فیصل عظیم فیصل
محفلین
کمپنی کی خود مختاری کا دور۔
یہ وہ دور تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم اور افسران خود مختار تھے۔معمولی معمولی حیثیت کے لوگ جو چاہتے وہ کرتے تھے۔چنانچہ مسٹر گرے ، مشہور مورخ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمان کی بے ضابطہ اور بد دیانتی کے متعلق لکھتے ہیں ۔
انیسویں صدی کی ابتدا تک یہ قاعدہ تھا کہ لڑائی میں جو لوٹا جاتا تھا اسے کمپنی کے گماشتے ، فوجی افسروں اور مقامی شاخوں کے داروغہ نہایت آسانی کے ساتھ آپس میں تقسیم کر لیا کرتے تھے۔ لندن میں کمپنی بہادر کے ڈائرکٹروں کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوتی تھی۔اس زمانہ میں انگریز بہت خسیس ہواکرتے تھے ۔ معمولی آدمی چند شلنگ سے زیادہ خرچ نہ کرتا تھا۔ وہ اپنے گھروں میں ناجائز طریقوں سے روپیہ بھیجنے کا انتظام کیا کرتے تھے ۔
اس بد نیتی اور خستہ حالی کی میجر پرائس کی ڈائری بھی شاہد ہے۔ جسکی سطور یہ ہیں ۔
جب ہم نے سومبر کے قلعہ کو فتح کرلیا تو بڑی مایوسی ہوئی۔کیونکہ جب ہم اندر داخل ہوئے تودیکھا کہ ایک بہت بڑا خزانہ جو تہ خانہ میں بند تھا پہلے ہی دیسی فوج اپنے ساتھ لے گئی اور ہمارے لئے کچھ نہیں بچا۔ بڑی مشکل سے کوئی چھ ہزار مالیت کا سامان ملا جو ہمارے جیسے افسروں کے لئے یقینا ایک نعمت تھا۔ہم بیچاروں کو صرف روزانہ ملتے تھے ۔
1766 میں کمپنی ڈائرکٹران نے اپنی رپورٹ میں لکھا :-
ہمارے نزدیک اندرون ملک کی تجارت سے جو کثیر دولت حاصل کی گئی ہے وہ انتہائی ظالمانہ اور جابرانہ طریقوں کے استعمال کا نتیجہ ہے اور جس کی نظیر کسی زمانہ اور کسی ملک میں نہ ملے گی۔
لارڈ کلائیو خود کہتا ہے
اس قدر بدعملی ۔ رشوت خواری اور زیادہ ستانی کا منظر بجز بنگال کے کسی ملک میں دیکھا یا سنا نہیں گیا۔
لارڈ میکالے لکھتا ہے۔
اس طریقہ سے بے شمار دولت بہت جلد کلکتہ میں جمع ہو گئی در آنحالیکہ تین کروڑ انسان حد درجہ برباد کر دئیے گئے ۔ بیشک ان لوگوں کو مظالم سہنے کی عادت تھی مگر وہ مظالم اس قسم کے نہ تھے ۔ کمپنی کی انگلی انہیں سراج الدولہ کے پٹھے سے زیادہ محسوس ہوتی تھی۔
1762 میں نواب بنگال نے انگریزی گورنر کو مندرجہ ذیل انگریزوں کی کمائی کے طریقے لکھے تھے :۔
کمپنجی کے ملازمان رعایا اور سوداگروں کا مال چوتھائی قیمت پر لے لیتے ہیں اور اپنے ایک روپے کے سامان کی قیمت کے ان سے پانچ روپے وصول کرتے ہیں
بروکس بھی اپنی قلم سے اس زمانہ کی تصویر کھینچتا ہے۔
یہ مالا مال خزانے کروڑوں آدمیوں کی صدیوں کی کمائی انگریزوں نے ہتھیا کر لندن اسی طرح بھیج دی جس طرح روس نے یونان اور لوئینس والے بھیج دیتے تھے ۔ ہندوستانی خزانے کتنے قیمتی تھے کوئی انسان بھی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا ۔لیکن وہ کروڑوں اشرفیاں ہونگی۔ اتنی دولت اس وقت مجموعی یورپین دولت سے بہت زیادہ تھی۔
سرجان نشو 1833 میں لکھتا ہے :-
انگریزوں کا بنیادی اصول یہ رہا ہے کہ ہر صورت میں ہندوستانی قوم کو اپنی اغراض کا غلام بنایا جائے ۔ ان پر محصولات اتنے لگا دئے ہیں کہ اضافہ کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ۔
