اے ارضِ وطن!

ساجد

محفلین
ضمیر جعفری کی یہ نظم سقوطِ ڈھاکہ کے فوری بعد لکھی گئی۔ تب جذباتیت کی گنجائش پیدا ہو سکتی تھی لیکن اب یہ جذباتیت ہمارے لئے زہر ہے۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ بھی ایک جذباتیت تھی اور اس کے الگ ہونے پر مزید جذباتیت کو پسند نہیں کیا جانا چاہئیے۔
ملک قوانین سے چلتے ہیں ۔ اور میں پاکستان کے تمام طبقوں کو قانون کے ماتحت دیکھنے کا متمنی ہوں نہ کہ کسی گروہ کے بارے میں ہمدردی کے جذبات ابھار کر اس کی قانون شکنیوں پر پردہ ڈالنے کے۔
میری بات کو اپنے معانی پہنانے یا کسی خاص نکتہ نظر سے دیکھنے کی بجائے اسے عدل و انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر پرکھا جائے۔ بے رحمی کی حد تک جا کر بھی قوانین کا احترام کروانا پڑے تو کروایا جائے ، جذباتیت خود بخود دم توڑ جائے گی۔
 
ضمیر جعفری کی یہ نظم سقوطِ ڈھاکہ کے فوری بعد لکھی گئی۔ تب جذباتیت کی گنجائش پیدا ہو سکتی تھی لیکن اب یہ جذباتیت ہمارے لئے زہر ہے۔ مشرقی پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ بھی ایک جذباتیت تھی اور اس کے الگ ہونے پر مزید جذباتیت کو پسند نہیں کیا جانا چاہئیے۔
ملک قوانین سے چلتے ہیں ۔ اور میں پاکستان کے تمام طبقوں کو قانون کے ماتحت دیکھنے کا متمنی ہوں نہ کہ کسی گروہ کے بارے میں ہمدردی کے جذبات ابھار کر اس کی قانون شکنیوں پر پردہ ڈالنے کے۔
میری بات کو اپنے معانی پہنانے یا کسی خاص نکتہ نظر سے دیکھنے کی بجائے اسے عدل و انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر پرکھا جائے۔ بے رحمی کی حد تک جا کر بھی قوانین کا احترام کروانا پڑے تو کروایا جائے ، جذباتیت خود بخود دم توڑ جائے گی۔
ان باتوں سے تو میں 100٪ متفق ہوں(y)
پر یہاں بات جذباتی ہونے کی نہیں ہو رہی بلکہ اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کی ہو رہی ہے۔
کم ازکم میرا تو اس نظم کو پوسٹ کرنے کا یہی مطلب تھا۔
 

ساجد

محفلین
اے ارضِ وطن!

(1)
چوبیس برس کی فردِ عمل، ہر دل زخمی ہر گھر مقتل
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم
قیدی شیرو، زخمی بیٹو!
دُکھیا ماؤں! اُجڑی بہنو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، ہم تُم سے بہت شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم

(2)
ہم حرص و ہوا کے سوداگر، بیچیں کھالیں انسانوں کی
بُجھتے رہے روزن آنکھوں کے، بڑھتی رہی ضو ایوانوں کی
جلتی راہو! اُٹھتی آہو!
گھائل گیتو! بِسمل نغمو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم

(3)
افکار کو ہم نیلام کریں، اقدار کا ہم بیوپار کریں
اِن اپنے منافق ہاتھوں سے خود اپنا گریباں تار کریں
ٹُوٹے خوابو! کُچلے جذبو!
روندی قدرو! مَسلی کلیو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم

(4)
ہم نادیدے ناشُکروں نے ہر نعمت کا کُفران کیا
ایک آدھ سنہری چھت کے لئے، کُل بستی کو ویران کیا
سُونی گلیو! خُونی رستو!
بچھڑے یارو! ڈُوبے تارو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم

(5)
بیواؤں کے سر کی نم چادر، خوش وقتوں کی بانات ہُوئی
جو تارا چمکا ڈُوب گیا، جو شمع جلائی رات ہُوئی
ہنستے اشکو! جمتی یادو!
دُھندلی صبحو! کالی راتو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم

