درد انداز وہ ہی سمجھے مرے دل کی آہ کا -خواجہ میر درد

انداز وہ ہی سمجھے مرے دل کی آہ کا
زخمی جو کوئی ہوا ہو کسی کی نگاہ کا

زاہد کو ہم نے دیکھ لیا جوں نگیں بہ عکس
روشن ہوا ہے نام تو اس رو سیاہ کا

ہر چند فسق میں تو ہزاروں ہیں لذتیں
لیکن عجب مزہ ہے فقط جی کی چاہ کا

لے کر ازل سے تابہ ابد ایک آن ہے
گر درمیاں حساب نہ ہو سال و ماہ کا

رحمت قدم نہ رنجہ کرے گر تری ادھر
یا رب ! ہے کون پھر تو ہمارے گناہ کا

دل اس مژہ سے رکھیو نہ تو چشمِ راستی
اے بے خبر ! برا ہے یہ فرقہ سپاہ کا

شاہ و گدا سے اپنے تئیں کام کچھ نہیں
نے تاج کی ہوس نہ ارادہ کُلاہ کا

سو بار دیکھیاں ہیں تری بے وفائیاں
تِس پر بھی نت غرور ہے دل میں نباہ کا

اے دردؔ ! چھوڑتا ہی نہیں مجھ کو جذبِ عشق
کچھ کہرُبا سے چل نہ سکے برگِ کاہ کا​
خواجہ میر درد
 
آخری تدوین:
Top