ایک جملہ کے لطائف

یوسف سلطان

محفلین
آج کل جس عمر میں بچوں کے دل کی گھنٹیاں بج رہی ہیں میں اس عمر میں محلے والوں کے دروازے کی گھنٹی بجا کر بھاگا کرتا تھا:ohgoon:
 
شکر ہے تحریک آزادیِ پاکستان کے دور میں فیس بک نہ تھی، ورنہ ہم جیسوں نے تو باہر ہی نہیں نکلنا تھا، سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے اور ساتھ لکھتے ' اس میسج کو اتنا پھیلاؤ کہ انگریز برصغیر چھوڑ کر بھاگ جائے'
 
آج کل جس عمر میں بچوں کے دل کی گھنٹیاں بج رہی ہیں میں اس عمر میں محلے والوں کے دروازے کی گھنٹی بجا کر بھاگا کرتا تھا:ohgoon:
میرا بیٹا خوشگوار موڈ میں ہو تو اکثر یہ گنگناتا ہے، 'تو نے ماری انٹریاں تو دل میں بجیں گھنٹیاں، ٹرن ٹرن ٹرن'
 

یاز

محفلین
شکر ہے تحریک آزادیِ پاکستان کے دور میں فیس بک نہ تھی، ورنہ ہم جیسوں نے تو باہر ہی نہیں نکلنا تھا، سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے اور ساتھ لکھتے ' اس میسج کو اتنا پھیلاؤ کہ انگریز برصغیر چھوڑ کر بھاگ جائے'
درست فرمایا جناب۔
ساتھ ہی 65 کی جنگ وغیرہ بھی ٹویٹر اور فیس بک پہ ہی جیتنی تھی۔
 

یوسف سلطان

محفلین
پنجابی کے مختلف قسم کے لب و لہجوں پر اچھا عبور رکھنے کے باوجود اس لفظ کو پہلی بار پڑھا اور جانا۔
عبد القیوم بھائی میں نے پہلی بار سنا تھا پھر میں نے "متیرے " سرچ کیا تو مجھے یہ لنک نظر آیا جس سے مجھے پتا چلا ، اور خربوزے کو بھی "پتیاں " کہتے ہیں ۔ یہ بھی پہلی دفعہ سنا ۔
 
عبد القیوم بھائی میں نے پہلی بار سنا تھا پھر میں نے "متیرے " سرچ کیا تو مجھے یہ لنک نظر آیا جس سے مجھے پتا چلا ، اور خربوزے کو بھی "پتیاں " کہتے ہیں ۔ یہ بھی پہلی دفعہ سنا ۔
شمالی پنجاب میں خربوزہ، کھکڑی اور ہندوانا، ادھوانا، تربوز زیادہ مستعمل ہیں۔ پتیاں اور متیرے شاید سرائیکی علاقے میں استعمال ہوتے ہیں
 

یوسف سلطان

محفلین
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﻭﮦ ﭼﺎﺭﻟﻮﮒ ﻣﻞ جائیں،، ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﮨﯽ ﻣﺎﺭ ﺩﻭﮞ !...
ﺟﻦ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ماماﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ،،
ﭼﺎﺭ _ﻟﻮﮒ _ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ _ ﮔﮯ _ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ
 
آخری تدوین:


اِدھر ہمارے ہاں تربوز کو تربوز کہتے ہیں جبکہ خربوزے کو خربوزہ ہی کہتے ہین۔ کبھی کبھی تو ہم سوچتے ہیں کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تربوز کو تربوزہ اور خربوزے کو خربو زکہا جاتا۔ کہتے ہیں کہ خربورزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے،جبکہ کراچی کے تربوز کی اندرونی سرخی مصورِ فطرت کی رنگ آمیزی سے زیادہ سرخ اور میٹھے انجیکشن کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ بالفرضِ محال اگر تربوز کو تربوزہ بھی کہا جاتا تب بھی وہ اس انجیکشن کے زیرِ اثر اتنا ہی سرخ اور میٹھا ہوتا جتنا اب ہوتا ہے۔ یہ اصول اس قدر سادہ ہے کہ اس کے بیان کی صداقت کے لیے اس کو شیکسپیئر سے منسوب کرنا قطعاً ضروری نہیں۔
کراچی کے علاوہ دوسرے علاقوں کے رہنے والے تربوز کو ہدوانا، متیرا رینڈا اور اسی طرح خربوزے کو ککڑی، کھکڑی اور خدا جانے کیا کیا کہتے ہیں لیکن اس کے برعکس کراچی کے پھل فروش گول تربوز، بیضوی تربوز اور افغانی تربوز ، غرض تربوز کی ہر قسم کو تربوز ہی کہتے ہیں اور ان سب اقسام کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہیں۔
جب یہ سرخ اور میٹھے پھل ہمارے دسترخوان کی زینت بنتے ہیں تو کیا جانئے کیا مزہ دیتے ہیں۔ سرخ سرخ پھانکیں اپنے منہ میں دالتے ہی ہم پکار اٹھتے ہیں، ’’ واہ! قدرت نے پھل دیا، پھل فروش نے مٹھاس رنگ ، خوشبو اور ذائقہ دیا‘‘۔
 
کبھی کبھی تو ہم سوچتے ہیں کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تربوز کو تربوزہ اور خربوزے کو خربو زکہا جاتا۔ کہتے ہیں کہ خربورزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے
کل ہی فیس بک پر ایک پختون بھائی کی تحریر پڑھی۔ انہوں نے یہ محاورہ اس طرح لکھا ہوا تھا۔ "تربوزے کو دیکھ کر تربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔"
تو ہرگز مایوس نہ ہوں، آپ کی خواہشات ہمارے پختون بھائی پوری کر رہے ہیں۔
 
Top