ایک انوکھے جہاں کی انوکھی سیر-جگر ہے یا کباڑ یا؟؟؟

قاضی مظہر الدین طارق
یہ کچرے کی چیزیں کیوں جمع کرتا رہتا ہے؟***** ایک انوکھے جہاں کی انوکھی سیر*****


کلاس ٹیچر اپنے شاگردوں کے ساتھ ، خیالی جہاز میں سوار ہوکر ،ایک بچے کے نظامِ ہضم میں منہ کے راستے داخل ہوا۔ وہ سارا دن معدے اور آنتوںکی ’انوکھی سیر‘کرتے رہے، آخر میں آنتوں کی ’خملوں‘ (villi) کے درمیان جہاز کو لنگر انداز کرکے رات بسر کی۔ صبح سویرے میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ فاروق جاگ رہا ہے، ہم نے سب بچوں کو جگایا،نمازِ فجر پڑھی اور ناشتے کے لیے بیٹھ گئے۔ میں نے بچوں سے مشورہ کیا کہ اب ہم کہاں جائیں؟ عمرنے کہا ’’دل (heart)کی طرف چلتے ہیں وہاں سے جہاں چاہیں جا سکیں گے‘‘۔علی نے کہا ’’نہیں پہلے دماغ ( brain)کی سیر کی جائے یہ سب سے اہم ہے۔‘‘ احمد نے کہا ’’پھیپھڑوں (lungs) میں چلتے ہیں دیکھیں تو خون کس طرح یہاں سے آکسیجن لے کر سب خَلیوں تک پہنچارہا ہے‘‘۔البتہ فاروق چپ اپنی سوچوں میں گم تھا۔ میں نے کہا یہ سب سہی ، مگر ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم کم سے کم وقت میں آسانی سے کہاں پہنچ سکتے ہیں، اس وقت ہمارے لیے دو راستے ہیں ، ایک تو ہم ’خملے‘ (villus) کے بیچ میںموجود lacteal میں داخل ہوں وہاں سے’ لِمفِی قناؤ‘( duct lymphatic) اور درمیان میں کئی’ لِمفی عقدوں‘ (nodes lymph ) سے گزرتے ہوئے پہلے اوپر کی طرف جائیں پھر ’زیرترقوی ورید‘ ( veinsubclavian)کے ذریعہ دل کی دائیں ’ اُذین‘(atrium) میں داخل ہوں۔ یہ راستہ لمبا بھی ہے اور لِمفِیٹِک سسٹم میں گاڑھے لِمف اور جگہ جگہ’عقدوں‘(nodes) میں سفید خَلیوں کی بہتات کی وجہ سے راستہ بڑا پُر خطر اور دشوار ہے۔پھیپھڑوں میں جانے کے لیے مزید آگے، ’داہنے اُڈن‘ (atrium right)سے ’داہنے بطین‘( right ventricle) میں داخل ہو کر دل کی دھڑکن کے زور پر’ شُشی شِریان‘ ( artery pulmonary) سے گزرکر پھیپھڑوں میں جانا ہوگا،یہ راستہ اورزیادہ دور پڑے گا۔اسی طرح دماغ میں جانے کے لیے اسی راستے پر اس سے بھی آگے سفر کرنا ہوگا۔ ہم کوتو مختصر اورتیز تر راستہ کا انتخاب کرنا ہے ، اس کے لیے ہم کو خون کی شریانوں(arteries) یا وریدوں (veins) میں خون کے بہائو کی سمت جا نے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ خون کا بہائو ہم کو90سیکنڈ میں بدن میںکہیں بھی پہنچا کر واپس اسی جگہ لا سکتا ہے،اس وقت ہم نظامِ ہضم کے آخری حصہ میں ہیں، یہاں سے’ خملوں‘(villi) کے اندر خون کی’ دموی شعریان‘( capillary blood)میں داخل ہو کرخون کے بہائو کے ساتھ’جگر بابی ورید ( vein hepatic portal)‘ کے راستے جگر (liver)میں جانا چاہئے اس میں ہم کو دو سکینڈ بھی نہیں لگیں گے۔ سارا خون نظامِ ہضم سے نکل کر لازماً جگر میں جاتا ہے،

