چوہدری لیاقت علی
محفلین
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے ۔ ابن صفی
بر صغیر پاک و ہند نے نابغہ روزگار ہستیاں پید ا کی ہیں۔ تاہم ہماری سرشت میں ایک عجیب طرح کا احساس کمتری ہے جس کی بدولت ہم ان ہستیوں پر فخر کرنے کی بجائے ایک عجیب سی شرمندگی کا شکار رہتے ہیں۔ ہم اپنی زمین سے محبت کی بجائے ہمیشہ بیرونی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں یا کسی مسیحا کا انتظار کرتے ہیں۔ ہماری ہمدردیاں ہمیشہ سکندر کے ساتھ ہوتی ہیں جو کہ فطری طور پر پورس (جو کہ ہمارا ہم وطن تھا) کے ساتھ ہونی چاہیءں۔ ہم اپنے مسائل کا حل بھی دوسروں سے چاہتے ہیں۔ یہی ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو ان کا صحیح مقام دینے کی بجائے ان کو ان کی حیثیت سے ہی گر ا دیتے ہیں۔ جتنا شرمندہ ہم اپنے ہیروز کو کرتے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پھر ایک اور مسئلہ بھی ہمارے ساتھ ازل سے چل رہا ہے اور وہ ہے دھڑے بندی۔ جہاں دو افراد ملے وہیں انھوں نے ایک گروہ بنا لیا۔ پھر جس دھڑے کو اوپر آنے کا موقع ملا وہ باقیوں کا خلاف ایک محاذ کھول لیتا ہے۔ اس معاملے میں ارباب اقتدار بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں اور اپنے پسندیدہ اشخاص کو اوپر لانا ہی ان کی ترجیح ہوتی ہے جس کا اولین مقصد صرف اور صرف ذاتی تشہیر ہوتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہی گروہ ارباب اقتدار کو ان کی من پسند تصویر دکھلا کر ان کے نشے کو مزید دو آتشہ کر دیتے ہیں۔ یہ گروہ مشیروں کا ہو یا وزیروں کا ادیبوں کا ہو یا صحافیوں کاسب کاایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے صرف اور صرف ذاتی مفادات کی تکمیل۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مزاج کو تبدیل کریں اور ان لوگوں کو ان کا جائز مقام دیں جو کہ ان کا حق ہے۔ ہماری پچھلی نسلوں نے جو سلوک ابن صفی کے ساتھ روا رکھا ہے اس کی تلافی ہمارا قومی فرض ہے۔ اس سلسلے کی ابتداء راشد اشرف نے ابن صفی ۔ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا اور ابن صفی ۔فن اور شخصیت کی صورت میں پہلا پتھر پھینک کر کر دی ہے۔
ابن صفی ۔ ایک تنقیدی جا ئزہ
ابن صفی کی شخصیت کا مکمل جائزہ ابن صفی ۔ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا اور ابن صفی ۔فن اور شخصیت میں مکمل طور پر سامنے آگیا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی، عادات و اطوار، خاندان، اولاد،مشاغل غرض ہر پہلو کو نہایت عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے۔ ان کے فن کے تفصیلی پہلو خرم علی شفیق نے اپنی دو کتابوں سائیکو مینشن اور رانا پیلس میں پیش کئے ہیں۔ تاہم جیسا کہ راشد اشرف نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ
ابھی بہت کام کرنا ہے
اس جملے سے مجھ جیسے کم علم کو بھی تحریک ملی کہ ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جا ئے جن کی بدولت ابن صفی بر صغیر کے مشہور ترین ادیب تھے۔ ان کی کتاب ہاتھوں ہاتھ بک جاتی تھی۔ ان کے قارئین ان سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ ان کے لئے مسجدوں، مندروں اور کلیساؤں میں دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بدولت آج بھی دنیا ابن صفی کی دیوانی ہے۔ ان تمام باتوں کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔ تاہم اس جائزے سے پہلے دنیا میں سری ادب کا مقام اور اردو زبان میں اس کا حشر پیش خدمت ہے۔
جاسوسی ادب کسی بھی زبان میں ایک نہایت عمدہ مقام رکھتاہے۔ انگریزی زبان میں جاسوسی ادب کی تاریخ سر آرتھر کانن ڈائل سے شروع کی جا سکتی ہے جنہوں نے شرلک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن جیسے لا فانی کردار تخلیق کئے۔ اس وقت سے اب تک بہت اہم نام ہمارے سامنے آئے جن میں اگاتھا کرسٹی، وکٹر گن، آئن فلیمنگ، روتھ رینڈل، ایڈورڈ ڈی ہوچ، رابرٹ بی پارکر، رابرٹ لڈ لم، مائیکل کونولی، رابرٹ کریس، جان گریشم، ولبر سمیتھ، کین فولے، ہارلن کوبن، سٹیفن کونٹس، آئن رینکن اور ان جیسے بہت سے نام شامل ہیں ۔ ان میں ہر مصنف Best Seller کی فہرست میں شامل ہے ۔ اور ان تمام مصنفین کو بہت پذیرائی ملی اور مل رہی ہے۔ ان میں بہت سے مصنفین کی کتابوں پر فلمیں بن چکی ہیں۔
