اگر دنیا سے پیہم اس طرح انکار ہو جائے

نمرہ

محفلین
اگر دنیا سے پیہم اس طرح انکار ہو جائے
پرانا خواب شاید آنکھ میں بیدار ہو جائے
کسی کے نام کی اس میں اگر تکرار ہو جائے
محبت رفتہ رفتہ روح کا آزار ہو جائے
مسافر وقت کے پیہم اسی کوشش میں رہتے ہیں
یہ صحرا ختم ہو جائے یہ دریا پار ہو جائے
سنا ہے زندگی آسان ہو جاتی ہے اس کے بعد
اگر چاروں طرف دل کے کوئی دیوار ہو جائے
کسی آواز کے کومل سروں کو سن کے لگتا ہے
کہ جیسے جنگلوں میں راستہ ہموار ہو جائے
ہم ایسے سست رہ رو چل پڑیں جس کےسہارے پر
وہی آہستہ آہستہ سبک رفتار ہو جائے
اسے وعدے محبت کے کہاں تک باندھ سکتے ہیں
ہمارے خال و خد سے جب کوئی بیزار ہو جائے
ہم اپنے حق میں اک دعویٰ وہاں بھی کر نہ پائیں گے
بطور خاص محشر میں اگر دربار ہو جائے
خدائے لم یزل اتنی تو بے کاری نہیں اچھی
کہانی میں مری میرا کوئی کردار ہو جائے
 

صابرہ امین

لائبریرین
اسے وعدے محبت کے کہاں تک باندھ سکتے ہیں
ہمارے خال و خد سے جب کوئی بیزار ہو جائے

پڑھ کر دل کو کچھ ہوا ہے ۔ ۔ خدا نہ کرے ۔ ۔

عمدہ غزل ۔ ۔ ڈھیروں داد ۔ ۔ :)
 

La Alma

لائبریرین
عمدہ کاوش ہے۔
خدائے لم یزل اتنی تو بے کاری نہیں اچھی
کسی اور طرح کہیں تو شاید زیادہ بہتر ہو۔ پہلا خیال ذہن میں یہی آتا ہے کہ جیسے روئے سخن خدا لی طرف ہو۔ حالانکہ شاعر نے بے کاری کا لفظ اپنے لیے استعمال کیا ہے۔
 
Top