ایک کتاب کی تصویری کہانی

تفسیر

محفلین
.
گل​

میں نے کمپیوٹر آن کیا۔اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اسائنمنٹ کی فائل کو کھولا۔
کلاس: فلسفہ۔ ایم چار سو دو۔ ارسطو
پروفیسر : سان کیلسی۔اسسِٹنٹ پروفیسرآف فلاسفی، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ایٹ لاس اینجلس۔
اسائنمینٹ: اَچھائ کا virtue
ڈیؤ ڈیٹ: پانچ جولائ
کمپیوٹر کے اسکرین پر میسنجرکا ایک ’ پاپ اپ‘ نظر آیا۔
” سلام“۔
دماغ نے کہا نظرانداز کردو۔ میں نے’ مصروف ‘ہو نے کا بٹن کِلک کردیااور اپنی توجہ اسائنمنٹ پر مرکوز کی۔
اچھائ۔میں نے عنوان لکھا۔ اسکرین نے ایک بھبکالیا۔
” سلام“۔
میں نے ’ ناموجود ‘ ہو نے کا بَٹن کِلک کردیا۔ اورتَمہید لکھنی شروع کی۔اچانک ذہن خالی ہو گیا۔
اسکرین پھرسے بھبکا۔۔۔ سلام۔۔۔اور مسینجرنے سارے اسکرین پر قبضہ کرلیا۔
” سلام “۔
میں نے پروفائل دیکھنے کی کوشش کی۔ نام ، جنسیت ، ملک اور پیشہ کے خانے میں’ نا اِظہار‘ لکھا تھا۔
سعدیہ میری چھوٹی بہن کمرے میں داخل ہوئ۔ میں نے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئ۔
” تم کون ہو؟“میں نے پوچھا۔
”میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔
” مجھے 5 جولا ئ سے پہلے اپنے کالج کے اسائنمنٹ کو پورا کرنا ہے“۔
” میں نے تمارا افسانہ’مدّوجزر‘ پڑھا“۔
” کیا تم کو پسند آیا؟“میں نے نرمی اختیار کی۔
” میں نے تمارا مضمون تقویٰ بھی پڑھا“۔
” تو؟“ میں نے کہا۔
” میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔
” کیوں؟“ میں نے سوال کیا۔
” مجھےاور میری تمام بہنوں کوتمہاری مدد چاہیے“۔ اس نے عاجزانہ لہجہ میں کہا۔
” مجھ کو تو یہ لگتا ہے کہ تم مجھ سے کھیل رہی ہو“۔
” مجھےاور میری تمام بہنوں کوتمہاری مدد چاہیے“۔اس نےمیری بات کونظرانداز کردیا۔
 

تفسیر

محفلین
” کیوں؟“ میں نےمطالبہ کیا۔

” میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں“۔ اس نے پھر دوہرایا“۔ ہم’ آڈیو‘ استمعال کریں گے“۔

” لیکن میں مصروف ہوں۔ مجھے اس اسائنمنٹ کو پورا کرنا ہے”۔

” اگر میں تم سے وعدہ کروں کہ ہماری گفتگو کےاختتام پرتم اس اسائنمنٹ کو آدھےگھنٹے سے کم وقت میں کر لوگے تو کیا پھر تم مجھ سے بات کروگے؟”

میں نے اس کو’ قہقہہ‘ لگانے کا ونک بھیجا اور بے پروائ سے آڈیو کی درخواست کو قبول کرلیا۔ ویسے بھی اس وقت میرا ذہن کام نہیں کررہا تھا۔

میں نے مائکروفون میں کہا۔” تمہارا کیا نام ہے ؟ تم کون ہو؟ اور تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟ اگر تم ان باتوں کا جواب پانچ منٹ میں نہ دوگی تو میں کمپیوٹر کو آف کردوں گا”۔

اس نےصرف یہ کہا کہ پانچ منٹ کے بعد یہ مجھ پر ہوگا کہ میں اس کی تمام باتوں کوسنوں یا نہ سنوں۔