اردو زبان اس لحاظ سے بد قسمت ہے کہ ادب کے اس اہم گوشے کو مجرمانہ غفلت سے نظر انداز کیا اور جن لوگوں نے کچھ کرنا چاہا ان کو سرے سے ادیب ہی قرار نہیں دیا گیا۔ ابن صفی سے پہلے منشی تیرتھ رام فیروزپوری، ظفر عمر، اکرم الہ آبادی(یہ ابن صفی کے بعد ہی میدان میں آئے تھے لیکن کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے) وغیرہ نے اس ضمن میں طبع آزمائی کی تاہم ان میں سے اکثر نے انگریزی ادب کو مشرف بہ اردو کیا ۔ رہی سہی کسر اس طبقے نے پوری کردی جو قیام پاکستان سے ہی ہر ارباب اقتدار کا گن گاتا رہا اور جن کی کتابیں چند سو کے ہندسوں سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اکثر محالفین بھی انہی کی کتابیں پڑھا کرتے تھے مگر شاید یہ تسلیم کرنے سے ان کو ادبی قد کھونے کا ڈر رہا۔ اور تو اور ایسے ادیب جن کا ادبی سرمایہ ایک دو کتابوں تک محدود ہے وہ بھی ابن صفی کا تذکرہ استہزائیہ انداز میں کرتے رہے ہیں۔ آج دنیا بھر میں جاسوسی ادب ایک صنف ہے جس کی مانگ میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر ہمارے ہیں آج بھی ادبی ٹھیکے دار اس کی اہمیت کو شتر مرغ کی طرح ریت میں سر ڈال کر نظر انداز کر رہے ہیں ۔ اس تمام عمل میں نقصان اردو ادب کا ہے جو پہلے ہی عوام کی پہنچ سے دور ہو چکا ہے۔
اب ابن صفی کے فن کا جائزہ پیش خدمت ہے
ہر مصنف کسی نہ کسی جذبے یا کسی تحریک کے تحت لکھنا شروع کرتا ہے۔ ابن صفی نے لکھنا کیسے اور کیوں شروع کیا اس کی وجہ وہ خود ایک مضمون بقلم خود (۱۹۷۰ء عالمی ڈائجسٹ) مین بیان کیا ہے:
جاسوسی ناولوں کا سلسلہ ۱۹۵۲ء میں شروع کیاتھا...اس کی تحریک ایک مباحثے سے ہوئی۔ ایک بزرگ کا خیال تھا کہ اردو میں صرف جنسی کہانیاں ہی مارکیٹ بنا سکتی ہیں۔ میں ان بزرگ سے اتفاق نہ کر سکا! میرا خیال تھا کہ اگر سوجھ بوجھ سے کام لیا جائے تو اور بھی راہیں نکل سکتی ہیں۔ کچھ اور بھی کرنا چاہیے کا مطالبہ بالآخر پورا ہو گیا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ایک جاسوسی ماہنامے کی داغ بیل ڈالی گئی اور میں اس کے لئے ہر ماہ ایک مکمل ناول لکھنے لگا۔
یوں اس سلسلے کا آغاز ہوا جو آج بھی قارئین کی دلچسپی کا باعث ہے۔ اپنے اسی مضمون میں انہوں نے کھل کر اپنے ان نظریات کا ذکر کیا ہے جس کو انہوں نے اپنے ناولوں میں پیش کیا۔ انہی کی زبانی:
مجھے اس وقت بڑی ہنسی آتی ہے جب آرٹ اور ثقافت کے علمبردار مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ادب کی بھی کچھ خدمت کروں۔ان کی دانست میں شاید میں جھک مار رہا ہوں ۔ حیات و کائنات کا کون ساایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب میں نہ چھیڑا ہو۔ لیکن میرا طریق کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا ہے۔ میں بہت زیادہ اونچی باتوں اور ایک ہزار کے ایڈیشن تک محدود رہ جانے کا قائل نہیں ہوں۔ میرے احباب کا اعلٰی وارفع ادب کتنے ہاتھوں تک پہنچتا ہے اور انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کس قسم کا انقلاب لاتا ہے۔ افسانوی ادب خواہ کسی پائے کا ہو محض ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی معیار کی تفریح فراہم کرنا ہی اس کا مقصد ہوتا ہے ۔ جس طرح فٹ بال کا کھلاڑی شطرنج سے نہیں بہل سکتا۔ اسی طرح ہماری سوسائٹی کے ایک بہت بڑے حصے کے لئے اعلٰی ترین افسانوی ادب قطعی بے معنی ہے۔ تو پھر میں گنے چنے ڈرائنگ روموں کے لئے کیوں لکھوں؟ میں اسی انداز میں کیوں نہ لکھوں جسے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ شاید اسی بہانے عوام تک کچھ اونچی باتیں بھی پہنچ جائیں۔
ابن صفی ابھی صرف انیس برس کے ہی تھے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اس دور میں جو کچھ ہوا اس نے بہت سے ذہنوں پر انتہائی دور رس اور گہرے نتائج مرتب کئے۔ ابن صفی کا ذہن بھی اس سے متا ثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ ایک حساس طبیعت شاعر اور ادیب کا ذہن ہے جو کسی بھی واقعے کا اثر عام آدمی سے زیادہ لیتا ہے۔ یہ وہی عرصہ ہے جس کے دوران دو سری عالمی جنگ کے اثرات بھی مٹائے نہ مٹتے تھے۔ ایک عجیب صورت حال تھی جس سے ہر شخص بری طرح متاثر تھا۔ اور پھر انہوں نے ان واقعات کا تجزیاتی نتیجہ اخذ کیا اوربجائے کسی منفی رجحان کو ذہن میں جگہ دینے کے ایک مثبت اور منفرد سوچ اپنائی۔ ان کے مطابق:
آدمی میں جب تک قانون کے احترام کا سلیقہ نہیں پیدا ہو گا یہی سب کچھ ہوتا رہے گا۔ یہ میرا مشن ہے کہ آدمی قانون کا احترام سیکھے اور جاسوسی ناول کی راہ میں نے اسی لئے منتخب کی تھی۔ تھکے ہارے ذہنوں کے لئے تفریح بھی مہیا کرتا ہوں اور اور انہیں قانون کا احترام کرنا بھی سکھاتا ہوں
