میری عاجزانہ رائے میں پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ میں فرق ہے شاید میں اپنا موقف واضح کرسکوں پڑھے لکھے فرد کے لیے ضروری نہیں کہ اس کے ذہنی شعور اور رویوں میں بھی خوبصورت تبدیلی پیدا ہوئی ہو ۔بے شمار ایسی اعلٰی ڈگریوں کے حامل لالچ ، خو دنمائی ، خود غرضی ، ہوس کے غلام ہوتے ہیں اس کے مقابل ایسے حضرات بھی کثیر تعداد میں ہوتے ہیں جو مطالعاتی علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں لیکن مشاہداتی علم کی وجہ سے اپنے رویوں میں خوبصورت تبدیلیاں لاکر بے لوث ، محب وطن ، حق اور باطل کی پہچان رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ تعلیم کا یہی مقصد ہے کہ انسان میں حق اور باطل کی پہچان ہو ۔ خود غرضی ، لالچ اور ہوس سے اس کا دامن صاف ہو ۔ وطن عزیز کو ایسے ہی باشعور افراد کی ضرورت ہے ۔​
یہی ہماری سب سے بڑی پرابلم ہے۔ ہم لوگ تعلیم کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔ علم کے پیچھے کوئی نہیں بھاگ رہا۔ چاہے وہ دنیاوی ہو یا دینی۔ ہمیں تعلیم اور علم کے فرق کو سمجھنا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
یہی ہماری سب سے بڑی پرابلم ہے۔ ہم لوگ تعلیم کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔ علم کے پیچھے کوئی نہیں بھاگ رہا۔ چاہے وہ دنیاوی ہو یا دینی۔ ہمیں تعلیم اور علم کے فرق کو سمجھنا ہے۔
ہمارا بھی یہی پرابلم ہے بھائی کہ ہمیں یہ فرق ہی نہیں معلوم۔۔۔ کیا آپ "علم" اور تعلیم" کے درمیان فرق جاننے میں ہماری مدد فرمائیں گے؟
 
ہمارا بھی یہی پرابلم ہے بھائی کہ ہمیں یہ فرق ہی نہیں معلوم۔۔۔ کیا آپ "علم" اور تعلیم" کے درمیان فرق جاننے میں ہماری مدد فرمائیں گے؟
ہم تو جاہل ہیں۔ یہاں پہ ایسے استاد ہونگے جو اس فرق کو الفاظ میں بیان کر سکیں۔
 

زرقا مفتی

محفلین
ہر شخص کو یقیناً سب سے پہلے اپنے ذاتی حالات کے متعلق ہی سوچنا چاہیے کہ کیسے بہتر ہو سکتے ہیں۔ فرد کی حالت بہتر ہونے کے بعد ہی قوم کی مجموعی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔
جس شخص کو یہ علم نہ ہو کہ آج کے دن وہ اور اس کے بچے کھائیں گے کیا اور کھائیں گے بھی یا بھوکے سونا پڑے گا ایسے شخص سے ملک و قوم کے درد کی توقع رکھنا ہی پرلے درجے کی بے وقوفی ہے۔
بجا فرمایا آپ نے مگر یہ کہاں جائز ہے کہ اپنے ذاتی حالا ت بہتر کرنے کے لئے رشوت لی جائے
 

فاتح

لائبریرین
بجا فرمایا آپ نے مگر یہ کہاں جائز ہے کہ اپنے ذاتی حالا ت بہتر کرنے کے لئے رشوت لی جائے
اس میں اچانک رشوت کہاں سے آ گئی؟؟؟ ہم نے تو یہ جواب آپ کے درج ذیل مراسلے کے تناظر میں لکھا تھا جس میں یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ حالات بہتر بنانے کے لیے رشوت لی جائے یا قتل کیے جائیں یا ہیروئن اور چرس بیچی جائے یا سمگلنگ کی جائے۔۔۔


