اُردو کا فراموش کردہ محسن: گیان چند (شکریہ: بی بی سی اردو )

نوید صادق

محفلین
معروف ہندوستانی ماہرِ لسانیات اور محقق گیان چند جین کی وفات کو کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن پاکستانی اخبارات و رسائل میں ابھی تک اُن کی شخصیت اور کارناموں پر کوئی وقیع تحریر شائع نہیں ہوئی۔ اپنے آخری دِنوں میں انھوں نے ایک متنازعہ کتاب لِکھ کر اگرچہ پاک و ہند میں اردو کے سبھی سپہ سالاروں کو اکسایا تھا کہ اپنی توپوں کا رُخ گیان چند کی طرف کر دیں، لیکن اس ایک سہو پر اُن کے زندگی بھر کے کام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
اہلِ اُردو کے لیے گیان چند کی اصل اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے پہلی مرتبہ جدید لسانیاتی اُصولوں کے مطابق اُردو زبان کا تجزیہ کیا۔

سن پچاس کی دہائی تک اُردو لسانیات کا کُل اثاثہ محی الدین زور کا ایک تحقیقی مقالہ تھا۔ منشی احمد دین، عبدالقادر سروری اور وحیدالدین سلیم نے اردو لفظوں کی تحقیق میں کچھ کام کیا تھا لیکن اِن مضامین کی پہنچ وہیں تک تھی جہاں تک انیسویں صدی میں مارفالوجی کا عِلم پہنچ سکا تھا۔

بیسویں صدی کے دوران علمِ لسانیات کی مختلف شاخوں میں ہونے والی تحقیق تک رسائی حاصل کرنا اور پھر اس کی روشنی میں اردو کے صوتی، صرفی اور نحوی ڈھانچے کا جائزہ لینا ایک ایسا بھاری پتھر تھا جسے احترام سے چُوم کر پیچھے ہٹ جانے والے تو بہت تھے لیکن اُسے اُٹھانے کی ہِمّت گیان چند جین جیسا پُر عزم شخص ہی کر سکا۔

گیان چند کے لسانیات کی طرف مائل ہونے کی داستان بھی دلچسپ ہے کیونکہ اُردو ادب سے اُن کی شناسائی شاعری کے ذریعے ہوئی تھی۔

1923 میں ضلع بجنور کے ایک قصبے میں پیدا ہونے والے گیان چند نے چودہ برس کی عمر میں خود بھی غزل کہنی شروع کردی تھی۔

کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہو کر انھوں نے حمیدیہ کالج بھوپال میں درس و تدریس کا کام شروع کیا اور کچھ عرصے بعد شعبہء اردو کے صدر بن گئے۔

1956 میں جب اِس کالج میں ایم ۔ اے اُردو کی کلاسیں شروع ہوئیں تو نصاب میں ایک پرچہ لسانیات کا بھی تھا۔ اس وقت اُردو میں توضیحی لسانیات پر کوئی مبسوط اور جامع تحریر موجود نہیں تھی جبکہ انگریزی میں بلوم فیلڈ کی کلاسیکی کتاب کے علاوہ گلیزن جونیئر کی معرکہ آراء کتاب بھی 1953 میں منظرِ عام پر آ چُکی تھی۔

واضح رہے کہ سنسکرت تدریس کی قدیم روایت کے پس منظر میں ہندی زبان، قواعد و لسانیات کے مضامین سے مالا مال تھی اور جدید لسانیاتی تحقیق کو بھی اپنے دامن میں فراخ دِلی سے جگہ دے رہی تھی۔ لسانیات پر بھولا ناتھ تیواڑی کی ہندی کتاب دیکھ کر گیان چند کا دِل چاہا کہ اس پائے کی ایک کتاب اُردو میں بھی ہونی چاہیئے، چنانچہ انھوں نے قلم سنبھالا اور لکھنے میں جُٹ گئے۔