ابن صفی کا تعلق الہ آباد سے تھا اور بنیادی طور پر وہ شاعر تھے۔ ان دونوں باتوں کا اثر جہاں تہاں ان کی ذات پر محسوس کیا جا سکتا ہے وہیں پر یہ اثرات ان کی تحاریر میں بھی نظر آتے ہیں۔ آپ نے نہایت عام فہم زبان ایک دلکش پیرائے میں پیش کی جو اس وقت یعنی ۴۰ء اور ۵۰ء کے زمانے میں جب مولانا ابوالکلام آزاد جیسے جناتی زبان استعمال کرنے والے ادیب موجود ہوں ، ایک کمال تھا۔ عوام ہوں یا خواص سب آپ کی تحریر کے دیوانے اسی لئے تھے کہ یہ تحریر ان ہی کی عام زبان میں انھی کے لئے تھی۔ مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ابن صفی کی کتاب آپ سے مکالمہ کر رہی ہو۔اور کبھی کبھی تو آپ خود کو بھی ان کتابوں کا ایک حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ جب دوسرے مصنفین اپنی قابلیت کا اظہار مشکل ذبان اور ادق الفاظ میں کر رہے تھے ابن صفی نے سادہ پیرائے میں اردو ذبان کا سب سے نادر نمونہ پیش کیا۔اور قاری کی توجہ فیروزاللغات کی بجائے کتاب پر ہوتی تھی۔ اگر دو لفظوں میں ابن صفی کی زبان کا مطالعہ کیا جائے تو وہ سادہ اور سلیس ہوں گے۔
ابن صفی کو باقی تمام مصنفین بلکہ غیر ملکی مصنفین پر ایک برتری حاصل تھی اور وہ تھی ان کی کردار نگاری۔ دنیا کے مشہور ادیب اور ان کے تخلیق کردہ کرداروں کا ایک جائزہ پیش ہے
Victor Gun - Iron Sides
Ian Flemming - James Bond
Robert B Parker - Inspector Spencer
Ruth Rndell - Inspector Wexford
Michael Connelly - Harry Bosch
Robert Crais - Elvis Cole, Joe Pike
Harlan Coben - Myron Bolitar
Faye Kellerman - Rina & Peter
Robert Ludlum - Jason Bourne
Ian Rankin - Inspector Rubeus
Edward De Hoch Nick Velvet
ان تمام مصنفین کے تخلیق کردہ کرداروں کی تعداد ایک یا دو ہے۔ مگر ابن صفی نے ایک دو نہیں بیسیوں کردار تخلیق کئے ۔ سب اپنی علیحدہ علیحدہ خصوصیات و عادات کے ساتھ ۔ ابن صفی کے دونوں سلسلوں میں مرکزی کرداروں کے علاوہ ان گنت کردار قارئین کے ذہنوں میں نقش رہیں گے۔ ان کے سلسلے جاسوسی دنیا کے مرکزی کردار احمد کمال فریدی ہیں جو ایک سنجیدہ، متین، بردبار، دلیر، نڈر، قانون کا احترام کرنے اور کروانے والے کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا دست راست ساجد حمیدچلبلا، شوخ، نڈر، ہمہ وقت تبدیلی کا شائق ہے جو ہر معرکے میں ان کے ساتھ ہے۔ ان کرداروں کے علاوہ انور، رشیدہ، جگدیش، امر سنگھ، شہناز، نیلم، ریکھا،قاسم، چپاتی بیگم اور نہ جانے کتنے ہی کردار ہیں جو ہمیشہ ہمارے ذہنوں پر راج کریں گے۔ ان کے دوسرے سلسلے عمران سیریز کے مشہور و معروف کردار علی عمران جو ایک نہایت شوخ و شنگ، ہر چیز کو چٹکیوں میں اڑا دینے کو ماہر اور ایک حماقت انگیز ذہانت کا مرکب ہیں۔ اس سلسلے میں بلیک زیرو، طاہر، صفدر، روشی، جولیا، تنویر، جوزف، سلیمان، جعفری، سر سلطان، سر رحمٰن، اماں بی، ثریا،ظفرالملک، جیمسن مشہور و معروف ہیں۔
ان کے علاوہ نجانے کتنے کردار اپنی اپنی خصلتوں اور عادات کے ساتھ ان کتابوں میں زندہ ہیں۔ان مثبت کرداروں کے علاوہ ابن صفی نے لافانی منفی کردار تخلیق کئے جن میں سنگ ہی، تھریسیا، فنچ، جابر، قلندر بیابانی، لیونارڈ، نانوتہ، کنور شمشاد، ڈاکٹر سلمان، جیرالڈ شاستری ۔ یہ تمام کردار پنے اپنے اطوار اور خصائل سمیت اسی دنیا کا حصہ ہیں جو ابن صفی نے اپنے قلم سے تعمیر کی۔یہاں یہ بات کہنا بے جا نہ ہو گا اتنے جاندار کرداروں کی تخلیق کے بعد ، جب تک اردوزبان زندہ ہے ابن صفی کا نام اور ان کے کردار ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ابن صفی کی منظر نگاری کے متعلق میرے نزدیک ایک یہی بات کافی ہے کہ جسے ایک مصور کا کینوس جس میں جا بجا رنگ بکھرے ہوئے ہیں اور یہ تصویر پوری آب و تاب کے ساتھ قاری کے ذہن پر نقش ہو جاتی ہے۔ ابن صفی ہر ایک منظر پوری جزئیات کے ساتھ لکھتے ہیں ۔ مجھے علم نہیں کہ فزارو، ٹپ ٹاپ، نیاگرہ، آرلکچو، مئے پول جیسے کلب اور ریستوران موجود ہیں یا نہیں مگر اپنی تمام سہولیات کے ساتھ ابن صفی کی آباد کردہ دنیا میں موجود ہیں۔ قاری خود بھی تارجام، رام گڑھ، سردار گڑھ ، نصیرآبادجیسے شہروں میں خود کو رہائش پذیر محسوس کرتے ہیں۔ میں یہاں مشہور نوبل انعام یافتہ مصنف گارشیا مارکیز کے متعلق کہے گئے چند جملے لکھنا چاہوں گا:
اگر میکسیکو اور سپین دنیا کے نقشے پر زندہ نہ ہوتے تو پھر بھی وہ مارکیز کی تحریروں میں زندہ ہوتے۔
تو یہ کہ فزارو، ٹپ ٹاپ، نیاگرہ، آرلکچو، مئے پول، تارجام، رام گڑھ، سردار گڑھ ، نصیرآباد دنیا کے نقشے پر موجود ہوں یا نہ ہوں مگر ابن صفی کی تحریر اور قاری کے ذہن میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ میں صرف چند مثالیں پیش کروں گاکہ ابن صفی کس کمال کی منظر کشی کرتے ہیں:
تاریکی آہستہ آہستہ غائب ہوتی جارہی تھی۔آسمان میں نندا سے تارے جھپکیاں سی لیتے معلوم ہورہے تھے۔ ہر طرف ایک پر اسرار روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والا سناٹا تھا۔ دور تک پھیلے ہوئے جنگل بیکراں آسمان کی وسعتوں سے سرگو شیاں کرتے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔ (پو پھٹنے کا منظر کس کمال سے قاری کو دکھایا)