جب سب نے اس تجویز کی حمایت کردی تو میں نے جہاز اسٹارٹ کیا اور ہم خون کی ایک ’دموی شریان‘ میں داخل ہوکر ’جگر بابی ورید‘hepatic vein) (Portal میں داخل ہوئے! مگر فوراً ہی انجن بند کر دیا کیونکہ ہم جگر میں پہنچ چکے تھے۔ یہاں پہنچے تو بچوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ علی نے کہا ’’لگتا ہے یہ ہمارے بدن کا سب سے بڑا عضو ہے‘‘۔ میں نے کہا ہاں، یہ پسلیوں سے ذرا نیچے سینے کے ’پردہِ شکم‘ (diaphragm) سے لگا ہوا ہے۔ عمربولا ’’دیکھو تو ہر طرف کام ہی کام ہو رہا ہے‘‘۔ احمد کیوں چپ رہتا کہا’’ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی فیکٹری ہے‘‘۔

میں نے بتایا اس کے بہت سارے شعبے ہیں ہر ایک اپنے کام پر لگا ہوا ہے۔احمد نے پریشانی سے کہا ’’اُہ ! غذا سے حاصل ہونے والا ،اتنا سارا گلوکوز جو ہمارے ساتھ خون کے ذریعہ جگر میں آیا تھا کہاں غائب ہو گیا ؟ میں نے کہا گھبرائو مت،وہ دیکھو جگر گلوکوز کو آتے ہی پکڑ رہا ہے اور اس کے سالموں (molecules) کو ایک لمبی زنجیر میں پرو کر ’گلائیکوجن‘ (glycogen) بنا رہا ہے،پھراپنے خانوں میں حفاظت سے رکھ رہا ہے اور جب بھی خون میں گلوکوز کم ہونے لگے گا، جگر پھر سے کام کرے گا اوراپنے خانوں سے’گلائیکوجن‘نکال کر دوبارہ’ گلوکوز‘ میں تبدیل کرکے خون کے حوالے کرے گا۔’گلوکوز‘ کو ’گلائیکوجن‘ بنانا ہو یا ’گلائیکوجن‘ کو دوبارہ ’گلوکوز‘ بنانا ہو رَبّ نے ان دونوں کاموں میں مدد دینے کے لئے اس کو الگ الگ قسم کے’خامرے‘ (enzymes) عطا کئے ہیں۔

علی نے پھر سوال کیا ’’اگر گلائیکوجن بنانے کے بعد بھی گلوکوز بچ جائے تو اس کے ساتھ کیا برتائو ہوتا ہے؟‘‘ میں نے بتایا کہ اضافی گلوکوز جب خون کے ساتھ دل کی مدد سے دماغ سے گزرتا ہے تو دماغ فوراً چونک جاتا ہے اورگردوں کو حکم دیتا ہے کہ اس اضافی گلوکوز کوبھی یوریا اور اضافی پانی کے ساتھ بدن سے باہر کر دو! تو گردے ان کو فوراً بدن سے خارج کر دیتے ہیں۔

عمر نے پوچھا’’سر! یہاں کیا ہو رہا ہے؟‘‘میں نے کہا ’’بچو! یاد ہے جب ہم چھوٹی آنت کے ایک حصے ’عفج‘ (duodenum) میں تھے تو ہم نے دیکھا تھا کہ جگر ایک ہرے رنگ کا شربت’پت‘(bile) بنا کر بھیج رہا تھا جو ہاضمے میں مدد دے رہا تھا‘‘۔ علی نے سوال کیا’’سر!یہ ’پِت‘(bile)کیسے بنارہا ہے؟‘‘ میں نے کہا’’ہاں! یہ اچھا سوال ہے،یہ جگر فوت شدہ سرخ خَلیوں سے ہوموگلوبن لے کر اس میں سے ایک ہرے رنگ کا مرکب’لون دانہ‘ ) (pigmentسے جس کو ’بِلی روبن ‘(bilirubin) کہتے ہیں ’پِت‘ بنارہا ہے، اس میں خون سے ’پِت کے نمکیات (bile salts )بھی لے کر ملاتا ہے یہ ’پِت‘ چکنائی کو کیمیائی طور پر تقسیم تو نہیں کرتا مگر طبعی طورپر (physically) اس کو بہت ننھے ننھے قطروں میں تقسیم کرتا ہے۔اس کو ’یکجان‘ (emulsify) کرنا کہتے ہیں تاکہ اس پر’خامرے(enzymes )آسانی سے عمل کرکے ان کو fatty acids اور glycerol میں تبدیل کر سکیں۔ یہ نمکیات بچی ہوئی چکنائی کے ساتھ آنتوں کے راستے دوبارہ خون میںشامل ہو جاتے ہیں۔