ایک پڑھے لکھے آدمی کے پاس کیا ہے؟
اتنا دماغ ہے کہ دوسرے ملک کا نیشنل بن سکے۔:cool:
جی ہاں ہر شخص اپنے بارے میں سوچتا ہے کہ اُس کے حالات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں یہ جھوٹ ہے کہ عام آدمی ملک و قوم کا درد رکھتا ہے
ہر شخص کو یقیناً سب سے پہلے اپنے ذاتی حالات کے متعلق ہی سوچنا چاہیے کہ کیسے بہتر ہو سکتے ہیں۔ فرد کی حالت بہتر ہونے کے بعد ہی قوم کی مجموعی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔
جس شخص کو یہ علم نہ ہو کہ آج کے دن وہ اور اس کے بچے کھائیں گے کیا اور کھائیں گے بھی یا بھوکے سونا پڑے گا ایسے شخص سے ملک و قوم کے درد کی توقع رکھنا ہی پرلے درجے کی بے وقوفی ہے۔
 

مغزل

محفلین
ایک عام آدمی کے دو اور اوصاف ہیں
بے حسی
اور بزدلی
عام آدمی کے دل میں ملک و قوم کا درد نہیں ہے
عام آدمی اپنا جائز کام کروانے کے لئے بھی رشوت دے دیتا ہے۔ غلط بات پر احتجاج تک نہیں کرتا
آرام سے زیادہ دام دے کر اشیائے ضروریہ خرید لیتا ہے
ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے پر چالان کروانے کی بجائے ٹریفک اہلکار کی مٹھی گرم کر کے جان چھڑانا پسند کرتا ہے
سفارش سے نوکری حاصل کر لیتا ہے
ترقی کے لئے بھی سفارشیں کرواتا ہے
ایسے بے شمار غلط کام کرتا ہے اور سسٹم کو گالیاں بھی دیتا ہے۔
ہر عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے کوشش کرنے سے کیا ہوگا؟؟
اگر ہر عام آدمی اپنے حصے کی کوشش کرے تو ملک میں بہتری آ سکتی ہے

بالکل صحیح نبض شناسی کی بات کی ہے آپ نے زرقا بہن۔
خدا ہمیں عقل و شعور عطا کرے ہم سسٹم کوگالی دے کر بری الذمہ ہونے میں عافیت سمجھتے ہیں۔
بہتری کی کوشش کے بجائے سسٹم کا ہی حصہ بن جاتے ہیں ۔ مگر اس کے عوامل بھی ہم پر تھوپ دیے گئے ہیں
تبھی ہم مٹھی گرم کرکے جان چھڑا لیتے ہیں ۔ وجہ انصاف یا قانون کا دوہرا معیار ہے جو موٹر سائیکل اور ریڑھی بان کے لیے
اور ہے اور پجارو مالک اور مل مالک کے لیے اور ہے۔۔
اسد ملتانی مرحوم کا شعر یاد آگیا۔
ہر شخص بنا لیتا ہے اخلاق کا معیار
اپنے لیے کچھ اور زمانے کے لیے اور

بہر خواہ اردو محفل میں دوبارہ فعال دیکھ کر خوشی ہوئی سلامت رہیں شاد باد کامران رہیں۔
 

مغزل

محفلین
بجا فرمایا آپ نے مگر یہ کہاں جائز ہے کہ اپنے ذاتی حالا ت بہتر کرنے کے لئے رشوت لی جائے
جائز کی بات ہی کب ہے زرقا بہن۔۔؟؟

میں مذاہب اور قوانینِ پاکستان سے مبرا ہوکر کہتا ہوں۔۔

’’ جس کے گھر میں بچوں کو دینے کے لیے لقمہ نہ ہو اور وہ روٹی چوری کر لے تو۔۔
اس کے ہاتھ کاٹنا یا اسے سزا دینا قتل سے بڑا اور مکروہ جرم ہے ‘‘

