاتا ہے ایسے ہی اِسے اتنا یونیورسل بنایا گیا ہے یہ ہر مزاج وطبع کو اپنا اسیر کر سکتی ہےاور متعدد مقامات پر ایسا کر تی بھی ہے تو کُچھ لوگ سوئچ بیک اینڈ فورتھ کے اِس کھیل میں اچھا پیس بنا لیتے ہیں تو کُچھ فرش پر گرنے کے ڈر سے بچنے کے لیے فرش پر ہی لیٹ جاتے ہیں اور یہ اطمینان حاصل کر لیتے کہ اب کوئی بھی چیز اُنہیں گرا نہیں سکتی شائد یہی منطق حساس یاسیت پسندوں کو یاسیت گزیدگی کے پے در پے صدمات سے بچانے کے لیے یاسیت کی محفوظ تہوں میں مستقل چھُپائے رکھتی ہےاور ویکسین کی طرح کا م کرتی ہے۔
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست پر کریں تو کیا کریں کہ بابر کے جہانِ رنگ و بو و نغمہء طرب و نشاط کو طبیعیت میں جو نشہ لانا چاہیے وہ کسی طور لا کر ہی نہیں دیتا۔ واٹر واٹر ایوری ویئر بٹ ناٹ اے سنگل ڈراپ ٹو ڈرنک ۔ احمد جاوید صاحب کا ایف بی لنک عنایت کیجئے :)
 
دریں چہ شک؟ سوال یہ ہے کہ غمِ زندگی کا علاج ایلوپیتھک ہونا چاہیے یا ہومیوپیتھک؟ یعنی علاج بالضد کے قاعدے سے صیاد کو ہنس ہنس کے مار ڈالا جائے یا علاج بالمثل کی رو سے درد کے حد سے گزر کر دوا ہونے کا انتظار کرنا افضل ہے؟
undefined
گو کہ سواال ہمارے سر کے کافی اوپر سے گزر گیا ۔۔لیکن پھر بھی ہم ہومیو پیتھ کو ہی ترجیح دیں گے۔کہ جلدی کا کام شیطان کو ہوتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
بہت خوب۔ زبردست تجزیہ ہے۔آپ فارسی کے پھول پرو کے ،شکر ہے کہ ترجمہ بھی لکھ دیتے ہیں ورنہ میرے جیسے ان پڑھ کیا کرتے!!
 

جاسمن

لائبریرین
بہت خوب۔ زبردست تجزیہ ہے۔آپ فارسی کے پھول پرو کے ،شکر ہے کہ ترجمہ بھی لکھ دیتے ہیں ورنہ میرے جیسے ان پڑھ کیا کرتے!!
 

نور وجدان

لائبریرین
تحریر میں ایک لفظ میں اضافی نہیں ہے ۔اوپر سے حقیقت پسندانہ سوچ اتنے میٹھے اور رواں انداز ۔۔۔ بہت خوب
 
Top