اپنے کمرے سے ابو ظہبی تک

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
23 تاریخ دن 2 بجے تک تو مجھےیہ بھی نہیں پتہ تھا کہ میں کس وقت جاؤں گا میں اپنے دوستوں کے ساتھ اس سال کا آخری کرکٹ میچ کھیل رہا تھا کہ مجھے عابد صاحب کا فون آیا (یہاں جن کے پاس میں کام کر رہا ہوں) اس وقت پتہ چلا کہ وقت صبح 12 بجے کا ہو گیا ہے کرکٹ میچ کا بعد میں لکھوں گا۔ میچ کے بعد سب دوستوں کے ساتھ گھر آیا غسل کرنے کے بعد اپنے کمرے میں گیا کچھ دیر سوچا کہ کل میں یہاں سے چلاجاؤں گا ابھی یہی سوچ رہاتھا کہ امی جی کی آواز آئی جاؤں نا رشتے داروں سے مل آؤ تم گھر پر نہیں تھے تو سب ملنے کے لیے آئے تھے خاندان میں کسی حدتک مجھے بہت پسند کیا جاتا ہے بقول ان کے میں فرمابردار ہوں ۔ ابھی میں جانے ہی لگاتھا کہ باری باری سب پھر مجھے ملنے کے آگے جو جو ملتا تھا مجھے اور احساس ہوتا تھا کہ میں ان سے دور جارہا ہوں ابھی کچھ ہی رشتے داروں سے ملا تھا کہ باہر بیل ہوئی پتہ چلا سب دوست آئے ہوئےہیں اب میرے دوست بھی مختلف قسم کے ہیں مثال کے طور پر مذہبی دوست بھی ہیں جن میں علاقے کے علماءاکرام بھی شامل ہیں ۔ ادبی دوست بھی، کرکٹ کے دوست بھی ، محلے کے دوست بھی ، میلادکمٹی کے دوست بھی اور پتہ نہیں کون کون سے سب سے باری باری ملا کچھ نے تو دعوت کی اور ان کے ساتھ چلا گیا پھر پتہ نہیں کیا وقت تھا میں سوچ رہا تھا اپنے کمرے میں جا کر اپنی کاپی میں کچھ آخری لفظ لکھوں گا لیکن اس کے بعد مین کسی نے موقع ہی نہیں دیا رات ساری ان کے ساتھ رہا جب صبح کے 4 بجے تو میں اپنے دوست اسد کو بتا کر سونے چلاگیا باقی سب وہی بیٹھے رہے اور میں سوتا رہا میں اس کے بعد اپنے کمرے میں نہیں جا سکا:( صبح جلدی اٹھ کر ناشتہ کیا سب دوست پہلے ہی موجود تھے سب تیار تھے اور پھر جانے کا وقت آگیا
 

زینب

محفلین
توبہ ہےخرمے۔تین گھنٹ کی فلائٹ ہے یہ پاس ہی ہو۔۔۔۔ یہاں‌آنے کی ۔سٹوری ایسے درد ناک لکھ رہے ہو جیسے شادی کی وقت لڑکی کی ڈولی اٹھنے کی کہانی ہو دکھی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔:rollingonthefloor:

کم از کم مجھے یہی لگ رہا ہے ۔اب اگے لکھو۔جب میں اٹھا تو بارات دروازے پر تھی۔۔۔۔۔۔۔:rollingonthefloor:
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
گھر سے ائیر پورٹ تک