اس کا سر چکرا رہا تھا! آنکھوں میں دھند سی چھا رہی تھی! اس دھند میں چنگاریاں بھی تھیں جو لا تعداد جگنوؤں کی طرح ٹمٹماتی پھر رہی تھیں! پھر یہ دھند آہستہ آہستہ گہری تاریکی میں تبدیل ہوتی گئی! اور کچھ دیر بعد اس تاریکی میں رہ رہ کر روشنی کو تیز جھماکے ہونے لگے۔(ہوش اور بے ہوشی کے درمیان کی کیفیت)
محکمہ سراغ رسانی کی عمارت کی دیواریں جو بڑے بڑے چوکور پتھروں کو جوڑ کر بنائی گئی تھی، اپنے استحکام کا اعلان کر رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ موسم کی شر انگیزیوں سے بے نیاز کہر کی گہری چادر پر طنزیہ ہنسی ہنستی ہوئی کہہ رہی ہوں کہ ہمیں کیا پرواہ ہے، ہم میں تو ایک رخنہ بھی نہیں جس سے اس سردی کی ٹھنڈی لہریں ہمارے اندر پہنچ سکیں۔ ہمارے قلب میں ایسے ایسے راز دفن ہیں جن کی ہوا بھی دنیا کو نہیں لگی۔
ہرنابغہ اپنے عہدمیں رہ کر بھی اس عہد سے آگے کا کام کرتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے زمانے بلکہ آنے والے ہر زمانے کے لئے کام کرتا ہے۔ابن صفی اس تعریف پر پورے اترتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی تحریر میں ایسے تصورات پیش کئے جن میں سے کچھ تو ان کی زندگی میں اور کچھ ان کے بعدمن و عن پورے ہوئے۔انہوں نے بغیر آواز جہاز و آبدوز، مصنوعی دھند، ٹریفک کنٹرول کرنے والے روبوٹ، مصنوعی آندھی، ایٹم بم سے بھی خطرناک شعاعی ہتھیاروں، لاسلکی آلات، بغیر تاروں کے ٹرانسمیٹرز، خلائی جہاز، لاسلکی ٹیلے وژن، کیمیاوی ہتھیاروں غرض کون سا تصور نہیں تھا جو انہوں نے اپنی کتابوں میں نہ لکھا ہو۔ ان چیزوں پر آج تو شاید ہمیں حیرت نہ ہو مگرآ پ آج سے ساٹھ سال پہلے کا زمانہ سوچئے۔ اس وقت جب نہ بجلی تھی، نہ موبائل، نہ ٹیلے وژن نہ پاکستان میں سائنسی سوجھ بوجھ۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت تو یہ باتیں صرف دیوانے کی بڑ ہی لگتی تھیں۔ مگر آج اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز چیزیں ہمارے علم میں ہیں۔ تبھی تو اقبال نے کہا تھا:
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا کہیں مہ کامل نہ بن جائے
ابن صفی کو ان کے ہم عصروں سے یہی بات ممتاز بناتی ہے کہ انہوں نے اپنے قد سے بڑھ کر نکل جانے کی کامیاب کوشش کی۔ خود کے اپنے عہد کے روایتی علم تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ اپنے عہد سے آگے کا سوچا۔ مستقبل کیا ہواگا۔ اس وقت کیا سائنسی ترقی ہو سکتی ہے ۔ شاید یہی وہ کوشش تھی کہ آج بھی ابن صفی اپنی پوری آب و تاب سے زندہ ہیں اور ان کے ہم عصر شاید چندسرکاری لائبریریوں کی زینت بن کر رہ گئے۔
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ابن صفی نے اپنی پوری زندگی صرف دو ملک یعنی بھارت اور پاکستان ہی دیکھے مگر ان کی کتابیں ان کے قاری کو دنیا جہان کی سیر کروا دیتی ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں مصر، جزائر غرب الہند، امریکہ، جنوبی امریکہ، انگلستان، سپین، اٹلی، فرانس،عرب، یونان، ایران، تاہیتی اور افغانستان کا اتنا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ جیسے انہوں نے خود وہاں جا کر یہ جگہیں دیکھی ہوں۔ یہ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ تھا جس کی وجہ سے یہ منظر کشی نہیں بلکہ ایک سفرنامہ بن گیا۔ انہی کی ذبانی کہ:
میری چارپائی مجھے جہانوں کی سیر کرواتی ہے۔
اثرات ابن صفی
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ابن صفی کی تحریر اردو ادب کی ان اصناف پر پورا ترتی ہے:
ابن صفی نے اردو ادب میں گراں قدر اضا فہ کیا۔ ان کے اثرات مٹائے نہیں مٹتے۔ ہر صنف میں انہوں نے اس کمال کے شہ پارے تخلیق کئے ہیں کہ جن کی نظیر نہیں ملتی۔ اگر ہم صرف ان کے پیش رس ہی کا بہ نظر غائر جائزہ لیں تو یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ انہیں اردو کی کس صنف میں شامل کیا جائے۔ ان کا ایک ناول تزک دو پیازی اردو ادب میں مزاح نگاری ایک شائستہ نمونہ ہے۔ انشائیہ نگاری میں ان کے فن کا ادراک ہمیں ان کی کتاب ڈپلومیٹ مرغ پڑھ کر ہوتا ہے۔ میرے خیال میں متذکرہ اصناف میں ہر صنف میں ابن صفی کی مہارت پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اور آپ بھی راشد اشرف کی اس بات سے متفق ہو ں گے کہ
ابھی بہت کام کرنا ہے۔
ابن صفی جیسی ہمہ جہت شخصیت پر مجھ جیسے ناعلم کا قلم اٹھانا ان کی ادبی شخصیت کی مزید بلندی کا باعث نہیں بلکہ مجھ جیسے جاہل کے لئے ایک اعزاز ہے۔ اور جہاں تک ابن صفی کے ادبی مقام کا تعلق ہے تو مجھے یقین کامل ہے کہ بہت جلد قارئین خود اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ابن صفی ایک ہمہ جہت شخصیت اور ایک انتہائی اعلی پائے کے ادیب تھے جن کی ادبی حیثیت طے کرنے کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں ہو سکتا۔ اور مجھے اس بات کا اتنا یقین ہے جتنا کل سورج کے طلوع ہونے کا۔
