انسان تو وہی ہے

ضیاء حیدری

محفلین
انسان تو وہی ہے
انسان فطرتاً خواہشات کا غلام ہے، یہ خواہشات اس کو بھی اپنا غرور و طنطنہ بھلا کر فریادی بنادیتی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ کاش وہ ادھوری خواہش پوری ہوجائے اور کسی طرح یہ بے چین دل کچھ قرار پائے، لیکن اتنی آسانی سے سکون و قرار کی منزل پاجانا بھی ہر ایک کی قسمت نہیں ہوتی۔
انسان سب جانتے ہوئے بھی اُن خواہشات کے لئے آنکھوں میں خواب بُن لیتا ہے جو اس کی دسترس میں نہیں ہوتیں اور اللہ کی مرضی جانے بغیر اپنی من مرضی کے سمندر کی گہرائی تک اترتا چلا جاتا ہے۔ اسے ہوش تب آتا ہے جب نا کامی کی پر زور لہریں اسے واپس کنارے پر لاپٹختی ہیں اور وہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے بجائے اپنی آنکھوں کا استعمال اپنے راستوں پر نظر رکھنے کے لئے کرنے لگتا ہے۔ تب وہ مدہوشی سے ہوش تک کا سفر طے کرتا ہے اور اپنی خواہشات کو اپنی کم عقلی کا درجہ دے کر اللہ کی رضا میں راضی ہوجاتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پچھتاوا انسان کے خمیر کا حصہ ہے، اس کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ جیسے جو نہیں ملا بس وہی سب سے ضروری تھا، وہی قیمتی تھا، جو پاس ہے اُس کا شکر ادا کرنے کی بجائے، ایسا ظاہر کرتا ہے کہ جو پاس ہے اسکی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے،
ایک بھر پور زندگی گذارنے کے لئے قناعت و توکل ضروری ہے، اللہ کی رضا میں راضی رہنا سیکھو، اپنی کوشش کرتے رہو اور نتجہ اللہ عزوجل پر چھوڑ دو۔
گرد ونواح میں جہاں تک نظر جاتی ہے ہر دوسرا انسان خواہشات کے پوری نہ ہونے کا سوگ منارہا ہوتا ہے،رہتی دنیا تک یہی تماشہ رہے گا، اصٌ انسان تو وہی ہے جو اس حقیقت کو پا گیا کہ اللہ عزوجل کو راضٰ کرنا اہم ہے باقی خواہشات کو زیادہ اہمیت دینے کی بجائے توکل کا راستہ اختیار کرو۔
 
Top