” میرا نام گل ہے“۔

کنکشن بہت صاف تھا۔ میں نے پہلے کبھی اس انٹرنیٹ آڈیو کواتنا صاف نہں سننا تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ لڑکی میرے کمرے میں موجود ہے۔ اس کی آواز غم اور سوزسے بھری تھی۔

” آپ داستان لکھتے ہیں! میں نے آپ کی داستان ۔ ’مدّ وجزر‘ پڑھی - بہت اچھی لگی۔ اگر میں آپ کو ایک حقیقی داستان سناؤں توکیا آپ اس کو لکھیں گے؟“

” میں آپ سے بد سلوکی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن میں صرف اپنی پسند کے موضوع پرداستان لکھتا ہوں“

گل نےمجھےنظرانداز کر کے کہا۔

” میں پاکستان کے صوبہ سرحد کے ایک چھوٹےگاؤں میں پیدا ہوئ۔ میرا ایک بھائ ہے جو مجھ سےدو سال بڑا ہے۔اور دو بہنیں مجھ سے چھوٹی ہیں۔ ایک ،سال بھر اور دوسری دو سال مجھ سے چھوٹی ہے۔ میں نےاس کی سِسکیوں کی آواز سنی۔ ہمارے ساتھ دادی، نانی،چچا اورچچی بھی رہتے تھے۔

ابا بہت بوڑھے ہیں اور وہ چار جماعت تک اسکول گئے تھے۔ اس لے وہ مزدوری کا کام کرتے تھے۔ کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں۔ جب کبھی ماں کوابا کچھ پیسے دیتے وہ بھائ کے ساتھ بازار جاکر سبزی، گوشت اور آٹا لے آتی تھیں۔ بعض دفعہ ماں ہم کو صرف’ ڈوڈئ‘ اور پانی دیتی اور ابا کو’ ٹیکالہ‘۔ میں جب چھ سال کی تھی تو پہلی دفعہ میں نے خان صاب کے ہاں دودھ پیا۔

” ڈوڈئ اور ٹیکالہ کیا ہوتا ہے“۔ میں نے سوال کیا۔

میں نے سعدیہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔

” میں پانچ سال کی تھی ایک دن ماں نے کہا بیٹی تمہارے بھائ کوبابا، مردان کے خان صاب کےہاں لےجارہے ہیں۔ یہ اب خان صاب کے پاس رہ کر کچھ سیکھےگا“۔

میں نے کہا ” بھائ وہاں کیوں جائیں یہاں کیوں نہیں سیکھتے ؟“

میں نے بھائ کاہاتھ پکڑ کر کہا۔” بھائ ! تم مجھ کو چھوڑ کرمت جا ؤ۔ میں کس کے ساتھ کھیلوں گی؟ کس کے ساتھ اس کول جاؤں گی؟ جب بڑے بچےمجھ کوماریں گے توکون مجھ کو بچائے گا؟“

سعدیہ کے آنسواب اس کےگالوں پر بہ رہے تھے۔
 

تفسیر

محفلین
باپ نےمیرا ہاتھ جھٹک دیا۔ بھیا نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا کرچیخ ماری اور وہ چلایا۔گل،گل“۔
میں بھائ کواب بھی دروازے سےنکلتا دیکھتی ہوں۔ جب میں دروازے پر پہنچی توبابا۔ بھائی کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔

وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔
وہ میرے بھائ کوگلی میں گھسیٹ رہے تھے۔

جیسے سُوئی ایک پُرانے ریکارڈ پر رُک جاتی ہے وہ ایک گِھسّے ہوے ریکارڈ کی طرح ایک جملہ دُہرانے لگی۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ سعدیہ اب رو رہی تھی۔گل رو رہی تھی۔ پھرمیں نےگل کی دھاڑیں مار کر رونے کی آواز سنی۔
میں خاموش رہا۔ میرے پانچ منٹ تک سننے کے وعدے کوگزرے ہو ئے عرصہ ہو چکا تھا۔ میں اب اس مقام پر تھا جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی۔ مجھےاب اس کہانی کوسننا تھا۔

” میں نے میرے بھیا کو آخری بار دیکھا۔ وہ منظر مجھ کو آج بھی اس طرح نظر آتا ہے۔ جیسے پھر سے ہو رہا ہو“۔ گل نے روتے ہوکہا۔