بر صغیر پاک و ہند نے نابغہ روزگار ہستیاں پید ا کی ہیں۔ تاہم ہماری سرشت میں ایک عجیب طرح کا احساس کمتری ہے جس کی بدولت ہم ان ہستیوں پر فخر کرنے کی بجائے ایک عجیب سی شرمندگی کا شکار رہتے ہیں۔ ہم اپنی زمین سے محبت کی بجائے ہمیشہ بیرونی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں یا کسی مسیحا کا انتظار کرتے ہیں۔ ہماری ہمدردیاں ہمیشہ سکندر کے ساتھ ہوتی ہیں جو کہ فطری طور پر پورس (جو کہ ہمارا ہم وطن تھا) کے ساتھ ہونی چاہیءں۔ ہم اپنے مسائل کا حل بھی دوسروں سے چاہتے ہیں۔ یہی ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو ان کا صحیح مقام دینے کی بجائے ان کو ان کی حیثیت سے ہی گر ا دیتے ہیں۔ جتنا شرمندہ ہم اپنے ہیروز کو کرتے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پھر ایک اور مسئلہ بھی ہمارے ساتھ ازل سے چل رہا ہے اور وہ ہے دھڑے بندی۔ جہاں دو افراد ملے وہیں انھوں نے ایک گروہ بنا لیا۔ پھر جس دھڑے کو اوپر آنے کا موقع ملا وہ باقیوں کا خلاف ایک محاذ کھول لیتا ہے۔ اس معاملے میں ارباب اقتدار بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں اور اپنے پسندیدہ اشخاص کو اوپر لانا ہی ان کی ترجیح ہوتی ہے جس کا اولین مقصد صرف اور صرف ذاتی تشہیر ہوتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہی گروہ ارباب اقتدار کو ان کی من پسند تصویر دکھلا کر ان کے نشے کو مزید دو آتشہ کر دیتے ہیں۔ یہ گروہ مشیروں کا ہو یا وزیروں کا ادیبوں کا ہو یا صحافیوں کاسب کاایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے صرف اور صرف ذاتی مفادات کی تکمیل۔
اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مزاج کو تبدیل کریں اور ان لوگوں کو ان کا جائز مقام دیں جو کہ ان کا حق ہے۔ ہماری پچھلی نسلوں نے جو سلوک ابن صفی کے ساتھ روا رکھا ہے اس کی تلافی ہمارا قومی فرض ہے۔ اس سلسلے کی ابتداء راشد اشرف نے ابن صفی ۔ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا اور ابن صفی ۔فن اور شخصیت کی صورت میں پہلا پتھر پھینک کر کر دی ہے۔
ابن صفی ۔ ایک تنقیدی جا ئزہ
ابن صفی کی شخصیت کا مکمل جائزہ ابن صفی ۔ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا اور ابن صفی ۔فن اور شخصیت میں مکمل طور پر سامنے آگیا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی، عادات و اطوار، خاندان، اولاد،مشاغل غرض ہر پہلو کو نہایت عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے۔ ان کے فن کے تفصیلی پہلو خرم علی شفیق نے اپنی دو کتابوں سائیکو مینشن اور رانا پیلس میں پیش کئے ہیں۔ تاہم جیسا کہ راشد اشرف نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ
ابھی بہت کام کرنا ہے
اس جملے سے مجھ جیسے کم علم کو بھی تحریک ملی کہ ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جا ئے جن کی بدولت ابن صفی بر صغیر کے مشہور ترین ادیب تھے۔ ان کی کتاب ہاتھوں ہاتھ بک جاتی تھی۔ ان کے قارئین ان سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ ان کے لئے مسجدوں، مندروں اور کلیساؤں میں دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بدولت آج بھی دنیا ابن صفی کی دیوانی ہے۔ ان تمام باتوں کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔ تاہم اس جائزے سے پہلے دنیا میں سری ادب کا مقام اور اردو زبان میں اس کا حشر پیش خدمت ہے۔
جاسوسی ادب کسی بھی زبان میں ایک نہایت عمدہ مقام رکھتاہے۔ انگریزی زبان میں جاسوسی ادب کی تاریخ سر آرتھر کانن ڈائل سے شروع کی جا سکتی ہے جنہوں نے شرلک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن جیسے لا فانی کردار تخلیق کئے۔ اس وقت سے اب تک بہت اہم نام ہمارے سامنے آئے جن میں اگاتھا کرسٹی، وکٹر گن، آئن فلیمنگ، روتھ رینڈل، ایڈورڈ ڈی ہوچ، رابرٹ بی پارکر، رابرٹ لڈ لم، مائیکل کونولی، رابرٹ کریس، جان گریشم، ولبر سمیتھ، کین فولے، ہارلن کوبن، سٹیفن کونٹس، آئن رینکن اور ان جیسے بہت سے نام شامل ہیں ۔ ان میں ہر مصنف Best Seller کی فہرست میں شامل ہے ۔ اور ان تمام مصنفین کو بہت پذیرائی ملی اور مل رہی ہے۔ ان میں بہت سے مصنفین کی کتابوں پر فلمیں بن چکی ہیں۔