سب مشکل وقت یہی تھا جب میں اپنے گھر والوں سے ملاقات کر رہا تھا سب سے پہلے ابو جی سے ملا انھوں نے بہت پیار کیا مجھے ایسالگا کہ میں ان سے اتنے دور جا رہا ہون کہ یہ مجھے یامیں ان سے کبھی نہیں مل سکوں گا۔ ابو جی کو آفس جانے کا کہا اور اس کے بعد باری باری سب سے ملا امام کا نتیجہ تھا وہ صبح ہی مل کر چلا گیا عبدالاحد روتا رہا آمی جی ،،،، اس کے بعد سب سے آخر میں اپنی بہنوں سے سے ملا جو میرا سب کچھ ہیں جن سے مجھے بہت محبت ملی جو مجھے اس وقت بھی بہت یاد آ رہی ہیں مجھے کبھی کسی بھی چیز کی پرشانی نہیں ہوتی تھی کھانہ، کپڑے، جوتے ہر وہ چیز جس کی مجھے ضرورت تھی اس کا خاص خیال رکھتی تھی اب وہ سب کچھ مجھے خود کرنا پڑتا ہے اللہ تعالیٰ میرے بہنوں کو ہمیشہ خوش رکھے آمین۔ اس کے بعد اپنے دوستوں اور بھائیوں کے ساتھ آئیر پورٹ آیا ۔ نوید ، اسد ، واجد، واحد، شیعب ، سہیل ، منیر ، عرفان ، تنویر ، عدنان ، وسیم، ظفر ، اور بہت سے دوست آئے تھے جن کے نام مجھے یاد نہیں رہے ان سب سے ملنے کے بعد اپنے کزن یاسر پھر اپنےبھائی ثاقب اور عمر سے ملا جن کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میں بھی برداشت نا کر سکا اور ۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔ اس کے بعد میں اندر چلا گیا ساری کاروائی پوری ہوئی تو اس کے بعد جہاز کا انتطار کرتا رہا اس دوران بے حساب دوستوں ،رشتے داروں اور اس کے بے شمار فون ائے اس دوران جہاز بھی آ گیا اور میں آرام آرام سے جہاز کی طرف گیا اور اپنے بھائی عمر ،اپنے ابو جی اپنے چچا جی کو آخری فون کیا اور موبائل آف کر کے جہاز میں بیٹھ گیا
 
خرم کو مت روکو ۔ تین مہینے بعد سچ مچ یہ راتوں کو روئے گا ۔ چھے مہینے بعد عادت ہو جائے گی اور پھر بے حس ۔۔۔میری طرح
 

زینب

محفلین
نہین بھائی جی سچی مچی مجھے رونا آرہا ہے جب میرا بھائی روس گیا تھا تو ایسے ہی اس کا حال تھا۔۔۔۔۔۔۔اسے ہم فون کرتے تھے تو سب سے پہلے پوچھتے تھے کھانا اچھا ملتا ہے کھا لیا۔۔۔۔خرم نہٰن روے گا۔۔۔۔۔۔۔اسے اس کے یہاں آنے سے گھر والوں‌کو ملنے والی آسانیاں خوشیاں اسے رونے نہین دیں‌گی۔۔۔۔۔خڑم سچی میرے بھائی میرے دل سے آپ کے لیے ڈھیروں دعایئں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چل اب اتنا ایموشنل نا کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
پاکستان سے ابو ظہی۔


