ایک اور کاوش، رہنمائی کی منتظر ہے

حرف سب بے وفا سے لگتے ہیں
دوست ناآشنا سے لگتے ہیں
رات کی خامشی میں یہ تارے
کتنے بے آسرا سے لگتے ہیں
جھوٹ کہتے ہیں جب حسیں چہرے
کس قدر بدنما سے لگتے ہیں
ایک منزل پہ جانے والوں کے
راستے کیوں جدا سے لگتے ہیں
ساری باتیں تمام تاویلیں
اب زبانی دلاسے لگتے ہیں
خشک پتوں پہ گھونسلے جو بنیں
کانپنے وہ ہوا سے لگتے ہیں
اب زمانے کے ہوگئے جو شکیلؔ
طور وہ ناروا سے لگتے ہیں
 
حرف سب بے وفا سے لگتے ہیں
دوست ناآشنا سے لگتے ہیں
اساتذہ اور احباب کی رائے سے قطع نظر ، احقر کی چند تاویلات اس طرح ہیں:
مطلع کے دونوں مصارع میں ربط مفقود ہے۔ دو لختی کا احساس ہوتا ہے۔
جھوٹ کہتے ہیں جب حسیں چہرے
کس قدر بدنما سے لگتے ہیں
اردو شاعری کی روایت اس خیال سے بالکل الٹ ہے۔ "سفید جھٹ ہیں ظالم کے سرخ ہونٹوں پر" کی روایت زیادہ عام اور مقبول ہے۔ ایسا ہمارا ماننا ہے !
خشک پتوں پہ گھونسلے جو بنیں
کانپنے وہ ہوا سے لگتے ہیں
احقر کسی بھی ایسے پرندے کو نہیں جانتا جو خشک پتوں سے گھونسلا بناتا ہو۔ ہاں خشک ٹہنیاں ضرور استعمال کی جاتی ہیں۔ سو یہ شعر حقیقت کے خلاف ہے۔ غالباََ۔

اب زمانے کے ہوگئے جو شکیلؔ
طور وہ ناروا سے لگتے ہیں
طور زمانے کے ہو کے ناروا سے لگتے ہیں؟ بات سمجھ نہیں آئی۔ یا شاید میں غلط سمجھ رہا ہوں۔

اس جسارت کی معافی چاہتا ہوں۔
 
اساتذہ اور احباب کی رائے سے قطع نظر ، احقر کی چند تاویلات اس طرح ہیں:
مطلع کے دونوں مصارع میں ربط مفقود ہے۔ دو لختی کا احساس ہوتا ہے۔

اردو شاعری کی روایت اس خیال سے بالکل الٹ ہے۔ "سفید جھٹ ہیں ظالم کے سرخ ہونٹوں پر" کی روایت زیادہ عام اور مقبول ہے۔ ایسا ہمارا ماننا ہے !

احقر کسی بھی ایسے پرندے کو نہیں جانتا جو خشک پتوں سے گھونسلا بناتا ہو۔ ہاں خشک ٹہنیاں ضرور استعمال کی جاتی ہیں۔ سو یہ شعر حقیقت کے خلاف ہے۔ غالباََ۔


طور زمانے کے ہو کے ناروا سے لگتے ہیں؟ بات سمجھ نہیں آئی۔ یا شاید میں غلط سمجھ رہا ہوں۔

اس جسارت کی معافی چاہتا ہوں۔
محترم آپ کی رہنمائی سر آنکھوں پر،
تکنیکی امور پر تو بحث سے عاجز ہوں، البتہ معنوی کمزوریوں پر اپنی صفائی دینا چاہوں گا، وہ بھی اس اعتراف کے ساتھ کہ اگر شاعر کو شعر کی وضاحت کرنی پڑے تو گویا وہ اپنی کاوش میں ناکام ہوگیا،
حسین چہروں والے شعر میں یقیناََ روائت سے ہٹ کر خیال پیش کرنے کی جسارت کی تھی، مجھے نہیں معلوم یہ کتنا قابلِ گرفت ہے، احباب و اساتذہ رہنمائی فرمادیں تو نوازش ہوگی
گھونسلے والے شعر میں خشک پتوں "پر" گھونسلے کا ذکر ہے، "سے" نہیں، میرا مقصد صرف زمانے کی ناپائیداری اور بےثباتی پر بات کرنا تھا،
شعر کی نثر یوں ہے، "اب زمانے کے جو طور ہوگئے ہیں، وہ ناروا سے لگتے ہیں"
آخر میں ایک بار پھر اعترافِ شکست، کہ شعر کا مفہوم، اگر سخن شناس احباب تک ہی نہ پہنچا پایا تو پھر کمی مجھ ہی میں ہے، انشااللہ، آپ احباب کی رہنمائی میں مزید سعی جاری رہے گی
 

الف عین

لائبریرین
حوصلہ افزائی کا شکریہ محترم، کچھ رہنمائی کاشف اسرار احمد صاحب کے اٹھائے گئے نکات پر بھی مل جائے تو نوازش ہوگی
کاشف نے مفہوم کے اعتبار سے ہی سوالات اٹھائے ہیں۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ اس قدر فاش اغلاط ہیں یا حقیقت کے خلاف ہیں۔ یہ شاعر کے تخیل پتر چھوڑا جا سکتا ہے۔ اگر اسے یوں ہی پسند ہے تو یوں ہی سہی۔
 
Top