امیرِ شہر وہاں ہاتھ کاٹنا ہے گناہ !!!!!!!!!!!!
ترس رہے ہوں جہاں لوگ آب و دانہ کو
اختر علی انجم
 

زرقا مفتی

محفلین
اس میں اچانک رشوت کہاں سے آ گئی؟؟؟ ہم نے تو یہ جواب آپ کے درج ذیل مراسلے کے تناظر میں لکھا تھا جس میں یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ حالات بہتر بنانے کے لیے رشوت لی جائے یا قتل کیے جائیں یا ہیروئن اور چرس بیچی جائے یا سمگلنگ کی جائے۔۔۔

لیکن دفتروں میں ملازم عام آدمی رشوت لیتا ہے ۔ اور اس کو جائز بھی سمجھتا ہے۔
یہ رشوت انگریز کے دور سے رائج ہے ۔ ہمارے ایک بزرگ نے تقسیم سے پہلے انجینئر بن کر ملازمت شروع کی ۔ تو چند ماہ کے بعد اُنہیں اُن کا ۛحصہ پہنچایا گیا جو کہ ایک بڑے ٹھیکیدار کی طرف سے ادا کیا گیا تھا۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ ہر تعمیراتی کام پر مامور افسران کو ٹھیکیدا ر ایک مقرر کردہ تناسب سے رقم ادا کرتا ہے۔ اگر کسی افسر کا تبادلہ ہوجائے تو بھی یہ رقم بڑی ایمانداری سے تقسیم کی جاتی ہے
یہی رشوت آج ہمارے ہر ترقیاتی ادارے اور ہر حکومتی محکمے میں رائج ہے۔ ترقیاتی محکمے کے افسران نے تو اس کا نام بدل کر کمیشن رکھ دیا ہے
اسی کمیشن کی بدولت اُن کی اولادیں بیرون ملک تعلیم حاصل کرتی ہیں اور اسی نیک کمائی سے اُن کے محلات تعمیر ہوتے ہیں
بیرون ملک جا کر محنت کرنے والے ملک کے لئے سرمایہ کماتے ہیں مگر اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ اُن کی تعلیم یا صلاحیت ملک کی ترقی میں کوئی عملی کردار ادا نہیں کرتی
 
مگر یہ بات تو آپ نے کی ہے کہ "علم" اور "تعلیم" میں فرق ہے لہٰذا آپ ہی بتائیے کہ یہ فرق کیا ہے
ایک چھوٹی سی کوشش کر رہا ہوں اگر کوئی غلطی ہو تو معاف فرمائیے گا۔ علم طاقت ہے ۔ جبکہ تعلیم اقتصادی اور سیاسی ترقی، جمہوریت اور سماجی انصاف کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔ نا کہ آج کل کے مختلف موضوعات پہ مشتمل کتب کو ہمارے دماغ کے کنؤیں میں انڈیل دیا۔ اور ہمارے یاداشت میں ایک ڈیٹا سیو کر دیا۔ پھر سال بعد یہی چیک کرتے ہیں کہ آیا جو کچھ ہم نے سیو کیا تھا اس میں کچھ فرق تو نہیں آیا۔ اس کے بعد اگلے گریڈ میں ترقی دے دی۔ آخر کار ایک ڈگری دے کر دفتر میں ایک خودکار مشین بنا دینا۔ ہم لوگوں نے اسی چیز کو تعلم اور علم سمجھ لیا ہے۔ جس کے پاس زیادہ ڈگری اس کے پاس زیادہ علم۔ حقیقت میں چاہے اسے اپنی ناک بھی صاف کرنی نا آتی ہو۔
 

زرقا مفتی

محفلین
جائز کی بات ہی کب ہے زرقا بہن۔۔؟؟

میں مذاہب اور قوانینِ پاکستان سے مبرا ہوکر کہتا ہوں۔۔

’’ جس کے گھر میں بچوں کو دینے کے لیے لقمہ نہ ہو اور وہ روٹی چوری کر لے تو۔۔
اس کے ہاتھ کاٹنا یا اسے سزا دینا قتل سے بڑا اور مکروہ جرم ہے ‘‘