’’ارے! ارے! یہ امائینو تُرشوں (amino acids)کے ساتھ جگر کیا کر رہا ہے؟‘‘ اب کی دفعہ احمد چیخ پڑا۔ مجھے ہی اس کی حیرانی دور کرنی تھی،میں نے کہا،’’یہ اَمائینو تُرشوں کو بھی گلائیکوجن میں تبدیل کر رہا ہے۔ اس کام کے دوران جب ’امائینو‘ سے (NH2) الگ کیا جاتا ہے تو یہ ’امونیا‘ (NH3) بن جاتا ہے، جو زندگی کے لیے بہت خطرناک و نقصان دہ ہوتا ہے،جگر اس کو فوراً ہی ’یوریا‘ [(NH2)2CO] بنا دیتا ہے جو کم نقصان دہ ہے، مگر ’یوریا‘ کو بھی گردے مثانوں کے ذریعہ اضافی پانی کی مدد سے بدن سے باہر نکال دیتے ہیں۔

فاروق حسب ِ معمول اپنی سوچوں میں گم تھا،مگر ایک ایک چیز کو غور سے دیکھ رہا تھا اور سب کی باتیں بھی توجہ سے سن رہا تھا۔ احمد نے پوچھا’’سر!یہ اربوں سُرخ خُلیے جو یہاں آکر فوت ہو رہے ہیں کہاں غائب ہوتے جا رہے ہیں؟‘‘ آپ نے دیکھا نہیں کہ جگر ان لاشوں کو بھی کام میں لارہا ہے۔ اس سے ایک تو مسلسل ’پِت‘ بنا کراس کو ’پِتّے‘ bladder gallمیں جمع کرتا جاتا ہے اور جب معدے کو ہاضمے کے لئے اس کی ضرورت پڑتی ہے فوراً اس کو یہ ’پِت‘ فراہم کردیتا ہے۔دوسرا کام جگر یہ کرتا ہے کہ سُرخ خَلیوں میںموجود ’ہیموگلوبن‘ (haemoglobin)سے ،جو ایک قسم کے’لحمیے‘ (proteins) ہوتے ہیں،ان میں لوہے کا مرکب شامل ہوتا ہے، وہ یہ لوہا نکال کر اپنے پاس محفوظ رکھتا جاتا ہے تاکہ وقتِ ضرورت کام آئے۔

عمر بولا’’یعنی کہ یہ کباڑیئے کا کام بھی کر تا ہے۔ کچرے سے کام کی چیزیں جمع کرتا ہے‘‘۔یہ اس کے علاوہ تیل میں حل ہونے والےA اورD ’حیاتین کو بھی اپنے خانوں میں جمع کر کے رکھ رہا ہے۔عمر پھر بولا’’تو اس کا مطلب یہ بینک کا کام بھی کر رہا ہے‘‘۔ میں نے بتایا ان سب کاموں کو homeostasis کہتے ہیں۔ یہ اندر کے ماحول کو درست رکھنے کا کام ہے۔ جگر کے کاموں کی بڑی لمبی فہرست ہے۔ ہماری زندگی برقرار رکھنے کیلئے یہ نہایت ضروری کام ہیں، ’جسمی سیال‘ ( fluidsbody )کے ارتکازا ور بناوٹ (concentration & composition) کو ایک خاص حد میں رکھتا ہے،خاص کر خون میں۔ اگر ہم غیر متوازن غذا کھا لیں یا ہمارے کام غیر معمولی ہو جائیں جیسے ہم تیز دوڑ پڑے یا بہت زیادہ وزن اْٹھا لیں یا ذہنی دبائو میں آجائیں(اچانک خوشی ہو یا غم) تو ہمارے خون کے ارتکاز و بناوٹ میں فرق آ جاتا ہے۔ اگر ہمار ا یہ محسن جگر،رَبّ کا عطا کردہ خادم اس کو قابو میں نہ رکھے تو ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔یہ کام جس کو homeostasis کہتے ہیں اس کام میں جگر اکیلا نہیں اور بھی اعضاء اس کے مددگار ہیں،جیسے ہمارے پھیپھڑے خون میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو اس کی حدود میں برقرار رکھتے ہیں۔ ہمارے جسم کی کھال بدن کے درجۂ حرارت کو کنٹرول کرتی ہے، پھر آپ ابھی گردوں کا کام بھی دیکھ چکے کہ یہ خون کو زہریلے مادّوں سے پاک کرتے ہیں ، نمکیات و تیزابیت کو حدود کا پابند رکھتے ہیں ، پھریہ سب صفائیاں اضافی پانی کی مدد سے کرکے اس اضافی پانی کو بھی بدن سے خارج کرتے ہیں۔