میری سیٹ 30 c تھی میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک لڑکا اور ایک موٹا سے آدمی بھی بیٹھے ہوئے تھے میں نے اپنا ہاتھ میں پکڑا ہوا سامان اوپر خالی جگہ میں رکھا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا یہ میرا پہلا ہوائی سفر تھا ۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں کہی دفعہ جہاز میں بیٹھ چکا ہوں کچھ نیا نہیں محسوس ہورہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ یہ میرا روٹین کا سفر ہے میں اپنے ساتھ کچھ کتابیں بھی لایا تھا ان میں سے ایک کتاب جو کہ عمیرہ احمد کا ناول لاحاصل تھا سوچا تھا جب جہاز اڑے گا تو میں اس کو پڑھوں گا اسی دوران ایک میزبان لڑکی میرے پاس آئی اور پینے کے لیے ٹھنڈا لائی میں نے اس سے پینے کے لیے گلاس لیا اسی دوران اس نے میری گود میں پڑی ہوئی کتاب دیکھ لی اور پوچھنے لگی کیا آپ نے یہ کتاب پڑھ لی ہے میں نے کہا نہیں پڑھنے کے لے ہی لے کر آیاہوں کہنے لگی اچھا ناول ہے ۔ میں نے کہا امید ہے اچھا ہی ہو گا کیوں کے اچھی لکھاری کا ہے ۔ پھر اس نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کیا عمیرہ کے اور ناول پڑھے ہیں تو میں نے پوچھا کون کون سے۔ اور نام لینا شروع کر دیا۔ حاصل، پیرکامل، میری ذات ذرہ بے نشاں ، ہم کہاں کے سچے تھے، دربارِ دل وغیرہ وغیرہ بہت خوشی سے بولی کیا آپ نے سب پڑھے ہیں میں نے بھی سب پڑھے ہیں میں نے پوچھا اس کے علاوہ کس کس کو پڑھا ہے اپ نے اسی دوران اس کو کسی نے آواز دے دی اور وہ چلی گئی میں نے پانی پیا اور کتاب پڑھنے لگ گیا اس کے بعد جہاز رن وے پر پہنچا اور اڑنے کے لیے رفتار تیز کرنے لگا اور میں کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا جہاز جب اڑنے لگا تو زمین دور ہوتی ہوئی نظر انے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے جہاز آسمان کی بلندی پر پونچ گیا جہاز کبھی کبھی ڈگمگا جاتا تھا اور مجھے ایک عجیب سا خوف آنے لگ جاتا کچھ دیر کے بعد جہاز آرام سے اڑنے لگا اس کے بعد میں کتاب پڑھنے میں لگ گیا اور مجھے پتہ نہیں چلاکہ ہم کہاں کب کیسے پونچے اسی دوران ایک دفع کھانا دیا گیا اور پھر چائے کا پوچھا گیا ۔ جب جہاز اڑا تھااس وقت تو بڑا مزہ ایا تھا لیکن اترتے وقت جب جہاز زمین کو چھونے لگا تو ایک زور کا جھٹکالگا جس کے لیے میں تیار نہیں تھا اور پھر دل اوپر نیجے ہوا جہاز سفر کے دوران کبھی اوپر اور کبھی نیجے ہوتا رہا لیکن اس وقت تو مجھے ایسا ہی لگا جیسے کبھی آسمانی جھولے میں بیٹھے تو جھولا جب اوپر جائے اور نیجے آئے تو ایسا محسوس ہوتا تھا خیر جہاز سے اتر کا ائیر پورٹ کے اندر جانا تھا جس کےلیے میں تیار تھا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میرے بہن ، بھائیوں آپ میرے وجہ سے پرشان نا ہوں انشاءاللہ مجھے کچھ نہیں ہو گا میرے ساتھ آپ سب کی دعائیں جو ہیں یہ تو بس میں اپنے دل کی تسلی کے لیے لکھ رہا ہوں
 

مغزل

محفلین
پاکستان سے ابو ظہی۔


میری سیٹ 30 c تھی میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک لڑکا اور ایک موٹا سے آدمی بھی بیٹھے ہوئے تھے میں نے اپنا ہاتھ میں پکڑا ہوا سامان اوپر خالی جگہ میں رکھا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا یہ میرا پہلا ہوائی سفر تھا ۔ لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں کہی دفعہ جہاز میں بیٹھ چکا ہوں کچھ نیا نہیں محسوس ہورہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ یہ میرا روٹین کا سفر ہے میں اپنے ساتھ کچھ کتابیں بھی لایا تھا ان میں سے ایک کتاب جو کہ عمیرہ احمد کا ناول لاحاصل تھا سوچا تھا جب جہاز اڑے گا تو میں اس کو پڑھوں گا اسی دوران ایک میزبان لڑکی میرے پاس آئی اور پینے کے لیے ٹھنڈا لائی میں نے اس سے پینے کے لیے گلاس لیا اسی دوران اس نے میری گود میں پڑی ہوئی کتاب دیکھ لی اور پوچھنے لگی کیا آپ نے یہ کتاب پڑھ لی ہے میں نے کہا نہیں پڑھنے کے لے ہی لے کر آیاہوں کہنے لگی اچھا ناول ہے ۔ میں نے کہا امید ہے اچھا ہی ہو گا کیوں کے اچھی لکھاری کا ہے ۔ پھر اس نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کیا عمیرہ کے اور ناول پڑھے ہیں تو میں نے پوچھا کون کون سے۔ اور نام لینا شروع کر دیا۔ حاصل، پیرکامل، میری ذات ذرہ بے نشاں ، ہم کہاں کے سچے تھے، دربارِ دل وغیرہ وغیرہ بہت خوشی سے بولی کیا آپ نے سب پڑھے ہیں میں نے بھی سب پڑھے ہیں میں نے پوچھا اس کے علاوہ کس کس کو پڑھا ہے اپ نے اسی دوران اس کو کسی نے آواز دے دی اور وہ چلی گئی

