اک فائدہ یہ بھی تو ہے آشفتہ سری کا - ریحان اعظمی

حسان خان

لائبریرین
اک فائدہ یہ بھی تو ہے آشفتہ سری کا
احساس ہی ہوتا نہیں کچھ دربدری کا
ہم تو اسی شخص نے بخشی ہے جراحت
اک شور تھا جس شخص کی مرہم نظری کا
وہ عشق کے مفہوم سے واقف بھی نہیں ہیں
دعویٰ ہے اُنہیں عشق میں کیوں جادوگری کا
معلوم ہے سب کچھ انہیں انجان ہیں پھر بھی
دانستہ یہ انداز ہے کیوں بے خبری کا
یہ تم ہو مرے پاس کہ یہ وہم ہے میرا
یا خواب میں ہاتھ آیا ہے دامن یہ پری کا
ہوں بجھنے کے نزدیک ہواؤں سے بچا لو
بھڑکا ہوا شعلہ ہوں چراغِ سحری کا
شامل ہوا وہ شخص بھی اب کوزہ گروں میں
کل تک جو نمونہ تھا مری کوزہ گری کا
تو نے مجھے تنہا کسی منزل پہ نہ چھوڑا
ممنون ہوں غربت میں تری ہمسفری کا
تکیہ میرے بازو ہیں تو بستر یہ زمیں ہے
کیا پوچھتے ہو حال مری شب بسری کا
کیوں ہاتھ دعاؤں کے لیے کوئی اٹھائے
پہرہ ہو دعاؤں پہ اگر بے اثری کا
ٹکسال میں لفظوں کی کوئی بات نہ ڈھالو
ہوتا ہے تصادم یہاں کھوٹی سے کھری کا
ریحان مرے زخموں کا باعث ہے مسیحا
راس آیا نہ ماحول ہمیں چارہ گری کا
(ریحان اعظمی)
 

طارق شاہ

محفلین
ہم کو! اُسی شخص نے بخشی ہے جراحت
اک شور تھا جس شخص کی، مرہم نظری کا
بہت ہی عمدہ کلام شیئر کرنے پر تشکّر اور بہت سی داد​
بہت خوش رہیں صاحب اور یوں ہی لکھتے رہیں​
 
Top