مجھ سے کرسی پر بیٹھا نہ گیا۔ میرے آنسو بہنے لگے۔میں نے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع کیا۔

بہت عرصہ گزرا- ایک دن میں اسکول سے واپس آئ تودیکھا کہ ابا ، اماں کولکڑی سےمار رہے ہیں۔ ابا نے اماں کو بہت مارا۔ میں بہت ڈری اور دادی کے پاس بھاگ گئ۔

دوسرے دن ماں نےمجھے نہلا کرصاف کپڑے پہنائے۔ میرے بالوں میں کنگھی کی۔اور مجھے بہت پیارکیا۔ وہ بہت رویں۔ مجھے پتہ نہیں وہ کیوں رورہی ہیں۔ مگرمیں بھی نہ اپنے آنسوکو روک سکی اور ہم دونوں لپٹ کر بہت دیر تک روئے۔

شام کو بابا آئے اورکہا چلو۔ میں نے کہا۔” بابا ،ہم کہاں جارہے ہیں۔ اماں ہمار ے ساتھ نہیں آئیں گی“۔
ابو نے کہا۔” میں تم کوخان صاب کی حویلی میں لے جاتا ہوں۔ وہاں تم کو اچھا کھانا اورصاف سترے کپڑے ملیں گے۔اورتم گھر بار کی چیزیں سیکھوگی۔ بلبل ، اس طرح جب تم بڑی ہوگی تو تماری شادی ہوسکے گی“۔
میں نے روتے ہوکہا۔” بابا میں اماں کے پاس رہوں گی۔ میں کہیں نہیں جاؤں گی“۔ بابا نے مجھےگِھسیٹنا شروع کیا اور میں نے چلانا شروع کیا“۔

میں اب بھی بھیا کو دروازے سے جاتا اور گلی میں گھسیٹتا دیکھتی ہوں۔اب میں اپنے آپ کو بھی بھیا کی طرح گلی میں گھسیٹتا دیکھتی ہوں۔

میری ٹہلنے کی رفتار میں اضافہ ہوگیا۔
 

تفسیر

محفلین
.
میں ایک نوجوا ن ہوں جس نے زندگی میں ایک وقت بھی فاقہ نہیں کیا۔جو ایک دن بھی اپنے ماں باپ اور بہن سے جدا نہ ہوا۔ جس کی بہن اس کو ہرگھنٹہ سیلولر فون پرکال کرتی ہے۔اور اگرمیں مصروفیت کی وجہ سے جواب نا دوں تو بیقرار ہو جاتی ہے اورطوفان کھڑا کردیتی ہے۔

” الٰہی میں کیا سن رہا ہوں؟ کیا یہی تیری توفیق اور تیرا انصاف ہے؟ تو دیتا ہے ایک کواورسب کچھ چھین لیتا ہے دوسرے سے“۔

اچانک میں نےگل کی آواز سنی۔

میرے بابا نےمجھے پیارکیا اورکہا۔” میری بلبل تم اندر جاؤ۔ اللہ حافظ“۔

حویلی کےاندر بہت لوگ تھے۔ گھر کے کاموں کی دیکھ بھال کرنے والی ماسی مجھے باورچی خانہ میں لےگئ۔ اور سبزی کاٹنے پر لگا دیا۔ مجھے تو چھری پکڑنا بھی نہیں آتی تھی۔ میں نےدیکھا کہ دو لڑکیاں وہاں کام کررہی ہیں وہ مجھ سے عمر میں بڑی ہیں۔ ان کا نام نورا بی بی اور جمعہ بی بی تھا۔جب ماسی باورچی خانہ سے چلی گئی تو میں ماں اور بھائ کو یاد کرکے رونے لگی۔ اتنے میں دروازے سے ایک بڑی لڑکی داخل ہوئ۔ لڑکیوں نے کہا چھوٹی مالکہ بی بی آرہی ہیں جھک کر سلام کرو۔ میں نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ کر سلام کیا۔
وہ مجھ کودیکھ کر مسکرائ۔