یہ وہ دور تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم اور افسران خود مختار تھے۔معمولی معمولی حیثیت کے لوگ جو چاہتے وہ کرتے تھے۔چنانچہ مسٹر گرے ، مشہور مورخ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمان کی بے ضابطہ اور بد دیانتی کے متعلق لکھتے ہیں ۔
انیسویں صدی کی ابتدا تک یہ قاعدہ تھا کہ لڑائی میں جو لوٹا جاتا تھا اسے کمپنی کے گماشتے ، فوجی افسروں اور مقامی شاخوں کے داروغہ نہایت آسانی کے ساتھ آپس میں تقسیم کر لیا کرتے تھے۔ لندن میں کمپنی بہادر کے ڈائرکٹروں کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوتی تھی۔اس زمانہ میں انگریز بہت خسیس ہواکرتے تھے ۔ معمولی آدمی چند شلنگ سے زیادہ خرچ نہ کرتا تھا۔ وہ اپنے گھروں میں ناجائز طریقوں سے روپیہ بھیجنے کا انتظام کیا کرتے تھے ۔
اس بد نیتی اور خستہ حالی کی میجر پرائس کی ڈائری بھی شاہد ہے۔ جسکی سطور یہ ہیں ۔
جب ہم نے سومبر کے قلعہ کو فتح کرلیا تو بڑی مایوسی ہوئی۔کیونکہ جب ہم اندر داخل ہوئے تودیکھا کہ ایک بہت بڑا خزانہ جو تہ خانہ میں بند تھا پہلے ہی دیسی فوج اپنے ساتھ لے گئی اور ہمارے لئے کچھ نہیں بچا۔ بڑی مشکل سے کوئی چھ ہزار مالیت کا سامان ملا جو ہمارے جیسے افسروں کے لئے یقینا ایک نعمت تھا۔ہم بیچاروں کو صرف روزانہ ملتے تھے ۔
1766 میں کمپنی ڈائرکٹران نے اپنی رپورٹ میں لکھا :-
ہمارے نزدیک اندرون ملک کی تجارت سے جو کثیر دولت حاصل کی گئی ہے وہ انتہائی ظالمانہ اور جابرانہ طریقوں کے استعمال کا نتیجہ ہے اور جس کی نظیر کسی زمانہ اور کسی ملک میں نہ ملے گی۔
لارڈ کلائیو خود کہتا ہے
اس قدر بدعملی ۔ رشوت خواری اور زیادہ ستانی کا منظر بجز بنگال کے کسی ملک میں دیکھا یا سنا نہیں گیا۔
لارڈ میکالے لکھتا ہے۔
اس طریقہ سے بے شمار دولت بہت جلد کلکتہ میں جمع ہو گئی در آنحالیکہ تین کروڑ انسان حد درجہ برباد کر دئیے گئے ۔ بیشک ان لوگوں کو مظالم سہنے کی عادت تھی مگر وہ مظالم اس قسم کے نہ تھے ۔ کمپنی کی انگلی انہیں سراج الدولہ کے پٹھے سے زیادہ محسوس ہوتی تھی۔
1762 میں نواب بنگال نے انگریزی گورنر کو مندرجہ ذیل انگریزوں کی کمائی کے طریقے لکھے تھے :۔
کمپنجی کے ملازمان رعایا اور سوداگروں کا مال چوتھائی قیمت پر لے لیتے ہیں اور اپنے ایک روپے کے سامان کی قیمت کے ان سے پانچ روپے وصول کرتے ہیں
بروکس بھی اپنی قلم سے اس زمانہ کی تصویر کھینچتا ہے۔
یہ مالا مال خزانے کروڑوں آدمیوں کی صدیوں کی کمائی انگریزوں نے ہتھیا کر لندن اسی طرح بھیج دی جس طرح روس نے یونان اور لوئینس والے بھیج دیتے تھے ۔ ہندوستانی خزانے کتنے قیمتی تھے کوئی انسان بھی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا ۔لیکن وہ کروڑوں اشرفیاں ہونگی۔ اتنی دولت اس وقت مجموعی یورپین دولت سے بہت زیادہ تھی۔
سرجان نشو 1833 میں لکھتا ہے :-
انگریزوں کا بنیادی اصول یہ رہا ہے کہ ہر صورت میں ہندوستانی قوم کو اپنی اغراض کا غلام بنایا جائے ۔ ان پر محصولات اتنے لگا دئے ہیں کہ اضافہ کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ۔