امیرِ شہر وہاں ہاتھ کاٹنا ہے گناہ !!!!!!!!!!!!
ترس رہے ہوں جہاں لوگ آب و دانہ کو
اختر علی انجم
یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ معاشرے نے کرپشن کا جواز ڈھونڈ لیا ہے تو صرف سیا ستدانوں یا افسروں کو کرپٹ کہنے سے کیا ہوگا پہلے خود کو بدلنا شروع کریں
 

مغزل

محفلین
برین ہیکر ّغیر متفق ہونے کے لیے شکرگزار ہوں اور آپ کے مراسلے میں متفق بھی۔۔

یہی تو میں کہہ رہی ہوں کہ معاشرے نے کرپشن کا جواز ڈھونڈ لیا ہے تو صرف سیا ستدانوں یا افسروں کو کرپٹ کہنے سے کیا ہوگا پہلے خود کو بدلنا شروع کریں

چلیے زرقا بہن آپ کچھ نکات شاملِ محفل کیجیے تاکہ ہم بھی سیکھ سکیں کہ کیسے بدلیں۔
بہر حال بدلاؤ تو ہم چاہتے ہیں۔مگر کچھ سوال آپ کی بصارت کی نذر کیے دیتا ہوں۔
  1. موٹر سائیکل اور پجارو کا ایک ہی قانون توڑنے پرتصورِ سزا کیا ہوگا ؟
  2. چیونگم خریدنے پر جبراً محصول دینے والے کے لیے گندی نالیاں ٹوٹی سڑکیں جبکہ محصول نہ دینے والے تمام تر تعیشات کے مالک۔۔ حل ؟
  3. پان گٹکا تھوکنےوالا مجرم اور افیون پوست فروش اشرافیہ ؟؟
  4. آمدنی 100 روپے اور دال روٹی ایک وقت کی چار افراد کے کنبہ کے لیے ؟؟
  5. اے سی لگا کر چوری کرنے والا معزز اور کنڈا لگا کر صرف گھر روشن کرنے والا مجرم ؟؟
  6. 7500 کی ماہانہ آمدنی میں 2500 بجلی کا بل ، 700 گیس کا بل، چار افراد کا کنبہ بجٹ ؟؟
  7. دوا دارو بیماری الگ ہے ۔ آمدو رفت میں ماہانہ 3500 خرچ اور ایک طرف 150000 ماہانہ ، تمام محصولات معاف ؟؟
  8. 13 ارب ماہانہ کی کرپشن کرنے والا وزیر ہوتا ہے اور 13 روپے کرپشن کرنے والا مجرم ؟
  9. پیاس کو ختم کرنے کے لیے پانی ختم کر دیا جائے یا پانی کو برا کہا جائے یہ تو حل نہیں ناں ؟
بہن بات صرف اور صرف قانون کے یکساں ہونے اور اس پر عمل پر ہی آکر ٹھہرتی ہے۔
ہیلمٹ نہ پہننے کا جرمانہ50 روپے موٹر سائیکل 45000 کی جب کہ انسان کو کیڑے کی طرح کچل دینے والا معزز 4500،000 کی گاڑی میں اور جرمانہ کوئی بھی نہیں ؟؟
18ویں 19ویں 20ویں ترامیم ؟؟ عام آدمی کو کیا فرق پڑا ان ترامیم سے ؟؟
آمریت ہو جمہوریت ہو بادشاہت ہو یا خلافت ہو بات تمام لوگوں کو یکساں حقوق دینے سے ہے ۔۔
لادین اور بے دین قومیں انصاف کریں تو زندہ رہ سکتی ہیں مگر دینداد قوم انصاف نہ کرے تو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں رکھتی ۔
زرقا بہن کرپشن کا جواز غریب نے نہیں گھڑا یہ جواز اشرافیہ نامی بدمعاشیہ نے گھڑا ہے ۔ استعمال تو دونوں کرتے ہیں اس جواز کو ایک گھمنڈ میں کہ اسے کوئی روک ٹوک نہیں اور دوسرا مجبوری میں کہ اس کے علاوہ حل کوئی نہیں ۔۔ بہتری من و سلویٰ نہیں ہے کہ آسمان سے اترے گی مگر جواز کو ختم کیے بغیر اگر ہم سمجھتے ہیں کہ درستگی ہوسکتی ہے تو محض دیوانے کی بڑ ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔۔
احبا ب میری فروگذاشت کو قطعاً ذاتی طور پر نہ لیجیے گا مگر یہ سوال ایک عام آدمی کا ہے جو تین تین نوکریاں کرنے کے باجود زندہ رہنے کے ابتدائی لوازم پورے نہ کرسکتا ہو ۔۔بہنا جس ملک کا قانون چور کا رکھوالا ہوگا تو وہاں کرپشن بھی ہوگی رشوت خوری بھی چور بازاری بھی ۔۔ مگر میرے مراسلے کا قطعاً کوئی ایسا زاویہ نہیں ہے کہ میں کرپشن کے حق میں ہوں۔۔ دیکھیے بہنا غلطی کا جواز اور جڑ ختم کیے بغیر غلطی درست کرنے کی بات محض موشگافی ہی ہوسکتی ہے ۔ ایسا نہیں کہ مراسلہ آپ کا ہے تو میں آپ سے کوئی پرخاشت رکھتا ہوں ۔ بلکہ محض ادنیٰ سی کوشش ہے کہ جواز کو سمجھا جائے اور جواز کے ختم کیے جانے پر بات کی جاسکے ۔ الخ
جہل مرتبت
م۔م۔مغل
 