” تم نئ لڑکی ہو۔ تمھارا کیا نام ہے؟“۔

میں نے شرما کرکہا۔” گل، سب مجھ کوگل کہتے ہیں۔ میرے بابا مجھ کو اپنی بلبل کہتے ہیں“۔

اتنے میں ماسی باورچی خانہ میں واپس داخل ہوئ۔ بی بی آپ یہاں؟ آپ نےگھنٹی بجائ ہوتی تو میں نورا کو بھیج دیتی۔ کیا چاہیے؟“

” ماسی میں امی سے کہوں گی کہ گل کو میرے پاس رکھیں“۔

بی بی جیسی آپ کی مرضی۔ مگر ہمیں گل کوشادی کے قابل بھی تو کرنا ہے؟“

” اچھا، تویہ صرف اس وقت دوسرے کام کرے گی۔ جب میں کالج جاؤں“۔

” چلوگل تم میرے ساتھ آؤ“۔

ہماری ماں نے کھلے ہوئے دروازہ پر کھٹکھٹایا۔ہر چیز خیریت سے ہے؟ ہاں سعدیہ نے روتے ہوے جواب دیا۔ کمپیوٹر کا آڈیو چلا گیا اور اسکرین پر میرے اسائنمنٹ کا صفحہ واپس آگیا اور اس پر اچھائ کے virtue کی ایک آوٹ لائن موجود تھی۔

ماں نےصوفہ کے بیچ میں بیٹھ کر سعدیہ اور مجھ سے سوال کیا”۔ تم دونوں میں لڑائ ہوئ نا“۔
” نہیں ماں ، میں اپنے لیے رورہی ہوں۔ میں ، میری بہن گل کے لیے رورہی ہوں۔ میں صوبہ پختونخواہ اور پاکستان کی عورتوں کے لے رورہی ہوں“۔

اور سعدیہ سسکیاں لینے لگی۔ ماں نے سعدیہ کا سر اپنی گود میں رکھ کیا۔اور اُنگلیوں سےاس کے بالوں میں کنگھی کرنے لگیں اور پھر میری طرف دیکھا۔ میں اپنے جذبات پر قابو پاچکا تھا۔

.
 

تفسیر

محفلین
.
[align=center:a3958fbe17]یہ تین تصویریں ساحل سمندر (Malibu beach ) کی ہیں
جہاں میں نے صبح کے چار بجے
پختون کی بیٹی کا پہلا باب گُل و بُلبل مکمل کیا​
[/align:a3958fbe17]
 

تفسیر

محفلین
.
Chapter1Guul3.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب تفسیر بھیا۔ عمدہ عمدہ تصاویر، اگر سب پر کچھ نہ کچھ کیپشن مل جائے تو بہت مزہ رہے گا :)
 

تفسیر

محفلین
باب دویم

.
[html:6ca7c403fb]
َ


1 - سادیہ کا خواب

جھرنے کا مدھم شور فضاء میں گھوم رہا ہے اور پرندوں کی چرچراہٹ گونج رہی ہے۔ ندی کا میٹھا پانی انگڑائ لے کر بہہ رہا ہے۔ ندی کے کنارے حسین پُھول، ساری وادی کی فِضا کو معطّر کررہے ہیں۔ یہ فطرت کی رنگین رَعنائیوں اور دلکش نظاروں سے بھری جگہ ہے۔ ایک عورت ندی کے کنارے بیٹھی گنگنا رہی ہے۔ وہ ایک کتھئ اور لال رنگ کے کشیدہ کاری سے بھری کھٹ "پرتوگ" (شلوار) پہنے اور پاؤں میں سانکڑی پہنے ہے۔ ایک آٹھ یا نوسالہ بچی نزدیک کھڑی ہے۔

َ
 

تفسیر

محفلین
.

