اُسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا۔۔ڈیزائنڈ پوئیٹری

متلاشی

محفلین
اس غزل کی تمام کیلی گرافی مہر نستعلیق فونٹ کی مدد سے کی گئی ہے ۔۔۔​
ghazal.jpg
 

نیلم

محفلین
بہت خُوب
اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی وہی میرا وقتِ زوال تھا
میں نے تو ایسی ہی پڑھی تھی صرف :)
اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی وہی میرا وقتِ زوال تھا

کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کے، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گئی
وہ جواب مجھ کو دے نہ سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا

وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پر کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو پر کمال تھا
 

نایاب

لائبریرین
بلا شبہ بہت خوب صورت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانے کب ہم لکھ پائیں گے مہر نستعلیق فونٹ سے ۔۔۔۔؟
 
اچھی ڈیزائننگ ہے جناب متلاشی صاحب۔
تاہم وہ جو نیلم نے اشارہ کیا ہے
اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا​
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی وہی میرا وقتِ زوال تھا​
’’اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی ۔۔‘‘ سے قطع نظر دوسرا مصرع جیسے نیلم نے لکھا ہے وزن میں ہے (چار متفاعلن) اور جیسے آپ نے ڈیزائن کیا ہے ’’۔۔۔ وہ میرا وقتِ زوال تھا‘‘ یہاں ’’وہ‘‘ محلِ نظر ہے۔

اس میں انہوں نے ایک اور شعر نقل کیا ہے:
کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کے، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گئی​
وہ جواب مجھ کو دے نہ سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا​
اس سے تو گمان ہوتا ہے کہ غزل پروین شاکر کی ہے۔ آپ کی ڈیزائن کی ہوئی غزل میں یہ شعر شامل نہیں، اور شاعر کا نام احمد ندیم قاسمی لکھا ہوا ہے۔ مجھے یہ احمد ندیم قاسمی کا اسلوب لگتا نہیں۔ اس پر تصدیق یا تردید حاصل کر لینا بہتر ہے۔

توجہ فرمائیے گا۔ میں بھی دیکھتا ہوں۔
 
یہاں دیکھئے کہ تین شعر پروین شاکر کے لکھے ہوئے ہیں۔
اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی وہی میرا وقتِ زوال تھا
کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کے، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گئی
وہ جواب مجھ کو دے نہ سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا
وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پر کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو پر کمال تھا

تاہم مسئلہ یہاں بھی ہے۔ تیسرے شعر میں ’’۔۔۔ جسے گفتگو پر کمال تھا‘‘ مندرج ہے۔ اوزان کے مطابق یہاں ’’پر‘‘ کی بجائے ’’پہ‘‘ ہونا چاہئے۔

نیلم
متلاشی
 
اچھی ڈیزائننگ ہے جناب متلاشی صاحب۔
تاہم وہ جو نیلم نے اشارہ کیا ہے

’’اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی ۔۔‘‘ سے قطع نظر دوسرا مصرع جیسے نیلم نے لکھا ہے وزن میں ہے (چار متفاعلن) اور جیسے آپ نے ڈیزائن کیا ہے ’’۔۔۔ وہ میرا وقتِ زوال تھا‘‘ یہاں ’’وہ‘‘ محلِ نظر ہے۔

اس میں انہوں نے ایک اور شعر نقل کیا ہے:

اس سے تو گمان ہوتا ہے کہ غزل پروین شاکر کی ہے۔ آپ کی ڈیزائن کی ہوئی غزل میں یہ شعر شامل نہیں، اور شاعر کا نام احمد ندیم قاسمی لکھا ہوا ہے۔ مجھے یہ احمد ندیم قاسمی کا اسلوب لگتا نہیں۔ اس پر تصدیق یا تردید حاصل کر لینا بہتر ہے۔

توجہ فرمائیے گا۔ میں بھی دیکھتا ہوں۔
درست فرماتے ہیں استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی بھائی!

کیا یہ ممکن ہے کہ ہم دو غزلوں کی بات کررہے ہوں، پروین شاکر کا احمد ندیم قاسمی صاحب سے جو دلی تعلق تھا، اس کے ناطے کیا یہ ممکن ہے کہ انہوں نے قاسمی صاحب کے شعر پر ایک اور غزل کہی ہو؟ ہمیں نیٹ پر قاسمی صاحب کے نام سے پوری غزل اور پروین شاکر کے نام سے ان کے یہی تین اشعار ملے ہیں، لیکن نیٹ مستند ذریعہ نہیں۔ فاتح بھائی یا کوئی اور محفلین ان شعرا ء کی کتابوں سے استفادہ کرکے ہمیں مطلع کرسکیں
 

نیلم

محفلین
اس غزل کی تمام کیلی گرافی مہر نستعلیق فونٹ کی مدد سے کی گئی ہے ۔۔۔​
ghazal.jpg
دوسرے شعر میں بھی مسئلہ لگ رہا ہے مجھے
صیحح شائد اس طرح سے ہے
میرا درد کیسے وہ جانتا میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا اُسے روکنا محال تھا
یہاں دیکھئے کہ تین شعر پروین شاکر کے لکھے ہوئے ہیں۔


تاہم مسئلہ یہاں بھی ہے۔ تیسرے شعر میں ’’۔۔۔ جسے گفتگو پر کمال تھا‘‘ مندرج ہے۔ اوزان کے مطابق یہاں ’’پر‘‘ کی بجائے ’’پہ‘‘ ہونا چاہئے۔

نیلم
متلاشی
 
کیا یہ ممکن ہے کہ ہم دو غزلوں کی بات کررہے ہوں، پروین شاکر کا احمد ندیم قاسمی صاحب سے جو دلی تعلق تھا، اس کے ناطے کیا یہ ممکن ہے کہ انہوں نے قاسمی صاحب کے شعر پر ایک اور غزل کہی ہو؟ ہمیں نیٹ پر قاسمی صاحب کے نام سے پوری غزل اور پروین شاکر کے نام سے ان کے یہی تین اشعار ملے ہیں، لیکن نیٹ مستند ذریعہ نہیں۔ فاتح بھائی یا کوئی اور محفلین ان شعرا ء کی کتابوں سے استفادہ کرکے ہمیں مطلع کرسکیں

جناب محمد خلیل الرحمٰن کا ارشاد وقیع ہے۔ تاہم مجھے اس غزل کا اسلوب قاسمی صاحب کا نہیں لگتا۔ مزید پرکھ پڑچول ہو جائے تو اچھی بات ہو گی۔
 
صیحح شائد اس طرح سے ہے​
میرا درد کیسے وہ جانتا میری بات کیسے وہ مانتا​
وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا اُسے روکنا محال تھا​

بات وہی ہے جو جناب محمد خلیل الرحمٰن نے کہا، محترمہ نیلم ! کہ جہاں ’’شاید‘‘ کی بات آ جائے، اس کی توضیح ہو جانی چاہئے۔
 
Top