انتخاب علامہ طالب جوہری

نوید صادق

محفلین
اُس کا ہر انداز سجیلا بانکا تھا
کچھ تو بتاؤ وہ خوش پوش کہاں کا تھا

ایک طرف سے کھلی ہوئی تھی شیر کی راہ
لیکن اس پر تین طرف سے ہانکا تھا

مت گھبرانا دوست، غبارِ ناقہ سے
ہم نے بھی اس دھول کو برسوں پھانکا تھا

اُس کے گھر سے نکل کر ہم نے شام ڈھلے
کچھ نہیں یاد کہ کتنے گھروں میں جھانکا تھا
 

نوید صادق

محفلین
وہ بوڑھا بھی کتنا دلکش بوڑھا تھا
یادوں کی دہلیز پہ چپکا بیٹھا تھا

شور مچاتے آنسو ٹپ ٹپ گرتے تھے
ہونٹوں پر اک کہر زدہ سناٹا تھا

ایک طرف پھن کاڑھے بیٹھی تھیں راتیں
ایک طرف پرشور دنوں کا میلا تھا

ٹوٹے پھوٹے چند کھلونوں کے ہمراہ
اک گوشے میں اس کا بچپن رکھا تھا

ہر شوخی پر ہر معصوم شرارت پر
ماں کے پاکیزہ آنچل کا سایہ تھا

کتنے آنچل اس کے لئے لہرائے تھے
کتنے رخوں نے اس پہ کرم فرمایا تھا

کیسے کیسے دوست سجیلے بانکے تھے
کیا کیا ان کے ساتھ میں گھومنا پھرنا تھا

پھر ماں کے اصرار پہ اک دن رات ڈھلے
اس کے شبستاں میں کوئی در آیا تھا

اس کو بوڑھا ہوتے دیکھ کے بھاگ گیا
اس کے اندر چھپا ہوا جو لڑکا تھا
 

نوید صادق

محفلین
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ہمیں یوسف کا سفر یاد آیا

میں نے تلوار پہ سر رکھا تھا
یعنی تلوار سے سر یاد آیا

وہ تری کم سخنی تھی کہ مجھے
بات کرنے کا ہنر یاد آیا

اے زمانے مرے پہلو میں ٹھہر
پھر سلامِ پسِ در یاد آیا

کسے اڑتے ہوئے دیکھا کہ تمہیں
اپنا ٹوٹا ہوا پر یاد آیا

آج میں خود سے ملا ہوں طالب
آج بھولا ہوا گھر یاد آیا
 

نوید صادق

محفلین
کس نام کے طلسم میں گم ہو گئے وہ لوگ
یعنی وہ لوگ بھول گئے اپنا نام تک

دیوار گر رہی ہے ہمارے مکان کی
پہنچاؤ بات خضر علیہ السلام تک
 

نوید صادق

محفلین
خلوتِ جاں میں چیخ رہا ہوں کوئی نئی عریانی دے
جیسے دشت میں پیاسا چیخے میرے مولا پانی دے

یادوں کا ویران جزیرہ برسوں تک آباد رہے
ہجر کا موسم اچھا گزرے ایسی کوئی نشانی دے

رات سے پہلے گھر آ جانا دُھند اُترنے والی ہے
رات کہاں سے خوشیاں دے گی شام ہی جب ویرانی دے
 

نوید صادق

محفلین
حبس میں یوں ہوا چلی دل کا فراغ لے گئی
شہر سے امن لے گئی گھر سے چراغ لے گئی

پھر سرِ شاخِ مصلحت اُس کے لبوں کی فاختہ
امن کے جھوٹ دے گئی جنگ کے داغ لے گئی
 

نوید صادق

محفلین
کون جیت سکتا ہے عزمِ چرخ پیما سے
سانپ ہار جاتے ہیں چوبِ خشکِ صحرا سے

لے کے ہاتھ میں پانی پھینکنا بتاتا ہے
تشنگی نچوڑی ہے اس نے موجِ دریا سے

چاکِ پیرہن تسلیم، ہم پہ یہ کرم کیسا
ہم کہاں کے یوسف ہیں، پوچھنا زلیخا سے

ہم سے خوش نگاہی کی بھیک لینے آئے ہیں
دستِ گل فروشاں پر یہ دھرے ہوئے ہوئے کاسے
 

نوید صادق

محفلین
جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا
کنڈلی مار کے بیٹھا سانپ خزانے کا

بات کہی اور کہہ کر خود ہی کاٹ بھی دی
یہ بھی اک پیرایہ تھا سمجھانے کا
 
Top