ایک غزل ۔۔۔ آپ کی آراء کی منتظر

ایک غزل پیش ہے ۔
احباب کی توجہ چاہونگا۔
-------------------------
خوشی کی راہ پہ، اُس کی طرح، وہیں من و عن
چلیں ہیں توڑ کے ہم بھی، وفا کا ہر بندھن !

وہ بے بسی ہے کہ، دیکھے بھی اب نہیں جاتے
صَلِیبِ عمر پہ، پامال خواہشوں کے بدن !

یہ ہے سیاستِ دوراں، یہاں ہے وہ رہبر
کہ جس کو جانتے ہیں سب کہ ہے کھلا رہزن

میں بچ کے شہرِ فِتَن سے تو آ گیا، لیکن
گنوا کے خواب، کرا کے لہو لہان بدن

ترا وجود، کدُورت کی اِن فَضاؤں میں
مُخالفت میں اندھیروں کے، اک دَمَکتی کِرن

تمام رات خیالوں میں روشنی کی طرح
تمھاری یاد ستارا تھی یا چمکتا رتن

فریب ہی تو ہے احساس قرب کا عالم
یہ رات ہجر کی، آنگن میں سرسراتی پَوَن !

شبابِ غم کے اندھیروں میں روشنی دیتے
چراغ ذہن کے کاشف، جلے پہن کے کفن !
-----------------------------
 

الف عین

لائبریرین
خوب۔ بھائی@محمد یعقوب آسی رہنمائی کریں کہ ’من و عن‘ کا درست تلفظ کیا ہے۔ مجھے شک ہے کہ پہلے نون پر شدہ ہے!!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
خوب۔ بھائی@محمد یعقوب آسی رہنمائی کریں کہ ’من و عن‘ کا درست تلفظ کیا ہے۔ مجھے شک ہے کہ پہلے نون پر شدہ ہے!!
میرے خیال میں تو مِن و عن کا تلفظ ۔ منو عن۔ ہے یہاں شدہ نہیں ۔عربی لفظ پر شدہ تو شاید ہمیشہ کسی عربی قاعدے کے تحت آتا ہے ۔ جب کہ یہ عربی سے اردو لہجے میں ڈھلی ہوئی ترکیب یا مروج محاورہ لگتا ہے اورغالباً ایسا ہی اہل علم حضرات سے سننے میں آتا ہے۔بہت سے عوام اسے مَن و عن بھی کہتے ہیں ۔۔ ۔ و اؤ عطف پر ایسا شدہ عجیب لگے گا۔۔فیروززاللغات کی بات دل کو نہیں لگتی اگر یہی مذکورہے۔۔۔واللہ اعلم
 
احباب مکمل غزل کچھ اس شکل میں ہوئی ہے :
..............**********************..............
حسین پھول خطا کے، ندامتوں کی چبھن
تمام عمر کی مِحنت ہے یہ مہکتا چمن

یہ ہے سیاستِ دوراں، یہاں ہے وہ رہبر
کہ جس کو جانتے ہیں سب کہ ہے کھلا رہزن

میں بچ کے شہرِ فِتَن سے تو آ گیا، لیکن
گنوا کے خواب، کرا کے لہو لہان بدن

وہ بے بسی ہے کہ دیکھے بھی اب نہیں جاتے
صَلِیبِ عمر پہ پامال خواہشوں کے بدن

ق
میں اس کی ایک ہنسی پر نثار کر ڈالوں
تمام شِعر، یہ غزلیں یہ میرے دل کی جلن

خَموش راگ ہیں جتنے رَباب میں پِنہاں
جومنتظر ہیں لِباسِ حدیثِ فِکر و سُخن
------------------

ترا وجود، کدُورت کی اِن فَضاؤں میں
مُخالفت میں اندھیروں کے، اک دَمَکتی کِرن

تمام رات خیالوں میں روشنی کی طرح
تمھاری یاد ستارا تھی یا چمکتا رتن

اک اُس کی یاد، کہ تنہائی میں پکارا جب
سمٹ کے آ گئی، بانہوں میں جیسے ایک دلھن

فریبِ ہی تو ہے احساسِ قرب کا عالم
یہ رات ہجر کی، آنگن میں سرسراتی پَوَن !

حریمِ غم کے اندھیرے اجالنے کے لیئے
چراغ ذہن کے کاشف جلے پہن کے کفن

..............**********************..............
شکریہ۔
 
آخری تدوین:
Top