پختون کی بیٹی


باب دوئم۔اجتِماع



پوری کتاب پڑھنے کےلیے پختون کی بیٹی کا لنک
َ


5 - خواہش

پاول گیٹی ، ایک بہت بڑی تیل کی کمپنی کا مالک تھا۔اس کی وفات اُنیس سوچھہتر میں ہوئی۔ وہ دنیا کے بڑے امیرلوگوں میں سے تھا۔ وہ ایک ہمدردِ بنی نوعِ انسان ( فیلانتھروفیسٹ) بھی تھا۔ اس نے کروڑوں ڈالر انسان کی فلاح و بہبود کے لیے دئے۔ سانتامونیکا کے پہاڑوں میں گیٹی میوزیم ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ ملاقاتی اس جگہ سے لاس اینجلس کے مختلف روپ دیکھ سکتا ہے۔ بحرالکاہل ، سان گِبرئل کے پہاڑ ، لاس اینجلس شہر کی شاہراہیں اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ایٹ لاس اینجلس (اُکلا)۔ جب آپ پہاڑی کے نیچے پہنچتے ہیں تو دو کمپیوٹر کنٹرولڈ ٹرام اُوپر لے جانے کے لیے منتظر ہوتے ہیں۔ اوپری سطح پر سولہ ٹن کا ’ ٹراورٹین‘ کا پتھر ہے۔ یہ خاص طور سے اٹلی سے منگوایا گیا ہے۔ سیدھے ہاتھ پر ریسٹورانٹ ہے اور سامنے ’ برآمدہ ‘ ہے اس برآمدے سےگزرکر آپ کُھلےاحاطہ میں پہنچتے ہیں آپ کے سامنے وسطی باغ ہے۔ الٹے ہاتھ پرمیوزیم اور اس کے برابر میں ایگزیبیشن ہال ہے۔ سیدھے ہاتھ پر ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے۔ گیٹی میوزیم کے بنانے کی قیمت ایک ِبلیین ڈالر سے زیادہ ہے۔ گیٹی میوزیم میں بیسویں صدی سے پہلے کی یورپی مصوری، ڈرائنگ، مصودہ ( مصودہ لفظ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا مراد ہے۔ جویریہ)، مجسمے اور امریکہ کے اُنیسویں اور بِیسویں صدی کے فوٹوگراف ہیں۔آج یہاں رمبرانٹ کے ‘ آخری مذہبی صورتیں‘ کی نمائش لگی تھی۔

” ہم آج گیٹی کے میوزیم کو دیکھیں گے“۔ سعدیہ نے کہا۔
سعدیہ تم بھول گئیں کہ اباجان ہم سے ’ مقصد حاصل کرنے کے اصول‘ کے دوسرے قدم کا تذکرہ کرنے والے ہیں؟



َ


.
 

تفسیر

محفلین
.

پختون کی بیٹی


باب دوئم۔اجتِماع



پوری کتاب پڑھنے کےلیے پختون کی بیٹی کا لنک
َ


6 - یقین و ایمان
َ
“ایمان تم کو جنت میں لے جائےگا اور ایمانِ کامل جنت کو تمہارے پاس لائے گا”۔

ہم لوگ Self Realization Fellow Ship at Lake Shrine کے باغیچے میں بیٹھے تھے۔ یہ Pacific Coast Highway and Sunset Blvd کےکونے پر واقع ہے۔1950 میں پاراماہانس یوگاندا نے اسے شروع کیا۔ ہر روز لوگ اس خوبصورت سینکچوری کی زیارت کرنے آتے ہیں۔اس دس ایکڑ کے باغیچے میں ایک قدرتی چشمے سے بنی ہوئ جھیل ہے جس کے تین طرف اونچے پہاڑ ہیں۔ اس میں راج ہنس (سوان) اور بطخیں تیرتی ہیں اور کنول کے پھول کھلتے ہیں۔ایک حصے میں دنیا کے اولین مذاہب کے احترام میں ا یک کورٹ بنایا گیا ہے۔ جس میں ہندو، بدھ ، یہودیت ، عیسایت، اور اسلام کی یادگاریں ہیں۔ ایک چھوٹی جگہ میں گاندھی کی متبرک راکھ بھی رکھی ہے۔

ہم نے ایک الگ سی جگہ تلاش کی اور چادر بچھا کر بیٹھ گئے۔ سعدیہ کو اس جگہ سے بہت محبت ہے اور جب کبھی بھی ہم آئے وہ ہمیشہ ماں سے ان کی شادی کا قصہ سننے پر اصرارکرتی ہے۔


َ
 
Top