احمد نے پوچھا ’’سر! یہ سب کام یہ لوگ کس طرح کرتے ہیں،کون ان کو بتاتا ہے کہ اب کون کیا کام کرے؟‘‘میں نے کہا ’’ہمارا پورا وجودایک مربوط نظام ہے، اس کے سارے اعضاء کے کام ایک دوسرے پر منحصر ہیں، سب ایک دوسرے کی مدد سے چل رہے ہیں، پھیپھڑے آکسیجن کا انتظام نہ کریں، سْرخ خَلیے اس کو تمام خَلیوں تک پہنچانے کا فرض ادا نہ کریں،نظامِ ہضم غذا کو بنیادی اجزاء میں توڑ کر خون کے حوالے نہ کرے،جگر خون کو صحیح نہ کرتا رہے ،گردے خون کو صاف نہ کرتے رہیں ، دل خون کو گردش دے کر یہ سب کام نہ کرواتا رہے۔ان میں سے ایک کام بھی نہ ہوتا تو ہم زندہ نہ رہتے۔۔۔۔۔

احمد بیچ میں بول پڑا ’’سر!سر! میرا سوال؟‘‘۔۔۔۔۔صبر تو کرو وہی تو بتا رہا ہوں۔۔۔۔ہماری کھوپڑی میں ایک عضو ہے جس کو ’دماغ‘ کہتے ہیں یہ ان سب کاموں کو مربوط کرکے چلانے کا ذمہ دار ہے ،رَبّ نے اس کو ایک مواصلاتی نظام فراہم کر رکھا ہے اس کو’ اعصابی نظام‘ (nervous system)کہتے ہیں، اس پر تفصیل سے پھر کبھی بات ہوگی، ابھی اتنی بات کافی ہے کہ ’اعصابی نظام‘کے ذریعہ دماغ کو اطلاعات ملتی رہتی ہیں کہ کون سے عضو کی کیا ضرورت ہے، پھردماغ ان ہی اعصابی تاروں کے ذریعہ ہارمونز کی مدد سے احکام جاری کرتا ہے کہ کون سا ’غدّہ‘ (gland) کون سا ’خامرہ ‘ (enzyme) بھیج کر کیا کام کرے؟

فاروق اپنے خیالوں میں گم کہنے لگا ’’ دماغ کو یہ سب تعلیم کس نے دی کہ کس اطلاع پر کس موقع کے لئے کیا حکم جاری کرے، اس کو ان پیچیدہ کیمیائی مرکبات کی ’کیمیا‘ کس نے سکھائی۔ اتنا توہم انسان بھی نہیں جانتے پھر ان اعضاء کو دماغ کے اشاروں کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا کس نے سکھایا؟‘‘۔ہاں! یہی تو المیہ ہے ،آج کے پڑھے لکھے نام نہاد’علم‘ والے انسانوں نے ایک قیاسی مفروضہ حتمی طورپر طے کر رکھا ہے کہ’’ یہ کائنات اور اس میں جو کچھ موجود ہے آپ سے آپ خود بخوداتفاقی و حادثاتی طور پر بن گئے ہیں اس کا کوئی خالق نہیں ہے۔۔۔‘‘۔

فاروق بولا’’سر!کوئی بھی دیکھنے والا اگر حقیقی رنگ دیکھنا چاہے مگر وہ ایک رنگ کی عینک لگا کر دیکھے تو کیا اس کو حقیقی رنگ نظر آئے گا؟‘‘۔۔۔’’ظاہر ہے نہیں نظر آئے گا‘‘اب کے عمر بیچ میں بول پڑا۔ میں نے کہا ’’ یہی تو افسوسناک بات ہے، یہ لوگ کتنے بدنصیب ہیں ،حقیقت کی تلاش میں کتنی محنت کر رہے ہیں،پیسہ لگا رہے ہیں وقت صرف کررہے ہیں بلکہ زندگیاں کھپا رہے ہیں نہ صرف زمین کے چپے چپے میں، بلکہ خلائوں میں خلائی جہاز اور قسم قسم کی دوربینوں کی مدد سے تحقیق میں لگے ہوئے ہیں مگر صد افسوس! ان کے اپنے مفروضوں کی وجہ سے یہ منزل پا ہی نہیں سکتے!!! احمد اور علی نے ایک ساتھ کہا’’اب ہم تھک گئے ہیں آرام نہ کرلیں؟‘‘ میں نے کہا ’’بس تھک گئے! چلو یہیں جگر کے کسی خَلیے میں پڑائو ڈال دیتے ہیں، میں نے تو سوچا تھا کہ تلّی یا لبلبہ کا دورہ بھی ہو جاتا،چلو خیر پھر سہی۔۔۔ ‘‘٭…٭…
 
Top