ایک پاکستانی - نظم برائے اصلاح

مجهے خاموش رہنے دو، زباں ہے کٹ چکی میری، لبوں کو سی لیا میں نے..
میری آنکھیں بهی مت کهولو انہیں بے نور رہنے دو..
مرے کانوں کے پردے پهٹ چکے ہیں، یوں ہی رہنےدو..
مرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تاریکیاں جو ہیں،
میں اپنا خوں جلا کر رات دن ان کو بهگاتا تها،
مگر ناکام رہتا تها..
مری دنیا بہت تاریک ہے، تاریک رہنے دو!
مجهے گمنام رہنے دو..
کہ جو بهی ہو رہا ہے چار سو میرے مجهے اس سے بهی اب انجان رہنے دو..
ذہن بهی سو چکا کب کا، ہے دل بهی مر چکا اب تو..
مری آواز بهی میرے ہی اندر کهو چکی کب کی..
انا میری، مری غیرت بهی اب تو مر گئی کب کی..
مرے جو خواب تهے ان کو بهی میں نے دفن کر ڈالا..
مرے اپنوں مرے پیاروں کو بهی تو بارہا میں نے..
اڑا ڈالا، مٹا ڈالا، جلا ڈالا دھماکوں میں..
نہیں مجھ کو کوئی دنیا میں اب پہچاننے والا..
نہ مجھ کو جاننے والا، نہ مجھ کو چاہنے والا..
کوئی میرا نہیں زندہ کوئی میرا نہیں باقی..
نہ میرے پاس ہی کچھ ہے...
نہ ہی آٹا نہ تو چینی نہ پانی ہے نہ ہی بجلی۔۔
مرے جو حکمراں ہیں میرا راشن وہ چراتے ہیں..
جو میں کرتا ہوں محنت اس کا پهل بهی وہ ہی کهاتے ہیں..
میری بہنا تهی بهوکی۔۔۔
بهوک سے جب رویا کرتی تهی
مرے ابا کمر جن کی وزن سے جهک چکی تهی وہ
مری اماں کو اپنے خان کی جهوٹن تهماتے تهے..
وہ اسکو گهول کر پانی میں ترکاری بناتی تهیں..
مری بہنا وہ کهاتی تهی..
میں مزدوری کیا کرتا تها دن بهر اور گهر آ کر
میں بهوکا سویا کرتا تها..
مرے ابا کو آخر بوجھ نے ان کے کچل ڈالا..
مری اماں نے بیچا بہن کو اور خود وہ جا ڈوبی
میں بیٹھا تک رہا تها گهر کی دیواروں پہ سایوں کو
مرے اس گهر مری اس زندگی نے کیا دیا مجھ کو!
نہ میرے پاس کچھ کهونے کو باقی ہے نہ رونے کو!
کسی کی سوچ ہے نہ فکر ہے نہ آس باقی ہے
اگر کچھ ہے تو یہ سانسیں ہیں جو دل کو جلاتی ہیں!
اب اس شعلے کو بهڑکا کے میں خود کو آگ کرتا ہوں!
اور اس ہی آگ میں، میں اپنی دنیا کو جلاتا ہوں..
مری آنکھوں پہ میرے دل پہ پردہ پڑ چکا ہے سو
اب اس کو یوں ہی رہنے دو
کسی سے کچھ نہیں کہتا ہوں چپ ہوں
چپ ہی رہنے دو
میرا یہ حال، یہ ہے جرم کسکا یہ نہیں پوچھو۔۔
مجهے خاموش رہنے دو، زباں ہے کٹ چکی میری لبوں کو سی لیا میں نے..
جلاتا ہوں میں جلتے دل سے اب سارا جہاں اپنا..
تو مجھ کو یوں ہی رہنے دو..
 
مرے ابا کمر جن کی وزن سے جهک چکی تهی وہ
مری اماں کو اپنے خان کی جهوٹن تهماتے تهے..
وہ اسکو گهول کر پانی میں ترکاری بناتی تهیں..
مری بہنا وہ کهاتی تهی..
 

