کاشفی

محفلین
اے خدا
(جوش ملیح آبادی)

اے خُدا! سینہء مسلم کو عطا ہو وہ گُداز
تھا کبھی حمزہ و حیدر کا جو سرمایہء ناز

پھر فضا میں تری تکبیر کی گونجے آواز
پھر اس انجام کو دے گرمی رُوحِ آغاز

نقشِ اسلام اُبھر جائے، جلی ہوجائے
ہر مسلمان حسین ابنِ علی ہو جائے

دشتِ اسلام کے کانٹوں کو گلستاں کر دے
پھر ہمیں شیفتہء جلوہء ایماں کر دے

دل میں پیدا تپش ِبوذر و سلماں کر دے
اپنے محبوب کی سوگند “مسلماں“ کر دے

رُوکشِ صبح، شبِ تار کا سینہ ہوجائے
آبگینے کو وہ چمکا کہ نگینہ ہو جائے

دے ہمیں بارِ خدا! جراءت و ہمت کے صفات
دل کو یوں چھیڑ کہ پھر جاگ اُٹھیں احساسات

پھر سے ہوں تازہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات
درس مومن کو یہ دے موت ہے تکمیلِ حیات

جادہ پیماؤں کو چھوٹا ہوا صحرا دیدے
قیس کو پھر خلشِ ناقہء لیلیٰ دیدے

پھر بہار آئے، مئے ناب پری ہوجائے
پھرجہاں محشرِ صد جلوہ گری ہو جائے

دے وہ چھینٹے کہ ہر اک شاخ ہری ہوجائے
زرد آندھی کا نسیمِ سحری ہو جائے

طبع افسردہ کو پھر ذوقِ روانی دیدے
اِس زلیخا کو بھی معبود جوانی دیدے

ہم کو سمجھا کہ تلاطم میں ٹھہرنا کیسا؟
نشہء بادہء جراءت کا اُترنا کیسا؟

موت کیا شے ہے، بھلا موت سے ڈرنا کیسا؟
کوئی اس راہ میں مرتا بھی ہے، مرنا کیسا؟

مَر کے بھی خون میں یوں موجِ بقا آتی ہے
کہ اجل سامنے آتے ہوئے شرماتی ہے

صبح ِ اسلام پہ ہے تیرہِ شبی کا پَر تَو
لبِ مسلم سے ہٹا تشنہ لبی کا پَرتَو

کانپ کر ماند ہو راحت طلبی کا پَر تَو
ڈال سینوں پہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا پَر تَو

غُل ہو وہ حوصلہ ء شوق دو بارا نکلا
وہ چمکتا ہوا اسلام کا تارا نکلا

زندہ کس طور سےرہتے ہیں بتا دے ہم کو
عقل حیراں ہو وہ دیوانہ بنا دے ہم کو

سُوئے میخانہء توحید صدا دے ہم کو
عشق کا ساغر لب ریز پلادے ہم کو

کج ہوں اُس وقت سرِ حشر کُلاہیں اپنی
جب ملیں ساقیء کوثر سے نگاہیں اپنی
 
Top