اپنا اپنا سچ

بادشاہ سلامت بہت خوش لباس تھے اور زندگی میں صرف ایک ہی شوق رکھتے تھے۔۔۔اور وہ تھا نت نئے لباس زیبِ تن کرنا !
انکے ذاتی ملبوسات کیلئے باقاعدہ ایک محکمہ قائم تھا جس میں کئی ملکوں کے درزی بھرتی کئے گئے تھے۔ قاعدہ یہ تھا کہ جو لباس ایک دفعہ پہن لیا جاتا،دوبارہ اسکو کبھی استعمال میں نہ لایا جاتا۔ روزانہ ہر دو گھنٹے کے بعد لباس تبدیل کیا جاتا۔ بادشاہ سلامت شاذو نادر ہی دربار میں تشریف لیجاتے، کیونکہ زیادہ تر ڈریسنگ روم میں ہی پائے جاتے تھے۔
امورِ سلطنت مختلف وزراء کے سپرد تھے، جنکی زیادہ تر یہی کوشش ہوا کرتی تھی کہ نت نئی اقسام کے کپڑے اور جدت آمیز لباس کے ڈیزائنز ڈھونڈھ کر بادشاہ سلامت کے علم میں لائے جائیں ۔
ایک مرتبہ شہر میں دو نئے پارچہ فروش وارد ہوئے جو بہترین درزی بھی تھے۔ شہر میں انکے ہنر کا چرچا عام ہونے لگا تو بادشاہ سلامت کو بھی انکی خبر پہنچی۔ بادشاہ سلامت نے دونوں کو اپنے محل میں طلب کرلیا۔ جب دونوں حاضر ہوگئے تو بادشاہ سلامت اپنا مدعا زبان پر لائے
میں چاہتا ہوں کہ تم دونوں میرے لئے اپنے ہنر کا بہترین مظاہرہ کرو اور کوئی عمدہ سا لباس تیار کرکے مجھے دکھاؤ۔
دونوں یک زبان ہوکر کہنے لگے ،" بادشاہ سلامت ! ہم آپ ہی کی خوش لباسی کے تذکرے سن کر اس شہر میں آئے ہیں اور ہم بادشاہوں کیلئے انکے شایانِ شان کپڑا تیار کرتے ہیں۔ آپکے لئے بھی ایک بہترین لباس تیار کریں گے جس میں دو زبردست خاصیتیں ہیں، جو دنیا کے کسی اور کپڑے میں نہیں"
بادشاہ سلامت نے فورا’ پوچھا، " کونسی خاصیتیں؟"
" حضور ! اس کپڑے کی خاصیت یہ ہے کہ اسکو دو قسم کے لوگ نہیں دیکھ سکتے، ایک بیوقوف، اور دوسرا وہ شخص جو ایسا کام کر رہا ہے جسکا وہ اہل نہیں۔ چنانچہ آپ اس لباس کے ذریعے فوراّ پہچان سکتے ہیں کہ آپکی سلطنت میں وہ کون لوگ ہیں جو اپنے منصب کیلئے نا اہل ہیں یا عقل نہیں رکھتے، چنانچہ آپ اسکی مدد سےامورِ سلطنت کی انجام دہی کیلئےصرف اور صرف عقلمند اور اہل افراد کو ہی اپنے پاس رکھ سکیں گے"
بادشاہ سلامت بہت حیران ہوئے اور فوراّ اس لباس کی تیاری کا حکم دے دیا۔ دونوں درزیوں نے عرض کیا کہ یہ خاص کپڑا وہ اپنے کارخانے میں تیار کرنا شروع کرتے ہیں ہیں لیکن اسکے لئے کچھ ریشم اور سونے کی تاریں درکار ہونگی۔ بادشاہ سلامت کے حکم سے یہ دونوں اشیاء مطلوبہ مقدار میں مہیّا کردی گئیں اور دونوں فنکاروں نے کام شروع کردیا۔
دو تین دن گذرنے کے بعد بادشاہ سلامت نے سوچا کہ چل کر دیکھتے ہیں کہ دونوں کاریگروں کا کام کہاں تک پہنچا ہے۔ چنانچہ جب وہ کاریگروں کے کارخانے میں پہنچے تو ان دونوں کو نہایت تندہی سے ایک مشین پر کام کرتے ہوئے پایا۔ ایک کاریگر مشین پر افقی رخ میں اور دوسرا عمودی رخ میں تیزی سے اپنے ہاتھوں کو مخصوص حرکات دے رہا تھا جیسے دونوں کسی کپڑے کا تانا بانا بُن رہے ہوں ۔ لیکن بادشاہ کو ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی جسے وہ بظاہر اپنے ہاتھوں سے حرکت دے رہے تھے۔ دونوں بادشاہ کو اپنے سامنے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بڑے ذوق و شوق سے بادشاہ سلامت کو بتانے لگے کہ کپڑا تیار ہورہا ہے دو تین دن میں مطلوبہ مقدار تیار ہو جائے گی اور اسکے بعد وہ اس سے لباس تیار کریں گے۔ بادشاہ سلامت نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مشین میں کپڑے کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ اسی دوران کاریگر کہنے لگے کہ دیکھئیے کتنا عمدہ ریشہ تیار ہوا ہے۔ اب صرف سونے کی تاروں کو اس میں مخصوص انداز میں ٹانکنا باقی ہے، اور یہ کہہ کر دونوں نے اس غیر مرئی کپڑے کا ایک ٹکڑا نہایت نرمی سے اپنے ہاتھوں میں سہلایا اور بادشاہ سلامت کی طرف بڑھا دیا۔ بادشاہ سلامت کے دل میں فوراّ بجلی کی سی تیزی سے یہ خیال گذرا کہ کہیں وہ بادشاہت کیلئے نااہل تو نہیں؟ اس اثناء میں دونوں کاریگر بادشاہ سلامت کے پاس پہنچ چکے تھے۔ بادشاہ نے کپڑے کو ہاتھ لگائے بغیر فوراّ کہا،" نن نہیں۔ ابھی تم اپنا کام پورا کرو میں ایک ہی مرتبہ اس کپڑے کو ہاتھ لگاؤں گا" تم جلد از جلد اپنا کام ختم کرو۔ یہ کہہ کر بادشاہ سلامت عجلت سے واپس تشریف لے گئے۔
اگلے دن کاریگروں نے کچھ مزید ریشم اور سونے کی تاریں طلب کیں جو انہیں فراہم کردی گئیں۔
دو دن بعد بادشاہ سلامت نے اپنے وزیرِ اعظم کو کاریگروں کے کام کے معائنے کیلئے بھیجا۔ وزیرِ اعظم کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ لیکن وزیرِ اعظم کے دل میں اپنے نااہل ہونے کا خیال نہیں گذرا ، البتہ یہ ضرور سوچنے لگے کہ میں کہیں بیوقوف تو نہیں؟ اور اسکے ساتھ ہی ذہن میں اپنے مدرسے کے ایک استاد در آئے جو انہیں اکثر احمق اور گھامڑ کے خطابات سے نوازتے رہتے تھے۔ ابھی اسی سوچ میں تھے کہ دونوں کاریگر کپڑا اٹھائے انکے پاس پہنچ گئے۔
" دیکھئیے کتنے خوبصورت رنگ ہیں۔ اور نقش و نگار کیسے ہیں ۔ کیا کبھی ایسے ڈیزائن پہلے بھی آپکی نظر سے گذرے ہیں؟"
"نن نہیں۔۔۔واقعی بہت عمدہ اور نئے ڈیزائن ہیں۔" کاریگر بہت خوش ہوئے اور وزیرِ اعظم کو ڈیزائن کی تفاصیل اور رنگوں کے نام بتانے لگے۔ وزیر نے سکھ کا سانس لیا اور فوراّ ان تفاصیل کو ازبر کرلیا۔ کاریگروں نے کچھ مزید ریشم اور سونے کی مانگ کی اور وعدہ کیا کہ پرسوں تک کپڑا تیار ہوجائے گا اور پھر لباس کیلئے بادشاہ سلامت کے پاس وہ دونوں حاضر ہونگے تاکہ انکے بدن کا ناپ لیا جاسکے۔
یہی تفاصیل شام کو وزیرِ اعظم نے بادشاہ سلامت کے گوش گذار کیں اور کپڑے میں جھلکنے والے رنگوں کے نام بھی بتائے۔ بادشاہ سلامت نے متفکرانہ انداز میں وزیر کے سامنے اپنے سر کو تائیدی جنبش دی۔