الف عین

لائبریرین
حاضر ہے اصلاح شدہ صورت

مجھے خاموش رہنے دو،
لبوں کو سی لیا میں نے
زباں بھی کٹ چکی کب کی،
مری آنکھیں بھی مت کھولو۔۔۔
انہیں بے نور رہنے دو..
مرے کانوں کے پردے پھٹ چکے ہیں، یوں ہی رہنے دو..
مرے چاروں طرف پھیلی ہوئی تاریکیاں جو تھیں،
میں اپنا خوں جلا کر رات دن ان کو بھگاتا تھا،
مگر ناکام رہتا تھا..
مری دنیا بہت تاریک ہے، تاریک رہنے دو!
مجھے گمنام رہنے دو..
کہ جو بھی ہو رہا ہے چار سو میرے
مجھے اس سے بھی اب انجان رہنے دو..
مرا احساس بھی اب سو چکا کب کا،
یہ دل بھی مر چکا کب کا..
مری آواز بھی میرے ہی اندر کھو چکی کب کی..
انا میری، مری غیرت بھی اب تو مر گئی کب کی..
مرے جو خواب تھے ان کو بھی میں نے دفن کر ڈالا..
مرے اپنوں مرے پیاروں کو اپنے ہاتھ سے میں نے..
اڑا ڈالا، مٹا ڈالا، جلا ڈالا دھماکوں میں..
نہیں مجھ کو کوئی دنیا میں اب پہچاننے والا..
نہ مجھ کو جاننے والا، نہ مجھ کو چاہنے والا..
کوئی میرا نہیں زندہ کوئی میرا نہیں باقی..
نہ میرے پاس ہی کچھ ہے...
نہ آٹا ہے نہ تو چینی ہے
نہ پانی ہے نہ بجلی ہی۔۔
مرے جو حکمراں ہیں میرا راشن وہ چراتے ہیں..
جو میں کرتا ہوں محنت اس کا پھل بھی خود وہ کھاتے ہیں..
بہن میری جو بھوکی تھی ۔۔۔
بہت جب بھوک سے وہ رویا کرتی تھی
مرے ابا ،کمر جن کی وزن سے جھک چکی تھی، وہ
مری اماں کو اپنے خان کی جھوٹن تھماتے تھے..
وہ اس کو گھول کر پانی میں ترکاری بناتی تھیں..
بہن میری وہ کھاتی تھی..
میں مزدوری کیا کرتا تھا دن بھر اور گھر آ کر
میں بھوکا سویا کرتا تھا..
مرے ابا کو آخر بوجھ نے ان کے کچل ڈالا..
بہن کو بیچ کر اماں گئی ، ندی میں جا ڈوبی
بس اپنے گھر کی دیواروں پہ سایوں کو میں بیٹھا تک رہا تھا
مرے اس گھر مری اس زندگی نے کیا دیا مجھ کو!
نہ میرے پاس کچھ کھونے کو باقی ہے نہ رونے کو!
کسی کی فکر ہوتی ہے نہ کوئی آس باقی ہے
اگر کچھ ہے تو یہ سانسیں ہیں جو دل کو جلاتی ہیں!
اب اس شعلے کو بھڑکا کے میں خود کو آگ کرتا ہوں!
اسی لاوے میں اب میں اپنی دنیا کو جلاتا ہوں..
مری آنکھوں پہ میرے دل پہ پردہ پڑ چکا ہے
سو
اس کو یوں ہی رہنے دو
کسی سے کچھ نہیں کہتا
میں چپ ہوں
چپ ہی رہنے دو
مرا یہ حال جو ہے
جرم کس کا ہے؟
نہ پوچھو تم۔۔
مجھے خاموش رہنے دو،
زباں ہے کٹ چکی میری
لبوں کو سی لیا میں نے..
جلاتا ہوں میں جلتے دل سے اب سارا جہاں اپنا..
تو مجھ کو یوں ہی رہنے دو..
 
Top