یہ 1962 کا زمانہ تھا۔ تین برس بعد ان کا تبادلہ جمّوں میں ہوگیا۔ وہاں جاکر لسانیات پر مزید کتابیں پڑھیں تو انھیں احساس ہوا کہ بھوپال میں لکھے ہوئے مضامین تو کسی طفلِ مکتب کی شوقیہ تحریریں تھیں چنانچہ تحقیق کا کام نئے سرے سے شروع کیا اور اس نئی تفتیش کے دوران انھوں نے محسوس کیا کہ علمِ صوتیات ایک ایسی سائنس ہے جو کتابوں کی مدد سے سمجھ میں نہیں آسکتی چنانچہ انھوں نے لسانیات کے ایک سمر سکول میں داخلہ لے لیا اور اُردو آوازوں کے اُتار چڑھاؤ کا عملی طور پر مشاہدہ کیا۔ تاہم اردو لسانیات پر ایک کتاب مرتب کرنے کا خواب 1975 تک شرمندہء تعبیر نہ ہوسکا، لیکن جب کتاب چھپ کر سامنے آئی تو چودہ برس کی محنت شاقہ سپھل ہوگئی۔ عام لسانیات نامی اس کتاب کو ترقی اُردو بیورو نئی دہلی نے شائع کیا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ انسانی زبان کی عمومی خصوصیات اور زبان کے تاریخی ارتقاء کے ساتھ ساتھ لسانیات کی مختلف شاخوں مثلاً لسانی فردیات، لسانی عتیقیات، نسلی لسانیات، علاقائی لسانیات، سماجی لسانیات، نفسیاتی لسانیات، اعدادی لسانیات اور ریاضیاتی لسانیات جیسے ادق تکنیکی موضوعات پر اُردو میں خامہ فرسائی کی گئی۔

کتاب کے آخری باب میں علمِ زبان کے مطالعے کی تاریخ، قدیم ہند میں لسانیات، مغرب میں لسانیاتی مطالعے، یورپ میں ہندوستانی زبانوں کے مطالعے اور بیسویں صدی میں لسانیات کے مختلف مدرسہ ہائے فکر پر جو مضامین تحریر کیے گئے وہ لسانیات کے طلباء کے لیے ہی نہیں بلکہ ایک عام قاری کےلیے بھی انتہائی دلچسپ مطالعے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

زبان کے موضوع پر رنگا رنگ مضامین سے سجی اور ہر طرح کی لسانیاتی معلومات سے بھر پور اس کتاب میں اگر کوئی کمی تھی تو صِرف یہ کہ اسکی طباعت انتہائی ناقص تھی۔ اخباری کاغذ اور لیتھو طریقِ طباعت قطعاً اس کتاب کے شایانِ شان نہ تھے۔ پھر جہاں انگریزی عبارت آتی تھی اسے علیحدہ ٹائپ کرانے کی بجائے اُردو کاتب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا اور یوں لگتا ہے کہ کاتب نے انگریزوں کی دو سو سالہ غلامی کا تمام تر غصّہ اپنے مُنتقِم قلم سے اتارتے ہوئے اربابِ وطن کو اشارہ کیا ہے کہ:
’اس طرح لیتا ہے اغیار سے بدلہ کاتب‘۔

32 برس پہلے اپنی کتاب کا دیباچہ لکھتے ہوئے آنجہانی گیان چند نے کہا تھا:
’اُردو میں اس موضوع پر روز روز کتابیں نہیں لکھی جائیں گی۔۔۔ اگر کبھی دوسرے ایڈیشن کی نوبت آئی تو نقشِ ثانی کو بہتر کر سکوں گا‘۔

تین عشرے گزر گئے لیکن دوسرے ایڈیشن کی نوبت نہ آئی۔

گزشتہ دنوں کتابوں کی ایک نمائش میں گیان چند کی یہ کتاب نئی نکور صورت میں نظر آئی تو دِل جھوم اُٹھا۔ مگر خوبصورت جِلد کو کھول کر دیکھا تو اعلٰی درجے کے سفید کاغذ پر وہی بتیس برس پرانے لیتھو کے فرمے چھپے ہوئے تھے، وہی کاتب کی لکھی ہوئی غلط سلط انگریزی اور جگہ جگہ وہی روشنائی کے دھبّے۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے دِل بیٹھ گیا اور رہ رہ کر خیال آنے لگا کہ بھارت میں اُردو کے نام پر چلنے والے ان گنت بیورو اور پاکستان میں لاکھوں روپے کی گرانٹ حاصل کرنے والے سرکاری اور نیم سرکاری اشاعتی ادارے کیا اُردو لسانیات کی ایک لکھی لکھائی کتاب کو ڈھنگ سے چھاپنے کا اہتمام بھی نہیں کر سکتے۔


عارف وقار
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور
 

الف عین

لائبریرین
دوسری وجہ یہ بھی تھی نوید کہ اگلے ہی دن عینی اپا چل بسی تھیں تھیں۔ گیان چند کی موت کو بھی اہمیت نہیں مل سکی جس کے ہ مستحق تھے۔
 
Top