زرقا مفتی

محفلین
محمود بھائی
آپ نے عام آدمی کے جذبات کی ترجمانی کی ۔میں نے کہیں بالائی طبقے کی تعریف نہیں کی۔ عام آدمی کا یہی طریقہ ہے بھڑاس نکال کر بیٹھ جانا۔ رویہ نہ بدلنا۔
کسی کے گھر چوری ہو جاتی ہے تو وہ رپورٹ درج نہیں کرواتا
قتل ہو جاتا ہے مگر قاتلوں کی شناخت نہیں کی جاتی
حالیہ واقعہ ہے شہباز شریف کے داماد نے ایک بیکری ملازم پر تشدد کروایا۔ مگر عدالت میں اپنے ہی مجرم کو نہیں پہچانا
اب قصور عدالت کا ہوا یا عام آدمی کا
آپ کا جواب ہو گا عام آدمی پر دباؤ بہت تھا
مہنگائی کا مقابلہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ خواتین بھی کام کریں۔
عام آدمی کی کرپشن کا حجم کم ہے تو کیا اسے جائز تو نہیں کہہ سکتے۔
میں نے عام آدمی کو ایک بریانی کی پلیٹ پر یا چند روپوں کے عوض ووٹ دیتے دیکھا
الیکشن سے پہلے رائفل برداروں کو اپنا شناختی کارڈ سونپتے دیکھا ہے۔
عام آدمی کو بری الذمہ نہیں قرار دے سکتے
 