اردو زبان اس لحاظ سے بد قسمت ہے کہ ادب کے اس اہم گوشے کو مجرمانہ غفلت سے نظر انداز کیا اور جن لوگوں نے کچھ کرنا چاہا ان کو سرے سے ادیب ہی قرار نہیں دیا گیا۔ ابن صفی سے پہلے منشی تیرتھ رام فیروزپوری، ظفر عمر، اکرم الہ آبادی(یہ ابن صفی کے بعد ہی میدان میں آئے تھے لیکن کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے) وغیرہ نے اس ضمن میں طبع آزمائی کی تاہم ان میں سے اکثر نے انگریزی ادب کو مشرف بہ اردو کیا ۔ رہی سہی کسر اس طبقے نے پوری کردی جو قیام پاکستان سے ہی ہر ارباب اقتدار کا گن گاتا رہا اور جن کی کتابیں چند سو کے ہندسوں سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اکثر محالفین بھی انہی کی کتابیں پڑھا کرتے تھے مگر شاید یہ تسلیم کرنے سے ان کو ادبی قد کھونے کا ڈر رہا۔ اور تو اور ایسے ادیب جن کا ادبی سرمایہ ایک دو کتابوں تک محدود ہے وہ بھی ابن صفی کا تذکرہ استہزائیہ انداز میں کرتے رہے ہیں۔ آج دنیا بھر میں جاسوسی ادب ایک صنف ہے جس کی مانگ میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر ہمارے ہیں آج بھی ادبی ٹھیکے دار اس کی اہمیت کو شتر مرغ کی طرح ریت میں سر ڈال کر نظر انداز کر رہے ہیں ۔ اس تمام عمل میں نقصان اردو ادب کا ہے جو پہلے ہی عوام کی پہنچ سے دور ہو چکا ہے۔
اب ابن صفی کے فن کا جائزہ پیش خدمت ہے
ہر مصنف کسی نہ کسی جذبے یا کسی تحریک کے تحت لکھنا شروع کرتا ہے۔ ابن صفی نے لکھنا کیسے اور کیوں شروع کیا اس کی وجہ وہ خود ایک مضمون بقلم خود (۱۹۷۰ء عالمی ڈائجسٹ) مین بیان کیا ہے:
جاسوسی ناولوں کا سلسلہ ۱۹۵۲ء میں شروع کیاتھا...اس کی تحریک ایک مباحثے سے ہوئی۔ ایک بزرگ کا خیال تھا کہ اردو میں صرف جنسی کہانیاں ہی مارکیٹ بنا سکتی ہیں۔ میں ان بزرگ سے اتفاق نہ کر سکا! میرا خیال تھا کہ اگر سوجھ بوجھ سے کام لیا جائے تو اور بھی راہیں نکل سکتی ہیں۔ کچھ اور بھی کرنا چاہیے کا مطالبہ بالآخر پورا ہو گیا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ایک جاسوسی ماہنامے کی داغ بیل ڈالی گئی اور میں اس کے لئے ہر ماہ ایک مکمل ناول لکھنے لگا۔
یوں اس سلسلے کا آغاز ہوا جو آج بھی قارئین کی دلچسپی کا باعث ہے۔ اپنے اسی مضمون میں انہوں نے کھل کر اپنے ان نظریات کا ذکر کیا ہے جس کو انہوں نے اپنے ناولوں میں پیش کیا۔ انہی کی زبانی:
مجھے اس وقت بڑی ہنسی آتی ہے جب آرٹ اور ثقافت کے علمبردار مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ادب کی بھی کچھ خدمت کروں۔ان کی دانست میں شاید میں جھک مار رہا ہوں ۔ حیات و کائنات کا کون ساایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب میں نہ چھیڑا ہو۔ لیکن میرا طریق کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا ہے۔ میں بہت زیادہ اونچی باتوں اور ایک ہزار کے ایڈیشن تک محدود رہ جانے کا قائل نہیں ہوں۔ میرے احباب کا اعلٰی وارفع ادب کتنے ہاتھوں تک پہنچتا ہے اور انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کس قسم کا انقلاب لاتا ہے۔ افسانوی ادب خواہ کسی پائے کا ہو محض ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی معیار کی تفریح فراہم کرنا ہی اس کا مقصد ہوتا ہے ۔ جس طرح فٹ بال کا کھلاڑی شطرنج سے نہیں بہل سکتا۔ اسی طرح ہماری سوسائٹی کے ایک بہت بڑے حصے کے لئے اعلٰی ترین افسانوی ادب قطعی بے معنی ہے۔ تو پھر میں گنے چنے ڈرائنگ روموں کے لئے کیوں لکھوں؟ میں اسی انداز میں کیوں نہ لکھوں جسے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ شاید اسی بہانے عوام تک کچھ اونچی باتیں بھی پہنچ جائیں۔
ابن صفی ابھی صرف انیس برس کے ہی تھے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اس دور میں جو کچھ ہوا اس نے بہت سے ذہنوں پر انتہائی دور رس اور گہرے نتائج مرتب کئے۔ ابن صفی کا ذہن بھی اس سے متا ثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ ایک حساس طبیعت شاعر اور ادیب کا ذہن ہے جو کسی بھی واقعے کا اثر عام آدمی سے زیادہ لیتا ہے۔ یہ وہی عرصہ ہے جس کے دوران دو سری عالمی جنگ کے اثرات بھی مٹائے نہ مٹتے تھے۔ ایک عجیب صورت حال تھی جس سے ہر شخص بری طرح متاثر تھا۔ اور پھر انہوں نے ان واقعات کا تجزیاتی نتیجہ اخذ کیا اوربجائے کسی منفی رجحان کو ذہن میں جگہ دینے کے ایک مثبت اور منفرد سوچ اپنائی۔ ان کے مطابق:
آدمی میں جب تک قانون کے احترام کا سلیقہ نہیں پیدا ہو گا یہی سب کچھ ہوتا رہے گا۔ یہ میرا مشن ہے کہ آدمی قانون کا احترام سیکھے اور جاسوسی ناول کی راہ میں نے اسی لئے منتخب کی تھی۔ تھکے ہارے ذہنوں کے لئے تفریح بھی مہیا کرتا ہوں اور اور انہیں قانون کا احترام کرنا بھی سکھاتا ہوں
ابن صفی کا تعلق الہ آباد سے تھا اور بنیادی طور پر وہ شاعر تھے۔ ان دونوں باتوں کا اثر جہاں تہاں ان کی ذات پر محسوس کیا جا سکتا ہے وہیں پر یہ اثرات ان کی تحاریر میں بھی نظر آتے ہیں۔ آپ نے نہایت عام فہم زبان ایک دلکش پیرائے میں پیش کی جو اس وقت یعنی ۴۰ء اور ۵۰ء کے زمانے میں جب مولانا ابوالکلام آزاد جیسے جناتی زبان استعمال کرنے والے ادیب موجود ہوں ، ایک کمال تھا۔ عوام ہوں یا خواص سب آپ کی تحریر کے دیوانے اسی لئے تھے کہ یہ تحریر ان ہی کی عام زبان میں انھی کے لئے تھی۔ مجھے ذاتی طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ابن صفی کی کتاب آپ سے مکالمہ کر رہی ہو۔اور کبھی کبھی تو آپ خود کو بھی ان کتابوں کا ایک حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ جب دوسرے مصنفین اپنی قابلیت کا اظہار مشکل ذبان اور ادق الفاظ میں کر رہے تھے ابن صفی نے سادہ پیرائے میں اردو ذبان کا سب سے نادر نمونہ پیش کیا۔اور قاری کی توجہ فیروزاللغات کی بجائے کتاب پر ہوتی تھی۔ اگر دو لفظوں میں ابن صفی کی زبان کا مطالعہ کیا جائے تو وہ سادہ اور سلیس ہوں گے۔