ظالم سماج۔۔۔۔ آڑے آگیا۔۔:tongue:
کیا فلمی اسٹوری ہے ،۔، واہ واہ ۔۔ ۔۔ مگر یہ کس رقیب نے آواز دی تھی ’’ پیاری سی لڑکی ‘‘ کو۔۔۔:battingeyelashes: :rollingonthefloor:
 

مغزل

محفلین
مجھے حیرت ہے کہ خرم کو وہاں بھی کمپیوٹر مہیا ہے ۔۔ شاید ساتھ لے گئے تھے موصوف۔۔
 

تیشہ

محفلین
میری سیٹ 30 c تھی میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک لڑکا اور ایک موٹا سے آدمی بھی بیٹھے ہوئے تھے میں نے اپنا ہاتھ میں پکڑا ہوا سامان اوپر خالی جگہ میں رکھا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خرم ایکبار مجھے بھی دو نہایت ہی ناقابل ِبرداشت قسم کے دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے پیسنجر ملے تھے بدقسمتی سے میری سیٹ ان دو کے درمیان تھی :notworthy: سر پے خوشبو دار تیل لگائے ہوئے ۔۔ منہ اور دانت پان سے سرخ ۔۔،بات کرتے تو منہ سے تھوک :tongue: اور دونوں اک دوسرے سے باتیں کرتے مجھے بیچ میں دیکھکر ، پھر تو کچھ زیادہ ہی باتیں کرنے لگے ۔ :chatterbox:
میرا دل کرے انکے منہ بند کرکے جہاز سے نیچے دھکا دے دون :tongue: نہایت ہی دیہاتی قسم کے ،۔۔
پاجی ، پاجی کرکے لگے رہے ، اور جب میں ادھر منہ کروں تو دائیں والا نظر آئے :noxxx: دوسری طرف منہ کروں تو بائیں والا :noxxx:
ابھی بہت لمبا سفر تھا میرا پاکستان سے نیویارک تک کا ، پھر جب مجھ سے برداشت نا ہوا ان دونوں کے منہ ، اور تھوک ، اور خوشبو والے چپڑے سر پے تیل :noxxx: تو میں نے اٹھگر اپنی سیٹ چینج کروالی :battingeyelashes:
جیسے ہی میں اٹھکر کسی دوسری سیٹ پے گئی ، میں نے پلٹ کر دیکھا تو دونوں چپُ تھے :rollingonthefloor:
میں نے شکر کیا ،۔۔ مزید تھوکوں سے بچت ہوئی میری ۔ :party:
 

طالوت

محفلین
--------
میرا دل کرے انکے منہ بند کرکے جہاز سے نیچے دھکا دے دون :tongue: نہایت ہی دیہاتی قسم کے ،۔۔
---------
خالہ ، یہ کیا بات ہوئی بھلا :idontknow: دیہاتی تو آپ بھی ہیں اور میں بھی ، بلکہ کئی ایک مگر ہماری حرکتیں یقیننا ایسی نہیں ، اور بالفرض دیہی زندگی چھوڑنے کے بعد اگر ہمیں یہ عقل آئی ہے تو دیہات میں بھی ایسے گئے گزرے لوگ کم کم ہی دیکھے ہیں میں نے ۔۔

کتاب لکھنے کی تجویز عمدہ ہے ۔۔۔ :)
وسلام
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جی ہاں بہ ساری سہولیات ہیں ماں ، بہن ، بھائی ، ابو ، بھابھی ، دادی جی ، امام اور عبدالاحد کے علاوہ سب کچھ ہیں ۔ اور وہ بھی تو نہیں ہے یہاں
 
Top