دو دن کے بعد بادشاہ سلامت کا ناپ لینے کیلئے دونوں کاریگر وہ غیر مرئی کپڑا اٹھائے محل میں حاضر ہوئے اور بادشاہ سلامت کے جسم کا ناپ لینے لگے۔ اتنے عرصے میں اس کپڑے کے کمالات کا تذکرہ محل کے محافظ ، چوبداروں اور داروغہ اعظم تک بھی پہنچ چکا تھا۔ سب لوگ دم بخود ہوکر یہ منظر دیکھتے رہے جب کاریگر بادشاہ کے جسم کا ناپ لینے کے ساتھ ساتھ کپڑے کو قینچی سے مختلف جگہون سے گھما گھما کر کاٹ رہے تھے۔ جب کپڑا ناپ کے مطابق کٹ گیا تو کاریگروں نے رخصت کی اجازت چاہی اور بادشاہ سلامت سے عرض کیا
"حضور ! لباس کل تک تیار ہوجائے گا۔ آپ براہِ کرم کل تشریف لائیں اور ہمارے کارخانے سے ہی وہ لباس زیبِ تن کرکے دربار میں رونق افروز ہوں۔"
بادشاہ سلامت اگلے دن اپنے خدام اور امراء کے جلو میں کارخانے میں پہنچے ۔ اور خاص کمرے میں اکیلے ہی تشریف لے گئے۔ اندر ایک قد آدم آئینہ نصب تھا۔ کاریگروں نے درخواست کی کہ بادشاہ سلامت اپنا موجودہ لباس اتار دیں تاکہ انہیں نئی پوشاک پہنائی جاسکے۔ چنانچہ بادشاہ سلامت نے ایک ایک کرکے لباس تبدیل کرنا شروع کیا، کاریگر انکے جسم پر نہایت نزاکت کے ساتھ نیا لباس درست کرنے لگے، بازوؤں کی شکنیں کھینچ کر درست کی گئیں، لباس کو مختلف جگہوں سے سرکا کر ایڈجسٹ کیا جانے لگا ۔ اس اثناء میں بادشاہ سلامت آئینے میں اپنے آپ کو کن انکھیوں سے برابر دیکھتے رہے۔ آخر کار کاریگر نہایت فنکارانہ انداز میں لباس کو درست کرکے پرے ہٹ کر بادشاہ سلامت کاسراپا عقیدت آمیز نظروں سے دیکھنے لگے۔ بادشاہ نے انکی آنکھوں میں ستائشی جذبات کی جھلک دیکھی تو قدرے پراعتماد انداز میں آئینہ دیکھنے لگے۔ اسی دوران ایک کاریگر نے کورنش بجالاتے ہوئے بادشاہ سلامت کو کمرے کے دروازے کی طرف اشارہ کیا تاکہ وہ باہر ر ونق افروز ہوں۔ اور دوسرا کاریگر بادشاہ سلامت کے پیچھ زمین پر گھسٹتے ہوئے لباس کو ہاتھوں سے تھام کر بادشاہ سلامت کے پیچھے پیچھے چلنے لگا تاکہ کپڑا زمین کے ساتھ لگ کر میلا نہ ہوجائے۔
بادشاہ سلامت باہر تشریف لائے تو یکا یک سارے درباری اور امراء تعظیماّ اٹھ کھڑے ہوئے اور بادشاہ کے چہرے پر فرحت کے آثار دیکھ کر چاروں جانب سے داد و تحسین کے نعرے بلند ہانے لگے۔
بادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو۔ اللہ بادشاہ سلامت کو نظرِ بد سے محفوظ رکھے۔ ایک غلغلہ سا مچ گیا۔
بادشاہ سلامت نے اصرار کیا کہ یہ جلوس شہر کے مرکزی بازار سے اسی طرح گذرتے ہوئے محل کی جانب روانہ ہو۔
خلقت بازار کے دونوں جانب کھڑی تھی اور مبہوت ہوکر شاہی سواری کو گذرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
اسی اثناء میں شاہی سواری ہجوم میں شامل ایک سات سالہ بچے کے آگے سے گذری۔ بچہ بادشاہ کو دیکھ کر کھلکھلا کر قہقہے لگانے لگا اور زور سے چلا کر بولا
"وہ دیکھو ننگا۔۔۔۔ننگا آیا ننگا آیا"
فوراّ چوبداروں نے آواز لگائی۔
"چُپ خاموش۔۔۔۔بے عقل"
اور شاہی سواری اسی وقار اور تمکنت کے ساتھ دم بخود سےہجوم کے سامنے سے گذرتی رہی۔۔۔۔۔۔۔
(محمود احمد غزنوی)
 
آخری تدوین:
Top