انمول درخت

جیہ

لائبریرین
انمول درخت

پرانے وقتوں میں کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ ایک دن اس کے دربار میں ایک غیر ملکی تاجر حاضر ہوا۔ اس زمانے میں دستور تھا کہ جب کسی دوسرے ملک کا کوئی تاجر اپنا مالِ تجارت لے کر اس ملک میں آتا تو سب سے پہلے بادشاہ کے حضور میں پیش ہوتا اور اسے تحائف پیش کرتا۔ اس سے ایک تو اسے سرکاری طور پر اپنا مال وہاں بیچنے کی اجازت مل جاتی تھی اور دوسرا بادشاہ کی خوشنودی بھی حاصل ہو جاتی۔ اس غیر ملکی تاجر نے بھی قاعدہ کے مطابق بادشاہ کے خدمت میں چند تحائف پیش کئے۔ وہ ایک ایک چیز کی خوبیاں بیان کرتا ہوا تحفے دکھا رہا تھا۔
"حضور! یہ پانی سے چلنے والی گھڑی ہے، میں نے یونان سے آپ کے لیے خریدی ہے اور یہ غالیچہ میں نے ایران سے لیا تھا۔ ایران میں اس سے زیادہ قیمتی غالیچہ اور کوئی نہیں تھا۔ لیکن یہ قلم ملاحظہ فرمایئے۔ آپ کے لیے میں نے یہ قلم جاپان سے بہت مہنگے داموں خریدا تھا"
"بہت خوب" بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ " تمام چیزیں بے مثال ہیں جو تم نے یونان،ایران اور جاپان سے خریدی ہیں لیکن یہ تو بتاؤ کہ تمہیں ہندوستان میں ہمارے شایانِ شان کوئی چیز نظر نہیں آئی تھی؟"
تاجر نے بادشاہ کو متاثر کرنے کے لیے کہا۔ " عالیجاہ! یوں تو آپ کے شایانِ شان کئی چیزیں تھیں لیکن جو چیز مجھے پسند آئی تھی وہ میں حاصل نہ کر سکا کیوں کہ اسے حاصل کرنے کے لیے کافی عرصہ چاہیئے جبکہ میرا وہاں قیام صرف دو دن کے لیے تھا"
"اچھا! وہ کیا چیز ہے؟" بادشاہ نے پوچھا۔
"حضور! وہ ایک درخت ہے جو ہندوستان کے علاقے میں پایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ کا دوسرا درخت پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے"
بادشاہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔ " کیوں؟ کیا اس میں کوئ خاص بات ہے؟"
" جی ہاں عالیجاہ! وہ ایسا عجیب و غریب درخت ہے جو اس کا پھل کھا لے وہ نا تو کبھی بوڑھا ہوتا ہے اور ناہی اسے موت آتی ہے۔" تاجر نے ادب سے جواب دیا۔ " اس درخت میں آبِ حیات کی خاصیت ہے۔"
تاجر سے اس درخت کا ذکر سن کر بادشاہ کو بہت حیرت ہوئی اور وہ اس درخت کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہو گیا۔ دوسرے دن اس نے اپنے وزیروں میں سے ایک کو طلب کیا اور اسے حکم دیا۔
"مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان میں ایک ایسا درخت ہے کہ جو اس کا پھل کھائے وہ نہ کبھی بوڑھا ہوتا ہے اور نہ اسے موت آتی ہے۔ تم ہوشیاری سے جاؤ اور اس درخت کو تلاش کرو۔ جتنا عرصہ بھی لگے کامیابی حاصل کیے بغیر مت آنا۔ اخراجات کے لیے رقم میں بھیجتا رہوں گا۔"
بادشاہ کے حکم پر وزیر چل پڑا اور ہندوستان پہنچ کر اس درخت کو تلاش کرنے لگا۔ وہ بے چارہ شہر شہر، گاؤں گاؤں گھوما۔ خطرناک جنگلوں، پہاڑوں، دریاؤں اور جزیروں تک چھان مارا لیکن اس انمول درخت کا کہیں سُراغ نہ ملا۔ وزیر جس سے بھی اس درخت کا پتہ پوچھتا وہ اس کا مذاق اڑاتا، کوئی کہتا:
"پاگل ہوئے ہو؟ ایسا درخت تو دنیا میں کہیں نہیں ہو سکتا۔"
اور کوئی کہتا "مسافر! ایسی درخت کی تلاش تو دیوانگی کے سواہ کچھ نہیں ہے۔"
غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ وزیر لوگوں کے باتیں سنتا اور صبر کرلیتا لیکن تھا دُھن کا پکا۔ کئی برس بیت گئے ، وہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سفر کرتا اور مطلوبہ درخت تلاش کرتا رہا۔بادشاہ بھی حسبِ وعدہ اسے اخراجات کے لیے معقول رقم بھیجتا رہا۔ وہ بے چارہ دن رات سفر کرکے تنگ آگیا کیوں کہ اس درخت کا نام و نشان نہ ملا تھا اور اس درخت کی اصلیت جھوٹ ثابت ہوئی اور اس کی اُمید ٹوٹ گئی۔
