ایک برس میں بائیس غیرملکی دورے

گرائیں

محفلین
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اپنی مدت صدارت کے پہلے سال کے دوران سرکاری طور پر کم از کم بائیس غیرملکی دورے کیے ہیں جن کے دوران وہ لگ بھگ تین مہینے بیرون ملک رہے ہیں۔

اپنی صدارت کے پہلے سال کے دوران صدر زرداری سب سے زیادہ چین کے دوروں پر گئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے برطانیہ، ایران، اقوام متحدہ، ترکی، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، روس، جاپان، لیبیا، فرانس، بیلجئم اور تاجکستان کے دورے کیے۔

ان دوروں پر ہونے والے اخراجات کی مکمل تفصیلات تو دستیاب نہیں ہیں لیکن قومی اسمبلی میں پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق ستمبر دو ہزار آٹھ سے مارچ دو ہزار نو تک ان کے غیرملکی دوروں پر پونے سولہ کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا ہے کہ صدر زرداری کے تمام دورے بھرپور مقاصد کے لیے رہے ہیں اور ان سے ملک کو درپیش مشکلات کو حل کرنے میں مدد ملی ہے۔

انہوں نے کہا ’مثلاً آپ چین کو لے لیجیے۔ صدر پاکستان نے چار دفعہ چین کا دورہ کیا اور ہر دورے میں وہ وہاں کے جو اقتصادی گڑھ سمجھے جاتے ہیں ان علاقوں میں گئے اور چین کے ساتھ مفاہمت کی مختلف یاد داشتوں پر دستخط ہوئے تو ان کے دوروں کے نتیجے میں چین اور پاکستان کے تعلقات میں بڑی مضبوطی آئی ہے اور آج جہاں ہمارے تعلقات کھڑے ہیں وہ پہلے شاید ماضی میں کبھی بھی نہیں تھے۔‘

فتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق صدر آصف علی زرداری کے کئی دورے پاکستان کے سفارتی تعلقات کے مختلف فریم ورک کا حصہ تھے جن کا مقصد پاکستان کے داخلی استحکام کے لیے علاقائی اور عالمی سطح پر تعاون بڑھانا ہے۔ ’پچھلے ایک سال کے دوران ہماری کوشش رہی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کی جائے اور اس میں سکیورٹی اور ترقی دونوں کو یکساں طور پر اہمیت دی جائے اور یہ دورے اس سلسلے میں بڑے مددگار ثابت ہوئے ہیں۔‘

لیکن سابق سینیئر سفارتکار طارق فاطمی حکومت کے اس مؤقف سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر زرداری کے ایک سال کے اندر دو درجن ملکوں کے دوروں پر جانا نہ صرف غیرضروری بلکہ قومی خزانے کا ضیاع ہے۔

’آپ دیکھیں کہ سنگارپور، ملائشیاء اور دوسرے جو ترقی پذیر ملکوں کے لیڈر ہیں جن کی ساری توجہ ہی اپنے ملکوں کی معاشی ترقی پر ہے، غیرملکی دوروں کے معاملے میں بہت محتاط ہوتے ہیں اور وہی دورے کرتے ہیں جن کی کوئی سیاسی اور معاشی اہمیت ہو اور وہ رسمی نوعیت کے دوروں سے گریز کرتے ہیں۔ تو یقیناً پاکستان کی جو معاشی حالت ہے اس میں تو ہر قسم کے انتظامی اخراجات میں کمی لانے کی ضرورت ہے اور خاص کر حکومت اور ملک کے سربراہان کو غیرملکی دوروں پر ہونے والے کروڑوں روپے کے اخراجات کے معاملے میں بہت ہی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔‘

ارق فاطمی کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں صدر کا کردار علامتی ہوتا ہے اور بیرونی دنیا سے تعلقات انتظامیہ کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے وزیر اعظم کے دائرہ کار میں آتا ہے لیکن صدر زرداری نے ان کے بقول نہ صرف ملک کی اندرونی سیاست میں حصہ لیا بلکہ خارجہ اور سکیورٹی کے معاملات پر اہم غیرملکی دورے بھی خود کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوری دور حکومت میں صدر کا حکومتی امور پر حاوی ہونا افسوسناک بات ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط یہ بات تو تسلیم کرتے ہیں کہ صدر زرداری نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے زیادہ غیرملکی دورے کیے لیکن وہ اس تاثر کو رد کرتے ہیں کہ یہ دورے قومی خزانے پر بوجھ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کے ان دوروں کی ساکھ کو ان کے فوری نتائج کی بنیاد پر پرکھا نہیں جا سکتا۔

’سفارتکاری ایک مسلسل عمل ہے جس میں بعض چیزوں کے نتائج جلد سامنے آجاتے ہیں اور بعض کے نتائج برآمد ہونے میں وقت لگتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ دورے کسی حوالے سے بھی بوجھ نہیں ہیں اور ان کے بڑے مثبت نتائج آنے والے مہینوں اور سالوں میں نکلیں گے۔‘

سیاسی اور اقتصادی تجزیہ کار اسد سعید مختلف بات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر زرداری کے دوروں سے پاکستان کو فائدہ کتنا ہوا اور نقصان کتنا ہوا یہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن جو چیزیں بظاہر نظر آرہی ہیں ان میں یہ بات توجہ طلب ہے کہ پاکستان کے چین سے ٹیکنالوجی کے حصول کے بہت سے معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں جس میں زرعی شعبہ اور گرین ٹیکنالوجی نمایاں ہے۔ دوسرا ان کے بقول اگر فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کا فورم آگے جاکر پاکستان کو فائدہ پہنچاتا ہے تو وہ بھی ایک مثبت ثمر ہوگا۔

’پاکستان کی سیاست اور معیشت کافی حد تک عالمی عوامل میں گھری ہوئی ہے چاہے وہ معیشت ہو۔ دہشتگردی ہو یا اس کے خلاف جنگ۔ ساری دنیا کی نظریں پاکستان پہ کسی نہ کسی وجہ سے ہیں اور پچھلے سال پاکستان ایک بڑی تبدیلی کے دور سے گزرا فوجی اقتدار سے جمہوریت کی طرف لوٹا تو اس کے لئے دنیا کو اپنے عزائم سے پروگرام سے آگاہ کرنا بھی ضروری تھا اور پھر یہ حکومت کا پہلا سال تھا تو اس کے لئے دوسرے ملکوں سے رابطوں کی ضرورت زیادہ تھی

از بی بی سی اردو۔
 

شمشاد

لائبریرین
کون سا کوئی اپنی جیب سے خرچ کر رہے ہیں۔ پاکستان کا مال ہے، پاکستانی عوام کا پیسہ ہے۔

مال مفت دل بے رحم
 

dxbgraphics

محفلین
پاکستان میں ایک سے ایک بے غیرت حکمران بن کے آتا ہے۔
مردوں کے کفن چوری کرنے والی بات ہے ۔ ہرکوئی اپنے سے پہلے کو بخشواتا ہے
 
Top