وہ بہت ضد میں تھی اور میں ؟میں نے بھی حد کی ہوئی تھی ۔۔بار بار اسے روک رہی تھی ۔مگر وہ رک جائے گی؟ لگتا تھا وہ اپنی ہی کر کے رہے گی اور وہ بھی تو اسے غلط کام کی شہ دے رہا تھا بجائے سمجھانے کے۔۔میں کتنی دفعہ بے اختیار اونچی اواز سے کہہ چکی تھی کہ ایسے نہ کرو یہ غلط ہے مگر شائد اس کا بھی قصور نہ تھا اسے تو میری سمجھ بھی نہیں آتی ہو گی ہم دونوں ایک دوسرے کی زبان سے نا واقف تھے پھر کیسے سمجھاتے ایک دوسرے کو اپنی بات ۔۔پھر میں نے اس کی پسند کا کام کیا کہ شائد وہ خوش ہو جائے گی ۔۔مگر اس نے میرے کیے ہوئے کام کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ شائد آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا بھی نہیں ۔۔اور اب وہ دونوں شور مچاتے تو مجھے لگتا کہ شائد میں ٹھیک ہونے کے باوجود غلط ہوں ۔۔اسے اپنی من مانی کر لینے دیتی پھر جو ہوتا دیکھا جاتا ۔۔مگر اپنے دل کا کیا کرتی ؟
پھر سوچتی کہ سب کو سمجھا لیتی میں۔۔کہ اس کو اپنی خوشی پوری کر لینے دو ۔۔مگر کیا سب میری مان لیتے ؟۔۔اور پھر میں کیسے اسے اجڑتے ہوئے دیکھ لیتی ؟۔۔اب جب وہ شور مچاتی تو دل کرتا اسے گلے سے لگا کر تسلی دوں اور سمجھاوں
کہ یہ جو میں نے تمھاری خوشی کا سامان کیا ہے اسے قبول کر لو ۔۔مگر کیسے ؟وہ تو میری بات ہی نہیں سمجھتی ۔۔جب بھی پاس جاوں بھاگ جاتی ہے
کیا سوچنے لگے آپ سب ۔۔۔۔۔۔۔میں نے کس کے ساتھ ظلم کر دیا ہے
تو سنیں
گھر کے پیچھے درخت
پہ بیٹھنے والی ننھی چڑیا نے بہت تنگ کیا بس ضدی ہو گئی کہ گھر بنائے گی تو ہمارے کیچن کے ایگزاسٹ فین میں ۔۔اب آپ بتائیں میں اسے روکتی یا اسے بنا لینے دیتی ۔۔۔بار بار منع کیا ۔۔سمجھایا۔۔مگر پھر چار تنکے لا کے رکھ دیتی ۔۔پھر ایک ڈبے کا گھر بنا کے اسی جگہ رکھا کہ یہ لے لو
۔۔مگر نہ جی وہ تو ناراض ہی ہو گئی
۔۔۔شائد اس کے چڑے نے اسے کہیں نئا گھر بنا دیا تھا
۔۔پھر وہ میرے بنائے گھر کو کیوں قبول کرتی
۔۔چلو خیر جہاں رہے خوش رہے ۔۔آباد رہے