فاتح

لائبریرین
لیکن دفتروں میں ملازم عام آدمی رشوت لیتا ہے ۔ اور اس کو جائز بھی سمجھتا ہے۔
یہ رشوت انگریز کے دور سے رائج ہے ۔ ہمارے ایک بزرگ نے تقسیم سے پہلے انجینئر بن کر ملازمت شروع کی ۔ تو چند ماہ کے بعد اُنہیں اُن کا ۛحصہ پہنچایا گیا جو کہ ایک بڑے ٹھیکیدار کی طرف سے ادا کیا گیا تھا۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ ہر تعمیراتی کام پر مامور افسران کو ٹھیکیدا ر ایک مقرر کردہ تناسب سے رقم ادا کرتا ہے۔ اگر کسی افسر کا تبادلہ ہوجائے تو بھی یہ رقم بڑی ایمانداری سے تقسیم کی جاتی ہے
یہی رشوت آج ہمارے ہر ترقیاتی ادارے اور ہر حکومتی محکمے میں رائج ہے۔ ترقیاتی محکمے کے افسران نے تو اس کا نام بدل کر کمیشن رکھ دیا ہے
اسی کمیشن کی بدولت اُن کی اولادیں بیرون ملک تعلیم حاصل کرتی ہیں اور اسی نیک کمائی سے اُن کے محلات تعمیر ہوتے ہیں
بیرون ملک جا کر محنت کرنے والے ملک کے لئے سرمایہ کماتے ہیں مگر اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ اُن کی تعلیم یا صلاحیت ملک کی ترقی میں کوئی عملی کردار ادا نہیں کرتی
آپ کے یہ تمام نکات اپنی جگہ لیکن ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے آپ کے جس جملے کا جواب لکھا تھا اس میں کہیں رشوت کا ذکر نہیں تھا تو ہمارے جواب کے جواب میں آپ کی جانب سے اچانک رشوتکر کہاں سے چھڑ گیا
 

زرقا مفتی

محفلین
آپ کے یہ تمام نکات اپنی جگہ لیکن ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے آپ کے جس جملے کا جواب لکھا تھا اس میں کہیں رشوت کا ذکر نہیں تھا تو ہمارے جواب کے جواب میں آپ کی جانب سے اچانک رشوتکر کہاں سے چھڑ گیا
بھائی صاحب چل رہی بحث میں ایک فقرے کو مت دیکھیئے پوری گفتگو کو دیکھئے ۔
آپ نے شاید اس سے پہلے مراسلے نہیں پڑھے
میں نے لکھا تھا
ایک عام آدمی کے دو اور اوصاف ہیں​
بے حسی​
اور بزدلی​
عام آدمی کے دل میں ملک و قوم کا درد نہیں ہے​
عام آدمی اپنا جائز کام کروانے کے لئے بھی رشوت دے دیتا ہے۔ غلط بات پر احتجاج تک نہیں کرتا​
آرام سے زیادہ دام دے کر اشیائے ضروریہ خرید لیتا ہے​
ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے پر چالان کروانے کی بجائے ٹریفک اہلکار کی مٹھی گرم کر کے جان چھڑانا پسند کرتا ہے​
سفارش سے نوکری حاصل کر لیتا ہے​
ترقی کے لئے بھی سفارشیں کرواتا ہے​
ایسے بے شمار غلط کام کرتا ہے اور سسٹم کو گالیاں بھی دیتا ہے۔​
ہر عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے کوشش کرنے سے کیا ہوگا؟؟​
اگر ہر عام آدمی اپنے حصے کی کوشش کرے تو ملک میں بہتری آ سکتی ہے​

اس کے جواب مزید بات چلی کہ عام آدمی پہلے اپنے گھر کے حالات دیکھے گا
میں اپنے موقف کو دیکھوں گی اور اُسے ہی ساتھ لے کر چلوں گی
 

ساجد

محفلین
اگر موضوع تک ہی بات رکھیں تو بہتر رہے گا۔
تو جناب موضوع تھا ”ایک پڑھے لکھے آدمی کے پاس کیا ہے؟“۔ حیرت کی بات ہے کہ الف نظامی صاحب نےموضوع کی ابتداء ہی سے صرف مردوں یا شاید مُردوں کی بات کی ہے خواتین اور شاید زندوں کو موضوع سے نکال باہر کیا :) ۔ چلئے میں موضوع کی تعدیل کئے دیتا ہوں ”تعلیم یافتہ افراد کے پاس کیا ہے؟“۔
 
Top