ابن صفی کو باقی تمام مصنفین بلکہ غیر ملکی مصنفین پر ایک برتری حاصل تھی اور وہ تھی ان کی کردار نگاری۔ دنیا کے مشہور ادیب اور ان کے تخلیق کردہ کرداروں کا ایک جائزہ پیش ہے
Victor Gun - Iron Sides
Ian Flemming - James Bond
Robert B Parker - Inspector Spencer
Ruth Rndell - Inspector Wexford
Michael Connelly - Harry Bosch
Robert Crais - Elvis Cole, Joe Pike
Harlan Coben - Myron Bolitar
Faye Kellerman - Rina & Peter
Robert Ludlum - Jason Bourne
Ian Rankin - Inspector Rubeus
Edward De Hoch Nick Velvet
ان تمام مصنفین کے تخلیق کردہ کرداروں کی تعداد ایک یا دو ہے۔ مگر ابن صفی نے ایک دو نہیں بیسیوں کردار تخلیق کئے ۔ سب اپنی علیحدہ علیحدہ خصوصیات و عادات کے ساتھ ۔ ابن صفی کے دونوں سلسلوں میں مرکزی کرداروں کے علاوہ ان گنت کردار قارئین کے ذہنوں میں نقش رہیں گے۔ ان کے سلسلے جاسوسی دنیا کے مرکزی کردار احمد کمال فریدی ہیں جو ایک سنجیدہ، متین، بردبار، دلیر، نڈر، قانون کا احترام کرنے اور کروانے والے کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا دست راست ساجد حمیدچلبلا، شوخ، نڈر، ہمہ وقت تبدیلی کا شائق ہے جو ہر معرکے میں ان کے ساتھ ہے۔ ان کرداروں کے علاوہ انور، رشیدہ، جگدیش، امر سنگھ، شہناز، نیلم، ریکھا،قاسم، چپاتی بیگم اور نہ جانے کتنے ہی کردار ہیں جو ہمیشہ ہمارے ذہنوں پر راج کریں گے۔ ان کے دوسرے سلسلے عمران سیریز کے مشہور و معروف کردار علی عمران جو ایک نہایت شوخ و شنگ، ہر چیز کو چٹکیوں میں اڑا دینے کو ماہر اور ایک حماقت انگیز ذہانت کا مرکب ہیں۔ اس سلسلے میں بلیک زیرو، طاہر، صفدر، روشی، جولیا، تنویر، جوزف، سلیمان، جعفری، سر سلطان، سر رحمٰن، اماں بی، ثریا،ظفرالملک، جیمسن مشہور و معروف ہیں۔
ان کے علاوہ نجانے کتنے کردار اپنی اپنی خصلتوں اور عادات کے ساتھ ان کتابوں میں زندہ ہیں۔ان مثبت کرداروں کے علاوہ ابن صفی نے لافانی منفی کردار تخلیق کئے جن میں سنگ ہی، تھریسیا، فنچ، جابر، قلندر بیابانی، لیونارڈ، نانوتہ، کنور شمشاد، ڈاکٹر سلمان، جیرالڈ شاستری ۔ یہ تمام کردار پنے اپنے اطوار اور خصائل سمیت اسی دنیا کا حصہ ہیں جو ابن صفی نے اپنے قلم سے تعمیر کی۔یہاں یہ بات کہنا بے جا نہ ہو گا اتنے جاندار کرداروں کی تخلیق کے بعد ، جب تک اردوزبان زندہ ہے ابن صفی کا نام اور ان کے کردار ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ابن صفی کی منظر نگاری کے متعلق میرے نزدیک ایک یہی بات کافی ہے کہ جسے ایک مصور کا کینوس جس میں جا بجا رنگ بکھرے ہوئے ہیں اور یہ تصویر پوری آب و تاب کے ساتھ قاری کے ذہن پر نقش ہو جاتی ہے۔ ابن صفی ہر ایک منظر پوری جزئیات کے ساتھ لکھتے ہیں ۔ مجھے علم نہیں کہ فزارو، ٹپ ٹاپ، نیاگرہ، آرلکچو، مئے پول جیسے کلب اور ریستوران موجود ہیں یا نہیں مگر اپنی تمام سہولیات کے ساتھ ابن صفی کی آباد کردہ دنیا میں موجود ہیں۔ قاری خود بھی تارجام، رام گڑھ، سردار گڑھ ، نصیرآبادجیسے شہروں میں خود کو رہائش پذیر محسوس کرتے ہیں۔ میں یہاں مشہور نوبل انعام یافتہ مصنف گارشیا مارکیز کے متعلق کہے گئے چند جملے لکھنا چاہوں گا:
اگر میکسیکو اور سپین دنیا کے نقشے پر زندہ نہ ہوتے تو پھر بھی وہ مارکیز کی تحریروں میں زندہ ہوتے۔
تو یہ کہ فزارو، ٹپ ٹاپ، نیاگرہ، آرلکچو، مئے پول، تارجام، رام گڑھ، سردار گڑھ ، نصیرآباد دنیا کے نقشے پر موجود ہوں یا نہ ہوں مگر ابن صفی کی تحریر اور قاری کے ذہن میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ میں صرف چند مثالیں پیش کروں گاکہ ابن صفی کس کمال کی منظر کشی کرتے ہیں:
تاریکی آہستہ آہستہ غائب ہوتی جارہی تھی۔آسمان میں نندا سے تارے جھپکیاں سی لیتے معلوم ہورہے تھے۔ ہر طرف ایک پر اسرار روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والا سناٹا تھا۔ دور تک پھیلے ہوئے جنگل بیکراں آسمان کی وسعتوں سے سرگو شیاں کرتے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔ (پو پھٹنے کا منظر کس کمال سے قاری کو دکھایا)
اس کا سر چکرا رہا تھا! آنکھوں میں دھند سی چھا رہی تھی! اس دھند میں چنگاریاں بھی تھیں جو لا تعداد جگنوؤں کی طرح ٹمٹماتی پھر رہی تھیں! پھر یہ دھند آہستہ آہستہ گہری تاریکی میں تبدیل ہوتی گئی! اور کچھ دیر بعد اس تاریکی میں رہ رہ کر روشنی کو تیز جھماکے ہونے لگے۔(ہوش اور بے ہوشی کے درمیان کی کیفیت)