راستے میں ایک مقام پر اُسے ایک درویش ملا۔ اُس نے وزیر کی حالت دیکھی تو ہمدردانہ لہجے میں پوچھا:
"اے مسافر تو کون ہے اور کس غم میں مبتلا ہے۔ اتنا مایوس اور دل شکستہ کیوں ہے؟ کسی نے تیری دل آزاری کی ہے یا کسی رہزن نے تمہیں لُوٹا ہے؟"
"یا حضرت! میں ہر طرف سے مایوس اور نا اُمید ہو کر آیا ہوں۔"وزیر ہچکیاں لیتا ہوا بولا۔"مجھے اس وقت آپ کی مہربانی اور رحم و کرم کی ضرورت ہے۔ آپ میری رہنمائی فرمائیں اور مجھے ناکامی و شرمساری سے بچا لیں۔"
درویش نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا" مایوسی اور نا اُمیدی گناہ ہے۔ تو اپنا مسئلہ بیان کر اور صاف صاف بتا کہ تو کیوں مایوس اور نا اُمید ہو۔ تیرا مقصد کیا تھا اور اب کیا ارادے ہیں؟"
" میں پنے ملک کا ایک وزیر ہوں۔ بادشاہ سلامت کو پتہ چلا تھا کہ ہندوستان میں ایک ایسا درخت موجود ہے جس کا پھل آبِ حیات کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کو کھانے والا نہ تو کبھی بوڑھا ہوتا ہے اور نہ ہی مرتا ہے۔ بادشاہ نے مجھے اس درخت کی تلاش میں بھیجا تھا۔ میں نے ہندوستان کہ چپہ چپہ چھان مارا ہے ۔ شہروں، قصبوں کے علاوہ میں نے دشوار گزار پہاڑوں، خطرناک جنگلوں اور جزیروں تک اس درخت کو تلاش کیا لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ میری اتنے برسوں کی خواری اور جد و جہد بے کار گئی ہے۔" وزیر نے سارا قصہ بیان کیا۔
اس کی بات سن کر درویش بے ساختہ ہنسنے لگا پھر وہ کہنے لگا۔
"افسوس کہ تو نے عقل سے کام نہ لیا اور محض ایک درخت کی تلاش میں برسوں مارا مارا پھرتا رہا۔"
وزیر بولا۔ " یا حضرت! میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟"
"بھلے آدمی! وہ درخت اصل میں علم کا درخت ہے"۔ درویش نے جواب دیا۔ "لیکن تو اس کی ظاہری صورت درخت کو تلاش کرتا رہا۔ علم ایسی شے ہے جسے ہزاروں نام دئے جا سکتے ہیں۔ کہیں اس کا نام درخت ہے تو کہیں یہ سورج کہلاتا ہے۔ کبھی اس کا نام سمندر ہو جاتا ہے اور کبھی بادل یا پہاڑ۔"
لیکن حضرت! وہ کبھی نہ بوڑھا ہونے اور نہ کبھی مرنے والی صفت؟" وزیر نے حیرت سے کہا۔
درویش نے مسکراتے ہوئے کہا۔ " علم کی ہزاروں صفات ہیں۔ ا س میں سے ایک صفت ہمیشہ کی زندگی ہے۔ تو اس درخت کی صورت کو تلاش کرتا ہے، اس کی معانی تلاش کر۔ صورت تو پھل کا چھلکا ہے اور معانی اس پھل کا گودا۔ تمہیں چھلکے سے کیا غرض؟ تو گودا کھا۔ نام کو چھوڑو اور اس کی خوبی کو دیکھ تاکہ اس خوبی سے تیری رہنمائی ہو۔ ہر شے کی تاثیر کا تعلق اس کے نام سے نہیں، اس کی اندرونی خوبی سے ہوتا ہے۔
شکرقندی کو ہم اس کی ظاہری شکل سے شکرقندی کا نام نہیں دیتے بلکہ اس کئ اندر موجود مٹھاس کے سبب اسے شکرقندی کہتے ہیں۔ خدا کی مخلوق میں نام ہی سے اختلاف پیدا ہوتا ہے لیکن جب وہ معانی پر پہنچتے ہیں تو اختلاف دور ہو جاتا ہے۔"
وزیر درویش کی بات کا قائل ہوگیا کہ واقعی علم ہی وہ انمول درخت ہے جس کا پھل کھانے والا نہ بوڑھا ہوتا ہے اور نہ ہی مرتا ہے۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تھا اور اس نے مطلوبہ درخت تلاش کرلیا تھا۔ اس نے درویش کا شکریہ ادا کیا اور بولا۔
" یا حضرت! آپ نے میری برسوں کی بے کاری کو ایک لمحے میں کارآمد و کامیاب بنا دیا ہے ۔ واقعی آپ نے درست کہا ہے کہ مجھے جس درخت کی تلاش تھی وہ علم کا درخت ہے۔ اور یہ صرف ہندوستان میں نہیں دنیا کے ہر حصے میں جگہ جگہ موجود ہے۔"
پھر وزیر ہنسی خوشی اپنے ملک روانہ ہوگیا ۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنے بادشاہ کو علم کی درخت کے بارے میں بتایا اور سمجھایا تو بادشاہ بھی درویش کی بات کا قائل ہوگیا۔
 
Top