(6)
کُچھ اور چمک اے آتشِ جاں، کُچھ اور ٹپک اے دل کے لہُو
کُچھ اور فزوں اے سوزِ دروں، کُچھ اور تپاں اے ذوقِ نمو
بچھڑے یارو! ڈُوبے تارو!
دُکھیا ماؤں! اُجڑی بہنو!
ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں
اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم

کلام: ضمیر جعفری
19 دسمبر 1971ء
میں ملامتی ادب و شعر کو ناپسند کرتا ہوں۔ ایسا ادب اور شاعری معاشرے میں مایوسی پیدا کرتی ہے ۔ افراد کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتی ہے اور محب وطن عناصے کے مقابلے میں مرکز گریز قوتوں کی حوصلہ افزائی کی مؤجب بنا کرتی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں ملامتی ادب و شعر کو ناپسند کرتا ہوں۔ ایسا ادب اور شاعری معاشرے میں مایوسی پیدا کرتی ہے ۔ افراد کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتی ہے اور محب وطن عناصے کے مقابلے میں مرکز گریز قوتوں کی حوصلہ افزائی کی مؤجب بنا کرتی ہے۔
اس کے لئے ماہنامہ "سرخ سویرا" بشکریہ ابن انشاء چلے گا نا؟
 

ساجد

محفلین
ان باتوں سے تو میں 100٪ متفق ہوں(y)
پر یہاں بات جذباتی ہونے کی نہیں ہو رہی بلکہ اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کی ہو رہی ہے۔
کم ازکم میرا تو اس نظم کو پوسٹ کرنے کا یہی مطلب تھا۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور غلطیوں سے سیکھنے کا جو طریقہ دنیا بھر میں درست مانا جاتا ہے وہ ہے ان کا غیر جانبداری اور سائنسی خطوط پر تجزیہ کرنا اور آئندہ کے لئے ان سے بچنا۔ ارتکاب شدہ غلطیوں کا ماتم کرتے رہنا یا ان پر خود کو کوسنے دے دے کر ملامت کرتے رہنا شاعروں کی شاعری کو تو چار چاند لگا سکتا ہے لیکن حقیقت کی دنیا میں اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے۔
دنیا بھر کے ماہرینِ نفسیات اور ماہرینِ تعلیم کے نزدیک ملامت کا عمل حوصلہ شکنی پیدا کرتا ہے اور انسانی صلاحیتوں کو منفی طور پر ابھارتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک ناکام کھلاڑی کو اس کی ناقص کارکردگی پر لعنت ملامت کی جائے گی تو وہ دباؤ میں آکر اس کے اپنی صلاحیت کو بہتر بنانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جائیں گے لیکن اگر اس کی ناکامی کا سائنسی انداز میں جائزہ لے کر اس کی بہتر تربیت کی طرف توجہ دی جائے گی تو وہی کھلاڑی مطلوبہ نتائج دینے کی اہلیت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
اسلامی نکتہ نظر سے اسے یوں سمجھئے کہ اسلام میں لوگوں کو خوشخبری دے کر اللہ کی طرف بلانے کی تاکید ہے حالانکہ اللہ سے بڑا جبار و قہار کوئی نہیں لیکن لوگوں کو اصلاح کی طرف لانے کے لئے نہ تو درشتی اور نہ ہی ان کی زندگیوں پر ملامت کا حکم دیا گیا بلکہ اللہ کی رحمت کا تذکرہ کر کے لوگوں کو اصلاح کی طرف لانے کا حکم دیا گیا۔
اسی طرح اللہ تعالی اس بات کو بھی پسند نہیں فرماتا کہ اس کے بندے احساس ملامت سے دوچار رہیں۔ بڑی سے بڑی غلطی کی بذریعہ توبہ معافی کا راستہ ہمیشہ کھلا دکھایا گیا ہے۔ خود کو مجرم ، قاتل اور نہ جانے کیا کیا کہنا کسی مثبت مہیج کو تو شاید ہی پیدا کر سکے البتہ ہمیں دوسروں کے سامنے احساس کمتری کا دوچار ضرور کر سکتا ہے اور دوسروں کی نظر میں ہماری عزت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اور شاید اسی لئے اسلام نے ہمیں خود کو ملامت کرنے سے منع کیا ہے۔
 
Top