انعام الله خاں یقیں :::: آج دیکھا ہوں میں اس لطف کی بیداد کہ بس -- Inaam ullah khaN YaqeeN

طارق شاہ

محفلین


غزلِ

انعام الله خاں یقیں
آج دیکھا ہُوں میں اُس لُطف کی بیداد کہ بس
سر پہ آیا مِرے اِس طور سے جلّاد کہ بس

جی میں آتا ہے، تِرے قد کو دِکھا دیجے اُسے
باغ میں اِتنا اکڑتا ہے یہ شمشاد کہ بس

بلبُلیں کیوں نہ گرفتار ہوں اس سج کی بھلا
اِس طرح باغ میں پھرتا رہے صیّاد کہ بس

کچھ پروبال میں طاقت نہ رہی، تب چُھوٹے
ہم ہوئے ایسے بُرے وقت میں آزاد کہ بس

تُو نہ تھا، حیف، یقیں، ورنہ دِوانہ ہوتا
آج اِس طرح کا دیکھا ہے پری زاد کہ بس


انعام الله خاں یقیں
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
حضرت مکمل انتخاب ہی لاجواب اور عمدہ ہے۔ شاد و آباد رہیے
تشکّر ایک بار پھر سے خلیل الرحمان صاحب!
پوری غزل ہی اچھی ہے مگر، مقطع مجھے بھی بہت خوب لگا، پرانے اسکول کے شعراء کے کلام کی کیا بات ہو صاحب
مضمون خواہ کتنا ہی عام یا سادہ ہو الفاظ اور بندش متاثر کن ہوتی ہے
بہت خوش رہیں جناب :):)
 
جناب آج تو صبح صبح غضب ڈھا دیا :)
کیا خوب انتخاب ہے
جی میں آتا ہے، تِرے قد کو دِکھا دیجے اُسے
باغ میں اِتنا اکڑتا ہے یہ شمشاد کہ بس
کیا کہنے واہ واہ
شراکت کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

طارق شاہ

محفلین
جناب آج تو صبح صبح غضب ڈھا دیا :)
کیا خوب انتخاب ہے
جی میں آتا ہے، تِرے قد کو دِکھا دیجے اُسے
باغ میں اِتنا اکڑتا ہے یہ شمشاد کہ بس
کیا کہنے واہ واہ
شراکت کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
آپ کے ہاں صبح ہے جبکہ یہاں رات کی ساڑھے بارہ بج رہے ہیں یعنی سونے کا وقت ہے
غزل پسند آئی ، تو جی خوش ہوا ، کیا بیساختہ اندازِ گفتن والا شعر منتخب کیا ہے ، دوسرے لفظوں میں
آپ کا انتخاب ایسا ہے کہ بس :)
تشکّر سید صاحب اظہار خیال اور پذیرائی کے لئے ، بہت خوش رہیں
 
آخری تدوین:
Top