محکمہ سراغ رسانی کی عمارت کی دیواریں جو بڑے بڑے چوکور پتھروں کو جوڑ کر بنائی گئی تھی، اپنے استحکام کا اعلان کر رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ موسم کی شر انگیزیوں سے بے نیاز کہر کی گہری چادر پر طنزیہ ہنسی ہنستی ہوئی کہہ رہی ہوں کہ ہمیں کیا پرواہ ہے، ہم میں تو ایک رخنہ بھی نہیں جس سے اس سردی کی ٹھنڈی لہریں ہمارے اندر پہنچ سکیں۔ ہمارے قلب میں ایسے ایسے راز دفن ہیں جن کی ہوا بھی دنیا کو نہیں لگی۔
ہرنابغہ اپنے عہدمیں رہ کر بھی اس عہد سے آگے کا کام کرتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے زمانے بلکہ آنے والے ہر زمانے کے لئے کام کرتا ہے۔ابن صفی اس تعریف پر پورے اترتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی تحریر میں ایسے تصورات پیش کئے جن میں سے کچھ تو ان کی زندگی میں اور کچھ ان کے بعدمن و عن پورے ہوئے۔انہوں نے بغیر آواز جہاز و آبدوز، مصنوعی دھند، ٹریفک کنٹرول کرنے والے روبوٹ، مصنوعی آندھی، ایٹم بم سے بھی خطرناک شعاعی ہتھیاروں، لاسلکی آلات، بغیر تاروں کے ٹرانسمیٹرز، خلائی جہاز، لاسلکی ٹیلے وژن، کیمیاوی ہتھیاروں غرض کون سا تصور نہیں تھا جو انہوں نے اپنی کتابوں میں نہ لکھا ہو۔ ان چیزوں پر آج تو شاید ہمیں حیرت نہ ہو مگرآ پ آج سے ساٹھ سال پہلے کا زمانہ سوچئے۔ اس وقت جب نہ بجلی تھی، نہ موبائل، نہ ٹیلے وژن نہ پاکستان میں سائنسی سوجھ بوجھ۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت تو یہ باتیں صرف دیوانے کی بڑ ہی لگتی تھیں۔ مگر آج اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز چیزیں ہمارے علم میں ہیں۔ تبھی تو اقبال نے کہا تھا:
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا کہیں مہ کامل نہ بن جائے
ابن صفی کو ان کے ہم عصروں سے یہی بات ممتاز بناتی ہے کہ انہوں نے اپنے قد سے بڑھ کر نکل جانے کی کامیاب کوشش کی۔ خود کے اپنے عہد کے روایتی علم تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ اپنے عہد سے آگے کا سوچا۔ مستقبل کیا ہواگا۔ اس وقت کیا سائنسی ترقی ہو سکتی ہے ۔ شاید یہی وہ کوشش تھی کہ آج بھی ابن صفی اپنی پوری آب و تاب سے زندہ ہیں اور ان کے ہم عصر شاید چندسرکاری لائبریریوں کی زینت بن کر رہ گئے۔
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ابن صفی نے اپنی پوری زندگی صرف دو ملک یعنی بھارت اور پاکستان ہی دیکھے مگر ان کی کتابیں ان کے قاری کو دنیا جہان کی سیر کروا دیتی ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں مصر، جزائر غرب الہند، امریکہ، جنوبی امریکہ، انگلستان، سپین، اٹلی، فرانس،عرب، یونان، ایران، تاہیتی اور افغانستان کا اتنا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ جیسے انہوں نے خود وہاں جا کر یہ جگہیں دیکھی ہوں۔ یہ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ تھا جس کی وجہ سے یہ منظر کشی نہیں بلکہ ایک سفرنامہ بن گیا۔ انہی کی ذبانی کہ:
میری چارپائی مجھے جہانوں کی سیر کرواتی ہے۔
اثرات ابن صفی
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ابن صفی کی تحریر اردو ادب کی ان اصناف پر پورا ترتی ہے:
- ناول (سری ۔ ادبی)
- مزاح نگاری
- سفرنامہ
- انشائیہ
- افسانہ
- غزل
- نظم
ابن صفی نے اردو ادب میں گراں قدر اضا فہ کیا۔ ان کے اثرات مٹائے نہیں مٹتے۔ ہر صنف میں انہوں نے اس کمال کے شہ پارے تخلیق کئے ہیں کہ جن کی نظیر نہیں ملتی۔ اگر ہم صرف ان کے پیش رس ہی کا بہ نظر غائر جائزہ لیں تو یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ انہیں اردو کی کس صنف میں شامل کیا جائے۔ ان کا ایک ناول تزک دو پیازی اردو ادب میں مزاح نگاری ایک شائستہ نمونہ ہے۔ انشائیہ نگاری میں ان کے فن کا ادراک ہمیں ان کی کتاب ڈپلومیٹ مرغ پڑھ کر ہوتا ہے۔ میرے خیال میں متذکرہ اصناف میں ہر صنف میں ابن صفی کی مہارت پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ اور آپ بھی راشد اشرف کی اس بات سے متفق ہو ں گے کہ
ابھی بہت کام کرنا ہے۔
ابن صفی جیسی ہمہ جہت شخصیت پر مجھ جیسے ناعلم کا قلم اٹھانا ان کی ادبی شخصیت کی مزید بلندی کا باعث نہیں بلکہ مجھ جیسے جاہل کے لئے ایک اعزاز ہے۔ اور جہاں تک ابن صفی کے ادبی مقام کا تعلق ہے تو مجھے یقین کامل ہے کہ بہت جلد قارئین خود اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ ابن صفی ایک ہمہ جہت شخصیت اور ایک انتہائی اعلی پائے کے ادیب تھے جن کی ادبی حیثیت طے کرنے کا کوئی پیمانہ مقرر نہیں ہو سکتا۔ اور مجھے اس بات کا اتنا یقین ہے جتنا کل سورج کے طلوع ہونے کا۔